Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, February 03, 2025

تاجکستان کا رسم الخط …غلطیاں اور غلط فہمیاں

Tajiki or persian Tajik is a dialect of Persian written in Cyrillic. Anyone passionate about the Persian language can learn Tajik Script.
''تاجکی یا تاجک فارسی‘ فارسی کا ایک لہجہ ہے جو روسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ فارسی زبان کا کوئی بھی شائق تاجکی رسم الخط سیکھ سکتا ہے‘‘۔
''تناقض فی الاصطلاح‘‘ 

(Contradiction in terms) 

کا یہ مایوس کُن مظاہرہ میڈیا کرتا یا کوئی اور‘ تو قابلِ توجہ نہ ہوتا مگر یہ اعلان ایک یونیورسٹی کی طرف سے ہے۔ ایک ایسی یونیورسٹی جو زبانوں کی تعلیم کے لیے معروف ہے اور دارالحکومت کی بااعتبار یونیورسٹیوں میں سرفہرست ہے۔ یہ اعلان تاجکی پڑھانے کے کسی پروگرام کے حوالے سے ہے۔ جس طرح تاریخ پڑھانے کے لیے فلسفۂ تاریخ کا علم لازم ہے اور جس طرح اقتصادیات کے استاد کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی معاشی تاریخ کا علم ضروری ہے‘ بالکل اسی طرح زبان پڑھانے کے لیے اس زبان کی تاریخ اور تاریخی ادوار سے آشنائی ازحد ضروری ہے۔ اب اگر پڑھانے والا روسی اور تاجکی رسم الخط کو متبادل لفظ کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘ اور وہ بھی ایک یونیورسٹی میں‘ تو یہ علم کے ساتھ زیادتی ہے۔
تاجکی زبان روسی رسم الخط 

(Cyrillic) 

میں لکھی جا رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ازبک‘ قازق اور کرغستانی زبانیں روسی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں۔ اگر اسے تاجکی رسم الخط کہیں گے تو پھر کیا یہ بھی کہیں گے کہ قازق اور ازبک بھی تاجکی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کہہ سکتے! اگر برطانوی استعمار‘ برصغیر کی زبانوں پر خدا نخواستہ‘ انگریزی رسم الخط مسلط کرتا اور ہم اردو انگریزی رسم الخط میں لکھ رہے ہوتے تو کیا ہم اسے اردو رسم الخط کہتے؟ نہیں بلکہ اسے انگریزی رسم الخط کہتے۔ ترکی لاطینی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے۔ اسے ترکی رسم الخط نہیں کہا جاتا۔ لاطینی ہی کہا جاتا ہے۔
مظالم تو انگریزوں نے برصغیر پر بھی بہت کیے مگر جو سلوک روسیوں نے ترکستان کے ساتھ کیا‘ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ انیسویں صدی کے وسط میں ٹوٹل بائیس سال کے عرصہ میں زار کی فوجوں نے وہ سارا ترکستان‘ جو سیر دریا کے جنوب میں تھا‘ فتح کر لیا۔ فاتح ترکستان جنرل کوف فرغانہ کی ایک مسجد میں سجدے میں گئے ہوئے نمازیوں کی گردنوں پر پاؤں رکھ کر گزرا۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر بالشویک انقلاب آ گیا۔ سرخ انقلابیوں نے سادہ دل ترکستانیوں کو آزادی کا لالچ دے کر ساتھ ملا لیا اور جب زار سے فارغ ہوئے تو وعدے سے پھر گئے۔ جسے تفصیل میں دلچسپی ہو‘ اسے بسماچی تحریک کی تاریخ پڑھنی چاہیے جو ترکستان کی آزادی کے لیے چلی تھی۔ قصہ مختصر‘ غلام ترکستان زارِ روس سے بالشویک اشتراکیت کو منتقل ہوا۔ اشتراکیوں نے غلامی کو پختہ تر کرنے کے لیے دو زبردست کام کیے۔ ایک یہ کہ ترکستان کو پانچ ریاستوں میں تقسیم کر دیا جو آج قومی ریاستوں (نیشن سٹیٹس) کے طور پر قازقستان‘ ازبکستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان کے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔ یہ تقسیم اس طرح کی گئی کہ لسانی ہم آہنگی نہ پیدا ہو۔ مثال کے طور پر فارسی بولنے والے دو بڑے شہر‘ سمرقند اور بخارا‘ تاجکستان کے بجائے ازبکستان میں ڈال دیے گئے۔ یہ تقسیم مکمل طور پر بندر بانٹ تھی۔ دوسرا بہت بڑا قدم روسی استعمار نے جو اٹھایا وہ رسم الخط کی جبری تبدیلی تھی۔ عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط بزور نافذ کیا گیا۔ اس کے دو مقاصد تھے۔ اول ان ملکوں کو باقی مسلم دنیا سے تہذیبی طور پر کاٹ دینا۔ دوم‘ انہیں اپنے ماضی کے ادبی اور علمی ورثے سے بھی الگ کر دینا اور تہذیبی طور پر مغرب کا دست نگر کر دینا۔ بدقسمتی سے اتا ترک نے ترکی میں لاطینی رسم الخط نافذ کیا تو سوویت استعمار کے دل میں ڈر پیدا ہوا کہ اس طرح یہ ریاستیں ترکی کے قریب ہو جائیں گی۔ چنانچہ رسم الخط دوسری بار تبدیل کر دیا گیا۔ اس بار سیدھا سیدھا روسی رسم الخط مسلط کیا گیا۔ اس سے تاجکستان سمیت ساری ریاستیں ایک بار پھر ایک درد ناک مرحلے سے گزریں۔ سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت ترکی کی ہے جو دنیا کی واحد زبان ہے جو آج بیک وقت چار رسم الخط بھگت رہی ہے۔ اول لاطینی رسم الخط جو ترکیہ میں رائج ہے۔ دوم روسی الخط جو وسط ایشیا میں رائج ہے۔ سوم عربی فارسی رسم الخط جو افغانستان کے ازبک استعمال کر رہے ہیں۔ (کیا آپ کو معلوم ہے کہ شمالی افغانستان کو ترکستان صغیر کہا جاتا ہے) اور چوتھا رسم الخط جو سنکیانگ کے ایغور ترک استعمال کر رہے ہیں! یہ ترک ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں مگر ایک دوسرے کی تحریر نہیں پڑھ سکتے۔ نوے کے عشرے میں جب وسط ایشیائی ریاستوں سے تاجروں کے وفود آنے لگے تو میرے استاد جناب اسد اللہ محقق‘ جو افغان ازبک تھے‘ ان وفود کی ترجمانی کے فرائض سر انجام دیا کرتے تھے۔ وہ اُس زمانے میں نمل میں تاجکی کے استاد کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ جناب اسد اللہ محقق صحیح معنوں میں ہفت زبان تھے اور اردو‘ فارسی‘ ازبک‘ پشتو‘ روسی‘ عربی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ میں ازبک پڑھنے کے لیے دو سال ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا!
رسم الخط کی تبدیلی سے سوویت استعمار اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوا۔ کروڑوں کتابیں راتوں رات بے معنی ہو گئیں۔ لائبریریاں علم کی لاشوں میں بدل گئیں۔ تمام علمی‘ ادبی‘ دینی اور سماجی کتب کے ذخیرے کو نئے رسم الخط میں بدلنا ممکن ہی نہ تھا۔ رسم الخط ایک قوم کی شناخت ہوتا ہے۔ یہ تہذیبی لباس کا درجہ رکھتا ہے‘ روسیوں نے ظاہری لباس کو بھی تبدیل کر دیا اور تہذیبی لباس کو بھی! نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جو لوگ ان ریاستوں پر آمرانہ اقتدار قائم رکھے ہوئے ہیں وہ اندر سے روسی ہی ہیں۔ کچھ کی بیگمات روسی ہیں۔ یوں روس کے غیر مرئی اثر ونفوذ میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی۔ میں وسط ایشیا کے کئی بڑے بڑے شہروں میں کئی بار گیا ہوں خاص طور پر بخارا اور سمرقند کی گلی گلی‘ کوچہ کوچہ ماپا ہے۔ ہفتوں خاک چھانی ہے۔ یوں لگتا ہے سب کچھ وہی ہے مگر زبان (جِیب) کاٹ دی گئی ہے۔ جیسے درمیان میں دیوار نہیں‘ پردہ ضرور لٹکا ہوا ہے۔ فارسی وہی ہے جسے ہم دری کہتے ہیں۔ (غنیمت ہے کہ نام نہاد تہرانی لہجہ جس نے برصغیر کی فارسی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے‘ سمرقند اور بخارا میں نہیں پہنچ سکا۔ وہاں فارسی اسی طرح شفاف اور خالص ہے جیسی صدیوں یہاں پڑھی جاتی رہی اور پڑھائی جاتی رہی) مگر جیسے ہی آپ کسی کو فارسی میں کچھ لکھ کر دیتے ہیں یا کوئی آپ کو کچھ لکھ کر دیتا ہے تو تاریکی کا ایک پردہ درمیان میں تن جاتا ہے۔ اگر آپ روسی حروفِ تہجی سے نابلد ہیں تو فارسی اور ترکی جانتے ہوئے بھی اَن پڑھ ہیں۔ بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ آپ درجنوں بار بھی جائیں تو کوئی کتاب نہیں خرید سکتے۔ کتاب فروشوں کے پاس جو کچھ ہے‘ سب روسی رسم الخط میں ہے۔ آپ کسی لائبریری سے متمتع نہیں ہو سکتے۔ جامی اور علی شیرنوائی کے مجسمے تو دیکھ سکتے ہیں مگر ان کی سوانح‘ ان کا کلام نہیں پڑھ سکتے!
کیا کوئی امکان ہے کہ مستقبل میں‘ تاجکستان سمیت ان وسط ایشیائی ریاستوں میں اصل رسم الخط‘ روسی رسم الخط کی جگہ لے سکے؟ اس پر گفتگو ہم کل کی نشست میں کریں گے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com