یہ پہلا اور آخری موقع نہیں کہ بھارتی انٹیلی جنس کو خاک چاٹنا پڑی
… اُنی کرشنن انڈین پولیس سروس کا افسر تھا۔ وہ 1962ء میں
مقابلے کا امتحان پاس کر کے بیوروکریسی کا حصہ بنا۔ اسی کے عشرے میں وہ سری لنکا میں تعینات ہوا۔ بیوی ساتھ نہیں تھی۔ ایک ایئرہوسٹس کے ساتھ ملوث ہو گیا۔ یہ تعلق اس کے لیے ’’شہد کا پھندا‘‘ ثابت ہوگیا۔ شہد کا پھندا یعنی ’’ہنی ٹریپ‘‘ جاسوسی کی دنیا کی مشہور اصطلاح ہے۔ جب راز حاصل کرنے کے لیے کسی کو خوبصورت عورت کے دام میں پھنسا کر بلیک میل کیا جائے تو اسے ’’ہنی ٹریپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ امریکیوں نے انی کرشنن کی اس کمزوری کو معلوم کرلیا اور انتظار کرنے لگے کہ کب اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ 1985ء میں انی کرشنن ڈیپوٹیشن پر ’’را‘‘ میں تعینات کردیا گیا اور جنوبی بھارت میں را کی سرگرمیوں کا سربراہ مقرر ہوگیا۔ اب امریکیوں نے اسے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ انی کرشنن کی ایک کمزوری اور بھی تھی۔ اس کی بیٹی کو نشانہ بازی کا شوق تھا۔ چھرے اس زمانے میں بھارت میں عام ملتے نہیں تھے۔ سنگاپور سے منگوانے پڑتے تھے۔ یہ مہنگا شوق تھا۔ امریکی انٹیلی جنس نے اس کمزوری کا بھی فائدہ اٹھایا۔ ان دنوں بھارت سری لنکا کے تامل باغیوں کی بھرپور مدد کر رہا تھا۔ انی کرشنن یہ ساری حساس اطلاعات امریکیوں کو دیتا رہا۔ جب را پر راز کھلا تو بہت سارے منصوبے اور اسلحہ کی ترسیل کی تفصیلات امریکیوں کے پاس آ چکی تھیں۔ انی کرشنن کو سروس سے برطرف کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔
ایک مسلمان سکندر لال ملک نے بھی بھارتی انٹیلی جنس کو خوب چکمہ دیا۔ سکندر را کے بانی اور سربراہ رام ناتھ کائو کا سترہ سال تک ذاتی معاون رہا۔ اس کے پاس بے پناہ خفیہ اطلاعات تھیں۔ ان اطلاعات میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کا منصوبہ بھی تھا۔ رام ناتھ کائو کے پاس ہر فائل سکندر کے ہاتھوں سے ہو کر جاتی تھی اور واپس بھی اسی کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس کی تعیناتی نیویارک میں ہوگئی۔ وہاں اس نے دو سال کی توسیع لی اور اس اثنا میں غائب ہوگیا۔ امریکی خفیہ ایجنسی نے اس کی مدد کی تھی۔ را کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔
لیکن جس واقعہ نے را کو ہلا کر رکھ دیا تھا وہ رابندر سنگھ کا فرار تھا۔ رابندر سنگھ بھارتی فوج میں میجر تھا۔ وہاں سے را میں تعینات ہوا۔ نظروں میں یوں آیا کہ ’’غیر متعلقہ‘‘ دستاویزات کے حصول میں لگا رہتا تھا۔ را نے اسے زیرنگرانی رکھ لیا مگر را کی لیاقت کا راز طشت ازبام اس وقت ہوا جب رابندر سنگھ اپنی بیوی کے ساتھ نیپال کے راستے غائب ہوگیا۔ کھٹمنڈو کا را آفس نااہلی یا میل ملاپ کی وجہ سے دیکھتا رہ گیا۔ رابندر سنگھ ایک نئی شناخت کے ساتھ ان دنوں نیو جرسی میں مزے کی امریکی زندگی گزار رہا ہے۔
بھارت کا سرکاری نظام اس قدر تعفن زدہ ہے اور سرخ فیتہ اتنا عام ہے کہ سرکاری ملازم غیر مطمئن ہیں۔ بھارت کا دفاعی پیداوار کا پورا سسٹم کرپشن سے اٹا ہوا ہے۔ انڈین انٹیلی جنس (آئی بی) اور را کی باہمی مسابقت ہے اور حریفانہ رویہ ہے۔ ستر سے زیادہ نجی کمپنیاں بھارت کو اسلحہ سپلائی کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کے نمائندے جال لگا کر بھارت کے اطراف واکناف میں بیٹھے ہیں اور حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسر اس جال میں پھنستے جاتے ہیں۔
مشہور ترین واقعہ دو بھائیوں کا ہے جو اعلیٰ عہدوں پر تھے۔ ایک میجر جنرل ،دوسرا ایئر وائس مارشل۔ اس واقعہ نے بھارتی فوجی ماحول، بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی نالائقی اور بھارتی ٹھیکوں اور سپلائی کے مکروہ نظام کو واشگاف کر کے رکھ دیا ہے۔ بھارتی افسروں کی بے پناہ لالچ ایک اور فیکٹر ہے۔ یہ دو اینگلو انڈین بھائی ’’لارکن برادرز‘‘ کہلاتے تھے۔ فرینک لارکن 1972ء میں میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوا۔ دوسرا بھائی کینتھ لارکن آٹھ سال بعد 1980ء میں بطور ایئروائس مارشل ریٹائر ہوا۔ ایتوار کو دونوں بھائی دہلی گاف کلب میں دکھائی دیتے یا دوسرے کلبوں میں بیئر اور بریانی کی دعوتیں اڑاتے نظر آتے۔ کچھ افسروں کو معلوم تھا کہ یہ اسلحہ خریدتے اور بیچتے ہیں مگر جاسوسی کے حوالے سے کسی نے کبھی شک کیا نہ ادھر کسی کا دھیان گیا۔ تاہم ان کے دوستوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع تھا۔ اس دائرے میں اعلیٰ سول افسران تھے، سفارت کار تھے، مسلح افواج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران تھے اور اونچے درجے کے بزنس مین تھے۔ فرینک لارکن خصوصی طور پر وسیع تر سماجی دائرہ رکھتا تھا کیونکہ اس کی آخری تعیناتی آرمی ہیڈ کوارٹرز دہلی میں ڈائریکٹر
(Director Weapons and Equipment)
کی تھی۔ اس کا واسطہ اسلحہ کی خرید اور اسلحہ بنانے والوں اور درآمد کرنے والوں کے ساتھ رہا تھا۔ فرینک کے پاس بلجیم کی مشہور کمپنی (فیبریک نیشنل) کی ایجنسی تھی۔ یہ کمپنی بندوق سازی میں دنیا بھر میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ وہ دہلی کی ایک مہنگی فیشن ایبل آبادی ’’وسنت وہار‘‘ کے ایک اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گیا جہاں وہ پارٹیوں کی میزبانی اکثر کرتا۔ دوسرے بھائی نے ’’اوشا سروس‘‘ کمپنی میں ملازت کرلی۔ اکثر سینئر ریٹائرڈ فوجی افسران یہی کام کرتے تھے۔ اوشا سروس کمپنی آبدوزوں اور فوجی ہیلی کاپٹروں کی فروخت کر رہی تھی۔ دونوں بھائی امارت کے زینے پر چڑھے جا رہے تھے۔ دونوں بھائیوں کا معیار زندلگی بلند ہو کر اس قدر نمایاں ہوگیا کہ دوستوں کو غیر معمولی لگا۔ دوسوں سے بات دشمنوں تک پہنچی۔ دشمنوں سے خفیہ ایجنسیوں کو پتہ چلا اور دونوں بھائیوں کی نگرانی شروع ہوگئی۔ خفیہ والوں نے اسسٹنٹ چیف آف ایئر سٹاف (آپریشن) کے دفتر میں ایک گروپ کیپٹن جسجیت سنگھ کو تعینات کیا تاکہ ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) کینتھ لارکن کو موقع پر پکڑا جائے۔ گروپ کیپٹن جسجیت سنگھ کاانتخاب اس لیے کیا گیا تھا کہ وہ ایئر وائس مارشل لارکن کے نیچے کام کر چکا تھا۔ اس نے اپنے سابق باس کے سامنے رونا رویا کہ اس کے مالی حالات خراب ہیں اور وہ پریشان حال ہے۔ تیر نشانے پر بیٹھا۔ ایئر وائس مارشل لارکن نے جسجیت کو اعتماد میں لے کر فرمائش کی کہ روسی مگ طیاروں کے خفیہ کاغذات (مینوئل) مہیا کرے تو اسے تیس ہزار روپے بطور معاوضہ دیئے جائیں گے۔ جسجیت نے معاملہ فضائیہ کی ہائی کمان تک پہنچایا۔ وہاں سے وزیراعظم اور سیکرٹری کابینہ کو اطلاع دی گئی۔ جسجیت کو کہا گیا کہ وہ مگ 23 کے کاغذات (مینوئل) لارکن کو مہیا کردے۔ خفیہ والے لارکن کو اس وقت پکڑنا چاہتے تھے جب وہ یہ کاغذات امریکیوں کو دے رہا ہو۔ مگر جب معلوم ہوا کہ دونوں بھائی بیرون ملک جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں تو پکڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ فرینک کو دہلی سے اور کینتھ کو لکھنو سے گرفتار کرلیا گیا۔ دونوں بھائیوں نے جو کچھ کر رہے تھے، اس کا اعتراف کرلیا اور اپنے ساتھیوں کے نام بھی بتا دیئے۔ ان ساتھیوں میں دو نام اہم تھے۔ ایک جسپال سنگھ گل جو تاجر تھا اور دوسرا ریٹائرڈ کرنل جسبیر سنگھ جو گل کا ملازم تھا۔ گل نے کاروبار کا آغاز تو چینی اور کھاد سے شروع کیا تھا مگر جب اسلحہ کے ماہر کرنل جسبیر سنگھ نے اس کی ملازمت اختیار کی تو گل کو اسلحہ کے کاروبار کا چسکا پڑ گیا۔ اس نے اسلحہ درآمد کرنے اور فروخت کرنے کی کمپنی تشکیل دی۔ دوسری طرف جسبیر سنگھ کی رشتہ داری جرنیلوں کے ساتھ تھی۔ پکڑے جانے کے بعد گل نے خفیہ والوں کو بتایا کہ وہ دفاع کے بہت سے ٹھیکوں میں اپنا ’’کردار‘‘ ادا کر رہا ہے۔ امریکیوں کو معلوم تھا کہ گل کی پہلی بیوی جرمن تھی۔ گل نے اسے طلاق دے دی تھی۔ اب وہ ایک امریکی عورت کے ساتھ رہ رہا تھا۔ بیٹی امریکہ میں رہ رہی تھی۔ یہ سارے حالات گل کو امریکیوں کے لیے بہترین شکار ثابت کر رہے تھے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے لارکن برادرز کو، گل کو اور کرنل جسبیر سنگھ کو پکڑ لیا اور جاسوسی اور کرپشن کے حصار کو توڑ ڈالا۔ ان سب کو (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) پکڑنے کے باوجود بھارتی انٹیلی جنس کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ تھا کہ لارکن برادرز کا امریکیوں کے ساتھ رابطہ کس نے کرایا تھا؟ رابطہ کرانے و الا اور اس سارے حصار کا بانی ایک اور ایئر وائس مارشل تھا اور وہ پانچ مہینے پہلے بھارت چھوڑ کر بیرون ملک کسی محفوظ پناہ گاہ میں پہنچ چکا تھا۔ امریکی سفارت خانے نے سب سے پہلے اس فرار ہونے والے ایئروائس مارشل کو قابو کیا تھا جس نے بعد میں لارکن برادرز کو، گل کو اور کرنل جسبیر سنگھ کو خرید کر امریکیوں کے حوالے کیا تھا۔ بھارتی خفیہ والے ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکے۔
یہ جو آج کل بھارت نے شور مچایا ہوا ہے کہ مادھوری گپتا سے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے راز حاصل کئے تو بھارت کی حکومت کو، بھارتی میڈیا کو اور بھارتی دانشوروں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آئے دن بھارتی سرکار کے فوجی او رسول ملازمین اپنے نظام سے غیر مطمئن کیوں ہورہے ہیں؟ مادھوری گپتا نے بتایا ہے کہ وزارت خارجہ دہلی میں انڈین بیوروکریسی کس طرح اسے ذلیل کرتی تھی۔ اسے چھٹی نہ دی گئی۔ اسے سٹڈی تعطیل نہ دی گئی۔ مادھوری گپتا نے ایک مسلمان خاتون کو ٹیوٹر رکھا۔ اردو سیکھی اور پاکستان تعیناتی کرالی۔ وہ اپنے دوستوں کو بتاتی تھی کہ اسے پاکستان آ کر سکون ملتا ہے اور پاکستان گھر کی طرح لگتا ہے۔
بھارتی مرکزی حکومت کئی گروپوں اور کئی لابیوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پنجابی گروہ الگ ہے۔ بہاری الگ ہیں۔ جنوبی ہند سے تامل ناڈو کی اپنی مضبوط لابی ہے۔ مہارا شٹر والے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ آسام، بنگال اور اڑیسہ والے اپنی محرومیوں کا رونا روتے ہیں۔ ذات پات کی لعنت میں مبتلا بھارت اپنے سرکاری ملازموں اور اپنے عوام کو کبھی بھی اطمینان و مسرت نہیں دے سکا۔ آئندہ بھی اس کا کوئی امکان نہیں۔
No comments:
Post a Comment