…واشنگٹن کے مکان میں بیٹھ کر‘ ایک سرد‘ ٹھٹھرتی شام‘ راشد اور راشد کی بیگم نے فیصلہ کر دیا۔
ستر کا عشرہ تھا۔ راشد نے بینک کی ملازمت چھوڑی۔ امریکہ پہنچ گیا۔ ڈش واشنگ سے ہوتے ہوتے اخبارات و رسائل کا سٹال لگایا پھر شہریت مل گئی۔ پھر سرکاری نوکری! امریکی سرکار کی ملازمت! وارے نیارے ہو گئے۔ کئی سال اس کی فیملی پاکستان میں انتظار کرتی رہی۔ کبھی کبھی میں اس کے گھر والوں سے پوچھ لیتا کہ رقم کی ضرورت تو نہیں؟ ہمیشہ ایک یہ جواب ملتا کہ رقم تو امریکہ سے مسلسل آ رہی ہے رقم کا تو ایشو ہی نہیں! ایشو تو راشد کے پاس پہنچنا ہے۔
پھر فیملی بھی پہنچ گئی۔ تینوں بچے دس بارہ سال سے کم عمر کے تھے۔ امریکہ ہی میں جوان ہوئے۔ وہیں پڑھا جو کچھ بھی پڑھا۔ اب بیٹی جوان تھی! واشنگٹن کے مکان میں بیٹھ کر اُس سرد ٹھٹھرتی شام راشد اور راشد کی بیگم نے فیصلہ کیا کہ بیگم کی بہن جو پاکستان میں ہے‘ اس کے بیٹے کے ساتھ شادی کریں گے۔ بیٹا پاکستان میں سرکاری افسر تھا! وہ لڑکی جو بیس سال سے امریکہ میں رہ رہی تھی۔ جسے پاکستان میں گزارے ہوئے بچپن کے چند سال مشکل سے یاد تھے۔ دلہن بنا کر پاکستان پہنچا دی گئی۔ ہنی مون کا عرصہ ختم ہو گیا تو دلہن نے دیکھا کہ زمین بھی اور ہے‘ آسمان بھی مختلف ہے۔ ٹریفک سے لے کر بازار تک‘ گھر سے لے کر باہر تک‘ ہسپتالوں سے لے کر دفتروں تک‘ پانی سے لے کر کھانے تک ہر شے مختلف ہے۔ دنیا ہی اور ہے۔ دل اس کے سینے میں ڈوبنے لگا۔ جیسے سینہ دل کے لیے تنگ ہو رہا تھا۔ اس نے میاں سے تقاضا شروع کر دیا کہ امریکہ چلے۔ میاں نے کہا سرکاری نوکری ہے‘ پنشن ملے گی کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ پھر ماں کااکلوتا بیٹا ہوں، بیوہ بہن کا واحد سہارا۔ دلہن نے اعلان کر دیا کہ پھر میں نہیں یہاں رہنے کی! دل کا جانا ٹھہر گیاہے صبح گیا کہ شام گیا۔ داماد نے امریکہ سسر سے بات کی! سسر کی عقل پر پڑا ہوا پردہ پہلے سے زیادہ دبیز ہو گیا۔ سبحان اللہ! کیا نکتہ بتایا’’میری بیٹی کا پاسپورٹ قبضے میں لے لو پھر کیسے آئے گی!‘‘ دلہن کے پاسپورٹ پر قبضہ کر لیا گیا۔ دلہن کو معلوم ہوا تو اُس نے میاں اور باپ دونوں کو للکارا اور دھمکی دی کہ پاسپورٹ واپس کرو ورنہ نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہو جائو! دھمکی کارگر ہوئی۔ پاسپورٹ واپس مل گیا دلہن جہاز میں بیٹھی بحرِ اوقیانوس پار کیا واپس اپنی دنیا میں پہنچی۔ سجدۂ شکر ادا کیا!
اب میاں کو بیوی کی جدائی دیمک کی طرح چاٹنے لگی! ایک دن اس نے بھی سرکاری ملازمت کو‘ ماں کو بیوہ بہن کو خیر باد کہا اور امریکہ پہنچ گیا۔ کچھ دن سسرال میں خاطر تواضع ہوئی۔ پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑا۔ گرد بیٹھی‘ حو اس بحال ہوئے تو آنکھوں سے پردہ ہٹا! نفس نے ملامت کی۔ یہ تونے کیا کیا؟ ماں کو چھوڑ آئے! بیوہ بہن کا کیا بنے گا؟ اچھی بھلی افسری تھی! کیا حماقت کی! ‘‘ نوجوان کو اپنے کیے پر ندامت ہوئی۔ غصہ آیا۔ غصہ بیوی پر اتارا طلاق دے دی!
یہ سو فیصد نہیں‘ ایک سو دس فیصد حقیقی زندگی کا ٹکڑا ہے! تین گھر برباد ہوئے! اس واقعہ کو بیس سال ہو چکے۔ ایسے کئی واقعات لکھنے والے کے ذاتی علم میں ہیں۔ ایک روتے ہوئے بوڑھے باپ سے پوچھا تم نے امریکہ میں رہنے والی لڑکی سے بیٹے کو کیوں بیاہا؟ روتا تھا اور کہے جاتا تھا۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں اس نے کب شادی کی!
تو کیا بیس سال بعد تارکین وطن نے کچھ سیکھا ہے؟ کچھ عقل آئی ہے؟ کیا لڑکیوں کی برآمد اور دامادوں کی درآمد کا سلسلہ رُکا ہے؟ کیا اتنی موٹی بات نہیں سمجھ میں آ رہی کہ جہاں خود رہ رہے ہو‘ وہاں اب بیٹی کو کیوں نہیں رہنے دیتے؟ یا برطانیہ اور امریکہ میں پلنے بڑھنے والی بیٹی کے لیے ایک ہونق‘ نیم تعلیم یافتہ‘ بھانجا یا احمق‘ گائودی‘ بھتیجا کیوں درآمد کرنے پر تُلے ہو؟ حقائق بتاتے ہیں کہ عشروں پر عشرے گزر رہے ہیں مگر ہمارے تارکین وطن اُسی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں!
تازہ ترین واقعہ نے تو پاکستان کا نام پورے برطانیہ بلکہ پوری دنیا میں ’’روشن‘‘ کر دیا! کیا تاریخ سازی ہے جو وجود میں آ رہی ہے! برطانیہ میں زبردستی شادی کے خلاف قانون2014ء میں پاس ہوا۔ اس قانون کے تحت پہلی سزا یافتہ مجرم ایک پاکستانی نژاد خاتون ہے! ع یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا! اس عورت کی بیٹی تیرہ برس کی تھی جب ماں نے پاکستان لے جا کر نکاح ایک ایسے شخص سے کر دیا جو عمرمیں سولہ سال بڑا تھا۔ تیرہ سالہ بچی حاملہ ہو گئی۔ واپس برطانیہ آ کر اسقاط کرایا گیا۔ لڑکی ذہنی تنائو میں مبتلا ہو کر نشہ کرنے لگی۔ پھر گزشتہ سال اٹھارہ برس کی ہوئی تو ماں نے ایک اور ڈرامہ کیا۔ تعطیلات کے بہانے پاکستان لے گئی وہاں زبردستی شادی کی۔ لڑکی نے سفارت خانے سے رابطہ کیا۔ حکومت برطانیہ کی مدد اور مداخلت سے لڑکی واپس برطانیہ پہنچی اور معاملہ عدالت میں لے گئی۔ عورت نے جھوٹا بیان دیا کہ شادی نہیں ہوئی۔ مگر لڑکی نے سسکتے ہوئے جیوری کو بتایا کہ کس طرح شادی کی تیاریاں اس کے انکار اور احتجاج کے باوجود کی گئیں۔ کس طرح زبردستی اس سے ’’ہاں‘‘ کہلوائی گئی۔ کس طرح اسے دھمکایا گیا کہ اس کا پاسپورٹ جلا دیا جائے گا۔ جج نے اس مقدمے کو نئی نوعیت کا مقدمہ قرار دیا۔ عورت کو جب جیل کی سزا سنائی گئی تو اس کی بیٹی عدالت کی گیلری میں بیٹھ کر یہ منظر دیکھ رہی تھی! یہ مئی کے آخری ہفتے کا واقعہ ہے!
برطانیہ میں تارکین وطن کے ساتھ ایک ظلم یہ ہوا۔ یا یہ ظلم اپنے ساتھ اور اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ انہوں نے خود کیا۔ کہ عامل‘ پیر فقیر‘جادو ٹونے کرنے والے اور فرقہ پرست مولوی بھی کثیر تعداد میں درآمد کر لیے۔ برمنگھم ‘ مانچسٹر اور بریڈ فورڈ میں بے شمار چھوٹے چھوٹے اور کہیں بڑے بڑے پاکستان ہیں جہاں یہ جادو ٹونے کرنے والے جعلی پیر‘ تعویذ فروش‘ اور فرقہ واریت پھیلانے والے نام نہاد عالم اپنے اپنے کاروبار چلا رہے ہیں۔ بھارتی تارکین وطن کی نئی نسل آگے بڑھ گئی۔ صحافت‘ وکالت‘ پروفیسری‘ سارے شعبوں میں خوب ترقی کی۔ ہمارے پاکستانیوں کی جوان نسل میں سے اچھی خاصی تعداد اب بھی ایتوار بازاروں میں ٹھیلے لگا رہی ہے! ایسا نہیں کہ سب نے یہی کچھ کیا۔ بہت سوں نے زندگی کے میدان میں کامیابیاں بھی حاصل کیں مگر اکثریت جہاں تھی وہیں رہی۔ ایک قصبے گلوسٹر میں چند ماہ رہنے کا اتفاق ہوا۔ باقاعدہ نوٹ کیا کہ پاکستانیوں کی اکثریت اقتصادی لحاظ سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں‘ مزدوریاں‘ معمولی نوکریاں‘ اوپر سے جو واعظین کرام بھارت اور پاکستان سے آ کر وعظ فرماتے تھے وہ ان معمولی نوکریوں کو بھی دنیا پرستی کے کھاتے میں ڈالتے تھے۔ ایک واعظ سے اس قلم کار نے کہا کہ آپ ان مسلمان بھائیوں کو ترغیب کیوں نہیں دیتے کہ یہاں آئے ہیں تو محنت کر کے معاشی میدان میں ترقی کریں‘ اپنے اپنے شعبوں میں کسبِ کمال کریں پھر یہ دین کی بھی خدمت زیادہ موثر انداز میں کر پائیں گے۔ حضرت نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں کسی صدیوں پرانی متروک بلکہ مردہ زبان میں بات کر رہا ہوں۔ کچھ دیر سے منہ کھولے بات کرنے والے کو دیکھتے رہے پھر ماشاء اللہ انشاء اللہ کی گردان کی اور کسی اور ملاقاتی کی طرف متوجہ ہو گئے۔
ان سارے عوامل نے پاکستانیوں کے مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی نہ آنے دی! یہ بات سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کا عالم ہونا یا پی ایچ ڈی ہونا ضروری نہیں کہ جو لڑکی ایک خاص ماحول میں پلی بڑھی، تعلیم حاصل کی جہاں اس کی دوستیاں اور واقفیت ہے‘ جہاں وہ اپنے آپ کو نارمل سمجھتی ہے‘ اُسے وہاں سے اکھاڑ کر دھوکے سے واپس لانا پھر زبردستی شادی کرانا ایک احمقانہ اقدام ہے! یہ ایک تناور درخت کو اکھاڑ کر گملے میں لگانے والی بات ہے! یہ سب آپ کو اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب آپ نے برطانوی ویزا لیا تھا۔ جب پاسپورٹ ملنے پر جشن منایا تھا۔ جب پاکستان جا کر رشتہ داروں کو لندن اور برمنگھم کے اور مانچسٹر کے قصے سنا کر مرعوب کرتے تھے۔ اب جب بیٹی جوان ہوئی ہے تو آپ کو اس کا جینز پہننا بھی برا لگنے لگا ہے اور اپنی مرضی کی شادی کرنا بھی! خود تو اپنی جوانی آپ نے برطانیہ میں گزاری‘ اُس کی جوانی کو آپ پاکستان کے گلی محلوں میں مقید کرنا چاہتے ہیں اور اس مرد کے ساتھ باندھنا چاہتے ہیں جس کا علم جنرل نالج
Exposure
لڑکی کے مقابلے میں اگر صفر نہیں تو از حد کم ضرور ہے! واہ ! سبحان اللہ! گھوڑے کو آپ آگے سے ہٹا کر‘ تانگے کے پیچھے باندھنا چاہتے ہیں۔
حالیہ مقدمے سے‘ جو پوری دنیا کے میڈیا میں گردش کر رہا ہے‘ ہمارے تارکین وطن کو سبق سیکھنا چاہیے ورنہ وقت کا سیلِ رواں بہت بے رحم ہے!
I