Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, May 20, 2018

کُھرچے ہوئے لفظوں کا وارث

یہ ایک اداس کرنے والی صبح تھی۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی مگر یوں لگتا تھا۔ جیسے دل کے اندر دن ڈھل رہا ہو اور سائے لمبے ہو رہے ہوں۔ ایک پارسل موصول ہوا یکدم فضا بدل گئی۔ یہ معین نظامی کی شعری کلیات تھی۔ پا کر‘ دیکھ کر اور ورق گردانی کر کے یوں لگا جیسے
 ؎

 بہت رونق ہے دل میں‘ بھاگتی پھرتی ہیں یادیں
حلب سے قافلہ جیسے روانہ ہو رہا ہے 
معین نظامی میرا پسندیدہ نظم گو ہے۔ معین نظامی‘ وحید احمد اور فرح یار۔ یہ جدید نظم کی تکون ہے اور کیا غضب کی تکون ہے! معین نظامی اورنٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی میں فارسی کا صدر شعبہ رہا۔ سید علی ہجویریؒ چیئر کا بھی بھی سربراہ رہا۔ ان دنوں 
LUMS
میں علم و ادب کاشت کر رہا ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’دیوان سعید خان ملتانی‘‘ طبع ہوا تو اس کا انتساب اس نے مجھ بے بضاعت کے نام کیا۔1677ء میں وفات پانے والا سعید خان شاہ جہان اور اورنگزیب کے عہد کا شاعر اور سماجی‘ سیاسی اور ادبی شخصیت تھا۔ اس کی تعمیر کرائی ہوئی مسجد اور اس کا مقبرہ ملتان میں اب بھی اندرون دہلی گیٹ موجود ہیں۔ 
معین کی نظمیں ایک اور جہان میں لے جاتی ہیں۔ اس جہان میں ماضی بھی ہے اور مستقبل بھی۔ ہم انہیں پڑھتے ہیں تو حال میں‘ بیٹھے‘ ماضی اور مستقبل کو اپنے پاس‘ اپنے ساتھ‘ دیکھتے ہیں۔ قارئین کے ساتھ چند نظمیں شیئر کی جاتی ہیں!

نسب نامہ

مرے اجداد کے گرتے ہوئے حجرے کے 
/ محراب خمیدہ میں/
کسی صندل کے صندوقِ تبّرک میں
/ہرن کی کھال پر لکھا ہوا شجرہ بھی رکھا ہے/ 
کہ جس پر لاجوردی دائروں میں
/زعفرانی روشنانی سے/
مرے سارے اقارب کے مقدس نام لکھے ہیں/ 
مگر اک دائرہ ایسا بھی ہے/
جس میں سے لگتا ہے/
کہ کچھ کھرچا گیا ہے/ 
میں انہی کھرچے ہوئے لفظوں کا وارث ہوں

گندمی اداسی

تمہارا جسم/
اس دنیا میں نازل ہونے والے/
سب سے پہلے دانہ گندم کی/
لافانی اداسی ہے/
تمہارے خال و خد کی معتدل اندوہناکی کو/
نظر انداز کر دینا کسی کے بس میں ہوتا/
تو یقینا میں نظر انداز کر دیتا/
تمہارے ٹھہرے ٹھہرے حسن کے آگے/ 
ٹھہر جانا کسی کے بس میں ہوتا/
تو یقینا میں ٹھہر جاتا/
تمہاری گہری جھیلوں جیسی آنکھوں کی خموشی میں
/چمکتے سرخ ڈوروں کے شکنجے سے/
نکل جانا کسی کے بس میں ہوتا/
تو یقینا میں نکل جاتا/
تم ایسی گندمی افسردگی ہو/
جو مسلسل مجھ پہ طاری ہے

دار چینی 
چلو دار چینی کا قہوہ پیئیں/
اور کھٹے ڈکاروں کی باتیں کریں/
اس لیے کہ یہاں تو غباروں کے مانند/
پُھولے ہوئے پیٹ ہیں/
اور کم بخت سارے ہی مردوں کے ہیں
/میں مذاقاً نہیں کہہ رہا ہوں/
کسی خاندانی طبیب معمر سے/
تبخیر معدہ کا نسخہ ہی پوچھو/
بہ شرطیکہ نسخے کے اجزا بھی خالص کہیں سے ملیں تو
!/اگر ہضم کا نظم موزوں نہ ہو/ 
سنا ہے شکم کے بخارات/
دل اور سر کے علاقوں میں/
شب خون بھی مارتے ہیں
/یہ سچ ہے تو/
مال غنیمت کی خورجین میں/
کچھ نہ کچھ لے تو جاتے ہی ہوں گے /
بھلا خالی ہاتھ
/ایسے وحشی کہاں لوٹتے ہیں /
چلو!دار چینی کا قہوہ پیئیں/
جس کی ترکیب/
کل ایک تقریب میں
/ایک چاندی کے گلدان نے خود/
ہمیں لکھ کے دی تھی!

جادو

کسی دنیا کے نقشےپر /
کوئی اچھا بہت اچھا نگر ہے/
جس میں میں ہوں/
اُس بہت اچھے نگر میں/
کوئی اچھا سا بہت اچھا سا گھر ہے/ 
جس میں میں ہوں/
اُس بہت اچھے سے گھر میں/
اک بہت اچھا سا بُت ہے
/ جس میں میں ہوں
/اُس بہت اچھے سے بت کی/ 
سرخ ڈوروں والی آنکھوں میں
/کوئی اچھا سا تِل ہے/
جس میں میں ہوں

قطرہ قطرہ شبنم

زمستاں
/زمستاں کی بارش/
زمستاں کی بارش میں خوشبو/ 
زمستاں کی بارش میں خوشبو تمہاری 
/ خدا جانے یہ شام تم نے/
کہاں اور کیسے گزاری

تمہیں کچھ ہوا تو

تمہیں کچھ ہوا تو…/
مگر بات یہ ہے میرا دل یہ کہتا ہے
/اس کو کبھی کچھ نہ ہو گا
/تمہیں کچھ ہوا تو…/
مگر بات یہ ہے مرا دل کہتا ہے/
تم نے یہ سوچا ہی کیوں ہے/
تمہیں کچھ ہوا تو…/
مگر بات یہ ہے مرا دل یہ کہتا ہے/
آخر اسے کچھ بھی کیوں ہو/
تمہیں کچھ ہوا تو…/
مجھے اپنے دل کی طرف سے اجازت نہیں ہے/
کہ اس سلسلے میں میں کچھ اور سوچوں

موقف

محبت کے بارے میں/
اس ربع مسکوں میں
/جتنے بھی موقف مروج رہے ہیں
/میں ان سب پہ قائم رہا ہوں
/اور اب بھی تہہ دل سے قائم ہوں/ 
لیکن/محبت سے مجھ کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے
/کہ وہ دورِ آغاز ہی سے/
مرے سلسلے میں/
کسی خاص موقف پہ قائم نہیں ہے

گائوں

تیسرا دن ہے کہ ہر کھانے میں/
ساگ بنواتا ہوں/
بچے سارے/ 
ماں پہ برہم ہیں کہ کیوں مرا کہا مانتی ہے/ 
اور ادھر یہ ہے کہ/ 
مجھ سے کھانا/
ڈھنگ سے آج بھی کھایا نہ گیا
/یاد آتی ہے بہت ایک حویلی دل کو
/اور وہ تنور/
جو عرصے سے جلایا نہ گیا

فراغت کا خنک موسم

فراغت کے خنک موسم میں/
دل کی نیم تاریخی میں بیٹھا ہوں/
اکیلے پن
کی بے آرام کرسی پر/
میں بے ہنگام جھولے لے رہا ہوں/
اور کئی گھنٹوں سے میں نے اک/ 
شکن آلود بستر کی گواہی اوڑھ رکھی ہے/ 
کتاب عمر کے کچھ باب پڑھ کر/
تھک گیا تھا میں/ 
ابھی وحشت کے قہوے سے/
ذرا تسکین پائی ہے

کھوٹ

حسد کی امربیل کی زرد روئی/
درختِ محبت کے پتوں سے جھلکی/ 
تو حِسنِ رفاقت کے بدلے میں/
بُغض رقابت مرے ریشے ریشے میں اترا/
ذرا دیر کے بعد/
میں نے تہہ دل میں جھانکا/
وہاں کھوٹ ہی کھوٹ پایا

اسلام آباد میں

درختوں کے جوڑوں کی شہوت نے/
جنگل کو کتنا گھنا کر دیا ہے/
نمو کے حوالے سے/
اتنا ہوس ناک سبزہ
/کہیں میں نے دیکھا نہیں ہے/ 
کوئی پتّہ مسلے بنا/
تم کہیں سے گزرنے کے چکر میں ہو تو/
یہاں اس سڑک کے کنارے ہی ٹھہرو/
یہاں تک کہ اک دن/ 
تمہارے بدن سے بھی کچھ کونپلیں پھوٹ ُنکلیں

بیڈ شیٹ

بہت خوبصورت ہے یہ/
اور دیکھو ذرا اس پہ کیا پھول ہی پھول ہیں/ 
مسکرائے ہوئے/
چہچہاتے ہوئے/
خوش نما رنگ ہی رنگ ہیں
/اس نئی چادرِ خواب کو/
میرے بستر کی زینت بنانا/
تمہاری محبت کی خواہش ہے/ 
اور خوش نصیبی ہے میری
/مگر اپنے ہاتھوں/
اسے میرے دل میں بچھا دو/
کہ اس کے لیے دل سے بڑھ کر/
کوئی اور موزوں جگہ پورے گھر میں نہیں ہے!

یہ معین نظامی کی چند مختصر نظمیں تھیں۔ طویل نظموں کا اپنا ذائقہ ہے۔ اس کی شاعری پر ایک طویل مضمون لکھا تھا۔ یہاں اُس مضمون کی آخری چند سطور شیئر کی جا رہی ہیں۔

’’شاعری کی ایک قسم وہ بھی ہے جو لکڑی کے گودے سے بنے ہوئے کاغذ کے ساتھ ساتھ گوشت اور خون سے بنے ہوئے دلوں میں بھی زندہ رہتی ہے۔ وہ لائبریریوں کی گرد آلود شیلفوں ہی میں نہیں‘ سرہانے کے ساتھ رکھی ہوئی مطالعہ کی میزوں پر‘ عاشقوں کی بغل میں‘ معشوقوں کی معطر خواب گاہوں میں تکیوں کے نیچے‘ ریشمی بالوں اور سرخ ہونٹوں کو ملنے والے محبت ناموں میں اگر بتیوں کے دھوئیں سے بھری ہوئی خانقاہوں میں‘ مراقبہ کرنے والے درویشوں کے مختصر سامان میں‘ سیاحوں کے سفری تھیلوں میں اور نسل در نسل بیدار رہنے والی یادداشتوں میں بھی زندہ رہتی ہے۔ معین نظامی کی شاعری اسی قبیل سے ہے۔ یہ زندہ رہے گی۔ 
مطالعہ کی میزوں پر
تکیوں کے نیچے
خانقاہوں کے طاق پر
سفری تھیلوں میں
سرخ ہونٹوں پر 
روشنی دلوں اور بیدار یادداشتوں میں

شادباش اے عشقِ خوش سودائے ما

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com