برصغیر کی تاریخ میں بڑے بڑے حادثے رونما ہوئے۔ نظام سقہ کا بادشاہ بننا اور محمد شاہ رنگیلے کا تخت نشین ہونا بڑے حادثے تھے۔ مگر دنیا کی عظیم اسلامی مملکت پر ایک ایسے شخص کی حکومت جو نیم تعلیم یافتہ تھا، جس نے کبھی کوئی فائل پڑھی نہ کسی فائل پر کچھ لکھا۔ جو کسی اجلاس میں کسی سنجیدہ ریاستی یا حکومتی مسئلے پر کچھ سمجھ سکتا تھا نہ بول سکتا تھا۔ اتنا بڑا حادثہ ہے کہ ماضی کا کوئی حادثہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اس ملک کے خون سے ایک ایک قطرہ نچوڑ کر یہ شخص بیرون ملک لے گیا۔ اس نے فخر سے کہا کہ میرے بیٹے تو پاکستانی ہی نہیں۔ کیا یہ سب کچھ کم تھا کہ اس نے سلامتی کے حوالے سے ملک کی پیٹھ میں خنجر بھی بھونک دیا؟
مگر اس پر تعجب ہی کیا ہے۔ آثار تو ابتدا ہی سے نظر آ رہے تھے۔ کلبھوشن کے معاملے پر یہ شخص ایک لفظ نہ بولا۔
25 نومبر 2016ء کو بھارتی وزیراعظم نے بٹھنڈہ میں آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کا افتتاح کرتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ ہم پاکستان کو پانی نہیں دیں گے۔
پھر جنوری 2017ء میں مودی نے بھارتی پنجاب آ کر اعلان کیا کہ ہم سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) منسوخ کردیں گے (تاکہ پاکستان کو اس کے حصے کا پانی نہ ملے) اتنے کھلے اور واضح پیغام۔ مگر یہ شخص جو پاکستان میں وزیراعظم کے منصب پر فائز تھا، دم سا دھے بیٹھا رہا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ یہاں تک کہ اس کی کابینہ کے کسی رکن نے بھی کچھ نہ کہا۔
بھارت اور بھارتیوں کے ساتھ اس شخص کا قارورہ اس قدر ملتا ہے کہ سرکاری دورے پر، دہلی میں یہ سارے حکومتی اور ریاستی تقاضے بالائے طاق رکھ کر ایک بھارتی صنعتکار کو ملنے چلا گیا اور یہ تو حال ہی کی بات ہے کہ وزارت خارجہ کی مکمل لاعلمی میں بھارتی تاجر کو مری میں تن تنہا ملا اور آج تک نہیں بتا سکا کہ اس خفیہ ملاقات میں کیا طے پایا تھا۔ دنیا کے سینکڑوں ملکوں میں سے بھارت واحد ملک تھا جس کے وزیراعظم نے اس کی نواسی کی شادی میں شرکت کی۔ وہی شادی جس کا نکاح حرم شریف میں پڑھا گیا اور اس کھرب پتی شخص نے بے دردی سے قومی ایئرلائن کے جہازوں کو استعمال کیا جبکہ امریکہ میں مسافر جہاز کے انتظار میں بیٹھے رہے۔
ان کی عقلوں پر اتنے پتھر برس چکے ہیں کہ وہ پارہ پارہ ہو چکی ہیں۔ بیٹی کہہ رہی ہے کہ جو کچھ کہا ہے ملک کے بہترین مفاد میں کہا ہے۔ بھائی کہہ رہا ہے کہ ایسا کہا ہی کچھ نہیں۔ دروغ گو را حافظے نہ باشد۔ چور کے پائوں کہاں۔ بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ خاندان کے اندر بھی طے نہیں کر پا رہے کہ کیا کہا ہے اور کیا نہیں کہا اور اب کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔
افسوس! مسلم لیگ(ن) غلاموں کے گروہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب اس شخص نے کوئٹہ میں اعلان کیا کہ اس کا نظریہ وہی ہے جو اچکزئی کا ہے تو غلاموں کے اس گروہ میں کسی نے جھرجھری تک نہ لی۔ ایک چوہدری نثار علی خان نے اس پر اعتراض کیا مگر چھ ماہ بعد اور کل تو ایک ایسے محترم صحافی نے جو اس شخص کا پورا پورا ہمدرد ہے یہ بھی بتا دیا کہ اچکزئی کوئٹہ میں کہہ رہا ہے کہ دیکھا میں نے پنجابی سیاست دان کو پنجابی قوم سے لڑا دیا ہے۔
یہی نہیں کہ پارٹی کے اندر اس کا دست راست وہ شخص ہے جس نے آج تک قائداعظم کا نام نہیں لیا اور پاکستان کی تحریک ہی کا مخالف ہے اورپارٹی کے کناروں پر وہ صحافی اس کا چہیتا ہے جس کی شناخت ہی بھارت نوازی ہے۔ پارٹی کے باہر اس کے دائیں بائیں کون ہیں؟ اچکزئی جس کے افغان ایجنٹ ہونے کے ثبوت انٹرنیٹ پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمن جنہوں نے بھارت جا کر کہا تھا کہ ایک عدد گول میز کانفرنس بلا کر پاک بھارت سرحد ختم کی جا سکتی ہے۔ یہ ہیں اس شخص کے سیاسی اتحادی۔ اس سے پاکستان کے ساتھ وفاداری کی امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے نیم اور اندرائن پر سیب لگنے کی توقع۔
بھارتیوں کے ساتھ اس شخص کے کس قدر گہرے اور گوڑھے تعلقات ہیں۔ اس کا اندازہ اس انکشاف سے کیا جا سکتا ہے جو بھارتی جنتا پارٹی کے سابق سربراہ نتن گرکری نے عین اس وقت کیا جب یہ شخص تیسری بار وزیراعظم بن رہا تھا۔ یہ مئی 2013ء کا قصہ ہے۔ ناگپور میں معروف بھارتی صحافی ایم جے اکبر کی کتاب کے ہندی ترجمہ کی تقریب رونمائی تھی۔ نتن گرکری نے بتایا کہ 2000ء میں صدر کلنٹن بھارت آئے تو بھارت کے ایک صنعتکار دھیرو بھائی امبانی نے کلنٹن سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ کلنٹن جنرل مشرف سے مل کر نوازشریف کی مدد کریں کیونکہ نوازشریف ان کا یعنی امبانی کا دوست ہے۔ اس نے کلنٹن سے یہ بھی کہا کہ ’’نوازشریف ایسے ہی ہیں جیسے ان کے ہم وطن کیونکہ بھارت اور پاکستان تقسیم سے پہلے ایک ہی ملک تھا۔‘‘
کلنٹن پاکستان آئے۔ مشرف سے بات کی۔ نتن گرکری کا بیان ہے کہ کلنٹن نے پھر دھیروبھائی امبانی کو بتایا بھی۔
یہ ہے وہ فلسفہ جس کے تحت بھارتی اس شخص کے ساتھ ہیں اور یہ شخص ملک کی سلامتی سے کھیل کر بھارت کے حق میں بیان دے رہا ہے۔ فلسفہ کیا ہے؟ یہ کہ ہم ایک ہیں۔ تقسیم سے پہلے ہم ایک ہی تھے۔ اسی فلسفہ کے تحت اس شخص نے بھارت جا کر کہا تھا کہ ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور آپ بھی۔ یعنی فرق ہی کیا ہے۔
اس نیم تعلیم یافتہ شخص نے اگر کوئی کتاب پڑھی ہوتی تو اسے معلوم ہوتا کہ قائداعظم نے ایک نہیں کئی بار زور ہی اس حقیقت پر دیا تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کا لباس، خوراک، ہر چیز الگ الگ جدا جدا ہے۔ اگر کچھ پڑھا ہوتا تو جانتا کہ تقسیم سے پہلے ریلوے اسٹیشنوں پر ’’ہندوپانی‘‘ الگ دیا جاتا اور ’’مسلمان پانی‘‘ الگ۔
اگر تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص کو یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان بننے کی اور برصغیر کے بٹوارے کی وجہ کیا تھی تو اسے بدقسمتی اور بدبختی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔
یہی شخص تو ہے جس نے آزادکشمیر کے جلسہ عام میں کہا تھا کہ کشمیریوں پر بھارتیوں نے اتنے ظلم نہیں کئے جتنے پاکستانی فوج نے کئے ہیں اور یہ بھی تو بھارتی سفیر نے ایک پاکستانی ہی سے کہا تھا کہ
We are pleasantly surprised that mian sahib did not mention Indian army in his campaign.
’’کہ ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی ہے اس بات پر کہ میاں صاحب نے اپنی مہم میں بھارتی فوج کا ذکر نہیں کیا۔‘‘
حب وطن کے لیے اولین شرط غیرت نفس کی ہے۔ جس میں غیرت نفس ہی نہیں، وہ حب الوطنی کہاں سے لے؟ کیا میر جعفر اور میر صادق کو عزت نفس کی دولت ملی تھی؟ غیرت نفس ہوتی تو جس اخبار نے یہ لکھا کہ روایت ہے کہ بی اے کا امتحان اس شخص کے لیے کسی اور نے دیا تو اس اخبار پر مقدمہ دائر کرتا کہ اس نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا۔ عزت نفس ہوتی تو ایک معروف صحافی کا یہ بیان کیا یہ شخص ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیتا کہ ’’شریف برادران کے اہم پیام بر نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو اپنے منصب سے استعفیٰ کے عوض صدر پاکستان منتخب کرانے کی پیشکش کی اور اس مقصد کے لیے معتبر ضمانتوں کے علاوہ خانہ کعبہ میں حجر اسود پر ہاتھ رکھ کر حلف کی یقین دہانی کرائی۔‘‘
یہ اس دکاندار خاندان کا وتیرہ ہے۔ کبھی حجر اسود پر حلف اور کبھی کلام پاک کی قسم۔ چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب میں ایک اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ چھوٹا بھائی بار بار قرآن پر قسم اٹھانے کا کہتاتھا۔
افسوس! مسلم لیگ ن کے گروہ میں کوئی رجل رشید نہیں جو اس خاندان کی غلامی سے باہر نکلنے کی کوشش کرے۔ شاہد خاقان عباسی جو امریکہ کی یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ہیں، چند روز کی وزارت عظمیٰ کی خاطر اپنے آپ کو ایک بے بضاعت اور حکم کا غلام شخص بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ گول مول بیان کہ نوازشریف نے بیان کی تردید کی ہے اور یہ کہ طویل انٹرویو میں صرف تین سطروں کو اچھالا گیا، عذر گناہ بدتراز گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ کیا وزیراعظم اتنا بھی نہیں سوچ سکتے کہ اس قسم کی تشریح پڑھ کر لوگ ہنسیں گے؟
مگر جب آنکھوں پر اقتدار کے لالچ کی پٹی بندھ جائے تو انسان کچھ بھی کہہ سکتا ہے، کچھ بھی کرسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment