حیرت سے زبان گنگ ہو رہی تھی دماغ گھوم رہا تھا۔
یہ کیسے ممکن تھا؟
کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا!
کیا یہ سب کچھ میاں محمد نواز شریف کہہ رہے تھے؟
میاں محمد نواز شریف کہہ رہے تھے کہ افسوس! صد افسوس! پنجاب میں دس سال سے ہماری حکومت ہے۔ وفاق میں ہم تین بار آئے مگر کروڑوں بچے سکولوں سے باہر دھکے کھا رہے ہیں۔ غیر منصفانہ تقسیم کی حالت یہ ہے کہ آٹھ لاکھ بچے انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور سوا تین کروڑ سرکاری سکولوں میں!میں نادم ہوں کہ اتنے طویل عہدِ اقتدار میں ایک بار بھی کسی سرکاری سکول کا دورہ نہیں کیا۔25لاکھ بچے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں! میں آج تک کسی مدرسہ میں سرکاری طور پر نہیں گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب اپنی غرض سے گیا تو ان طالب علموں نے مجھ پر جوتے اچھالے! میں آج قوم کے سامنے اعتراف کرتا ہوں کہ ہم ایک بھی بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی نہیں بنا سکے۔ شاید ہمارے لاشعور میں یہ خفت تھی کہ خود ہم میں سے کوئی کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھا! جو دو بچے لندن میں کھرب پتیوں کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ وہ آکسفورڈ جا سکے نہ لندن سکول آف اکنامکس میں! مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ ہم اس محرومی کا انتقام قوم سے لیتے اور کوئی یونیورسٹی نہ بناتے!‘‘
میں بھونچکا ہو کر میاں صاحب کے اعترافات سن رہا تھا۔ میاں صاحب چند ثانیوں کے لیے خاموش ہوئے۔ پھر گویا ہوئے۔
کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم دونوں بھائی‘ اس سارے عرصہ میں ایک ہسپتال بھی ایسا نہ بنا سکے جسے ہم خود اس قابل سمجھتے کہ وہاں اپنا یا اپنے اہل خانہ کا علاج کراتے!‘‘
ابھی خواب مکمل بھی نہ ہو پایا تھا کہ آنکھ کھل گئی! گردن پسینے میں شرابور تھی۔ پنکھا بند تھا۔ تعبیر تو دور کی بات ہے‘ لوڈشیڈنگ نے کبھی کوئی خواب تک پورا نہیں دیکھنے دیا۔ ؎
سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا
دریچہ کھل رہا تھا خواب میں‘ دیوار کر ڈالا
سر کو جھٹکا۔ نیند کا اثر زائل ہوا تو ہنسی آئی! میاں نواز شریف اور دینی مدارس میں پڑھنے والے بچوں کا تذکرہ !! میاں نواز شریف اور سرکاری سکولوں میں فرش خاک پر بیٹھے ساڑھے تین کروڑ بچوں کی فکر!! میاں صاحب کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد آٹھ لاکھ ہے! خدا معاف کرے انہوں نے کبھی بھول کر بھی نظامِ تعلیم کا ذکر‘ کسی تقریر میں ‘ کسی اجلاس میں‘کسی نجی محفل میں نہیں کیا! انہیں ادراک ہی نہیں کہ مختلف اور متحارب نظام ہائے تعلیم قوم کو طبقات میں تقسیم کیے چلے جا رہے ہیں!’’یکساں نظام تعلیم‘‘! کس چڑیا کا نام ہے؟ انہیں مطلق خبر نہیں!
تو پھر مجھے یہ خواب‘ ایسا خواب‘ کیوں دکھائی دیا؟ غور کیا تو ڈور کا سرا ہاتھ میں آیا۔ عمران خان کی تقریر ذہن میں چھائی ہوئی تھی!
عمران خان نے جن مسائل پر بات کی‘ ان پرزرداری صاحب اورشریف برادران نے کبھی سوچا ہی نہیں! آنکھیں بند کر کے تصور کیجیے کہ زرداری صاحب بڑھتے ہوئے قرضوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں! نواز شریف صاحب اظہار تاسف کر رہے ہیں کہ ہر بچہ ایک لاکھ سے زائد رقم کا پیدائشی مقروض ہے! شہباز شریف صاحب رونا رو رہے ہیں کہ ٹیکس چور‘ ملکی معیشت کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں! یہ ناممکن ہے! ایک بلوچی دوست ایک قبائلی سردار کی بات سنا رہا تھا کہ کہا کرتے تھے‘ بال ہتھیلی پر اُگ سکتے ہیں کبوتری انڈے کے بجائے بچے دے سکتی ہے مگر انتقام نہیں چھوڑا جا سکتا! تو ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں‘ کبوتری انڈوں کے بجائے بچے دے سکتی ہے۔ بہت سی اور انہونیاں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں مگر زرداری صاحب اور شریف برادران نظام تعلیم کے بارے میں‘ دینی مدارس اور سرکاری سکولوں میں رُلتے کروڑوں بچوں کے بارے میں‘ ٹیکس چوری کے بارے میں یا کسی ایسے ایشو پر جس میں پیسہ یا لوہا نہ ہو‘ بات کر سکتے ہیں نہ سوچ سکتے ہیں! مریم نواز کو دیکھ لیجیے‘ کتنے عرصہ سے سرگرم سیاست ہیں! ہر روز میڈیا میں اُن کے ارشادات جلی حروف میں اور بلند آواز سے جلوہ گر ہوتے ہیں مگر ایک ایک لفظ چھلنی میں چھان کر دیکھ لیجیے کسی قومی ایشو پر آج تک لب کشائی نہیں کی! اس خاتون کی ساری سیاسی جدوجہد اپنے والد کے گرد گھومتی ہے! مقدمے کیوں چلے؟ پاناما کیوں سامنے آیا؟ نیب کیوں پوچھ گچھ کر رہی ہے؟ نکالا کیوں گیا؟ یہی وہ سوالات ہیں جن میں ان کی نام نہاد سیاست اٹکی ہوئی ہے۔ ان سے نکلتی بھی ہیں تو عمران خان میں الجھ جاتی ہیں!
عمران خان کی لاہور والی تقریر کوئی مثالی خطبہ نہ تھی! گیارہ نکات آسمان سے اترا ہوا صحیفہ نہیں! ان میں جامعیت بھی نہیں! کئی پہلوئوں کا ذکر تک نہیں ہوا۔ مگر کیا یہ خوشگوار تبدیلی نہیں کہ قومی سطح کے ایک سیاست دان نے چند سلگتے مسائل کا ذکر تو کیا اور اس عزم کا اظہار تو کیا کہ ان سے نمٹا جائے گا! اعتراض کرنے کو بہت کچھ ہے۔ دلائل خدا کے وجود کے خلاف بھی بہت دیے جاتے ہیں! کسان ہل چلا رہا تھا، گائوں کا ایک شخص ساتھ والی پگڈنڈی سے گزرا تو سلام دیا۔ کسان نے وعلیکم السلام کے بجائے کہا کہ اپنی بہن کی شادی پر تو تم نے مجھے بلایا نہیں! سلام دینے والے نے کہا اللہ کے بندے‘ میں نے تو تم پر سلامتی بھیجی ہے۔کسان نے جواب دیا جناب! پھر بات سے بات تو نکلے گی! تو عمران خان کے نکات سے باتیں تو نکلیں گی اور نکل رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے خارجہ امور پر بات نہیں کی! یہ ایسے ہی ہے جیسے قورمے اور پلائو کی موجودگی میں سلاد ناکافی ہونے پر اعتراض کیا جائے! یہ اور بات کہ سلاد ایک اہم ڈش ہے!
جن مسائل کا ذکر نہیں کیا‘ مان لیا نہیں کیا! مگر اللہ کے بندو! جن کا کیا‘کیا وہ کم اہم ہیں؟ ؎
تو کارِ زمین رانکو ساختی؟
کہ با آسمان نیز پرداختی؟
آسمان کی پڑی ہے! تو کیا زمین کے بکھیڑے نمٹا لیے؟ ہر سال اربوں روپے خاکِ وطن سے سمیٹ کر دساور منتقل کیے جا رہے ہیں! یہی تو منی لانڈرنگ کا شاخسانہ ہے! عمران خان نے اس پر تشویش کا اظہار تو کیا! دس ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کا نوحہ تو پڑھا!
آپ کا کیا خیال ہے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے لیڈر گنے کے کاشتکاروں کی فکر کریں گے؟ وہ تو خود شوگر مافیا کے ڈان ہیں! ان کی پرواز تخیل کا تو یہ عالم ہے کہ عابدہ حسین خود نوشت میں لکھتی ہیں اپنی زرعی زمین نواز شریف کو دکھائی تو ان کے منہ سے فوراً یہ جملہ نکلا کہ یہاں شوگر مِل کیوں نہیں لگاتیں؟ اِن زخم زخم کاشتکاروں کو اگر شریف برادران نے انصاف دلوانا یا دینا ہے تو پھر آئندہ جنگل میں نِیل گائے کے بچوں پر شیر پہرہ دیا کرے گا!! بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے صوبے کا تذکرہ کرتے ہوئے حال ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ آٹھ سال سے معاملہ وفاق میں پڑا ہوا ہے! تو چار سال سے وفاق میں آپ کی حکومت ہے! آپ نے یہ مسئلہ وہاں حل کرا دیا ہوتا!!
سعدی نے کہا تھا ؎
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ؟
چمگادڑ کی آنکھ دن کے وقت دیکھنے سے قاصر ہے تو سورج کا جو روشنی کا چشمہ ہے‘ منبع ہے‘ کیا قصور؟ خیبر پختونخواہ میں پولیس کے نظام اور کارکردگی۔ دونوں میں۔ خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔ مخالفین نے بھی اعتراف کیا ہے۔ سندھ پولیس کے سربراہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں کے پی کے کا پولیس سسٹم چاہیے!کیا پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اپنے کسی دور اقتدار میں پولیس کے جسد سے سیاست کے سرطان کو نکالنے کی بات کی ہے؟ یہاں تو پولیس کو ذاتی ملازموں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے! عدالت عظمیٰ نے ہزاروں کی تعداد میں ذاتی حفاظت پر مامور پولیس کے جوانوں کو بیگار سے نجات دلائی ہے۔ یہ اربوں روپے کا سالانہ بوجھ تھا جو سیاست دانوں اور حکمران خاندانوں نے قومی خزانے پر ڈالا ہوا تھا! شریف برادران پولیس کو ’’غیر سیاسی‘‘کرنے کے بارے میں ایک لفظ نہیں بولتے۔ آخر کیوں؟
عورتوں کو جائیداد میں شرعی حق دلوانے کے بارے میں بھی کسی سیاسی رہنما نے پہلی بار دعویٰ کیا ہیٖ! اس حمام میں مذہبی رہنما بھی برہنہ ہیں!حقوق نسواں کے بارے میں جدید ’’صاحبِ‘‘ لوگ بھی شور مچاتے ہیں اور مذہبی رہنما بھی! مگر جائیداد میں حصہ دینے کا وقت آئے تو عماموں کے پیچ بھی کھلنے لگتے ہیں اور تھری پیس سُوٹ میں ملبوس مسٹر صاحبان بھی اپنا تُھوکا چاٹنے لگتے ہیں! ایک زمانے میں اپوا(آل پاکستان وومین ایسوسی ایشن) پیش منظر پر چھائی ہوئی تھی۔ یہ جان کر لوگوں کو حیرت ہوئی تھی کہ بہت سی ارکان خود دوسری اور تیسری بیوی تھیں اور بیٹیوں کو جائیداد دینے سے منکر تھیں۔
ہمارے تبلیغی بھائی کہا کرتے ہیں ’’ارادہ تو کر لو‘‘! عمران خان کل کیا کارکردگی دکھائے گا‘ اس کا علم تو عالم الغیب ہی کو ہے۔ مگر یہ کیا کم غنیمت ہے کہ ڈالروں سے خور جینیں بھرنے والے سیاست دانوں کے درمیان‘کھڑے ہو کر‘ اس نے عزم کا اظہار تو کیا ہے! اسے ان مسائل کا ادراک تو ہے! اس نے عوام کو ان مسائل اور ان جرائم کی سنگینی کا احساس تو دلایا ہے! مدتوں پہلے ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا
یہیں ملے گا مجھے میرا انجمن آرا
چلو کہ برف پگھلنے کی صبح آ پہنچی
خبر بہار کی لایا ہے کوئی گل پارا
چلے چلو انہی گم نام برف زاروں میں
عجب نہیں یہیں مل جائے درد کا چارا
No comments:
Post a Comment