مریض کو میں لیے لیے پھرا۔
جس ہسپتال میں بھی جاتا‘ آگے سے سناٹا استقبال کرتا۔ آدم نہ آدم زاد! گمان گزرا کہ تعطیل کا دن ہے۔ خیال دوڑایا۔ آج عید تھی نہ شبِ برات! 23مارچ تھا نہ 14اگست! بارہ ربیع الاول تھی نہ محرم الحرام کی دس! اتوار بھی نہ تھا۔ پھر آخر یہ سب لوگ ڈاکٹر‘ نرسیں‘ عملہ‘ انتظامیہ‘ نائب قاصد سب کہاں تھے؟ سرکاری ہسپتال ختم ہوئے تو پرائیویٹ کلینک ایک ایک کر کے چھاننے شروع کیے۔ وہاں بھی یہی عالم تھا۔ ہو کا عالم! بورڈ باہر کلینک کے لگے تھے مگر اندر سے قبرستان! مریض کو واپس گاڑی میں لٹایا اور گھر واپس آ گیا۔ جو دوائیں سمجھ میں آئیں دیں‘ ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں۔ سونف ‘ اجوائن‘ دار چینی کا قہوہ دیا۔ شہد گھول کر پلایا۔ پھر ماموں کو بلا کر لایا کہ دم درود کریں۔ انہوں نے دعا کی اور پڑھنے کے لیے کچھ وظائف تجویز کیے۔ اتنے میں دیکھا کہ بیٹا گھر میں داخل ہوا۔ پریشان‘ مضطرب اور کچھ کچھ جھلایا ہوا۔ پیچھے پیچھے اس کا چھوٹا بیٹا اندر آیا۔ بیٹے سے پوچھا کیا ماجرا ہے‘ کہنے لگا بچے کو سکول میں داخل کرانا تھا‘ کئی سکولوں میں گیا کہیں کوئی سٹاف تھا نہ اساتذہ! بچے بھی کلاسوں سے غائب تھے۔ جہاں بھی گیا‘ کوئی نہ ملا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سارے سکول بند کر دیے گئے یا اساتذہ اور عملے کی ہڑتال ہے! یا تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا ہے جو پبلک کے علم میں نہیں! ابھی تو گرمیاں شروع بھی نہیں ہوئیں۔ کراچی سے مہمان آئے ہوئے تھے۔ انہیں ہوائی جہاز پر بٹھانا تھا۔ مریض کی تیمار داری سے فارغ ہوا تو مہمانوں کو گاڑی میں سوار کیا اور ایئر پورٹ کی جانب چلا۔ تشویش یہ تھی کہ پرواز کا وقت قریب تر ہو رہا تھا۔ مین گیٹ پر رش ہوا تو کیا ہو گا؟ مگر حیرت کی انتہا نہ رہی جب گیٹ کے دور و نزدیک کوئی گاڑی نہ تھی۔ اندر پارکنگ بھی خالی تھی اس ڈیسک پر بھی کوئی نہ تھا جہاں سے قلی کی پرچی جاری کی جاتی تھی۔ صرف ایک نچلے درجے کا اہلکار ملا جس نے کہا کہ کوئی پرواز نہیں جا رہی! گھر لوٹ جائیے اور دوپہر کے بعد انکوائری والوں کو فون کر کے معلومات حاصل کیجیے۔ گھر واپس آیا تو بیوی پریشان بیٹھی تھی۔ محلے کی ایک ایک دکان سے ہو آئی تھی۔ سب بند تھیں۔ سبزی والا تھا نہ قصاب! کریانہ سٹور کو بھی تالا لگا تھا۔ بیکری بند تھی۔ اب جب ادھر ادھر فون کیے ‘ دوستوں رشتہ داروں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ پورے ملک میں سناٹا ہے۔ تمام سرکاری غیر سرکاری نیم سرکاری نجی‘ صوبائی ‘ مرکزی‘ ضلعی مقامی دفاتر بند تھے۔ سی ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ کے ڈی اے کی عمارتیں خالی تھیں۔ نادرا میں کوئی نہ تھا۔ فون گیس بجلی پانی سب کے اداروں میں کام بند تھا۔ ہوائی اڈے‘ ریلوے اسٹیشن بسوں کے ٹرمینل سب جگہ ہُو کا عالم تھا اور تو اور تھانوں میں پولیس والے غائب تھے تھانے‘ کچہری‘ پٹوار خانے‘ تحصیل یونین کونسل‘ ڈپٹی صاحب کا دفتر‘ ہر جگہ تعطیل کا سماں تھا! بیرونی ممالک سے رابطے منقطع تھے۔ وزارت خارجہ‘ بین الاقوامی تجارت کے ادارے‘ کسٹم کے دفاتر سب بند تھے۔ اچانک بجلی آ گئی۔ بلب‘ فانوس یو پی ایس ‘انٹر نیٹ ہر شے میں برقی رو دوڑنے لگی۔ خاموش ٹیلی ویژن سیٹ کی سکرین روشن ہو گئی۔ ایک نیوز ریڈر ظاہر ہوئی اور خبروں کا بلیٹن پڑھنا شروع کیا۔ اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ پورے ملک میں ہر قسم کا کاروبار‘ نقل و حرکت‘ آمدو رفت‘ دن کے گیارہ بجے تک بند رہے گی۔ کسی دفتر‘ ادارے‘ ہسپتال ‘ سکول‘ ہوائی اڈے‘ ریلوے اسٹیشن پر گیارہ بجے تک کوئی کام نہیں ہو گا۔ تعلیمی اداروں میں پڑھائی گیارہ بجے سے پہلے نہیں شروع ہو گی۔‘‘ نیوز ریڈر مسکرائی۔ پھر کمرشل وقفہ آ گیا۔ خبروں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ ’’یہ اقدام اٹھانا پڑا تاکہ لوگ صبح گیارہ بجے تک کوئی اور کام کرنے کے بجائے صرف اور صرف اخبار پڑھ سکیں۔ اگر خلقِ خدا سکولوں کالجوں دفتروں کارخانوں کھیتوں ایئر پورٹوں ہسپتالوں میں اپنے اپنے فرائض سرانجام دے گی تو اخبار پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اخبار نہیں پڑھیں گے تو خریدیں گے بھی نہیں! یوں اخبارات کی سیل متاثر ہو گی! اخبارات کی سیل یقینی بنانے کے لیے پورے ملک میں زندگی دن کے گیارہ بجے تک بے حس و حرکت رہے گی! تمام لوگ اس وقت تک صرف اخبارات کا مطالعے کریں گے۔‘‘ اس کے بعد نیوز ریڈر نے اُن سزائوں کی تفصیل سنائی جو اس حکم کی خلاف ورزی پر مقرر کی گئی تھیں۔ شدید ترین سزا گیارہ بجے پہلے اخبار کو انٹرنیٹ پر منتقل کرنے کی تھی۔ ایسا کرنے والے کو جرمانے اور قید کے علاوہ زندگی بھر انٹرنیٹ پر اخبار نہ پڑھ سکنے کی سزا بھی بھگتنا ہو گی!۔
بجٹ ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت وقت نے بجٹ پیش کر کے ایک رسمی کارروائی پوری کر دی ہے اس کی جزئیات اور اعداد و شمار پر خوب خوب بحثیں ہوتی ہیں۔ نام نہاد ماہرین موٹی موٹی اصطلاحات استعمال کر کے تجزیے پیش کرتے ہیں! مگر وہ پالیسیاں جو عوام کی معاشی زندگیوں میں حقیقی تبدیلیاں لا سکیں آج تک نہیں بنائی گئیں۔ ان میں سر فہرست ٹیکس چوروں سے نجات ہے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ اگرچہ نان فائلر کی گردن کے گرد رسی تنگ کی گئی ہے مگر بااثر افراد ٹیکس کے قوانین کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کرتے۔ ان میں سیاست دان‘ صنعت کار اور تاجر سب شامل ہیں۔ جاگیر دار اور وڈیرے جو کروڑوں اربوں کی زمینوں کے مالک ہیں اور ان زمینوں سے پیداوار حاصل کرتے ہیں ٹیکس کے حصار سے باہر ہیں! دوسری اہم پالیسی جو آج تک توجہ حاصل نہیں کر سکی۔ زرعی اصلاحات کی پالیسی ہے۔ بھارت کے برعکس ہمارے ہاں جاگیرداری کی بنیاد پر جدی پشتی اسمبلی کی ممبری چل رہی ہے۔ بلوچستان میں بدترین سرداری نظام رائج ہے جو قدیم ترین زمانوں کی یادگار ہے اس بدقسمت صوبے پر ستر برسوں میں صرف ایک غیر سردار وزیر اعلیٰ مقرر ہوا۔ وہ بھی اپنی میعاد پوری کرنے سے پہلے چلتا کر دیا گیا! اس بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کی حسب معمول بھر مار ہے۔ ایوان صدر‘ وزیر اعظم ہائوس اور وزیر اعظم آفس پر کروڑوں کا غیر ضروری خرچ کیا جاتا ہے۔ صدر اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں پر کوئی کنٹرول ہے نہ پارلیمنٹ ہی اس ضمن میں اپنے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے غیر ملکی دوروں پر 2013ء اور 2017ء کے درمیانی عرصہ میں ایک ارب ایک کروڑ 30لاکھ سے زائد رقم خرچ ہوئی۔ وزیروں اور پارلیمنٹ کے ارکان کی مراعات کو روپے کی قدر میں منتقل کیا جائے تو اس مفلوک الحال معیشت پر ترس آنے لگتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے بہت سے ارکان بجٹ دستاویزات سمجھنے ہی سے قاصر ہیں۔ چہ جائیکہ ان کا تجزیہ کر سکیں اور ہائوس میں وزارت خزانہ کی بجٹ تجاویز کو چیلنج کر سکیں۔ بجٹ پاس ہونے کی کارروائی ہر سال معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ ووٹ دے کر بجٹ پاس کرنے والوں کا احوال کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ بقول ظفر اقبال ؎ سر اٹھایا نہیں میں نے کہ سلامت رہ جائے عذر کیا ہے مجھے اب ہاتھ اٹھا دینے میں بجٹ بنانے والوں کو کوئی یہ نہیں کہتا کہ پندرہ یا بیس ہزار کی ماہانہ آمدنی میں ایک عام پاکستانی کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔ دوسری طرف ان شعبوں کو کھلی چھٹی ہے جو عوام سے دن رات پیسہ بٹور رہے ہیں۔ پٹرول کی مہنگائی صرف ایک مسئلہ ہے۔ نجی شعبے کے تعلیمی اداروں کو کنٹرول اور مانیٹر کرنے کے لیے کسی طریق کار کا وجود نہیں ہے۔ ان نجی تعلیمی اداروں میں فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور ہر سال ان میں اضافہ ہوتا ہے! پھر‘ یہ بجٹ پورے سال کے لیے حرف آخر بھی نہیں ثابت ہوتا ہر کچھ ماہ بعد ایک منی بجٹ عوام کی گردنوں پر مسلط کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ جب تک اِن بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا‘ سالانہ بجٹ ایک ایسی رسم سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ رسم عوام کی اقتصادی کمر کو پہلے سے زیادہ دُہرا کر جاتی ہے!!
جس ہسپتال میں بھی جاتا‘ آگے سے سناٹا استقبال کرتا۔ آدم نہ آدم زاد! گمان گزرا کہ تعطیل کا دن ہے۔ خیال دوڑایا۔ آج عید تھی نہ شبِ برات! 23مارچ تھا نہ 14اگست! بارہ ربیع الاول تھی نہ محرم الحرام کی دس! اتوار بھی نہ تھا۔ پھر آخر یہ سب لوگ ڈاکٹر‘ نرسیں‘ عملہ‘ انتظامیہ‘ نائب قاصد سب کہاں تھے؟ سرکاری ہسپتال ختم ہوئے تو پرائیویٹ کلینک ایک ایک کر کے چھاننے شروع کیے۔ وہاں بھی یہی عالم تھا۔ ہو کا عالم! بورڈ باہر کلینک کے لگے تھے مگر اندر سے قبرستان! مریض کو واپس گاڑی میں لٹایا اور گھر واپس آ گیا۔ جو دوائیں سمجھ میں آئیں دیں‘ ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں۔ سونف ‘ اجوائن‘ دار چینی کا قہوہ دیا۔ شہد گھول کر پلایا۔ پھر ماموں کو بلا کر لایا کہ دم درود کریں۔ انہوں نے دعا کی اور پڑھنے کے لیے کچھ وظائف تجویز کیے۔ اتنے میں دیکھا کہ بیٹا گھر میں داخل ہوا۔ پریشان‘ مضطرب اور کچھ کچھ جھلایا ہوا۔ پیچھے پیچھے اس کا چھوٹا بیٹا اندر آیا۔ بیٹے سے پوچھا کیا ماجرا ہے‘ کہنے لگا بچے کو سکول میں داخل کرانا تھا‘ کئی سکولوں میں گیا کہیں کوئی سٹاف تھا نہ اساتذہ! بچے بھی کلاسوں سے غائب تھے۔ جہاں بھی گیا‘ کوئی نہ ملا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سارے سکول بند کر دیے گئے یا اساتذہ اور عملے کی ہڑتال ہے! یا تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا ہے جو پبلک کے علم میں نہیں! ابھی تو گرمیاں شروع بھی نہیں ہوئیں۔ کراچی سے مہمان آئے ہوئے تھے۔ انہیں ہوائی جہاز پر بٹھانا تھا۔ مریض کی تیمار داری سے فارغ ہوا تو مہمانوں کو گاڑی میں سوار کیا اور ایئر پورٹ کی جانب چلا۔ تشویش یہ تھی کہ پرواز کا وقت قریب تر ہو رہا تھا۔ مین گیٹ پر رش ہوا تو کیا ہو گا؟ مگر حیرت کی انتہا نہ رہی جب گیٹ کے دور و نزدیک کوئی گاڑی نہ تھی۔ اندر پارکنگ بھی خالی تھی اس ڈیسک پر بھی کوئی نہ تھا جہاں سے قلی کی پرچی جاری کی جاتی تھی۔ صرف ایک نچلے درجے کا اہلکار ملا جس نے کہا کہ کوئی پرواز نہیں جا رہی! گھر لوٹ جائیے اور دوپہر کے بعد انکوائری والوں کو فون کر کے معلومات حاصل کیجیے۔ گھر واپس آیا تو بیوی پریشان بیٹھی تھی۔ محلے کی ایک ایک دکان سے ہو آئی تھی۔ سب بند تھیں۔ سبزی والا تھا نہ قصاب! کریانہ سٹور کو بھی تالا لگا تھا۔ بیکری بند تھی۔ اب جب ادھر ادھر فون کیے ‘ دوستوں رشتہ داروں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ پورے ملک میں سناٹا ہے۔ تمام سرکاری غیر سرکاری نیم سرکاری نجی‘ صوبائی ‘ مرکزی‘ ضلعی مقامی دفاتر بند تھے۔ سی ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ کے ڈی اے کی عمارتیں خالی تھیں۔ نادرا میں کوئی نہ تھا۔ فون گیس بجلی پانی سب کے اداروں میں کام بند تھا۔ ہوائی اڈے‘ ریلوے اسٹیشن بسوں کے ٹرمینل سب جگہ ہُو کا عالم تھا اور تو اور تھانوں میں پولیس والے غائب تھے تھانے‘ کچہری‘ پٹوار خانے‘ تحصیل یونین کونسل‘ ڈپٹی صاحب کا دفتر‘ ہر جگہ تعطیل کا سماں تھا! بیرونی ممالک سے رابطے منقطع تھے۔ وزارت خارجہ‘ بین الاقوامی تجارت کے ادارے‘ کسٹم کے دفاتر سب بند تھے۔ اچانک بجلی آ گئی۔ بلب‘ فانوس یو پی ایس ‘انٹر نیٹ ہر شے میں برقی رو دوڑنے لگی۔ خاموش ٹیلی ویژن سیٹ کی سکرین روشن ہو گئی۔ ایک نیوز ریڈر ظاہر ہوئی اور خبروں کا بلیٹن پڑھنا شروع کیا۔ اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ پورے ملک میں ہر قسم کا کاروبار‘ نقل و حرکت‘ آمدو رفت‘ دن کے گیارہ بجے تک بند رہے گی۔ کسی دفتر‘ ادارے‘ ہسپتال ‘ سکول‘ ہوائی اڈے‘ ریلوے اسٹیشن پر گیارہ بجے تک کوئی کام نہیں ہو گا۔ تعلیمی اداروں میں پڑھائی گیارہ بجے سے پہلے نہیں شروع ہو گی۔‘‘ نیوز ریڈر مسکرائی۔ پھر کمرشل وقفہ آ گیا۔ خبروں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ ’’یہ اقدام اٹھانا پڑا تاکہ لوگ صبح گیارہ بجے تک کوئی اور کام کرنے کے بجائے صرف اور صرف اخبار پڑھ سکیں۔ اگر خلقِ خدا سکولوں کالجوں دفتروں کارخانوں کھیتوں ایئر پورٹوں ہسپتالوں میں اپنے اپنے فرائض سرانجام دے گی تو اخبار پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اخبار نہیں پڑھیں گے تو خریدیں گے بھی نہیں! یوں اخبارات کی سیل متاثر ہو گی! اخبارات کی سیل یقینی بنانے کے لیے پورے ملک میں زندگی دن کے گیارہ بجے تک بے حس و حرکت رہے گی! تمام لوگ اس وقت تک صرف اخبارات کا مطالعے کریں گے۔‘‘ اس کے بعد نیوز ریڈر نے اُن سزائوں کی تفصیل سنائی جو اس حکم کی خلاف ورزی پر مقرر کی گئی تھیں۔ شدید ترین سزا گیارہ بجے پہلے اخبار کو انٹرنیٹ پر منتقل کرنے کی تھی۔ ایسا کرنے والے کو جرمانے اور قید کے علاوہ زندگی بھر انٹرنیٹ پر اخبار نہ پڑھ سکنے کی سزا بھی بھگتنا ہو گی!۔
بجٹ ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت وقت نے بجٹ پیش کر کے ایک رسمی کارروائی پوری کر دی ہے اس کی جزئیات اور اعداد و شمار پر خوب خوب بحثیں ہوتی ہیں۔ نام نہاد ماہرین موٹی موٹی اصطلاحات استعمال کر کے تجزیے پیش کرتے ہیں! مگر وہ پالیسیاں جو عوام کی معاشی زندگیوں میں حقیقی تبدیلیاں لا سکیں آج تک نہیں بنائی گئیں۔ ان میں سر فہرست ٹیکس چوروں سے نجات ہے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ اگرچہ نان فائلر کی گردن کے گرد رسی تنگ کی گئی ہے مگر بااثر افراد ٹیکس کے قوانین کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کرتے۔ ان میں سیاست دان‘ صنعت کار اور تاجر سب شامل ہیں۔ جاگیر دار اور وڈیرے جو کروڑوں اربوں کی زمینوں کے مالک ہیں اور ان زمینوں سے پیداوار حاصل کرتے ہیں ٹیکس کے حصار سے باہر ہیں! دوسری اہم پالیسی جو آج تک توجہ حاصل نہیں کر سکی۔ زرعی اصلاحات کی پالیسی ہے۔ بھارت کے برعکس ہمارے ہاں جاگیرداری کی بنیاد پر جدی پشتی اسمبلی کی ممبری چل رہی ہے۔ بلوچستان میں بدترین سرداری نظام رائج ہے جو قدیم ترین زمانوں کی یادگار ہے اس بدقسمت صوبے پر ستر برسوں میں صرف ایک غیر سردار وزیر اعلیٰ مقرر ہوا۔ وہ بھی اپنی میعاد پوری کرنے سے پہلے چلتا کر دیا گیا! اس بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کی حسب معمول بھر مار ہے۔ ایوان صدر‘ وزیر اعظم ہائوس اور وزیر اعظم آفس پر کروڑوں کا غیر ضروری خرچ کیا جاتا ہے۔ صدر اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں پر کوئی کنٹرول ہے نہ پارلیمنٹ ہی اس ضمن میں اپنے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے غیر ملکی دوروں پر 2013ء اور 2017ء کے درمیانی عرصہ میں ایک ارب ایک کروڑ 30لاکھ سے زائد رقم خرچ ہوئی۔ وزیروں اور پارلیمنٹ کے ارکان کی مراعات کو روپے کی قدر میں منتقل کیا جائے تو اس مفلوک الحال معیشت پر ترس آنے لگتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے بہت سے ارکان بجٹ دستاویزات سمجھنے ہی سے قاصر ہیں۔ چہ جائیکہ ان کا تجزیہ کر سکیں اور ہائوس میں وزارت خزانہ کی بجٹ تجاویز کو چیلنج کر سکیں۔ بجٹ پاس ہونے کی کارروائی ہر سال معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ ووٹ دے کر بجٹ پاس کرنے والوں کا احوال کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ بقول ظفر اقبال ؎ سر اٹھایا نہیں میں نے کہ سلامت رہ جائے عذر کیا ہے مجھے اب ہاتھ اٹھا دینے میں بجٹ بنانے والوں کو کوئی یہ نہیں کہتا کہ پندرہ یا بیس ہزار کی ماہانہ آمدنی میں ایک عام پاکستانی کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔ دوسری طرف ان شعبوں کو کھلی چھٹی ہے جو عوام سے دن رات پیسہ بٹور رہے ہیں۔ پٹرول کی مہنگائی صرف ایک مسئلہ ہے۔ نجی شعبے کے تعلیمی اداروں کو کنٹرول اور مانیٹر کرنے کے لیے کسی طریق کار کا وجود نہیں ہے۔ ان نجی تعلیمی اداروں میں فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور ہر سال ان میں اضافہ ہوتا ہے! پھر‘ یہ بجٹ پورے سال کے لیے حرف آخر بھی نہیں ثابت ہوتا ہر کچھ ماہ بعد ایک منی بجٹ عوام کی گردنوں پر مسلط کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ جب تک اِن بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا‘ سالانہ بجٹ ایک ایسی رسم سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ رسم عوام کی اقتصادی کمر کو پہلے سے زیادہ دُہرا کر جاتی ہے!!
No comments:
Post a Comment