Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, May 12, 2018

ضاکارانہ موت۔ جائز یا ناجائز؟


اس نے بٹن دبایا۔ رنگدار محلول ٹیوب کے راستے اس کے بدن کی رگوں میں منتقل ہونے لگا۔ آنکھیں بند ہونے لگیں۔ یوں لگ رہا تھا وہ سونے لگا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ 
کیا قابل رشک کیریئر تھا۔ ڈیوڈ گڈال کا! لاکھوں میں ایک آدھ ہی ایسا نابغہ ہوتا ہے۔ شاید کروڑوں میں ایک آدھ! پہلی جنگ عظیم کے آغاز کا پرآشوب دور تھا جب وہ برطانیہ میں پیدا ہوا۔ یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ علم نباتات کا ماہر تھا۔ 1948ء میں آسٹریلیا منتقل ہو گیا اور یونیورسٹی آف میلبورن میں پڑھانے لگ گیا۔ کچھ عرصہ بعد برطانیہ واپس آیا اور یونیورسٹی آف ریڈنگ میں فل پروفیسر ہوگیا۔ پھر کامن ویلتھ ممالک کی سائنسی اور صنعتی تحقیقی تنظیم میں کام کرتا رہا۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ 1979ء میں جب اس کی ریٹائرمنٹ کی خبر پھیلی تو اس وقت وہ کامن ویلتھ کی سائنسی اور صنعتی تحقیقی تنظیم ہی میں کام کر رہا تھا۔ 2016ء میں اس کی عمر ایک سو دو سال کی ہوگئی۔ اس وقت بھی وہ پرتھ کی ایک یونیورسٹی کے ساتھ اعزازی طورپر وابستہ تھا۔ ایک سائنسی جریدے کا مدیر بھی تھا۔ اس وقت اسے دنیا کا معمر ترین سائنسدان قرار دیا گیا۔ ایسا معمر ترین سائنسدان جو اب بھی مصروف کار تھا۔ اسی سال یونیورسٹی نے اسے ’’اَن فٹ‘‘ قرار دے کر مشورہ دیا کہ وہ گھر بیٹھ کر کام کرے۔ اس پر احتجاج ہوا اور یونیورسٹی کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ مگر یونیورسٹی نے غلط نہیں کہا تھا۔ ڈیوڈ گڈال کی جسمانی قوت تیزی سے روبہ زوال تھی۔ بیماری کوئی ایسی لاحق نہیں تھی مگر گڈال کے خیال میں اس کا معیار زندگی، اس کی کوالٹی آف لائف دن بدن نیچے جا رہی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید زندہ نہیں رہے گا۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس کے پورا ہونے پر اس کی موت نے اس کی کامیابیوں بھری زندگی کی نسبت زیادہ شہرت پائی۔ 
رضاکارانہ موت، دوسرے لفظوں میں خودکشی، دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ متنازعہ رہی۔ دانشور، ڈاکٹر، حکومتیں، معاشرہ، اس بات پر متفق کبھی نہ ہو سکا کہ ایک شخص جو بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے سے اذیت ناک درد بھری زندگی گزار رہا ہے، کیا اپنی زندگی، ختم کرسکتا ہے؟ کیا اسے یہ اختیار حاصل ہے؟ ایسی رضاکارانہ موت بہت سے ملکوں میں خلاف قانون ہے۔ تاہم بلجیم، کولمبیا، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا میں قانون اس ’’خودکشی‘‘ کی اجازت دیتا ہے۔ 
گڈال نے جب مرنے کی ٹھانی تو آسٹریلیا کا قانون آڑے آیا۔ یہاں اس طرح موت کو گلے لگانے پر پابندی تھی۔ اس نے سوئٹزرلینڈ کی ایک این جی او سے رابطہ کیا۔ اس تنظیم نے اس کے سفری اخراجات برداشت کئے اور اسے سوئٹزرلینڈ بلالیا۔ جاتے ہوئے گڈال کا بیان تھا کہ
’’سوئٹزرلینڈ ایک اچھا ملک ہے مگر میں وہاں جانا نہیں چاہتا تھا۔ تاہم میں مرنے کے لیے وہاں جانے پر مجبور ہوں کیونکہ آسٹریلیا کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ میں ملول اور آزردہ خاطرہ ہوں۔ میرے خاندان کو معلوم ہے کہ میری زندگی کتنی مشکل ہو گئی ہے۔ ہر لحاظ سے مشکل، جس قدر جلد یہ زندگی ختم ہو جائے بہتر ہے۔ میرا نکتہ نظریہ ہے کہ میرے جیسے بوڑھے کو تمام شہری حقوق ملنے چاہئیں، ان حقوق میں مرنے کا حق بھی شامل ہو۔‘‘ 
سوئٹزرلینڈ جانے والے جہاز میں بیٹھنے سے پہلے اس نے پرتھ میں اپنی بیٹی اور نواسوں کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں۔ ان میں سے کوئی بھی اس کے ہمراہ سوئٹزرلینڈ نہ گیا۔ انہوں نے پرتھ ہی سے اسے خدا حافظ کہا۔ ان کا بیان تھا کہ ان کا باپ اور نانا عزت سے جیا اور اب عزت اور وقار سے مر رہا ہے۔ 
سوئٹزرلینڈ میں گڈال نے بقائمی ہوش و حواس، ڈاکٹروں کے پوچھے گئے سوالات کے جواب دے کر اپنی مرضی سے زہریلا مواد بدن میں داخل کرنے والا بٹن دبایا اور اس زندگی سے چھٹکارا پالیا جسے وہ اپنے وقار کے منافی گردانتا تھا۔ 
ہمارے مذہب میں خودکشی حرام ہے۔ اس کی پشت پر فلسفہ یہ ہے کہ زندگی آپ کے پاس پروردگار کی امانت ہے۔ یہ آپ کی ملکیت نہیں۔ آپ اس کے مالک نہیں۔ اس لیے اسے ختم کرنے کا اختیار بھی آپ کے پاس نہیں۔ تاہم بہت سے سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں۔ مثلاً رشوت دینا اور لینا حرام ہے۔ دونوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے مگر اس صورت حال میں کیا ہو گا جب ایک انسان اپنا جائز کام نہیں کرا سکتا۔ رشوت دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ گیس کنکشن حاصل کرنا اس کی بہترین مثال نہ بھی ہوتو ایک عمدہ اور مناسب مثال ہے۔ سالہا سال گزر جاتے ہیں، فائلیں ضخیم ہوتی جاتی ہیں، سفارشیں بے اثر ثابت ہوتی ہیں، باری نہیں آتی۔ ایسے میں اسے ’’پیش کش‘‘ ہوتی ہے کہ مٹھی گرم کرو تو کنکشن دے دیتے ہیں۔ رشوت لینے والا تو یقینا مجرم ہے مگر کیا دینے والا بھی اتنا ہی مجرم ہے؟ ہسپتال میں بیڈ لینے کے لیے، کسی کے مرنے پر جائیداد کے انتقال کے لیے، ایمرجنسی میں جانا ہو تو ٹرین یا جہاز میں نشست لینے کے لیے، سر چھپانے کے لیے مکان بنانا ہو تو قرض لینے کے لیے، مجبوراً رشوت دینا پڑے تو کیا دینا حرام ہے؟ کیا دینے والا مجرم ہے؟ مجرم ہے یا مظلوم؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ ظاہر ہے ایسے نازک، الجھے ہوئے فیصلے، ظاہری شریعت نہیں کرسکتی۔ قادر مطلق جو دلوں کے بھید جانتا ہے اور نیتوں سے واقف ہے۔ حشر کے دن سارے عوامل دیکھ کر ہی فیصلہ کرے گا 
؎ تلیں گے کس ترازو میں یہ آہیں اور آنسو 
اسی خاطر تو میں روز جزا کو مانتا ہوں 
سائل کو جو اذیت پہنچائی جاتی ہے، اس کے سینے سے جو آہ نکلتی ہے، مجبور ہو کر جب وہ اپنا سر پیٹتا ہے، تو اس اذیت کا، اس آہ کا، اس سینہ کوبی کا بھی تو وزن کرنا ہوگا۔ 
کچھ ایسی ہی صورت حال خودکشی کی بھی ہے۔ پاکستان میں کئی افراد نے گزشتہ اور حالیہ برسوں میں افلاس سے تنگ آ کر خودکشیاں کی ہیں۔ تصور میں اس ماں اور اس باپ کی بے بسی اور بے کسی لائیے، جس کے بچے عید کے دن نئے کپڑوں سے محروم ہیں، گھر میں پکانے کو کچھ نہیں، علاج کے لیے دوا نہیں خریدی جا سکتی، اس باپ کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگائیے جس کی دو تین جوان بیٹیاں گھر میں بیٹھی ہیں۔ بالوں میں چاندی آنے لگی ہے مگر بے رحم معاشرہ جہیز کا مطالبہ کرتا ہے۔ کوئی راستہ نہیں دکھائی دیتا۔ سوائے اس کے کہ موت کو گلے لگا کر ان ناقابل بیان دکھوں سے نجات حاصل کرلے۔ بظاہر یہ بزدلی ہے۔ ہمارے شرعی اور ملکی قانون میں یہ ناجائز ہے۔ خودکشی کرنے والا یا کرنے والی مجرم ہے مگر اس مجرم کو کون پکڑے گا جس کی پالیسیوں، جس کی سفاکی اور کی لوٹ مار کی وجہ سے یہ خودکشی کرنا پڑی۔ ریاست کہاں تھی؟ ریاست چلانے والے کون تھے؟ لاکھوں روپے روزانہ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، صدر اور گورنروں کے سرکاری گھروں اور دفتروں پر خرچ ہورہے ہیں۔ یہ لوگ سینڈوچ اور پیسٹری کے بغیر چائے کا گھونٹ گلے سے نہیں اتارتے۔ چھینک آئے تو علاج کے لیے ولایت جاتے ہیں۔ ان کے بیٹے اور بیٹیاں او رپوتے اور نواسیاں بھی پروٹوکول کے حصار در حصار میں لپٹی ہوئی ہیں۔ ان کے ملبوس شمار سے باہر ہیں اور ان کے کتے، بلیاں اور ان کے نجی چڑیا گھروں کے جانور جو خوراک کھاتے ہیں، عام آدمی اس کا سوچ بھی نہیں سکتا تو بھوک ننگ سے تنگ آ کر خودکشی کرنے والا کیا اکیلا مجرم ہے؟
یہی صورت حال خودکشی اور ’’قتل‘‘ کی ہے۔ اس عورت کا المیہ ذہن میں لائیے جس کا میاں برسوں سے کوما میں ہے۔ وینٹی لیٹر کا اور ہسپتال کے جملہ اخراجات کا روزانہ کا بوجھ اس کی استطاعت سے باہر ہے۔ اثاثے بیچ چکی ہے۔ عزیز رشتہ دار تنگ آ کر منہ موڑ چکے۔ اولاد نہیں ہے یا ہے تو غافل اور بے نیاز۔ اب اس کے پاس تن کے کپڑوں، چارپائی، توے اور دیگچی کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ ایسے میں اگر وہ ڈاکٹر کو کہتی ہے کہ وینٹی لیٹر کا پلگ اتار دو تاکہ یہ مصنوعی تنفس بند ہو جائے تو کیا یہ ’’قتل‘‘ ہوگا؟ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور ملکی قانون کیا کہتا ہے؟ 
ڈیوڈ گڈال نے موت کو گلے سے لگانے کے لیے آسٹریلیا کو خیر باد کہا۔ اپنی بیٹی اور نواسوںکو پرتھ میں چھوڑا اور سوئٹزرلینڈ روانہ ہوگیا۔ اس کا یہ آخری سفر ایک خاص مشن تھا۔ ایک سو چار سال کے بعد وہ زندگی سے تنگ آ چکا تھا۔ لوگوں کی نظروں میں رحم کے جذبات دیکھ دیکھ کر شرمندہ ہوتا ہوگا۔ اپنی مرضی سے موت کے سفر پر روانہ ہونا، اس کے خیال میں اس کا حق تھا۔ بنیادی انسانی حق! اس کے ملک نے یہ حق نہ دیا تو وہ اس ملک کو سدھار گیا جہاں یہ حق اسے مل رہا تھا۔ 
ہماری زندگیاں رواں دواں ہیں اپنی اپنی رَو میں بہے چلی جا رہی ہے۔ مصروفیات کی اس ہماہمی میں اور مشاغل کی اس چہل پہل میں ہمیں ان بوڑھوں کا ضرور سوچنا چاہیے جو اپنی طوالت عمر سے، ناچاری اور احتیاج سے تنگ آ گئے ہیں۔ کیا ہمارے معاشرے میں ایسے رضاکار موجود ہیں جو ایسے بوڑھوں کی دلجوئی کریں؟ ان کے کام آئیں؟ کیا خودکشی کرنے والے باپ یا ماں کے اڑوس پڑوس میں رہنے والوں نے اس کا خیال رکھا تھا؟ اپنے بچوں کے کپڑے اور جوتے خریدتے وقت ہر آسودہ حال شخص اگر ایک، صرف ایک، نادار خاندان کے بچوں کے کپڑے اور جوتے بھی ساتھ خریدلے تو یہ بدصورت معاشرہ کتنا مختلف نظر آئے گا۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com