سیاسی کشیدگی عروج پر ہے مگر بھلا ہو جناب شہبازشریف کا کہ تفنن طبع کا سامان مہیا
کرتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ ہوئی تو میرا نام بدل دینا۔ یہ دعویٰ ان کی تضحیک کا مستقل عنوان بن گیا۔ لوڈشیڈنگ ختم ہوئی نہ نام ہی بمگر سلام ہے ان کی مستقل مزاجی کو کہ کراچی جا کر پھر چھ ماہ والے سوئے ہوئے شیر کو جگایا۔ چھ ماہ میں کراچی میں یہ کردوں گا۔ وہ کروں گا۔ لیاری گئے تو بلاول کا کمنٹ اس دورے پر دلچسپ تھا ؎
مزدور کا ہے ہاری کا
سندھ نہیں درباری کا
ووٹ مانگنے نکلے ہیں
رستہ تک پتہ نہیں لیاری کا
جوش خطابت میں شہبازشریف نے کراچی کی دکھتی رگ کو دبا دیا۔ ایک تو پان کا ذکر کر دیا۔ دوسرے کراچی کو طنزاً کرانچی کہہ دیا۔ اس پر سوشل میڈیا میں انہیں خوب خوب جواب دیئے گئے۔ صرف ایک جواب مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر دیکھ لیجئے۔
’’شہبازشریف کراچی کو لاہور نہ بنائیں‘ بس ہمارے پنجاب اور لاہور کو اتنی ترقی سے بہرہ ور کردیں کہ عیدین پر ہزاروں افراد بھیک مانگنے کے لیے کراچی کا رخ نہ کریں۔ آپ پان کی فکر کیجئے نہ کرانچی کی۔ بس پنجاب میں اتنا روزگار لوگوں کو دے دیجئے بیروزگار ہزاروں کی تعداد میں کراچی نہ آئیں۔ آپ کراچی کے لیے کچھ بھی نہ کریں۔ صرف کراچی کے فٹ پاتھوں سے‘ پلوں کے نیچے سے اور خالی پلاٹوں سے لوگوں کو واپس پنجاب لے جائیں اور انہیں ان کے اپنے علاقوں میں نوکریاں اور رہائش گاہیںفراہم کردیں۔ یقین کیجئے ہم اہل کراچی کو اس کا ہرگز غم نہیں کہ آپ نے کراچی کو پیرس بنا دیا اور پیپلزپارٹی نے کراچی کو قندھار بنا دیا۔ ہم میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ اختیار مل جائے تو اپنے شہر کو ہم خود درست کرلیں۔ مگر جناب شہبازشریف آپ اتنا تو کیجئے کہ پنجاب میں لوگوں کو گدھے کا گوشت نہ کھلایا جائے۔ بچوں کو کیمیکل ملا دودھ نہ مہیا کیا جائے۔ کوئی عمران چھ سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل نہ کرسکے۔ ازراہ کرم انتخابات کا منجن یہاں آ کر فروخت نہ کیجئے۔ بس اتنا کیجئے کہ عالی شان رہائش گاہوں سے نکل کر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے مسائل کا حل نکالیے۔ پنجاب کے غریب عوام انہی مسائل کا شکار ہیں جو اہل کراچی کے درپے ہیں۔ کبھی پانچ مرلے یا دس مرلے کے مکان میں رہ کر بھی سیاست کیجئے تو معلوم ہو کہ زندگی کیا ہے۔ ہمارے پان اور ہمارے ’’کرانچی‘‘ کی فکر نہ کیجئے۔‘‘
یہ تو کراچی اور اہل کراچی کا تذکرہ تھا۔ پنجاب میں ایک نیا ہی تماشا لگا ہوا ہے۔ عران خان نے مزار کی دہلیز کو بوسہ دیا تو شور قیامت برپا ہوگیا۔ مزے کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جس مسلک سے تعلق رکھتی ہے اس میں دہلیز کو بوسہ دینا‘ پیروں اور بزرگوں کے پائوں چومنا‘ عام ہے بلکہ بات اس سے بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ یوٹیوب میں سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ایسے کلپ ضرور موجود ہیں اور دن رات لاکھوں افراد انہیں دیکھ رہے ہیں جن میں مرید پیروں کے آگے سجدہ ریز ہورہے ہیں۔ پیر صاحبان مرید خواتین سے بغل گیر ہورہے ہیں۔ کہیں کرنٹ لگائے جا رہے ہیں۔ مرید لرزہ براندام ہو کر گر پڑتے ہیں۔ کہیں والہانہ رقص ہورہے ہیں جن میں مرد اور عورتیں بے خود ہو کر دھمال ڈالتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ معاشرہ اسے قبول کر چکا ہے۔ قانون دیکھ رہا ہے۔ علما بخوبی آگاہ ہیں اور چشم پوشی کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ معیشت کا مسئلہ ہے۔ یہ نام نہاد روحانیت انڈسٹری کا درجہ اختیار کر چکی ہے مگر اسلام خطرے میں اس لیے پڑ گیا ہے کہ عمران خان نے دہلیز کو بوسہ دے دیا۔
ویسے اگر عمران خان اس قسم کے تنازعے نہ کھڑے کرے تو اس کے لیے اور اس کی سیاست کے لیے بہتر ہوگا مگر وہ عمران خان ہی کیا جو متنازعہ اقدامات نہ اٹھائے۔ بوسہ دینے کے لیے جھکنا پڑتا ہے اور اقبال نے کہا تھا ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
مگر اب ایسے قلندر کہاں جو غیر کے آگے جھکنے سے منع کریں۔ اب تو روحانی قیادت انگلی سے جھکنے کا اشارہ کرتی ہے اور حکم کی تعمیل پلک جھپکنے میں ہوتی ہے۔
مجدد الف ثانی نے جب جہانگیر کے آگے جھکنے سے انکار کیا تو ایک مفتی عبدالرحمن دربار کے شیخ الاسلام تھے۔ انہوں نے تعظیمی سجدہ کے جواز میں دلائل پیش کئے۔ ایسے مفتیان کرام ہر دربار میں‘ ہر حکومت میں موجود ہوتے ہیں جو اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے فقہی دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔ شاید فقیہہ شہر کی اصطلاح اسی سے نکلی ہے۔ اقبال نے مجدد الف ثانی کے حوالے سے ایک فکر انگیز نظم لکھی ہے جس کا عنوان ’’پنجاب کے پیرزادوں سے‘‘ ہے۔
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد
پر وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو
آنکھیں میری بینا ہیں ولیکن نہیں بیدار
آئی یہ صدا سلسلہ فقر ہوا بند
ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار
عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں
پیدا کلہ فقر سے ہو طرہ دستار
باقی کلہ فقر سے تھا ولولہ حق
طروں نے چڑھایا نشہ خدمت سرکار
اقبال کا اشارا غالباً ان پیروں اور گدی نشینوں کی طرف ہے جو اونچے شملے لہراتے ہوئے انگریز سرکار کے آگے رکوع میں چلے جاتے تھے۔ ایک دستاویز بھی معروف ہے جو پنجاب کے گدی نشینوں نے ملکہ کی خدمت میں پیش کی تھی اور عرض گزاری تھی کہ خدا کے لیے ہندوستان چھوڑ کر نہ جائیے۔ ان ’’روحانی‘‘ درباروں اور گدیوں کو جاگیریں ملیں۔ ملتان سے لے کر جھنگ تک یہ خاندان آج بھی حکمرانی کر رہے ہیں۔ کل ہمارے دوست امیر عباس ٹیلی ویژن پر رونا رو رہے تھے کہ ایک ایک خاندان کے کئی کئی افراد کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ اس خاندان نوازی میں تحریک انصاف سمیت ساری پارٹیاں ملوث ہیں۔ خاندان کا یہ اقتدار دوامی کیوں ہے؟ اس کا سب سے بڑا سبب لامتناہی جاگیریں اور مزاروں کی اندھی آمدنی ہے۔ ملتان سے جھنگ اور ہالہ تک یہی سلسلہ ہے۔
بھارت اس میدان میں بھی پاکستان سے بازی لے گیا۔ تقسیم کے چار سال بعد بھارت نے ریاستوں کے ساتھ جاگیروں اور جاگیرداروں کو بھی ختم کردیا۔ پاکستان میں بدترین جاگیر دارانہ اور سرداری نظام بدستور قائم ہے اور یوں لگتا ہے دائم ہے۔ قائداعظم کو قدرت نے وقت نہ دیا۔ اس کے بعد ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق جیسے طاقتور اور جابر حکمران اس مسئلے سے غفلت برتتے رہے۔ یہ غفلت غالباً تجاہل عارفانہ تھی کیونکہ ہر حکمران عوام کی خیر خواہی سے زیادہ اپنی بادشاہی کے دوام کی فکر میں رہا۔ ان جاگیرداروں نے تعلیم عام نہ ہونے دی۔ بہت سوں نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی ادارے کھولنے کی مخالفت کی۔ آج 2018ء ہے۔ آج بھی جنوبی پنجاب سندھ اور بلوچستان میں کئی عمارتیں ایسی ہیں جو سکولوں کالجوں کے لیے بنی تھیں مگر مویشیوں کے لیے استعمال ہورہی ہیں یا غلے کے گوداموں کے طور پر۔ ہاری اور مزارع کے پاس ذاتی جھونپڑی تک نہیں۔ اس کے سر پر جو چھت ہے وہ وڈیرے کی ملکیت ہے۔ ایسے میں جمہوریت کیا کرے گی اور ووٹ کی پرچی کیا رول ادا کرسکتی ہے۔ ایک زمیندارنی خود بتا رہی تھی کہ عورتیں حویلی میں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ انہیں بتایا اور اچھی طرح سمجھایا جاتا ہے کہ ووٹ کا ٹھپہ کس نشان پر لگانا ہے۔
تحریک انصاف نے اگرچہ دوسری سیاسی جماعتوں کی نسبت تعلیم‘ قرضوں اور ٹیکس کے معاملات پر اپنی پالیسیاں بنائی ہیں اور عوام کوان سے آگاہ بھی کیا ہے مگر زرعی اصلاحات کے حوالے سے عمران خان خاموش ہے۔ نہ جانے پاکستان کو ان سرداروں‘ وڈیروں اور خاندانوں سے نجات کب ملے گی۔
فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیں
کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے
No comments:
Post a Comment