Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, April 29, 2018

حلوے کا نوالہ یا کانٹا؟


اب یہ یاد نہیں کہ ٹرین قرطبہ سے چلی تھی اور بارسلونا جارہی تھی یا بارسلونا سے چلی تھی اور رو م جارہی تھی۔ بہرحال جس ڈبے میٰں سفر کررہا تھا اس میں سامنے والی لمبی سی سیٹ پر ایک لڑکی اور تین لڑکے بیٹھے تھے۔ چونکہ رات تھی اس لیے شب بسری کا ماحول تھی۔ لڑکی اور تینوں لڑکے کالج یا یونیورسٹی کے طالب علم لگ رہے تھے۔ گپ شپ مار رہے تھے۔ دھول دھپا بھی کررہے تھے قہقہے بھی لگا رہے تھے۔ اور ان میں سے ایک تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد گیت کی تان بھی لگا رہا تھا۔ زبان وہ ہسپانوی بول رہے تھے، چھ ماہ اٹلی گزارنے کی وجہ سے میں اطالوی سمجھ لیتا تھا ۔اطالوی اور ہسپانوی زبانیں آپس میں بہنیں ہیں ۔ پرتگالی ان کی تیسری بہن ہے۔ ہمارے ساتھ جو بیوروکریٹ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی ملکوں سے تھے وہ لیکچر سننے کے دوران انگریزی ترجمے سے بے نیاز تھے۔ اطالوی میں سنتے تھے امتحان میں پرچے وہ ہسپانوی میں دیتے تھے۔ اطالوی استاد ان ہسپانوی پرچوں کو براہ راست چیک کرتے تھے۔ جو ہسپانوی ان چار بے فکروں کی میری سمجھ میں آرہی تھی اس سے پتہ چلتا تھاکہ وہ کرسمس کی تعطیلات گزارنے سپین سے فرانس جارہے تھے 
لڑکی نے اپنے بیگ سے بڑی سی چاکلیٹ نکالی ۔اس کا کاغذ اتارا اور کھانا شروع کردی۔ ایک لڑکے نے مانگی۔لڑکی نے قہقہ لگایا اور دینے سے انکار کردیا۔ دوسرے لڑکے نے مانگی لڑکی نے پھر انکار کردیا۔ اور مزے لے لے کر کھاتی رہی لڑکوں نے اس سے چھیننا چاہی یہ منظر میرے لیے دلچسپ تھا اور سبق آموز !” جغرافیائی فائدہ “ اس لڑائی میں لڑکی کو یہ تھا کہ وہ سیٹ کے کنارے پر تھی اور تینوں لڑکے ایک طرف بیٹھے تھے۔ جتنی دیر وہ چاکلیٹ کھاتی رہی تینوں لڑکے اس سے چھیننے کی جدو جہد کرتے رہے۔ آنکھوں نے یہ ناقابل یقین منظر دیکھا کہ اس نے ایک ہاتھ سے تین اپنے ہم عمر لڑکوں کو روک رکھا تھا اور دووسرے ہاتھ سے چاکلیٹ کھا رہی تھی۔ چاکلیٹ ختم ہوگئی تو چاروں نے زور زور سے قہقہے لگائے۔

ہم مغرب میں رات دن کیڑے نکالتے ہیں اور یہ بات کہ بجلی سے لے کر ٹیلی ویژن تک انٹر نیٹ سے لے کر موبائل فون تک دل کی سرجری سے  ہزاروں لائف سیونگ ادویات تک مغرب کے نقال ہیں ۔ دریوزہ گر ہیں اور طفیلی ہیں ! آج جذباتی عوام سے واہ واہ کرانے کے لیے ہم نعرہ لگاتے ہیں کہ مغرب نے عورت کو “شمع محفل” بنادیا ہے مگر بھول جاتے ہیں کہ مشرق میں تو عورت فراعنہ مصر کے زمانے ہی سے شمع محفل تھی۔عباسیوں سے لے کر عثمانی خلفا تک سلاطین دہلی سے لے کر مغل شہنشاہوں تک عورت کو جس “احترام “اور “پردے” میں رکھا جاتا تھا کسی سے پوشیدہ نہیں ۔عباسیوں کے عہد میں تو باپ بیٹے کا ایک ہی کنیز پر دل آجانا کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی۔ کس  مشرقی حکمران کے دربار میں رقاصائیں اور گانے والیاں نہیں تھیں ؟الناس علی دین ملو کہم عوام اپنے حکمرانوں کی تقلید کرتے تھے۔ یہ ثقافت ،یہ کلچر، یہ سب کچھ صرف درباروں میں نہیں تھا ہر نواب ہر وزیر یہی کچھ کرتا تھا اور شہر شہر قریہ قریہ   یہی کچھ ہوتا تھا۔ مینا بازار کا موجد کوئی یورپی یاامریکی نہیں تھا۔ جہانگیر کے زمانے میں یہ شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ جہانگیر کے زمانے کے لکھے ہوئے تذکرے پڑھ لیجیے۔ وہ مینا بازار کا دورہ کرتا تھا اور جس سٹال پر گھوڑے یا پالکی سے اتر کر جاتا اس کا مطلب تھا سٹال والی پسند آگئی ہے۔

یہ ایک طویل داستان ہے جو لوگ یہ سمجھ اور سمجھا رہے ہیں کہ مغرب میں ہر عورت  فاحشہ ہے اور خاندانی نظام منہدم ہوچکا ہے ،جا کر ،رہ کر، دیکھ لیں کہ ایسا نہیں ہے اور ہر گز نہیں ہے۔ یہ لوگ بھی ماں باپ کی ایسی   ہی خدمت کرتے ہیں جیسے ہم کرتے ہیں ۔ ہمیں مغرب کے ہزاروں اولڈ ہوم تو نظر آجاتے ہیں اور بوڑھے اور بوڑھیاں اپنے ہاں کی دکھائی نہیں دیتیں جنہیں ان کے بیٹو ں اور بہوؤں نے یا بیٹوں نے بیویوں کے کہنے پر گھرو ں سے نکال دیا ہے۔ اولڈ ہوم اب کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں  بھی بن رہے ہیں اور چل رہے ہیں ۔فرق یہ ہے کہ یہاں بوڑھوں کو مارا پیٹا جاتا ہے جب کہ مغرب کے اولڈ ہومز میں ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں ! یہ کالم نگار لڑکپن میں تھا جب سنا کہ گاؤں میں ایک بڑھیا کو اس کے بیٹے نے گھرسے نکال دیا ۔میرے دادا اور دادی اسے اپنے گھر لے آئے۔ اس کا دوسرا بیٹا  شہر میں آڑھتی تھا اور امیر۔ اس نے بھی رقم تو بھیجی مگر ما ں کو پاس نہ رکھا۔ جن ملکوں کو ہم نے دشنام طرازی کی دھار پر رکھا ہوا ہے اور دن رات ان کی غیبت کرتے ہیں ان ملکوں میں اپنی آنکھو ں  سے دیکھا کہ بوڑھوں کے گھروں میں رضا  کار جاتے ہیں صفائی کرتے ہیں سودا سلف لاتے ہیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں ۔ ایک چینی خاتون آسٹریلیا میں اپنی والدہ سے ملوانے اولڈ ہوم لے گئی ،والدہ کی عمر نوے سے اوپر تھی ۔ہر روز اس کے کمرے اور غسل خانے کی صفائی ہوتی تھی۔ وقت پر دوا دی جاتی تھی ۔ہر ضرورت کا خیال رکھا جاتا تھا ۔خاتون سے پوچھا تم اسے اپنے گھر کیوں نہیں رکھتیں کہنے لگی پہلے گھر ہی میں تھی ۔میں شام کو نوکری سے آتی ہوں ہر روز صفائی نہیں کرسکتی ۔د ن بھر اکیلی ہوتی تھی۔ یہاں سارا دن ٹی وی روم میں اپنی ہم عمر عورتوں کے ساتھ گپ شپ کرتی ہے۔

بات دور نکل گئی! جس لڑکی  کا واقعہ دیکھا اور لکھا ہے  اسے بچپن سے یہ تربیت نہیں دی گئی تھی کہ تم نے اکیلے گھر سےباہر نہیں نکلنا۔ بھائیوں کے سامنے بولنا نہیں ، وہاں لڑکیوں کو جسمانی طور پر چاق و چوبند بنایا جاتا ہے۔ کھیلوں میں حصہ لیتی ہیں ۔بازار سے سودا سف لاتی ہیں۔اکڑ کر، ڈٹ کر، بلا جھجھک بے خوف ،بات کرسکتی ہیں ،پھر انہیں ہراساں کوئی نہیں کرسکتا۔ جسمانی طور پر نہ جنسی حوالے سے!

ایسا نہیں کہ وہاں ہراساں کسی کو نہیں کیا جاتا۔ وہاں بھی نوکری کی مجبوریاں ہیں  اور بلیک میلنگ بھی ہوگی مگر نسبت تناسب دیکھیں تو ہماری ہاں کی نسبت بہت کم!!

یہاں  بھی جو لڑکیاں گھونگھٹ سے آزاد ہیں جنہیں اپاہج بنا کر چھوئی موئی کی طرح نہیں پالا جاتا۔ انہیں کوئی ہراساں نہیں کرسکتا ۔آپ کا کیا خیال ہے جو لڑکیاں  جوڈو کراٹے سیکھتی ہیں ہاکی اور کرکٹ کھیلتی ہیں جسمانی فٹ نس کا خیال رکھتی ہیں انہیں ہراساں کرنے کے کتنے معاملات ہوتے ہوں گے ؟ اسی ملک کا واقعہ ہے اور آج کا نہیں ربع صدی پیشتر کا ہے۔ ایک افسر جو ہراساں کرنے کے لیے معروف   تھا اور اچھا خاصا اس حوالے سے  بدنام  تھا نیا نیا ایک وزارت میں تعینات ہوا ایک خاتون جونئیر افسر تھی اور اس کی ماتحت تھی اس کے کمرے میں آئی ۔فائل د ی۔ ضروری بات کی اور چلنے لگی۔ افسر نے چائے کے لیے بیٹھنے کی دعوت دی۔ خاتون نے معذرت کی اور بتایا کہ وہ چائے اپنے کمرے میں ہی پیتی ہے کمرے میں موجود نائب قاصد کی (جو اگر کمرے کےاندر نہیں بھی تھا تو دیکھ رہا تھا )روایت یہ ہے کہ غالباً صاحب نے خاتون کو بازو سے پکڑ کر کرسی پر بٹھانے کی کوشش کی پھر اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا کہ ایک ثانیے سے بھی کم وقت میں صاحب فرش پر چت پڑے تھے۔ اس لیے کہ خاتون پنجاب یونیورسٹی سے صرف ایم اے نہیں تھی۔کراٹے میں بلیک بیلٹ بھی تھی۔

عورت نے اگر ہراساں ہونے سے بچنا ہے تو اسے چھوئی موئی بننے یا بنانے کی پالیسی سے بچنا ہوگا اور اسے سیلف ڈیفنس سیکھنا ہوگا۔ اسے کڑک کر بے خوفی سے بات کرنا ہوگی۔ جیسے کہ فرمایا گیا کہ آواز میں ملائمت نہ پیدا کرو کہ کسی کو غلط فہمی ہی نہ ہو۔ جن زمانوں کو ہم قابل تقلید سمجھتے اور بتاتے ہیں ان زمانوں میں خواتین تمام رائج ورزشوں کھیلوں اور جسمانی فٹ نس کے میدان میں درجہ کمال کو پہنچتی تھیں ۔
گھوڑ سواری کرتی تھیں ،شمشیر زنی میں طاق تھیں ، نیزہ بازی میں مہارت حاصل کرتی تھیں ، شاید ہی ان حقائق سے کوئی انکار کرسکتا ہو، آج کی عورت کویہ بھی بتانا ہوگا کہ ہراساں کی جائے تو اسے بولنا ہے ہاتھ چلانا ہے ہتھیار آزمانا ہے تھپڑ مارنا ہے اور اس کے دور اندیش عقل مند ماں  باپ نے کراٹے یا کشتی سکھانے کا انتظام کیا تھا تو ہراساں کرنے والے کے چہرے پر لات بھی رسید کرنی ہے۔ تاکہ وہ چاروں شانے چت گرے۔ عورت کو حلوے کا نوالہ بننے کے بجائے ایسا کانٹا ثابت ہونا چاہیے کہ ہڑپ کرنے والے کے گلے میں جاں کنی کا پیغام بن  کر اٹک جائے۔

ہاکر حضرات کی خدمات میں بارِ دگر۔

پرتھ سے اور ماٹر یال سے اور نیویارک سے اور سڈنی سے اور جاپان سے اور نیوزی لینڈ سے اخبار بین پاکستانیوں کے فون آرہے ہیں اور ای میلیں بھی !غیر ممالک میں بسنے والے ان پاکستانیوں سے کالم نگاری کے حوالے سے ایک تعلق ہے اور محبت کا رشتہ ہے۔ یہ ہمارے کالم پڑھتے ہیں کبھی پسند کرتے ہیں ،کبھی تنقید ۔جھگڑتے بھی ہیں اور پیار بھی کرتے ہیں ۔ یہ جو فیصلہ کیا گیا ہے کہ دن کے گیارہ بجے تک پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات کو انٹر نیٹ پر منتقل نہیں کیا جائے گا اس فیصلے سے یہ پاکستانی بری طرح متاثر ہوئے ہیں !ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور وہ اپنےوطن کا احوال جاننے سے گویا محروم کیے جارہے ہیں ۔ ان کے فراغت کے اوقات لگے بندھے ہیں ۔ ان ملکوں میں ہمارے ہاں کی طرح کھلی چھٹی نہیں ہے کہ یہ ڈیوٹی کے اوقات میں اخبارات کا مطالعہ کرسکیں !ان کے ٹائم  ٹیبل تہس نہس ہوگئے ہیں ! ہاکر حضرات کی تنظیم سے بالخصوص ان کے مرکزی رہنما جواں ہمت ٹکہ خان سے گزارش ہے کہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور اگر اندرون ملک پاکستانیوں کی تکلیف کا نہیں تو بیرون ملک رہنے والے کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کو کچھ اہمیت دیں ۔

کچھ تارکین وطن نے یہ تجویز دی ہے کہ پہلے کی طرح اخبارات  صبح صبح ہی انٹر نیٹ پر چڑھا دیے جائیں مگر یوں کہ صرف بیرون ملک پاکستانی اس تک رسائی حاصل کرسکیں اندرون ملک بے شک گیارہ بجے کے بعد رسائی ہو۔ اگر تکنیکی طور پر ممکن ہے تو ایسا ضرور کرنا چاہیے۔ ہاکروں  کی تنظیم کو ہمارا مشورہ ہے کہ اس معاملے میں سختی سے کام نہ لے  اور لچکدار رویے کا مظاہرہ کرے۔

یوں بھی زمانے کی رفتار کے آگے بند باندھنا لاحاصل ہے ۔یوٹیوب بند کی گئی تو اس کا فوراً توڑ نکال لیا گیا ۔اگر یہ بندش ،یہ سختی اور یہ یک طرفہ پابندی جاری رہی تو انٹر نیٹ کی دنیا اس کا بھی حل نکال لے گی۔ کاروبار کی ایک نئی قسم ایجاد ہوگی ۔جس پر اخباری اداروں کا کنٹرول ہوگا نہ کسی یونین کا!

ہم نیک بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں

مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com