ہم پاکستانی لاکھ کہتے رہیں کہ نواز شریف کو سول بالادستی کے لیے کام کرنے پر سزا ملی ہے یا یہ ایک عالمی سازش ہے یا خود نواز شریف کے بقول‘ ستر سالہ تاریخ کا رخ موڑنے پر یہ سب کچھ ہوا ہے‘ عالمی میڈیا ہمارے اس موقف سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا۔
عالمی میڈیا نے جب میاں صاحب کو دی جانے والی سزا کی خبر سنائی تو اس کی وجہ صرف اور صرف کرپشن ہی بتائی۔
نیو یارک ٹائمز کی سرخی یہ تھی۔ ’’سابق پاکستانی رہنما نواز شریف کو کرپشن پر سزائے قید سنائی گئی۔‘‘
دی ٹائمز لندن نے یہ خبر یوں دی۔ سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو کرپشن کے الزامات پر دس سال قید کی سزا دی گئی۔
مشہور زمانہ اخبار ’’وال سٹریٹ جرنل‘‘ کی سرخی دیکھیے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم کرپشن کے مجرم پائے گئے۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا۔ سابق پاکستانی رہنما نواز شریف کرپشن کے مقدمے میں قصور وار پائے گئے، دس سال قید کی سزا۔
معروف برطانوی اخبار دی گارڈین نے لکھا: سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو دس سال جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔ لندن فلیٹ خریدنے سے متعلق کرپشن کے الزامات اور فیصلہ انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
برطانیہ ہی کے اخبار دی ٹیلی گراف نے میاں صاحب کی تصویر کے اوپر سرخی جمائی: سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن کی وجہ سے دس سالہ قید کی سزا۔
شکاگو ٹرائی بیون نے لکھا! پاکستانی عدالت نے طویل انتظار کے بعد کرپشن کے مقدمے میں نواز شریف کو لندن کے لگژری اپارٹمنٹ خریدنے پر دس سال جیل کی سزا دی ہے۔
جاپان ٹائمز‘ جاپان کا معروف ترین انگریزی اخبار ہے اس نے خبر اس طرح دی۔ عدالت نے سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو لندن کی بیش بہا جائیداد خریدنے پر دس سال قید کی سزا دی۔
امریکہ کے مغربی ساحل سے نکلنے والے مشہور اخبار لاس اینجلز ٹائمز نے لندن کے دی گارڈین ہی کی طرح اس خبر کو الیکشن کے ساتھ جوڑا۔ سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن کے مقدمے میں دی گئی جیل کی سزا آنے والے انتخابات کو ایک طرف جھکا سکتی ہے۔
سعودی عرب کے انگریزی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ کی سرخی ملاحظہ کیجیے۔ پاکستان کے سابق
وزیر اعظم نواز شریف کو عدالت نے کرپشن کے الزامات پر دس سال جیل کی سزا دی ہے۔
خلیج سے نکلنے والے ’’گلف نیوز‘‘ نے بھی کرپشن ہی کا ذکر کیا۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن پر دس سال قید کی سزا۔ ’’
خلیج ٹائمز‘‘ متحدہ عرب امارات کا بڑا انگریزی اخبار ہے۔ اس نے دوسرے عالمی اخبارات کے برعکس سرخی میں بیٹی کا ذکر بھی کیا ہے۔ سابق پاکستانی وزیر اعظم کو کرپشن پر دس سال قید کی سزا اور بیٹی کو سات سال کی!
بھارتی اخبارات نے بھی کرپشن کا ذکر برملا کیا ہے۔ دی ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے۔ پاکستان کے معزول شدہ وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن کے مقدمے میں دس سال قید کی سزا۔
’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے یہ خبر اس طرح دی۔ سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن پر دس سال جیل کی سزا۔
’’دی ہندو‘‘ معروف روزناموں میں واحد اخبار ہے۔ جس نے سرخی میں اور نہ ہی ذیلی سرخی میں کرپشن کا ذکر کیااس کی سرخی یہ تھی۔ نواز شریف کو دس سال جیل کی سزا‘ ذیلی سرخی میں اخبار لکھتا ہے۔ بیٹی مریم اور داماد صفدر کو بھی بالترتیب سات سال اور ایک سال کی سزا سنائی گئی۔
یہ سب کچھ تو میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ ہوا۔ پورا عالمی میڈیا کرپشن کا ذکر رہا ہے۔ مگر وہ جو نئی حکومت بنانے کے لیے پر تول رہے ہیں وہ اس عبرت ناک مکافات عمل سے کچھ سبق نہیں سیکھ رہے۔ عمران خان آئے دن نئے سے نیا گل کھلا رہے ہیں۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ماڈل ٹائپ نوجوان عورت کے ساتھ ان کی تصویر وائرل ہوئی۔ کمنٹ کمال کا تھا۔ کہ عمران خان صاحب الیکشن تک صبر کرنا‘ کوئی اور کٹا نہ کھول دینا‘ پنجابی زبان میں کٹا(بھینس کا بچہ) کھولنے سے مراد ہے کوئی نیا چاند چڑھانا‘ ایک اور غلط حرکت کرنا!
ایک مفتی نے جو قندیل بلوچ کے معاملے میں انتہائی بدنامی تک پہنچا اور اس کے علاوہ بھی عجیب و غریب قسم کی خبریں تصویریں اور ویڈیو کلپ اس کے حوالے سے اکثر شہرت پاتے رہتے ہیں‘ کل دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان نے اسے اپنا ’’مشیر دینی امور‘‘ بنا دیا ہے اور اس تین رکنی کمیٹی کا ممبر بھی نامزد کیا ہے جو ناراض ساتھیوں کو منائے گی۔ ظاہر ہے منطقی طور پر اس سے اگلا حوالہ یہی ہو گا کہ عمران خان کو حکومت ملی تو اس معروف و مشہور مفتی کو وزیر مذہبی امور بھی مقرر کیا جائے گا اور اس کا اشارہ بھی مفتی نے آگے چل کر دے دیا۔
اب دوسرا کٹا دیکھیے جو عمران خان نے کھولا ہے۔ یہ مفتی صاحب فرماتے ہیں۔ ’’عمران خان نے وعدہ کیا کہ جن علماء و مشائخ نے پاکپتن میں چوکھٹ بوسی کی تائید کی ہے انہیں اقتدار میں آ کر اعزاز و اکرام سے نوازیں گے!واہ ! تحریک انصاف کرپشن کا آغاز بھی کر رہی ہے تو مذہب کے نام پر ! اگر یہ خبر سچ ہے اور اگر تحریک انصاف اس کی باقاعدہ تردید نہیں کرتی اور مفتی سے غیر مشروط طور پر برأت کا اعلان نہیں کرتی تو تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرنے والے اپنے ووٹوں کا انجام اس آئینے میں دیکھ لیں۔
ویسے ان ’’انصافی‘‘ علماء و مشائخ کو اگر عمران خان انعام دینا چاہتے ہیں تو اس نیک کام کے لیے اقتدار میں آنے کا انتظار کیوں کر رہے ہیں؟ کیا وہ سرکاری خزانے سے یہ ’’اعزازو اکرام ‘‘ دیں گے؟ کیا اس ’’اعزاز و اکرام‘‘ کے لیے حکومت کو استعمال کیا جائے گا؟
اب مفتی کے بیان کا باقی حصہ ملاحظہ فرمائیے۔ ’’عمران خان نے انہیں اہم ذمہ داریاں سونپتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والی حکومت کا آپ حصہ ہوں گے‘‘ اس پر نرم ترین تبصرہ بھی انا للہ و انا الیہ راجعون کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے اگر اس مفتی کے یہ تین اعلانات۔ 1۔ یہ کہ اسے مشیر مقرر کیا ہے۔2۔ یہ کہ ساتھ دینے والے علماء و مشائخ کو اقتدار میں آ کر اعزاز و اکرام سے نوازا جائے گا اور 3۔ یہ کہ یہ مفتی آنے والی حکومت کا حصہ ہو گا۔ درست ہیں تو تحریک انصاف کو اپنا جھنڈا تبدیل کر کے قندیل بلوچ کی تصویر اس میں فٹ کر دینی چاہیے اور یہ جھنڈا ہر جلسے میں مفتی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے!
اگر ان تین مضحکہ خیز خبروں کی باضابطہ تردید نہیں ہوتی تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کیسی ہو گی۔ یہ کالم نگار اپنے بے شمار قارئین کو تو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا مگر اپنے قریبی اعزہ و اقارب اور حلقہ احباب کو تو نوشتہ دیوار دکھا کر متنبہ کر ہی سکتا ہے! واہ رے پاکستان تیری قسمت! ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔمجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
عمران خان کی حکومت کے باقی نورتنوں کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے !!
یہ خبر دیتے ہوئے اخبارات نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے اس کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔ صرف تردید سے بھی اب بات نہیں بنے گی ایسے کرداروں سے تحریک انصاف کو کسی قسم کا بھی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ قندیل بلوچ اور الماس بوبی وغیرہ کے ساتھ اس مفتی کی ملاقات اور گفتگو یو ٹیوب پر آج بھی دیکھی جا سکتی ہے!
No comments:
Post a Comment