بات چھوٹی سی تھی مگر بڑھتے بڑھتے اتنی بڑی ہو گئی کہ معمولی تلخ کلامی جھگڑے میں تبدیل ہوئی اور پھر دشمنی میں!
چوہدری نسیم کا خاندان گائوں میں کھاتا پیتا شمار ہوتا تھا۔ یوں سمجھیے جیسے شہر میں مڈل کلاس کے کنبے ہوتے ہیں۔دیہی پس منظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ مڈل کلاس کا مطلب شہر میں کچھ ہو نہ ہو‘ بستیوں اور قریوں میں اس کا مطلب ایک باعزت مقام ہوتا ہے۔ معیار زندگی اوسط سے کافی اوپر! ڈھور ڈنگر ضرورت کے مطابق مناسب مقدار میں‘ زمین سے پیداوار ٹھیک ٹھاک! جس دن یہ واقعہ پیش آیا‘ اس دن شام کے وقت گائوں کے لوگ چوپال میں اکٹھے تھے، بحث سیاست پر ہو رہی تھی۔ چودھری نسیم جس سیاسی جماعت کا طرفدار تھا اس کے دفاع میں بول رہا تھا۔ اس کا ایک رشتہ دار جو دوسری جماعت کا حامی تھا‘ زبان کاتیز تھا۔ اس کی آواز ضرورت سے زیادہ اونچی ہو گئی۔ چودھری نسیم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ بات بڑھ گئی۔ تیز زبان والے رشتہ دار نے چودھری نسیم کے مرحوم باپ اور دادا کے بارے میں کوئی بے ہودہ بات کہہ دی۔ چوہدری نسیم اُٹھا ۔ صرف اتنا کہا کہ میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں‘ مرے ہوئے باپ اور دادا کی بے عزتی نہیں برداشت کر سکتا۔ یہ کہہ کر نسیم نے ٹارچ اٹھائی اور گھر چلا گیا۔ چوپال پر چند لمحوں کے لیے سناٹا چھا گیا۔ کچھ معمر افراد نے تیز زبان والے رشتہ دار کو ملامت کرتے ہوئے سمجھایا کہ جا کر معذرت کر لو کیوں کہ تمہاری غلطی ہے مگر وہ نہ مانا۔ اس نے کچھ اور غلط باتیں کہہ دیں جو ان لوگوں نے چوہدری نسیم تک پہنچا دیں جو اس قسم کے مواقع پر جلتی پر تیل ڈالتے ہیں۔ ایک ہفتہ گزر گیا ایک صبح گولی چلنے کی آواز آئی۔ کھیتوں میں تیز زبان والے رشتہ دار کی لاش تڑپ رہی تھی۔ چوہدری نسیم بندوق کے ساتھ نزدیکی تھانے میں پیش ہو گیا اور قتل کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے بے عزتی کا بدلہ لیا ہے۔
دونوں بیٹے چوہدری نسیم کے ملک سے باہر تھے۔ ایک دبئی میں ملازمت کرتا تھا‘ دوسرا انڈونیشیا کی ایک آئل کمپنی میں کام کرتا تھا۔ خبر ملی تو دونوں پہنچ گئے۔ دبئی والا ایک دن پہلے پہنچا۔ سیدھا تھانے آیا اور پولیس کو کہا کہ قتل میرے والد نے نہیں کیا۔ میں نے کیا ہے۔ انڈونیشیا والا دوسرے دن تھانے پیش ہوا۔ اس کا بیان یہ تھا کہ قتل اس نے کیا ہے اور یہ کہ اس کا باپ اور بھائی دونوں اس کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بول کر الزام اپنے سر لے رہے ہیں۔
یہ پنجاب کے ایک گائوں کا سچا واقعہ ہے۔ پاکستان کے تھانوں اور عدالتوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ نوجوان سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں مگر اپنے باپ کی تکلیف‘ اپنے باپ کی ہتک‘اپنے باپ کی بے بسی برداشت نہیں کر سکتے! اپنا مال‘ اپنی عزت یہاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔
ایک اور معاملے میں یہ لوگ اور بھی زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ ہے خاندان کی خواتین کی عزت! ماں بہن بیٹی اور بیوی کے لیے سب کچھ نثار کر دیتے ہیں۔ ان کی حرمت پر کٹ مرتے ہیں!
مگر تم دونوں بھائی کس مٹی کے بنے ہوئے ہو؟جس بے حسی کا مظاہرہ تم کر رہے ہو اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ کوئی باغیرت نوجوان اس بے حسی‘ اس تغافل اور اس ’’مستقل مزاجی‘‘ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارا بوڑھا باپ عدالتوں میں اور نیب کے دفتروں میں آئے دن پیش ہو رہا ہے۔ تم کیسے بیٹے ہو جو لندن کی اُن رہائش گاہوں میں آرام و عشرت کے مزے لُوٹ رہے ہو جن کی ملکیت تمہارے نام ہے جس کا دفاع تمہارا باپ کر رہا ہے۔ تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو جہاز میں بیٹھتا سیدھا پاکستان آتا اور عدالت کے سامنے پیش ہو کر کہتا کہ میں ہوں مجرم!یہ سب کیا دھرا‘ جو کچھ بھی ہے‘ میرا ہے مجھے پکڑو
پھر تمہاری غیرتاس وقت بھی نہ جاگی جب تمہاری بہن کو عدالتوں اور نیب کی کچہریوں میں پیش ہونا پڑا۔ یہ تو تمہاری پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہونا چاہیے تھا۔ بہن کا سُن کر بھی تم بیٹھے رہے! تم ہر روز ٹیلی ویژن پر سنتے رہے‘ اخبارات میں پڑھتے رہے کہ تمہاری بہن عدالتوں کے دھکے کھا رہی ہے مگر تمہارا دل نہ پسیجا۔ تم عیش و عشرت کی زندگی کو تج نہ سکے۔ جس باپ نے تمہاری خاطر یہ ساری بدنامی مول لی‘ اس باپ کو تم نے اکیلا چھوڑ دیا۔
تم سے ہزار گنا زیادہ بہادر تو تمہاری بہن ثابت ہوئی جو آسانی سے بیرون ملک بھاگ سکتی تھی مگر اپنے باپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ اس نے باپ کا ہر ممکن دفاع کیا۔ عدالتوں کے سامنے پیش ہوئی۔ نیب کی کچہری چڑھی۔ ملک کے طول و عرض میں سفر کیا۔ تقریریں کیں۔ اس نازک موقع پر باپ کی پشت کے پیچھے تکیہ بن گئی۔ لوگ برملا کہتے ہیں کہ آفرین ہے اس بیٹی پر۔ اصل بیٹا تو یہ ہے۔ وہ جو دو لندن میں بیٹھے پائونڈ گن رہے ہیں اور جائیدادوں، کارخانوں اور اپارٹمنٹوں کے کاغذات سنبھال سنبھال کر تجوریوں میں رکھ رہے ہیں‘ انہیں چوڑیاں پہن لینی چاہئیں اور ہتھیلیوں پر حنا لگا لینی چاہیے بیٹی مرد بن کر دشمنوں کو للکارنے لگی اور بیٹے برقعے پہن کر اندر چھپ گئے۔
آہ! تم نے یہ نہ سوچا کہ تاریخ تمہیں کس حیثیت میں یاد کرے گی۔ یہی کہ باپ اور بہن کو مصیبت میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پلٹ کر نہ دیکھا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ تم نے یہ نہ سوچا کہ خلق خدا تمہیں کیا کہہ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر دوسرا پیغام تمہارے باپ کے نام پر آ رہا ہے کہ اپنے بیٹوں کو لندن میں بٹھایا ہوا ہے اور دوسروں کے بیٹوں کو احتجاج کے لیے باہر نکلنے کا کہہ رہے ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس احتجاج کی قیادت تو تمہارے بیٹوں کو کرنا چاہیے تھی۔
یہ منظر اس ملک میں پہلے بھی لوگوں نے دیکھا۔ دوسروں کے بیٹوں کو ’’جہاد‘‘ پر بھیجا گیا۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں’’ بم اور میزائل دیے گئے۔ انہیں مدرسوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکال کر جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ ان کے گھروں میں صف ماتم بچھا دی گئی۔ مگر ان ’’بہادروں‘‘ کے اپنے فرزند اس ’’جہاد‘‘ سے دور ہی رہے کوئی پشاور میں ہسپتالوں میں سپلائی ہونے والی مشینوں اور دوائوں کا کاروبار کرتا رہا اور کوئی دارالحکومت کے وسیع ‘ آرام دہ محلات میں بزنس کرتا رہا۔ یہ جرنیل‘ یہ علمائ‘ یہ اسلام کے نام لیوا۔ یہ مذہبی جماعتوں کے رہنما‘ دوسروں کے بیٹوں کو قربان کرتے رہے۔ اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں کتابیں دیں اور لیپ ٹاپ اور بزنس کے گوشوارے!
آج یہ فلم دوبارہ چلائی جا رہی ہے۔ سول بالادستی کے لیے تمہارا باپ جو لڑائی لڑنا چاہتا ہے اس میں وہ دوسروں کے بیٹوں کو جھونکنا چاہتا ہے۔ اپنے بیٹوں کو اس نے لندن میں بٹھایا ہوا ہے۔ مگر بیچارہ بوڑھا باپ کرے بھی تو کیا کرے! وہ تمہیں کیا کہے۔ جن بیٹوں نے باپ کی عزت اور بہن کی حرمت پر قربان ہونا ہو وہ کسی کے کہنے کا انتظار نہیں کرتے۔ یہ ان کے خون کی تپش ہوتی ہے جو اُن کے اندر اُن کے ضمیر کی ہنڈیا میں غیرت کو ابالتی ہے اور وہ باہر نکل پڑتے ہیں! پھروہ باپ اور بہن کے آگے ڈھال بن جاتے ہیں! مگر آہ!تمہاری جس بے حسی پر اپنے افسوس کر رہے ہیں‘ کُڑھ رہے ہیں اور دوسرے ٹھٹھے مار رہے ہیں‘ طنز کر کے قہقہے لگا رہے ہیں‘ اُس کا اصل سبب نہیں جانتے! غیرت تب بیدار ہوتی ہے جب رگوں میں دوڑتا خون اکلِ حلال سے بنا ہو!
No comments:
Post a Comment