گیارہویں جماعت میں ایک کلاس فیلو تھا جس کا نام مکھن حسین تھا۔ عربی کے استاد مولانا ابوالقاسم عبداللہ تھے۔ غالباً یہ جماعت اہل حدیث راولپنڈی کے امیر بھی تھے۔
عربی بطور مضمون رکھنے کا قصہ یہ ہوا کہ دسویں جماعت پاس کی تو ضلع میں کوئی پوزیشن ووزیشن بھی تھی اور سکالر شپ بھی۔ جو ان دنوں مبلغ چھبیس روپے ماہانہ تھا۔ اس زمانے میں پنجاب میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد (تب لائل پور) کا بہت شہرہ تھا۔ چنانچہ وہاں داخل کر دیا گیا۔ وہاں کے ماحول میں دل نہ لگا۔ واپس آ کر ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخلہ لیا۔ مگر شام کو مباحثوں اور مشاعروں کا وقت ہوتا تو سائنس کے مضامین پڑھنے والوں کو لیبارٹری میں قید کر دیا جاتا۔ اب شوق ہوا کہ سائنس چھوڑ کر آرٹس کے مضامین لیے جائیں۔ والد گرامی مرحوم سے اجازت لی تو انہوں نے اس شرط پر اجازت مرحمت فرمائی کہ اختیاری مضامین میں سے ایک مضمون عربی کا ضرور رکھا جائے گا۔ چنانچہ اکنامکس کے ساتھ عربی کا مضمون رکھ لیا۔
مولانا ابوالقاسم عبداللہ عربی کے جید عالم تھے۔ سخت مزاج بھی تھے۔ ہنسی مزاج کا اس کلاس سے گزرنا ممکن تھا۔ ان کی کوشش یہ بھی ہوتی کہ اگر کوئی شائق ہے تو عربی ادب کا ذوق بھی پیدا ہو جائے۔
حاضری لگاتے ہوئے ایک دن انہوں نے مکھن حسین کو کھڑا ہونے کا حکم دیا کہنے لگے یہ کیا نام ہے؟ مکھن کو نام کا حصہ بنانا کیا ضروری تھا؟ مکھن حسین کیا جواب دیتا۔ قصور اس کا تھوڑی ہی تھا۔ پروفیسر صاحب نے کہا تمہارا نام بدلنا ہو گا۔ عبداللہ اور عبدالرحمن کے ناموں کو پسند فرمایا گیا ہے آج سے تمہارا نام عبدالرحمن ہے۔
اب وہ اذیت ناک مراحل شروع ہوئے جو نام تبدیل کرنے کے لیے قانونی طور پر لازم ہیں سب سے پہلے مکھن حسین نے اخبار میں اشتہار دیا کہ آج سے میں مکھن حسین نہیں‘ عبدالرحمن ہوں۔ اس کے بعد میونسپل کمیٹی کے کاغذات سے لے کر میٹرک کی سند تک ہر جگہ نام بدلوانے کی کارروائی شروع ہوئی۔ یہ سارا پروسیس اتنا طویل اور المناک تھا کہ ایف اے کے دو سال مکمل ہوئے تو یہ ابھی جاری تھا۔ ہم ڈگری کالج اصغر مال میں بی اے میں آ گئے۔ مکھن حسین نے بارہویں کے بعد پڑھائی کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ سالہا سال بعد ایک دن اچانک اس سے ملاقات ہوئی۔ وہ بدستور مکھن حسین ہی تھا۔ کارروائی تکمیل کو پہنچ ہی نہ سکی!
مکھن حسین کے والدین ان پڑھ تھے۔ ورنہ نام محمد حسین رکھتے یا غلام حسین یا حسین علی! مگر سوال یہ ہے کہ تعلیم یافتہ والدین بچوں کے نام کس طرح رکھ رہے ہیں۔ کیا نام رکھتے وقت کبھی والدین نے سوچا ہے کہ یہ نام جو وہ رکھ رہے ہیں‘ غرابت کے دائرے میں آ رہا ہے یعنی عمومیت سے دور ہے‘ عام فہم نہیں ہے اور بتاتے وقت ‘ لکھاتے وقت‘ بچہ ساری زندگی پریشانی کا سامنا کرتا رہے گا۔ ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ چالان کرنے والے سپاہی نے نام پوچھا تو ’’مجرم‘‘ نے نام مستنصر بتایا۔ سپاہی پڑھا لکھا کچھ زیادہ ہی تھا۔ لکھ نہ سکا۔ خیر مستنصر حسین تارڑ صاحب نے (جو مشفق دوست ہیں) اتنی کتابیں لکھیں اور اس قدر مقبول عام ہوئے کہ یہ نام عام بھی ہو گیا اور آسان بھی!
مگر والدین اپنا شوق اور بعض اوقات بجھی ہوئی حسرتیں پوری کرنے کے لیے ایسے ایسے نام رکھتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو کر ساری زندگی مصیبت میں مبتلا رہتا ہے۔ اب وہ کوئٹہ کا جو بچہ رکشے میں پیدا ہوا تھا اس کا نام اس کے باپ نے رکشا خان رکھ دیا۔ کسی کا تلوار خان رکھ دیتے ہیں۔ راجستھان کا ایک بھارتی گائوں اس لحاظ سے ٹاپ پر ہے۔ نئے نئے موبائل فون آئے تو کمپنیوں کے نام مقبول ٹھہرے۔ سام سنگ یا موبی لنک نام کے بچے ظاہر ہوئے۔ بڑے بڑے عہدوں پر بھی وہاں نام رکھے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم‘ صدر‘ گورنر ‘ سم کارڈ‘ ایزی لوڈ‘ رس گلہ‘ چم چم نام اس علاقے میں عام ہیں۔ ایک بچے کا نام کلکٹر رکھ دیا گیا۔ یہ کلکٹر اب بوڑھا ہونے کو ہے۔ ایک دن بھی سکول نہیں گیا۔ جس دن ہائی کورٹ سے ایک باپ کی ضمانت ہوئی ! اسی دن اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی‘ دو خوشیاں اکٹھی ہو گئیں بچے کا نام ہائی کورٹ رکھ دیا گیا تاکہ ساری زندگی ٹو اِن ون کی یاد دلاتا رہے۔
ہمارے ہاں ان دنوں عجیب و غریب نام سننے میں آتے ہیں۔ مطلب پوچھیں تو نوجوان ماں باپ اکثر بتائیں گے جنت کی چڑیاں یا جنت کا پھول یا جنت کا درخت۔ یہاں یہ نام اس لیے نہیں لکھے جا رہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو مگر اکثر نام بے معنی ہیں جیسے سحرش‘ اس کا کوئی مطلب نہیں۔ سحَر(’’ح‘‘ پر زبر) کا مطلب صبح ہے اور سِحر (’’س‘‘ کے نیچے زیر) کا معنی جادو ہے۔ سحرش کوئی لفظ نہیں۔ ہاں فارسی میں سحرش کا مطلب ’’اُس کی صبح‘‘ اور سِحرش کا معنی ’’اس کا جادو‘‘ ہو سکتا ہے! اسی طرح ایان کا مطلب کیا ہے؟ نہیں معلوم ہو سکا۔ ایّان۔ یعنی ’’ی‘‘ پر تشدید ہو تو عربی میں اس کا مطلب ’’کب‘‘ ہو گا جیسے کلام پاک میں فرمایا گیا۔ اَیَّانَ یُبْعَثُون(کب اٹھائے جائیں گے)
غور کیجیے تو ہمارے ہاں مقبول ناموں میں سے کچھ نام تو پتھروں کے ہیں۔ جیسے الماس‘ روبی‘ یاقوت‘ نیلم‘ زمرد‘ مرجان!
کچھ نام ستاروں پر رکھے جا رہے ہیں جیسے ناہید‘ پروین‘ ثریّا‘ زہرہ‘ شمس‘ شمسہ‘ قمر‘ آفتاب‘ خورشید۔
کچھ درختوں پر ہیں جیسے شمشاد‘ سدرہ ،زیتون
۔ کچھ پھولوں پر ہیں۔ جیسے نرگس‘ یاسمین‘ سوسن نسترن‘ لالہ‘ گلاب‘ کنول‘ چمپا۔
ظاہر ہے ان میں سے کوئی نام بھی ممنوع نہیں ہے۔ مذہبی نکتہ نظر سے ایک ہی بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ نام شرکیہ یا کفریہ نہ ہو۔ ہمارے ہاں عبدالرسول اور عبدالعلی بھی عام نام ہیں۔ ان سے مراد بندہ نہیں‘ غلام بھی ہے۔ یوں ہمارے نزدیک ان ناموں میں کوئی حرج نہیں۔ بہر طور سنا ہے کہ افغان جنگ کے دوران جب امریکیوں اور سعودیوں سے مدد ملنا شروع ہوئی تو ایک افغان لیڈر کا نام عبدالرسول تھا۔ سعودیوں نے اس نام پر اعتراض کیا تو یہ عبدالرب رسول ہو گیا۔ نہ جانے یہ روایت کہاں تک درست ہے!
کامن سنس کی بات ہے کہ نام اچھے رکھنے چاہئیں۔ صوتی تاثر بھی خوشگوار ہو اور معنی بھی مثبت ہو! ہاں جو لوگ نام اس لیے تبدیل کر لیتے ہیں کہ حالات بہتر ہو جائیں یا بخت یاوری کرنے لگ جائے اور زندگی ناکامیوں کے بجائے کامرانی سے ہمکنار ہونے لگے تو اس کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ نفع نقصان تو پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔ ایک نالائق کھلنڈرا‘ آوارہ لڑکا جو ہر کلاس میں فیل ہو رہا ہے‘ نام بدلنے سے راتوں رات کیسے لائق فائق ہو جائے گا؟ ایسا ہوتا تو یہ محاورہ ہی وجود میں نہ آتا ’’پڑھے نہ لکھے نام محمد فاضل‘‘ اس نیت سے نام تبدیل کرنا شرک جلی نہیں تو شرک خفی ضرور ہے۔ مگر یہاں وضاحت ضروری ہے کہ یہ ہمارا نکتہ نظر ہے یہ کوئی فتویٰ یا فیصلہ یا اعلان نہیں! مقصود کسی کے عقیدے پر ضرب لگانا ہرگز نہیں!جیسا کہ فرمایا گیا۔’’ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے‘ وہ اس پر خوش ہے‘‘ اگر کسی کو یہ امید یا خوش گمانی ہے کہ نام بدلنے سے صورت حال بدل جائے گی تو بدل کر دیکھ لے۔ ہر کسی کا اپنا تجربہ ہے۔ کبھی مثبت نتیجہ نکلتا ہے کبھی منفی!
دو الجھنیں ناموں کے حوالے سے اور ہیں۔ کیا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ میاں کا نام لگانا عورت کے لیے ضروری ہے؟ یہ رواج مغرب سے آیا ہے۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں! نام شناخت کے لیے ہوتے ہیں اور اگر وہ اپنے میاں کے نام سے متعارف ہوتی ہے تو کیا حرج ہے؟ مگر یہ اتنا لازم بھی نہیں کہ شناختی کارڈ بدلنے کا پہاڑ عبور کیا جائے۔ عرب کلچر میں یہ رواج نہیں تھا۔
دوسری الجھن پاکستانیوں کو بیرون ملک ہوتی ہے جہاں فیملی نام ضرور لکھنا یا بتانا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سوں کے خاندانی لاحقے یا سابقے ہمارے ناموں کا حصہ نہیں۔ مغربی ملکوں میں سَر نیم۔ فیملی نیم‘ فرسٹ نیم یا لاسٹ نیم جیسی اصطلاحات باقاعدگی رائج ہیں۔ چنانچہ پاکستانیوں کو دقت پیش آتی ہے۔ اکثر نے وہاں پیدا ہونے والے بچوں کے فیملی نام‘ اپنے نام کے آخری حصے پر رکھ لیے ہیں! عربوں کو سہولت ہے کیونکہ ان کے قبیلے کا نام‘ یا قبیلے کی شاخ کا نام‘ ان کے نام کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے۔
اب آئیے‘ اصل مسئلہ کی طرف۔ ناموں کا غلط استعمال یعنی نام جو شناخت کے لیے ہیں۔ انہیں اپنے تعصّب ‘ طرف داری اور جانبداری کے لیے استعمال کرنا۔ میں باجوہ ہوں تو اپنے سیٹ اپ میں‘ دفتر یا کارخانے میں‘ یا کارپوریشن میں‘ باجوہ نام کا کوئی اور فرد موجود ہے تو میری ہمدردیاں اُس کے ساتھ ہو جائیں گی۔ یہی حال جاٹ‘ راجپوت‘ اعوان‘ مغل‘ قریشی‘ خلجی‘ غزنوی‘ گیلانی‘ ہاشمی‘ بلوچ‘ بارک زئی‘ یوسف زئی اور بے شمار دوسرے ناموں کا ہے! محض قبیلے‘ قوم‘ ذات برادری یا مسلک کی بنیاد پر کسی شخص کے ساتھ ترجیحی یا امتیازی سلوک کرنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ جاہلیت کی نشانی ہے۔ ایک بیورو کریٹ دوست نے بتایا کہ جن دنوں وہ چیف منسٹر آفس میں تعینات تھے تو ایک معروف سیاستدان نے انہیں اِذن دیا کہ درخواست دہندہ سید ہو تو میری طرف سے سفارش لکھ لیا کرو! ایک اور سیاسی شخصیت کے بارے میں ایک دوست نے جو امریکہ میں تعینات تھے بتایا کہ وہ امریکہ میں تھے کہ انہیں معلوم ہوا فلاں منصب پر فائز کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے وہیں‘ معاون تعینات کرنے کے لیے‘ کچھ نام مانگے۔ ایک نام انہوں نے ‘ نام والے کو دیکھے بغیر‘ چُن لیا کہ وہ نام انہیں مسلک یا برادری کے لحاظ سے راس آ رہا تھا!
اس
Hang-Over
سے‘ اس نشے‘ اس خمار سے ہم نکل آئیں تو شاید ترقی بھی کر جائیں!!۔
No comments:
Post a Comment