ہسپتال جا کر ڈاکٹر کا پوچھتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ وارڈ میں ہیں۔ اور وہ وارڈ میں نہیں ہوتے۔
کسی دفتر میں متعلقہ اہلکار کا پوچھتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ نماز کے لیے گیا ہے یا کھانے کا وقفہ ہے۔ نماز اور کھانے کا یہ وقفہ کئی گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔
کسی ترقیاتی ادارے، بجلی، گیس یا ٹیلی فون کے دفتر جا کر متعلقہ انجینئر سے ملنا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ سائٹ پر گئے ہیں حالانکہ سائٹ پر نہیں ہوتے۔
تھانیدار سے ملنا ہو تو تھانے والے بتاتے ہیں کہ گشت پر نکلے ہوئے ہیں حالانکہ گشت پر نہیں ہوتے۔
سالہا سال سے قومی ایئرلائن (جو قومی زیادہ ہے اور ایئرلائن کم) پروازوں کی تاخیر کا سبب یہ بتاتی چلی آ رہی ہے کہ موسم خراب ہے یا تاخیر تکنیکی وجوہ کی بنا پر ہورہی ہے۔ حالانکہ موسم خراب ہوتا ہے نہ تکنیکی وجہ ہوتی ہے۔
چار دن پہلے جو کچھ سکردو ایئرپورٹ پر ہوا اس پر غور کیا جائے تو بہت آسانی سے یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ قومی ایئرلائن پاتال کی گہرائی میں کیوں گری ہوئی ہے۔ سکردو ایئرپورٹ پراسلام آباد جانے والے مسافر اس جہاز کے اڑنے کا چار گھنٹے انتظار کرتے رہے جس نے 45 منٹ کے سفر کے بعد اسلام آباد اتر جانا تھا۔ مسافروں کو بورڈنگ کارڈ جاری ہونے کے بعد چار انتظار کرایا گیا۔ سبب اس کا یہ تھا کہ مبینہ طور پر محکمہ ہوا بازی (سول ایوی ایشن) کے بڑے افسران اپنے دوست احباب کے ساتھ نانگا پربت اور کے ٹو کی چوٹیوں کی سیر کر رہے تھے اور کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کر کے قومی ہوائی جہاز کو ذاتی یا خاندانی گاڑی کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ سردار کی حیثیت اختیار کرنے والے ان ہائی کلاس اہلکاروں نے اس اثنا میں خصوصی ظہرانہ بھی تناول فرمایا جبکہ بچے عورتیں اور بوڑھے ایئرپورٹ پر گرمی میں ان سرداروں کا انتظار کرتے رہے۔ ایئرپورٹ پر پینے کا پانی تو ختم ہو ہی گیا تھا، قومی ایئرلائن کے متعلقہ ٹوڈیوں نے ایک اور ظلم یہ کیا کہ بیت الخلا عام مسافروں کے لیے ممنوع قرار دیئے کہ وہ صرف سیر کرنے والے بڑے لوگوں کے لیے مختص تھے۔ ان بڑے لوگوں میں حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایک مقامی سیاسی رہنما بھی شامل تھا۔ جس جہاز نے سکردوایئرپورٹ پر صرف ایک گھنٹہ رکنا تھا وہ اترا ہی گھنٹوں بعد کیونکہ ہوا بازی کے محکمے کے بڑے، برف پوش پہاڑی چوٹیوں کی سیر کر رہے تھے اور پھر انہوں نے اور ان کے کنبوں نے ظہرانہ بھی تناول کرنا تھا
ایسے مواقع پر پاکستانی… بے چارے پاکستانی، احتجاج کم ہی کرتے ہیں۔ زیادہ تر ’’مٹی پائو‘‘ کا قومی سبق دہرا کر کندھے جھٹک دیتے ہیں۔ اس لیے کہ ان پیدائشی محکوموں کو وی آئی پی کلچر کاشکار ہونے کی عادت ہے۔ اس کالم نگار کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کوئٹہ اور ملتان جیسے چھوٹے ایئرپورٹوں پر بڑے لوگوں کے ذاتی سٹاف ممبر ایک فون کال سے پرواز موخر کرادیتے ہیں۔ وزیروں، گورنروں، طاقت ور سیاستدانوں بلکہ منتخب نمائندوں تک کے لیے اور ان کی بیگمات اور ذریت کے لیے سینکڑوں مسافروں کو انتظار کے بے در اذیت خانے میں پھینک دینا معمول کی کارروائی ہے۔
تاہم گردن بلند اہلکاروں کی بدقسمتی کہ چار گھنٹے بے گھر ہونے والے لاوارث مسافروں میں ایک پاکستانی خاتون بیرون ملک سے بھی آئی ہوئی تھی۔ مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوں میں تو ہمارے ہاں سے بھی بدتر موروثی اقتدار ہے۔ ایک مقدس شہر کے ہوائی اڈے پر ایک پاکستانی مسافر پر کیا گزری۔ یہ داستان پھر کبھی۔ مگر ’’کفار‘‘ کے آزاد اور قانون پر چلنے والے ملکوں میں آباد پاکستانی احتجاج سے بھی اور اپنے حقوق سے بھی بخوبی آشنا ہو جاتے ہیں۔ چار گھنٹے انتظار کرانے والے مراعات یافتہ اور عوام کے ٹکڑوں پر پلنے والے برتر عالی دماغ سیر و تفریح اور شاہانہ ضیافت سے متمتع ہو کر جب لائونج میں داخل ہوئے تو یہ خاتون ان کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے انہیں وہ شرم دلائی کہ عزت نفس کی کوئی رمق موجود ہوئی تو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ خاتون نے کہا کہ ہم عام لوگ ہیں اس لیے آپ کا پہروں انتظار کرتے رہے کہ آپ تشریف لائیں تو جہاز پر ہم بھی بیٹھ سکیں۔ خاتون نے انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ ’’اس ملک نے آپ کو کرسی دی ہے، اس قوم نے آپ کو رتبہ دیا ہے۔ اور آپ عوام کے اوپر چلتے ہیں۔‘‘ پھر مسافروں نے شرم شرم اور شیم آن یو کے نعرے لگائے۔ سارے منظر پر مشتمل ویڈیو چند ساعتوں میں وائرل ہو گئی۔ لاکھوں لوگوں نے یہ ’’قانون پسندی‘‘ اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔
اس کے بعد وہی ہوا جو سکھ کے بقول لدھیانہ میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ محکموں کے درمیان باہمی طعنہ زنی شروع ہو گئی۔ الزام تراشی کا والی بال کبھی اس طرف آتا کبھی دوسری طرف۔ فرنگی اسے
Blame Game
کہتے ہیں۔ ہوا بازی کے محکمے کے سربراہ نے جو تخت رواں پر سوار ہو کر پرستانوں کی سیر کرنے والوں میں شامل تھے، یہ کہہ کر والی بال جال کے اوپر سے دوسری طرف پھینک دیا کہ مجھے تو قومی ایئرلائن کے بڑے نے دعوت دی تھی کہ ہم ’’ہوائی سفاری‘‘ شروع کر رہے ہیں جس میں آپ بھی موجود ہیں۔ رہا جہاز کی روانگی میں تاخیر کا معاملہ تو یہ ایئرلائن انتظامیہ کا مسئلہ ہے۔
اس اثنا میں عدالت عظمیٰ نے بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ مگر ہم ان سطور کے ذریعے جو عرض داشت قاضی القضاۃ کے حضور پیش کرنا چاہتے ہیں اس کا لب لباب یہ ہے کہ مسافروں کی تذلیل کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ اس ہولناک بیماری کو جڑ سے کاٹ پھینکنے کے لیے پیناڈول نہیں، جراحی کے عمل کی ضرورت ہے۔ وی آئی پی کلچر کی حشرسا مانی کا یہ پہلا واقعہ نہیں اور اگر عدالت عظمیٰ نے ذمہ دار اہلکاروں کو اب کے داخل زندان نہ کیا تو یہ واقعہ آخری بھی نہ ہوگا۔ جی ہاں! مائی لارڈ! چیف جسٹس! انہیں زندان میں ڈالیے۔ جس کا جتنا بڑا رتبہ ہو، اسے اتنی ہی زیادہ قید کی سزا دیجئے۔ ان کے سر سے مراعات یافتہ ہونے کا خناس نکالیے۔ مائی لارڈ! جب فریادی، امیرالمومنین عمر فاروقؓ کے حکم پر گورنر مصر کے بیٹے کو مار رہا تھا تو امیرالمومنین کہتے جا رہے تھے، اسے مار! یہ بڑوں کی اولاد ہے۔ مائی لارڈ! یہ اہلکاروں کے اہلکار ہیں! یہ سرداروں کے سردار ہیں! انہیں خدا کے لیے باور کرائیے کہ یہ ٹیکسوں کے بل بوتے پر اڑن کھٹولوں میں بیٹھ کرآسمان بوس چوٹیاں سر نہ کریں۔
مائی لارڈ! ان اہلکاروں نے، ان کی یونینوں نے، ان کی افسرانہ بلند مزاجی نے قومی ایئرلائن کو ثریا سے زمین پر دے مارا ہے۔ کہاں وہ وقت کہ جیکولین کینیڈی جیسی عالمی ہستی اس ایئرلائن میں سفر کرتی تھی اور کہاں یہ پستی کہ خود پاکستانی اس ایئرلائن سے نالاں ہیں اور خوف زدہ۔ ان ظالم اہلکاروں نے شہروں میں دکانیں مخصوص کی ہوئی ہیں جہاں باہر سے لائے ہوئے پرفیوم اور دیگر اشیا فروخت کرتے ہیں، ان کی ترجیح زراندازی ہے۔ ان کا اولین مقصد اپنی جیبیں، اپنے تنور نما شکم اور اپنے کیسے بھرنے ہیں۔ تنزل کا یہ عالم ہے کہ بنکاک جیسے ہوائی سفر کے بہت بڑے مرکز میں اس ایئرلائن کا نشان تک نہیں۔ نیویارک ہوائی اڈے پر اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایئرلائن کے کائونٹر پر بیٹھی ہوئی امریکی نژاد ’’پاکستانی‘‘ مسافروں سے اس طرح پیش آ رہی تھی جیسے وہ اس کے ہاری ہوں۔ ہر حکومت نے اس ایئرلائن کو اپنی چراگاہ سمجھا۔ سیاسی بنیادوں پر نالائق ترین افراد گردنوں پر مسلط کئے گئے۔ یونینیں کھمبیوں کی طرح اگیں اور پورے ادارے کو یرغمال بنا کر زنجیروں میں جکڑ لیا۔
انہیں جیل میں ڈالیے! مائی لارڈ! تاکہ یہ عبرت کا سامان بنیں۔
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment