یہ قصّہ آپ نے پہلے بھی سنا ہو گا۔
ایک چرواہا‘ ایک پہاڑ کے دامن میں بھیڑیں چرا رہا تھا۔ گھاس ہری بھری تھی۔ ہوا خوشگوار تھی۔ بھیڑیں خوش خوش پیٹ پوجا میں مصروف تھیں۔ چرواہا درخت کے سائے میں چادر بچھا کر اس پر نیم دراز ‘ بانسری بجا رہا تھا۔
ایک لینڈ کروزر آ کر رُکی۔اس عظیم الشان گاڑی سے ایک نوجوان اترا۔ اس نے تازہ ترین فیشن کا تھری پیس سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ اعلیٰ برانڈ کی ریشمی قمیض پہنی ہوئی تھی اور بہترین اطالوی ہینڈ میڈ نکٹائی لگائی ہوئی تھی۔ جوتے جو اس نے پہنے ہوئے تھے‘ ایک ایسے فرانسیسی برانڈ کے تھے کہ سیل میں بھی ان کی قیمت سینکڑوں پائونڈ سے کم نہ تھی۔ نوجوان نے عینک بھی لگائی ہوئی تھی۔ جب وہ چرواہے کی طرف بڑھا تو اس کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ تھا۔
چرواہے نے بانسری بجانا چھوڑ کر‘ اس سے پوچھا فرمائیے! کیا خدمت کروں؟ نوجوان نے پیشکش کی کہ میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں۔ اگر میں بھیڑوں کی تعداد ٹھیک ٹھیک بتا دوں تو ایک بھیڑ لینے کا حقدار ہوں گا۔ چرواہا مسکرایا اور کہا ٹھیک ہے‘ ایسا ہو گا! نوجوان نے گاڑی سے ایک فولڈنگ کرسی نکالی اور اس پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ پر اعداد و شمار کی دنیا میں کھو گیا۔ وہ بہت دیر تک کی پیڈ پر انگلیاں چلاتا رہا کبھی سکرین کو دیکھ کر کچھ سوچنے لگتا‘ کبھی آسمان کی طرف دیکھتا‘ اس سارے عرصہ میں اس نے بھیڑوں پر ایک نگاہ غلط انداز تک نہ ڈالی۔ کئی گھنٹوں بعد وہ مسکرایا۔ یہ مسکراہٹ فاتحانہ تھی! کرسی سے اُٹھ کر چرواہے کے پاس آیا۔ اس کا چہرہ خوشی سے اور احساسِ کامرانی سے دمک رہا تھا۔ اس نے چرواہے کو اس کی بھیڑوں کی تعداد بتائی ۔ چرواہے نے کہا بالکل درست! نوجوان نے طے شدہ معاہدے کے تحت ایک بھیڑ اپنی پسند کی گاڑی میں لادی اور چلنے ہی لگا تھا کہ چرواہے نے روکا اور پوچھا کہ کیا میں تمہیں بتا دوں کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ نوجوان نے جواب اثبات میں دیا۔ چرواہے نے کہا کہ اے نوجوان! تم ایک
Consultant
(کنسلٹنٹ) ہو اور عالمی بینک سے آئے ہو! نوجوان کا حیرت سے منہ کھل گیا۔ اس نے کنفرم کیا کہ ایسا ہی ہے۔ مگر چرواہے سے پوچھا کہ آخر اسے یہ کیسے معلوم ہوا چرواہے نے کہا‘ تین نشانیاں ایسی تھیں کہ میں تمہاری حقیقت جان گیا۔ اول تم بن بلائے آ گئے دوم تم مجھے وہ چیز بتانے آئے جو مجھے پہلے سے معلوم تھی۔ سوم تمہارا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تم نے بھیڑوں کو تو دیکھا تک نہیں! اور اب مہربانی کر کے میرا کتا واپس کر دو جسے تم نے بھیڑ سمجھ کر اٹھا لیا ہے!
کل اس کالم نگار کو بھی اسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑا جس سے غریب چرواہا دوچار ہوا تھا۔ میں گائوں سے تعلق رکھنے والا ایک اکھڑ‘ منہ پھٹ‘سر سے پیر تک دیسی پاکستانی‘ایک ایسے گروہ میں پھنس گیا۔ جہاں کنسلٹنٹ قسم کی مخلوقات جمع تھیں۔ کوئی ورلڈ بینک کے لیے رپورٹیں لکھتا رہا تھا۔ کوئی اقوام متحدہ کے کسی ادارے کے لیے اعداد و شمار تصنیف کرتا رہا تھا۔ کوئی نیو یارک اور واشنگٹن میں پاکستان کی بیماریوں کا علاج ڈھونڈ کر لوٹا تھا اور کوئی یورپی یونین کے امور کا ماہر تھا۔ گفتگو کا موضوع پاکستان میں تعلیم اور صحت کی صورت حال تھی۔ ان اصحاب کے پاس ولایتی تھیلے تھے ان تھیلوں سے انہوں نے اعداد و شمار نکالے کہ اتنے عرصہ میں اتنے نئے سکول بنے۔ طلبہ کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا‘ اساتذہ کی حاضریوں کی تعداد میں اتنی بہتری ہوئی۔ ہسپتالوں میں یہ ہوا اور وہ بھی ہوا۔
جب حکم کیا گیا کہ میں بھی کچھ کہوں تو میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ میرا تعلق ایک گائوں سے ہے اور صرف اپنے گائوں سے نہیں علاقے کے ایک ایک گائوں سے یوں واقف ہوں جیسے ہتھیلی پر رکھے ہوں! کسی سرکاری سکول میں کوئی بہتری نہیں آئی اساتذہ کی حالت وہی ہے جو پہلے تھی۔ گائوں کے سکول میں پڑھانے والا استاد‘ جسے خلق خدا ماسٹر کہتی ہے۔ کھیتوں پر ہل بھی چلاتا ہے‘ دکانداری بھی کرتا ہے‘ کبھی کبھی ڈاکخانے کا چارج بھی اسے دے دیا جاتا ہے۔ پھر جب ان سارے دھندوں سے فارغ ہو تو سکول میں بچوں کو پڑھا بھی لیتا ہے۔ اور سکولوں کی حالت کیا ہے؟ چھت ہے تو دیواریں مخدوش ہیں! پینے کا صاف پانی ناپید ہے۔ کتنے ہی قریوں میں بچے پٹ سن یا پلاسٹک کی خالی بوریاں گھر سے لاتے ہیں اور فرش پر بچھا کر ان پر بیٹھتے ہیں۔ ماسٹر صاحب کی کرسی شکستہ ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک پھٹے پر مشتمل!! پھر جو بچے اس خستہ کمرے سے جسے سکول کہا جاتا ہے پانچ جماعتیں پاس کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو قصبے کے ہائی سکول میں داخلہ لیتے ہیں۔ صبح کو کسی سوزوکی میں کھڑے ہو کر اور شام کو پیدل چل کر یا کسی سے لفٹ لے کر گھر پہنچتے ہیں۔
پنجاب میں جب ’’زبردست‘‘ وژن رکھنے والے خادم اعلیٰ نے دانش سکولوں کا ڈول ڈالا تو لوگوں نے بہت سمجھایا کہ لاکھوں سرکاری سکول جو پہلے سے قائم ہیں اور ناگفتہ بہ حالت میں ہیں اولین توجہ کے مستحق ہیں۔ ان ’’خصوصی‘‘ سکولوں پر لگائے جانے والے کروڑوں روپوں پر پہلے سے قائم شدہ سکولوں کا حق زیادہ ہے!
مگر یہ این جی او قبیل کے حضرات اپنے اعداد و شمار سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ وہ بھیڑوں کو گن رہے تھے اور بھیڑوں کی طرف دیکھنے کے روا دار نہ تھے۔ کتے کو بھیڑ سمجھ کر اٹھا لینا رپورٹیں مرتب کرنے والے کنسلٹنٹس کے لیے عام ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے دارالحکومت میں‘ وزارت زراعت میں بیٹھ کر کئی سال تک ’’کاٹن پالیسی‘‘بنانے والے بیورو کریٹ نے کاٹن کا پودا دیکھا ہی نہیں تھا اور یہ سوال تو عرصہ ہوا شام کی سیر کے دوران ایک بلند منصب افسر نے خود مجھ سے پوچھا تھا کہ گندم کا درخت کتنا بڑا ہوتا ہے۔ حقیقت حال کی وضاحت کرنے ہی لگا تھا کہ بیچارے کو اصل بات بتا دوں مگر پھر سوچا کہ بلند منصب پر فائز اس پالیسی ساز کو اگر اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ گندم کا درخت کتنا بڑا ہوتا ہے تو اب بتانے سے ملک کو کچھ خاص فائدہ بھی نہیں ہو گا۔ چنانچہ میںنے اس کے ’’علم‘‘ کی بنیاد کو متزلزل نہ کیا!
اور سرکاری ہسپتال؟ ضلع اور تحصیل سطح کے ہسپتال مرگھٹ ہیں یا قتل گاہیں! ڈاکٹر غیر حاضر! سامان اور آلات غائب اور اگر ہیں تو زنگ آلود۔ ان قتل گاہوں میں شفا کم اور موت زیادہ ملتی ہے!
کوئی مانے یا نہ مانے‘ جب تک دو تبدیلیاں رونما نہ ہوں گی‘ سرکاری سکول اور سرکاری ہسپتال سسکتے بلکتے ہی رہیں گے۔ اول‘ طاقت ور مقامی حکومتوں کا قیام!جو اپنے اپنے دائرہ کار میں نچلی سطح تک کام کریں! لاہور بیٹھے ہوئے نوکر شاہی کے رکن کو کیا پڑی ہے کہ جہلم یا جھنگ کی دور افتادہ بستیوں کے سکولوں کی فکر کرے اور ذاتی طور پر جا کر ان کی حالت زار دیکھے۔ اسے کیا ضرورت ہے کہ لاہور سے نکلے اور فتح جنگ یا جنڈیا بہاولنگر یا عیسیٰ خیل کے ہسپتال میں جا کر چیک کرے کہ ڈاکٹر کس وقت ڈیوٹی پر پہنچا اور کس وقت اپنے پرائیویٹ کلینک کی سمت نکل گیا۔ دوم‘ حکمران‘وزیر‘ عمائدین اور ٹاپ بیورو کریٹ جب تک اپنے بچے ان سکولوں میں نہیں ڈالیں گے اور اپنے آپ کو اور اپنے مریضوں کو علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں نہیں لائیں گے‘ تب تک ان سکولوں اور کالجوں میں جہالت راج کرتی رہے گی۔ تب تک ہسپتال موت بانٹتے رہیں گے! مختص رقوم ہوا میں تحلیل ہوتی رہیں گی! رپورٹیں بنتی رہیں گی۔ اعداد و شمار تصنیف ہوتے رہیں گے۔ آسمانوں پر رہنے والے زمینی حقیقتوں سے بے خبر ہی رہیں گے اور کتے کو بھیڑ ہی سمجھتے رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment