Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 17, 2018

مہمان کے لیے جان بھی حاضر ہے


مہمان گرامی کے لیے جان بھی حاضر ہے! 
جو مقدور میں ہے اس سے زیادہ کروں گا۔
 سب سے پہلے تو تمام احباب اور اعزہ و اقربا کو رمضان مبارک کا پیغام بھیجوں گا۔ اس نیک مقصد کے لیے وٹس ایپ‘ ٹوئٹر ‘ فیس بک‘ ایس ایم ایس‘ ای میل‘ تمام ممکنہ ذرائع کا استعمال پورا پورا ہو گا۔ اس کے بعد مہینے بھر کی افطاریوں کے لیے ایک گرینڈ ‘ عالی شان‘ بلند معیار‘ خریداری ہو گی مارکیٹ میں موجود تمام فروٹ کیا تازہ اور کیا خشک ہر قسم کی چاٹ کے اجزا‘ کھجور اور زیتون کی تمام اقسام اچار‘ مربے‘ چٹنیاں(ملکی اور برآمد شدہ) خریدی جائیں گی۔ پورا مہینہ رشتہ داروں‘ دوستوں اور دفتری و کاروباری رفقاء کار کو اپنی اپنی باری پر‘ ہر ایک کی حیثیت کے مطابق افطار ڈنر پر دعوت دی جائے گی۔
 ایسا نہیں کہ ان سوشل ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے میں حقوق اللہ سے غافل ہو جائوں گا۔ حاشا کلاّ ! اللہ نہ کرے پورا مہینہ عبادت میں گزارنے کا ارادہ ہے ۔ رات کو باقاعدگی کے ساتھ تراویح میں قیام ہو گا۔ اس کے بعد کچھ نیند۔ پھر تہجد کے لیے اٹھنا ہو گا۔ تہجد اور نماز فجر کے درمیان کا وقت ذکر اور ورد وظیفہ کے لیے نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن پاک اور پھر کچھ دیر کے لیے آرام! 
ایسا بھی نہیں کہ میں محلے کی مسجد سے بے اعتنائی برتوں! تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب ان کے سامع اور نماز پڑھانے والے مولوی صاحب کی خدمت میں نئے جوڑے پیش کروں گا۔ جس دن مسجد میں ختم قرآن کی تقریب ہو گی‘ اس دن مٹھائی خریدنے کے لیے سب سے زیادہ چندا میں ہی دوں گا! یہ سب کچھ کروں گا۔ استطاعت ہوئی تو اس سے بھی کچھ زیادہ انشاء اللہ! مہمان گرامی کے لیے جان بھی حاضر ہے! مگر دوسری طرف معزز مہمان کی خدمت میں کچھ گزارشات بھی ہیں! اتنا کچھ جو میں محض اور محض‘صرف اور صرف ‘ خالص اللہ کی رضا کے لیے کروں گا تو اس کے بدلے میں کچھ تقاضے بھی ہیں جو مجھے اپنے مکرم و محترم مہمان‘ رمضان المبارک سے کرنے ہیں! وہ یہ کہ مہمان میرے ذاتی‘ خاندانی‘ کاروباری‘ دفتری ‘ صنعتی‘ زرعی‘ تجارتی معاملات میں دخل نہیں دے گا اور عبادت کا یہ مہینہ عبادت تک ہی محدود رہے گا!
 اب میں مہمان کی سہولت کے لیے ان پہلوئوں کی تھوڑی تھوڑی تشریح کروں گا! ذاتی اور خاندانی معاملات سے مراد یہ ہے کہ میں اپنے ماتحتوں اور گاہکوں کے ساتھ کیسا پیش آتا ہوں‘ اس سے رمضان المبارک کو کچھ غرض نہیں ہو گی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ میں اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر ناراض رشتہ داروں کو منانے چل پڑوں۔ یہ صلہ رحمی اور قطع رحمی کے مسائل سراسر ذاتی اور خاندانی ہیں! ان سے مہمان کو کچھ تعرض نہیں ہونا چاہیے۔ میں اپنی اولاد کو کیا سکھا رہا ہوں‘ کس نہج پر ڈال رہا ہوں وہ راہِ راست پر ہیں یا نہیں‘ اس ضمن میں میرے فرائض کیا ہیں۔ یہ سراسر ذاتی اور خاندانی مسئلہ ہو گا۔ اگر میں اپنے سسرال جا کر غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتا ہوں یا بیوی کو جہیز کم لانے کا اور غریب خاندان سے ہونے کا طعنہ دیتا ہوں تو یہ بھی ذاتی اور خاندانی مسئلہ ہو گا۔ غریب رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا ہوں یا نہیں‘ صدقات و خیرات دیتے وقت انہیں ترجیح دیتا ہوں یا نہیں‘ اس سے بھی رمضان کے مہینے کو کچھ علاقہ نہیں چاہیے۔ جن رشتہ 
داروں سے میری ناراضگیاں چل رہی ہیں‘ وہ غریب ہونے 
کے باوجود میرے صدقات سے محروم ہی رہیں گے۔ 

کاروباری معاملات سے مراد ہے کہ میں جس ڈھنگ سے کاروبار کر رہا ہوں‘ وہ ویسا ہی رہے گا۔ میں رمضان کے سارے حقوق ادا کروں گا۔ سحری سے لے کر افطاری تک‘ تراویح سے لے کر تہجد تک‘ اشراق سے لے کر چاشت کے نوافل تک‘ مسجد سے لے کر امام مسجد تک۔ مگر مجھ سے رمضان یہ توقع نہ رکھے کہ میں تولوں بھی پورا اور ماپوں بھی پورا۔ ملاوٹ بھی نہ کروں اور ٹیکس چوری سے بھی بچوں۔ میں نے اپنی دکان کے آگے سارے برآمدے پر اور آدھی سڑک پر اپنا مال اسباب رکھا ہوا ہے۔ مجھے آ کر یہ کوئی نہ کہے کہ یہ ناجائز تجاوزات میں شامل ہے اور مجھے اس کارِ حرام سے بچنا چاہیے اور ہاں! روزہ رکھ کر اگر میں مال فروخت کرنے کے لیے اور منافع زیادہ لینے کے لیے دروغ گوئی سے کام لوں اور خراب مال کو اعلیٰ کوالٹی کا کہہ کر بیچوں تو یہ میرا کاروباری معاملہ ہو گا جس سے روزے اور نماز کا کوئی لینا دینا نہ ہو گا۔ خاص طور پر اگر میرے کاروبار میں عروسی ملبوسات کی تیاری بھی شامل ہے تو واضح ہو کہ میں عورتوں کو بے وقوف بنانے کے لیے جو تاریخ بھی بتائوں گا ملبوسات اس تاریخ پر کبھی بھی تیار نہیں ہوں گے۔ انہیں پھیرے پہ پھیرا ڈالنا ہو گا۔ کاروبار کا یہی طریقہ چلا آ رہا ہے۔ اس پر وعدہ خلافی اور جھوٹ کا ٹھپہ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں! اغوا برائے تاوان اور کاریں اور موٹر سائیکل چرانے کے کاروبار سے بھی رمضان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ 
دفتری معاملات یوں ہیں کہ میں دفتر رمضان میں بھی دیر ہی سے پہنچوں گا۔ یہ جو حکومت کا مجھ سے معاہدہ ہے کہ میں آٹھ بجے سے چار بجے تک حاضر رہا کروں گا تو اس معاہدے کی پابندی لازم نہیں! رمضان کے احترام میں میں چھٹی سے ایک دو گھنٹے پہلے ہی دفتر چھوڑ کر گھر آ جایا کروں گا۔ رہے سائل‘ تو اگر میں کسی مصلحت یا دور اندیشی کی بنا پر فائلیں دیر سے نکالتا ہوں یا سائل کے اطمینان کے لیے اس سے کوئی تحفہ یا کچھ نقدی لیتا ہوں تو یہ تو معاشرتی تعلقات اور رسم و رواج کا حصہ ہے‘ اس میں رمضان المبارک کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا۔ کسی قسم کی مداخلت کو اس ضمن میں میں خوش آمدید بھی نہیں کہوں گا۔ اسی طرح اگر میں اپنے سے اوپر والوں کو اپنی کمائی کا کچھ حصہ تحفے میں پیش کرتا ہوں تو یہ بھی خالص دفتری معاملہ ہو گا۔چھٹی لینے کے لیے جھوٹ بولنا اور جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوانا اور پیش کرنا بھی ایک تکنیکی کارروائی ہے۔ اس کا اس مبارک مہینے میں منقطع کرنے کی بات کرنا ایک غیر منطقی حرکت تصور کی جائے گی۔ 
رہے صنعتی اور زرعی معاملات ! تو کارخانہ چلانے کے لیے بجلی چوری کرنا‘ متعلقہ محکموں کو رشوت پیش کرنا تاکہ وہ قانونی تقاضے پورے کرنے پر اصرار نہ کریں۔ گنا سپلائی کرنے والے کسانوں پر ظلم اور ان کا استحصال‘ ذخیرہ اندوزی‘ چور بازاری‘ ٹیکس سے بچنے کے لیے ہیر پھیر اور پی آر‘ منڈی میں مقابلہ کرنے والوں کے خلاف سازشیں‘ برآمد و درآمد کے سلسلے میں فائلوں کو پہیے لگانا۔ مزارعوں سے بدسلوکی‘ انہیں زمینوں اور رہائشی جھونپڑیوں سے بے دخل کر دینا‘ علاقے پر رعب طاری کرنے کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو مسلسل خوش رکھنا‘ قرضے معاف کرا لینا۔ یہ وہ سارے صنعتی اور زرعی مسائل ہیں جن سے رمضان المبارک مکمل لاتعلق رہے گا!
 گزشتہ ماہ رمضان میں میں نے مسجد کو پانچ لاکھ عطیہ کیے تھے اور ایک مدرسہ کو دس لاکھ۔ مگر مصلحتاً اپنے کاروباری رجسٹروں میں میں نے یہ رقوم بالترتیب تیس لاکھ اور ستر لاکھ لکھی ہیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے‘ یہ سراسر کاروباری پیچیدگیاں ہیں۔ ان کا مذہبی معاملات سے کوئی تعلق نہیں!
 ایک احتیاط میں نے یہ کر رکھی ہے کہ علماء کرام کو اپنا طرف دار بنایا ہوا ہے۔ میں ان معزز حضرات کی خوب خوب خدمت کرتا ہوں۔ انہیں سواری کے لیے گاڑیاں پیش کرتا ہوں۔ میرے غریب خانے پر قیام کے دوران ان کے لیے میرے ریفریجریٹر شربتوں‘ کولڈ ڈرنکس پھلوں اور مٹھائیوں سے بھرے رہتے ہیں۔ میں ان کے مدارس کے لیے مسلسل چندہ دیتا ہوں یہی وجہ ہے کہ آپ نے کسی عالم کو کسی وعظ میں یا جمعہ کے کسی خطبہ میں مجھ پر تنقید کرتے نہیں سنا ہو گا۔ ناممکن ہے کہ وہ ٹیکس چوروں اور ناجائز تجاوزات کا جرم کرنے والوں کے خلاف کچھ کہیں‘ آپ اسے تاجر مُلاّ گٹھ جوڑ کا نام دیں تو دے دیں مگر میرے نزدیک یہ ایک سماجی بندھن ہے جس میں ہر دو طبقات محبت کی وجہ سے باہم پیوست ہیں۔ 

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک بار پھر اس مقدس اور متبرک مہینے کو دیکھنے کا زندگی میں موقع ملا ہے۔ کیا خبر پھر ایسی مبارک گھڑی میّسر آئے نہ آئے۔ یہی تو وہ مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت‘ دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنّم کی آگ سے رہائی کا علمبردار ہے۔ آہ !کس قدر سیاہ بخت ہیں وہ نابکار جو اس بہتے دریا سے اپنے گناہوں کو نہیں دھوتے‘ رحمت اور مغفرت کے اس سمندر سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ یہ لیجیے‘ عصر کی اذان سنائی دے رہی ہے۔ میں چلاکیوں کے ہمیشہ کوششیں کرتا ہوں تکبیرِ اولیٰ سے محروم نہ رہوں!
  

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com