Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, January 27, 2025

ایف بی آر میں نئی گاڑیوں کا بکھیڑا

سنگاپور اور متحدہ عرب امارات کی کامیابی کی کئی وجوہات ہیں! مگر ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں‘ نجی شعبے کے برابر ہیں۔ بلکہ متحدہ عرب امارات میں سرکاری شعبے کی تنخواہیں نجی شعبے سے زیادہ ہیں۔ سرکاری شعبہ نجی شعبے کی وہاں قیادت کر رہا ہے۔ سنگاپور کے معمار‘ لی کؤان یئو نے سرکاری شعبے کی تنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر کے برابر کیں اور بہترین افرادی قوت حاصل کی۔ اس کے بعد کرپشن کی گنجائش تھی ہی نہیں۔ سزائیں بھی سخت رکھی گئیں! یہ قصہ اس لیے چھیڑنا پڑا کہ ایف بی آر اپنے افسروں کے لیے کچھ گاڑیاں خرید رہا ہے اور قائمہ کمیٹی نے سخت اعتراض کیا ہے کہ کیوں خریدی جا رہی ہیں؟ وفاقی وزیر دفاع نے قائمہ کمیٹی کے اس اعتراض کا پس منظر بھی بتا دیا۔ ان کے بقول ایک کمپنی نے آرڈر لینے کے لیے سفارشیں کرائیں مگر ناکام رہی۔ ''خریداری رکوانے کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا استعمال کیا گیا‘‘۔

مگر یہ اصل ایشو نہیں۔ اصل ایشو وہ مائنڈ سیٹ ہے جو سرکاری ملازموں کو ہر وقت نشانے پر رکھتا ہے۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ افسر دیانت دار بھی ہوں‘ محنتی بھی ہوں مگر انہیں مراعات دی جائیں نہ تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ ایسا مائنڈ سیٹ رکھنے والوں کے نزدیک ہر سرکاری افسر رشوت خور ہے‘ گردن زدنی ہے اور اس قابل نہیں کہ اپنے فرائض منصبی سر انجام دینے کے لیے اسے کوئی سہولت دی جائے۔ روزنامہ دنیا واحد اُردو اخبار ہے جس میں کالموں کے نیچے کمنٹ لکھنے کی سہولت موجود ہے۔ اس سہولت کا خوب خوب غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسے ایسے زہریلے‘ جھوٹے اور دشنام بھرے کمنٹ لکھے جاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ کالم نگاروں کو تو گالیاں پڑتی ہی ہیں‘ ساتھ سرکاری ملازموں کو بھی طعن وتشنیع اور بہتان طرازی کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر جو تحصیل کا والی ہے‘ اور ڈپٹی کمشنر جو ضلع کا انچارج ہے‘ گاڑی کے بغیر کس طرح کام کر سکتا ہے؟ کیا وہ ہمہ وقت اپنے دفتر میں بیٹھا رہے؟ امن وامان قائم رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے اسے ہر روز‘ اور دن میں کئی کئی بار سفر کرنا ہوتا ہے۔ پولیس افسر سواری کے بغیر جائے واردات پر کس طرح پہنچے گا؟ ایف بی آر کے نیچے دو بڑے محکمے ہیں۔ کسٹم اور ٹیکس! ایک اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس یا ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس کے سامنے کروڑ پتی وکیل پیش ہوتے ہیں۔ ارب پتی بزنس مین حاضر ہوتے ہیں۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کا محتاج ہو؟ جو رشوت نہیں لینا چاہتے‘ انہیں بھی آپ مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ ناجائز ذرائع سے گاڑی خریدیں یا دھونس سے حاصل کریں! قائمہ کمیٹی برا نہ منائے تو منتخب نمائندوں کو ملنے والی مراعات کا بھی تجزیہ کرے۔ جب بھی منتخب نمائندوں کی مراعات اور مشاہروں میں اضافے کا بل پیش ہوتا ہے‘ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف باہم شیر وشکر ہو کر حمایت کرتے ہیں۔ ستم در ستم یہ کہ تمام اعتراضات سول افسرشاہی پر ہی کیے جاتے ہیں! معترضین سیانے بہت ہیں!
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا تمام سرکاری ملازم خائن اور رشوت خور ہیں؟ عام تاثر یہی ہے کہ سب کے سب حرام کھاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو ایسا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ان کے پاس اس تاثر کے حق میں دلیل کوئی نہیں۔ سرکاری ملازم اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس میں سیاستدان‘ وکیل‘ ڈاکٹر‘ تاجر‘ صنعتکار‘ زمیندار اور مذہبی رہنما رہتے ہیں! کیا تمام ڈاکٹر لوٹ مار کر رہے ہیں؟ کیا تمام ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ سفاکی سے پیش آتے ہیں؟ کیا تمام وکیل ججوں کو تھپڑ رسید کرتے ہیں؟ کیا ہسپتال پر حملہ کرنے میں ملک کے سارے وکیل شامل تھے؟ کیا تمام سیاستدان مرغانِ باد نما ہیں اور سب کے سب پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں؟ کیا تمام تاجر ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ ٹیکس چوری اور ناروا نفع خوری کے مرتکب ہیں؟ کیا تمام صنعتکار مزدوروں کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں؟ کیا تمام مذہبی رہنما فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں!! اس معاشرے پر‘ جتنے بھی بُرے حالات ہیں‘ الحمدللہ خیر غالب ہے۔ جب بھی کسی بس یا ٹرین کا حادثہ ہوتا ہے‘ کچھ بدبخت یقینا زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں کا مال اسباب چرانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اکثریت اپنی جان کی پروا کیے بغیر‘ رات ہو یا دن‘ امدادی کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اسی معاشرے میں خدا ترس ڈاکٹر بھی موجود ہیں۔ یہیں وہ وکیل پائے جاتے ہیں جو غلط کاموں میں اپنی وکیل برادری کی حمایت نہیں کرتے بلکہ غلط کام کرنے سے منع کرتے ہیں! ہمارے ہی بازاروں اور منڈیوں میں اکل حلال کا التزام کرنے والے تاجر موجود ہیں! جہاں کچھ اہلِ مذہب‘ مذہب کو سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر رہے ہیں وہاں ایسے علمائے حق کی کمی نہیں جو چٹائی پر بیٹھ کر‘ روکھی سوکھی کھا کر خیر کی تلقین کر رہے ہیں اور فرقہ واریت کو نزدیک بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ بعینہ یقینا اسی معاشرے میں ایسے سرکاری ملازم بھی موجود ہیں جو حرام سے اجتناب کرتے ہیں اور سائلین کو آرام پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ سب سرکاری ملازم دیانت دار ہوں بالکل اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ تمام کے تمام سرکاری ملازم خائن اور رشوت خور ہوں! معاشرے میں مجموعی طور پر خیر کا جو تناسب ہوتا ہے‘معاشرے کے مختلف حصوں میں بھی خیر کا وہی تناسب ہوتا ہے۔ معاشرہ ایک درخت کے مانند ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آدھے درخت پر لگے ہوئے تمام پھل شیریں ہوں اور دوسرے نصف پر تمام پھل تلخ ہوں۔ معاشرہ خیر اور شر کے آمیزے سے وجود پاتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارے معاشرے کا غالب حصہ شر پر مشتمل ہو!
پاکستانی بیورو کریسی اس وقت جن مسائل کا شکار ہے‘ ان کا ذمہ دار بیورو کریٹ نہیں بلکہ نظام ہے۔ نظام تین سو سال پرانا ہے۔ اس نظام کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ دو تین حکومتیں پے درپے جن صاحب کو اس نظام میں اصلاحات لانے کی ذمہ داری سونپتی رہی ہیں‘ وہ خود اس نظام کے علم بردار تھے۔ انہوں نے ہر بار حلوہ کھایا اور گدڑی کاندھے پر رکھ کر اور سوٹا ہاتھ میں پکڑے گھر چلے گئے۔ اس نظام کو تبدیل وہی لوگ کریں گے جو خود اس نظام کی پیداوار نہیں! صرف ایک مثال پر غور کیجیے۔ یہاں ایک بار جس نے سی ایس ایس پاس کر لیا اور سروس میں آ گیا‘ گویا اس کا سروس کے ساتھ پکا نکاح ہو گیا۔ اب وہ اکیس بائیس تک لڑھکتا چلا جائے گا۔ مگر ترقی یافتہ ملکوں میں ہر مرحلے پر مقابلہ ہوتا ہے۔ سرکاری ملازم ڈپٹی کمشنر ہے یا ڈپٹی سیکرٹری یا ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل‘ اگر وہ ایک سٹیج اوپر جانا چاہتا ہے تو ایک بار پھر مقابلہ ہو گا۔ نجی شعبے سے امیدواروں کو مقابلے میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ ضروری نہیں اس مقابلے میں ڈپٹی کمشنر یا ڈپٹی سیکرٹری یا ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل ہی ترقی کے لیے منتخب ہو۔ وہ ناکام بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بجائے نجی شعبے سے آیا ہوا امیدوار اس کا باس بن سکتا ہے۔ آپ اگر سرکاری ملازموں کو پیتل کے بجائے سونا بنانا چاہتے ہیں تو ان کی تنخواہ اور مراعات نجی شعبے کے برابر کیجیے اور پھر ہر گریڈ کے لیے مقابلے کا امتحان لیجیے۔ میں ایسے لائق افسروں کو جانتا ہوں جنہیں بین الاقوامی اداروں نے‘ ان کی لیاقت کی وجہ سے‘ بلند تر پوسٹوں اور زیادہ بڑی تنخواہوں کی پیشکش کی اور وہ چلے گئے۔ اگر وہ سرکاری نوکری ہی میں رہتے تو ایسے افراد اُن کے باس بن جاتے جو ان کے مقابلے میں نالائق ہیں۔ ہر مرحلے پر بیورو کریسی میں نیا خون داخل کیجیے۔ تنخواہیں نجی شعبے کے برابر کیجیے۔اس کے بعد بھی کوئی کرپشن کرے تو اسے نشانِ عبرت بنا ئیے مگر کیا ایسا ہو پائے گا؟؟

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com