Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 29, 2018

خوبصورت بہت ہو تم لیکن


تعجب نہیں کہ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی دانشور جب بھی پنجاب کا ذکر کرے گا تو اس کی مراد پنجاب سے وسطی پنجاب ہی ہو گا۔ اس میں شاید ہی کوئی استثنا ہو۔ حتیٰ کہ جناب سجاد میر جیسا منجھا ہوا جینوئن دانشور بھی پنجاب سے مراد وسطی پنجاب ہی لیتا ہے۔ اس بدقسمتی کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ وہ ہے حقیقت پسندی کا۔ اس لیے کہ وسطی پنجاب والے کے لیے پنجاب کیا ہے‘ وسطی پنجاب ہی تو ہے! سجاد میر صاحب نے عمر عزیز کا ایک حصہ کراچی گزارا ہے۔ اس لیے وہ کراچی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہاں کی سیاسی حرکیات سے اپنے پڑھنے والوں کو ایجوکیٹ کرتے ہیں وگرنہ لاہور کے دانشوروں کی بھاری اکثریت کا حال بقول شاعر اس سے زیادہ نہیں کہ ؎

مری داستانِ غم کی کوئی قید و حد نہیں ہے

ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک

معاف فرمائیے گا، یہ کہنا کہ نسل درنسل منتخب ہونا، اسے عصبیت کہیں یا غلامانہ ذہنیت‘ وسطی پنجاب میں کم ہے درست نہیں ہے۔ ایک تو وسطی پنجاب میں یہی عصبیت کیا کم ہے کہ جنوبی پنجاب‘ مغربی پنجاب اور شمالی پنجاب کو پنجاب صرف اس وقت سمجھا جاتا ہے جب پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنا ہو۔ یعنی جب گائے کو چارہ ڈالنا ہو۔ تاہم دودھ دوہتے وقت پنجاب سے مراد صرف وسطی پنجاب ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت شریف خاندان کا طرز حکومت ہے۔ شریف خاندان کی حکومت فی الواقع وسطی پنجاب کی نمائندہ حکومت رہی ہے اور تادم تحریر ہے۔ خادم اعلیٰ کہلانے والے صاحب میانوالی، اٹک، چکوال، جھنگ، راولپنڈی، خانیوال اور بہاولپور جیسی جگہوں پر کتنی بار گئے ہیں؟ اور گوجرانوالہ، حافظ آباد، قصور فیصل آباد جیسے مقامات پر کتنی بار تشریف لے گئے؟جنوبی پنجاب کے حالیہ دوروں کا ذکر نہیں کیا جا رہا اس لیے کہ ان کا سبب سب کو معلوم ہے) پنجاب پبلک سروس کمیشن میں ممبران کی اکثریت کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے‘ کہاں کے ہیں؟ مغربی ضلع کے دیہات کی منظور شدہ ڈسپنسری کو دس دس سال تک بیس لاکھ روپے کی گرانٹ نہیں ملتی۔ آپ نواز شریف صاحب کی کابینہ اور کچن کیبنٹ دونوں پر غور کر کے دیکھ لیجیے۔

وزیر خزانہ وسطی پنجاب

وزیر دفاع وسطی پنجاب

وزیر خارجہ وسطی پنجاب

وزیر ریلوے وسطی پنجاب

وزیر منصوبہ بندی وسطی پنجاب

وزیر صحت وسطی پنجاب

وزیر پانی و بجلی وسطی پنجاب

وزیر بنیادی حقوق وسطی پنجاب

وزیر تجارت وسطی پنجاب

وزیر امور کشمیر اور گلگت بلتستان وسطی پنجاب

وزیر قانون وسطی پنجاب

وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و مواصلات وسطی پنجاب

وزیر امور مذہبی امور وسطی پنجاب

یہی حال کچن کیبنٹ کا ہے۔ طلال چودھری اور دانیال عزیز کا تعلق بھی وسطی پنجاب ہی سے ہے۔ اس کچن کیبنٹ میں واحد استثنیٰ چودھری نثار علی خان کا تھا جو وسطی پنجاب سے نہیں ہیں۔اور ہمیشہ
 Odd Man-out
رہے، ہاں ایک دو چھینٹے مری اور راولپنڈی پر بھی پڑے ہیں۔

اس عصبیت کا یہ عالم ہے کہ 1999ء میں جب نواز شریف کی دوسری حکومت ختم ہوئی تو ایک معروف انگریزی روزنامے نے دو خبریں نمایاں طور پر شائع کیں۔ ایک یہ کہ وزیر اعظم نے تیس کے لگ بھگ افراد ایف آئی اے کے لیے بھرتی کیے جن میں سے 27یا 26ایک خاص علاقے سے تھے۔ دوسری یہ تھی کہ مرکز میں 44اعلیٰ افسروں کا تعلق، جو کلیدی مناصب پر فائز تھے ایک ہی شہر سے تھا! دکھ کی بات یہ ہے کہ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دانشور بالعموم اور لاہور سے تعلق رکھنے والے دانشور بالخصوص‘ ان پہلوئوں پر ہمیشہ صمٌ بکمٌ رہے۔ اس لیے کہ غالباً باہر کا ادراک ہی نہیں! یہاں ہم ان دانشوروں کا ذکر نہیں کر رہے جو وسطی پنجاب کے نہیں مگر باہر سے آ کر لاہور رہ رہے ہیں۔

اب اُس دوسری عصبیت کی یا تعصب کی یا قبائلی ذہنیت کی سُنیے جو وسطی پنجاب پر چھائی ہوئی ہے اور وہ ہے ذات پات اور برادری! سیاست اس سے مستثنیٰ ہرگز ہرگز نہیں‘ وسطی پنجاب میں آرائیں‘ کشمیری‘ جاٹ اور مغل برادری ازم کا زور ہے اور شدید زور ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ اور گجرات اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ساری سیاست برادری ازم کے گرد گھومتی ہے۔ یہ عصبیت جنوبی پنجاب اور پنجاب کے مغربی اور شمالی اضلاع میں بھی یقینا موجود ہے مگر نسبتاً کم! کون نہیں جانتا کہ قاف لیگ کے عہد اقتدار میں پنجاب کی کس ذات کی پانچوں گھی میں تھیں اور شریف خاندان کے دور حکومت میں کس برادری کا سر کڑھائی میں تھا۔ بس نام کے ساتھ خواجہ یا وانی ہونا کافی تھا۔ یہ حقیقت بھی ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ دوسرے علاقوں کے لیے مختص شدہ بجٹ بار بار ایک مخصوص شہر کی طرف منتقل کیے جاتے رہے تاکہ اس مخصوص شہر میں ترقیاتی منصوبے بڑھ چڑھ کر کامیاب کیے جائیں۔

رہا مسئلہ فوج کا تو فوج کو بھی پنجاب سے اسی طرح منسوب کیا جاتا ہے جس طرح پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنے کے لیے جنوبی اور مغربی اضلاع پنجاب میں شامل کیے جاتے ہیں۔ فوج کے ساتھ عجیب 
Paradox
یہ ہے کہ غیر پنجابی صوبوں کے قومیت پرست اور صوبائیت نواز عناصر فوج کو پنجابی ہونے کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ پنجاب کے جس حصے کی ترقی انہیں چبھتی ہے وہاں سے فوج میں شمولیت برائے نام ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یوں تو فوج میں پورے پنجاب کی نفری شامل ہے مگربھاری۔ بہت بھاری۔ اکثریت میانوالی، اٹک، چکوال، جہلم اور راولپنڈی کے اضلاع سے ہے۔ چکوال پہلے جہلم کا حصہ تھا۔ تلہ گنگ پہلے اٹک میں شامل تھا۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاں کارگل سیاچین مغربی اور مشرقی سرحدوں سے لاشیں زیادہ تعداد میں آتی ہیں۔ ان علاقوں سے بھرتی جاری رکھنے کے لیے انگریز سرکار نے ایک طرف ان اضلاع کو نہری نظام کا حصہ نہ بنا کر آب پاشی سے محروم رکھا دوسری طرف یہاں صنعتیں بھی نہ لگائیں۔لگنے بھی نہ دیں تاکہ جوانوں کو فوج کے علاوہ کوئی روزگار نظر ہی نہ آئے۔ یہ تو بھلا ہو دفاعی پیداوار کے محکموں کا جنہوں نے حویلیاں، واہ، کامرہ اور سنجوال میں فیکٹریاں لگائیں اور بھلا ہو فوجی فائونڈیشن کا جس نے راولپنڈی‘چکوال ‘ جہلم اور اٹک کے علاقوں میں کچھ فلاحی منصوبے پروان چڑھائے۔

پنجاب کے ان پانچ اضلاع کے بعد زیادہ فوجی بھرتی ایبٹ آباد نوشہرہ مردان اور کوہاٹ کے علاقوں سے ہیں۔ اسی لیے غور کریں تو معلوم ہو گا کہ آرمی کے سنٹرز انہی علاقوں میں اور انہی علاقوں کے اردگرد قائم کیے گئے۔ ایک سنٹر جوانوں کے لیے چار کام کرتا ہے۔ بھرتی‘ تربیت‘ ترقیاں اور تعیناتیاں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن۔ اب ذرا ایک نظر سنٹرز پر ڈال لیجیے۔

آرٹلری سنٹر۔ اٹک

آزاد کشمیر رجمنٹ سنٹر مانسر(اٹک)

پنجاب رجمنٹ سنٹر(مردان)

آرمرڈ کور سنٹر نوشہرہ

انجینئرنگ کور سنٹر رسالپور

میڈیکل کور سنٹر ایبٹ آباد

ایف ایف سنٹر ایبٹ آباد

بلوچ سنٹر ایبٹ آباد

سگنل کور سنٹر کوہاٹ

ان مراکز کے محل وقوع میں ایک عامل یہ بھی ہے کہ اکثریت کو ان سنٹرز میں اپنے کاموں کے لیے آنے جانے میں دور دراز کا سفر نہ کرنا پڑے۔ کیوں کہ انہی علاقوں سے اور انہی علاقوں کے نواح سے بھاری تعداد فوج کے لیے خدمات پیش کرتی ہے۔

پنجاب میں نئے صوبوں کی تشکیل ناگزیر ہے اس تشکیل کو موخر تو کیا جا سکتا ہے۔ مستقبل کے پردے سے کھُرچا نہیں جا سکتا۔

جنوبی پنجاب کا صوبہ سامنے نظر آ رہا ہے۔وسطی پنجاب اس پر چیں بہ جبیں ہے۔ مگر پانی سر سے گزر چکا ہے۔ یہی صورت احوال پنجاب کے جنوبی‘ مغربی اور شمالی اضلاع کی ہے۔ وسطی پنجاب از حد ترقی یافتہ حصہ ہے۔ اس کا اپنا فائدہ اس میں ہے کہ الگ صوبہ بنے۔ وسطی پنجاب کو ادراک ہے نہ علم کہ دوسرے حصوں کے ساتھ سوتیلا سلوک ہو رہا ہے۔

بھارت نے جہاں ملکیت زمین کا ڈھانچہ تبدیل کر کے اور زرعی اصلاحات بروقت نافذ کر کے پاکستان پر سبقت حاصل کر لی‘ اسی طرح عملیت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے نئے صوبے بنانے کے حوالے سے بھی پاکستان کی نسبت بھارت زیادہ عقل مند ثابت ہوا۔ بھارتی پنجاب میں تین صوبے بنے۔ آسام کو تین صوبوں میں بانٹ دیا گیا۔ بہار اور یوپی سے نئے صوبے نکلے۔ حال ہی میں آندھرا پردیش سے تلنگانہ کا صوبہ منہا کر دیا گیا۔ کوئی قیامت نہیں ٹوٹی۔ کوئی آسمان نہیں گرا۔ مرکز کو کوئی ہچکی نہیں لگی۔

جناب سجاد میر پنجاب کے کوفی یا غیر کوفی ہونے کے حوالے سے خوبصورت نکات سامنے لائے۔ وہ عسکری صاحب سے اور سلیم احمد سے فیض یاب ہوئے۔ کچھ موضوعات ایسے ہیں کہ سجاد میر بولیں تو ہم سنتے رہیں اور لکھیں تو ہم پڑھتے رہیں۔ یہ فقیر جب سی ایس ایس کر کے کراچی وارد ہوا تو سلیم صاحب کے درِ ادب پر ایک بار ہی حاضری نصیب ہوئی۔ ہاں قمر جمیل صاحب سے طویل نیاز مندی رہی گویا کہ ع

کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی

کوفی اور غیر کوفی کی بحث سے میں نے بصرہ کے مسائل نکالے جو اس کالم میں بیان ہوئے۔ جناب سجاد میر کی خدمت میں غالب کی زبانی التماس ہے کہ ؎

مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات

مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے

اور ہاں! وسطی پنجاب کی خدمت میں ابن الحسن سید مرحوم کا یہ شعر عرض ہے کہ ؎

خوبصورت بہت ہو تم لیکن

دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com