…نوجوان شاعر اسد اعوان شکوہ کناں تھے کہ مضافات میں بسنے والے شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ شکوہ بے جا بھی نہیں۔ مشاعروں میں وہی مخصوص چہرے دکھائی دیتے ہیں جنہیں دیکھتے دیکھتے لوگ جوانی سے بڑھاپے تک پہنچ گئے۔ ادبی میلے (فیسٹیول) آغاز ہوئے تو امید بندھی کہ انتخاب کا کینوس ذرا وسیع ہو گا مگر یہاں بھی گروہوں‘ دھڑے بندیوں‘ دوست نوازیوں اور مفادات کا طویل و عریض سلسلہ دیکھنے میں آیا۔ گھمسان کی اس جنگ میں اور اس انتہائی کٹ تھروٹ میرٹ کُش افرا تفری میں جہاں بڑے شہروں کے جینوئن شاعروں اور ادیبوں کو کونوں کھدروں میں دھکیل دیا گیا‘ وہاں مضافات کے اہلِ قلم کو کس نے پوچھنا تھا! بقول شاعر:
یہاں تو بھرتے نہیں زخم زار اپنے ہی
کسی کی زرد محبت کی کیا خبر لیتے
تاہم اکادمی ادبیات کی چیئر پرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے وہ کام کر دکھایا جو آج تک کسی نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے پورے ملک سے 20 نوجوان اہلِ قلم کو اکادمی ادبیات اسلام آباد بلا لیا۔ پہلے تو اکادمی نے اشتہار دے کر نام اور کوائف طلب کیے۔ پھر ایک ثقہ کمیٹی بنی جس نے پوری چھان بین اور غور و خوض کے بعد ان 20 نوجوانوں کو چنا۔ انہیں اکادمی نے اپنے مہمان خانے میں‘ جسے ''رائٹرز ہاؤس‘‘ کہا جاتا ہے‘ ٹھہرایا۔ پھر ایک منظم طریقے سے انہیں سینئر ادیبوں اور شاعروں سے ملوایا۔ ان بچوں کے اس قیام کے دوران اکادمی میں بہت سی تقاریب کا انعقاد بھی کیا گیا۔ یوں ان نوجوان لکھاریوں کو مشاہدہ کرنے کیلئے بہت کچھ میسر آگیا۔ یہ منتخب نوجوان بھکر‘ لودھراں‘ راولپنڈی‘ لاہور‘ جوہر آباد‘ مانسہرہ‘ ڈی آئی خان‘ مردان‘ کوہستان‘ کراچی‘ سانگھڑ‘ گوادر‘ پنجگور‘ خضدار‘ خاران‘ گلگت اور لیپا ویلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا ملک کے تمام حصوں کو نمائندگی دینے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس انتخاب میں مذہب‘ رنگ‘ نسل اور زبان کو بھی درمیان میں پڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ میں نے اکادمی کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف کو تجویز دی ہے کہ ایسا نمائندہ گروپ ہر چھ ماہ میں کم از کم ایک بار ضرور منتخب کیا جائے اور بلایا جائے۔ امید ہے کہ سرخ فیتہ اور فنڈز کی کمی آڑے نہیں آئے گی۔ دور افتادہ بستیوں سے اہلِ قلم کو بلا کر انہیں مین سٹریم میں رکھنا‘ قومی یکجہتی کے حوالے سے بھی بہت بڑی خدمت ہے۔ حب الوطنی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اس گروپ میں قلمکار خواتین صرف تین ہیں۔ یہاں توازن ذرا بگڑ گیا۔ خواتین کی تعداد نصف نہ بھی ہو تو کم از کم ایک تہائی ضرور ہونی چاہیے! امید ہے کہ اکادمی اس گزارش پر مثبت انداز میں غور کرے گی۔
''پاکستانی ادب کے معمار‘‘ ایک کتابی سلسلہ ہے جس کی بنیاد جناب افتخار عارف اکادمی ادبیات میں رکھ گئے تھے۔ اس سلسلے کے تحت نمایاں اور سرکردہ ادیبوں اور شاعروں کے فن اور شخصیت پر کام کرایا جاتا ہے جو اکادمی کی طرف سے کتاب کی صورت میں شائع ہوتا ہے۔ اب تک بہت سی شخصیات پر یہ تحقیقی اور سوانحی کام کرایا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے تازہ ترین کتابوں کے مصنفین کو بھی اکٹھا کیا اور جن شخصیات پر کام کیا گیا ان میں سے جس جس کا آنا ممکن ہوا‘ اسے بھی آنے کی زحمت دی گئی۔ یاسمین حمید پر ڈاکٹر بی بی امینہ نے کتاب لکھی ہے۔ دونوں تقریب میں موجود تھیں۔ پروفیسر اقبال آفاقی پر ڈاکٹر عامر سہیل نے کام کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات بھی تشریف فرما تھے۔ اس لکھنے والے نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اکادمی جو کتابیں شائع کراتی ہے وہ اس وقت صرف اکادمی ہی سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ان کتابوں کی پورے ملک میں مارکیٹنگ کا انتظام کرنا ازحد ضروری ہے تاکہ شائقینِ ادب‘ بالخصوص طلبہ و طالبات کو ان کتب کے حصول میں دشواری نہ پیش آئے۔
اس تحریر کے آغاز میں مضافات کے ادیبوں کی بات ہوئی تھی۔ مضافات میں شاعری کمال کی ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سرگودھا کے قاسم علی شاہ کی پنجابی نظم سنی تو ہوش اُڑ گئے۔ صرف ایک بند دیکھیے:
دل کردا حال اوئے پہریا روح دیندی پھرے دہائی
اوہدے منہ تے پَے گیاں جھُرڑیاں ‘ تُوں جیڑھی شکل بنائی
اوہدی اَکھ وچ کالا موتیا‘ اوہدی زلف دی پھِکی شائی
اُنہے دل وچ رانجھا سوریا کیوں کھیڑیاں دے گھر آئی
پہلے رنگ پور دے وچ ساڑیائی‘ مُڑ سٹیائی وچ گُستان
اتھے چور اچکّا چوہدری‘ اتھے لُنڈی رَن پردھان
اسد اعوان کی غزل کے تیور دیکھیے:
اونٹ کو باندھ دیا تیغ اتاری میں نے؍
شب حریفوں کے علاقے میں گزاری میں نے؍
ایسے لوگوں سے کوئی جیتنا مشکل تو نہ تھا
؍ جان کی بازی مگر جان کے ہاری میں نے؍
آج دیکھا ہے اسے جاتے ہوئے رستے میں؍
آج اس شخص کی تصویر اتاری میں نے؍
جنگجوئی میں بھی حساس مزاجی نہ گئی؍
اپنے گھوڑے کو کبھی ایڑ نہ ماری میں نے؍
توسنِ حرص و ہوس روند بھی سکتا تھا مجھے؍
چھوڑ دی ایسی ترے بعد سواری میں نے...
نئے برس میں محبت نئی کروں گا اسد؍
کسی کے ہجر کا یہ آخری مہینہ ہے...
خرقہ بردوش پھرے بادیہ پیمائی کی؍
:ہم نے آباد تری یاد سے تنہائی کی؍
صحبتِ اہلِ سخن چھوڑ کے اس لڑکے نے
؍ میں سمجھتا ہوں کہ اِس دور میں دانائی کی؍
عید کا چاند سبھی دیکھنے نکلے‘
ہم نے؍
ختم رو رو کے ترے ہجر میں بینائی کی؍
ہم نہ مسجد میں گئے اور نہ درگاہوں پر؍
تیری چوکھٹ پہ ہمہ وقت جبیں سائی کی...
درجہ بندی کے لیے خلق کی تقسیم نہ کی؍
کجکلاہوں کی کبھی شہر میں تکریم نہ کی؍!
ساقیا تو نے بھی واعظ کو سبو پیش کی
ا؍ ساقیا! تو نے بھی میخواروں کی تعظیم نہ کی؍
یہ الگ بات مجھے تجھ سے جدا ہونا پڑا؍
تیری تصویر مگر ہجر میں دو نیم نہ کی؍
اک ترے واسطے میں نے بھی مکمل اپنی
؍ صورتِ قیس ترے عشق میں تعلیم نہ کی
ایک اور شاعر شہباز راجہ کے چند اشعار:
موزوں نہیں ہے میری طبیعت کے واسطے
؍ لیکن یہ میرے شہر کی آب و ہوا تو ہے...
سبھی کے ہاتھوں میں ہیں نفرتوں کی تلواریں؍
سو درمیاں میں محبت کی ڈھال لایا ہوں؍
تماشا کھلنے تلک سب رہیں گے سرگرداں؍
کسے خبر ہے کہ اب کیسی چال لایا ہوں
؍ بھلا نہ دے وہ کہیں سلسلے بہاروں کے؍
خزاں کی رُت میں بھی پھولوں کا تھال لایا ہوں
؍ چمن میں سارے پرندوں نے دی دعا شہباز
؍ شکاریوں کے چرا کر میں جال لایا ہوں
مضافات کے ایک اور شاعر مستحسن جامی کی تخلیقی صلاحیت ملاحظہ کیجیے
:
رنگ بدلا ہوا تھا پھولوں کا؍
تم یقینا اداس گزرے تھے
... دستک دینے والے تجھ کو علم نہیں؍
دروازے کے دونوں جانب تالا ہے...
اک کرب کا موسم ہے جو دائم ہے ابھی تک؍
اک ہجر کا قصہ کہ مکمل نہیں ہوتا...
ہم تلوار اٹھا نہیں پائے
؍ ہم آواز اٹھا سکتے تھے
... سوائے اس کے کوئی بھی مصروفیت نہیں ہے؍
میں ان دنوں بس چراغ تقسیم کر رہا ہوں...
ہمارے پُرکھوں نے جوتے کی نوک پر رکھی؍
ہمارے پاس یہ دنیا جبھی نہیں آتی...
پاس آنا تو بہت دور کہ اس شہر کے لوگ؍
اس کی تصویر میں شامل نہیں ہونے دیتے...
خدا کا شکر کہ اس بُت نے آزمایا نہیں؍
وگرنہ سب کی محبت پہ حرف آنا تھا
... ایسے لگتا ہے بدن کاٹ رہی ہے میرا
؍ جس اذیت کا ابھی نام نہیں ہے کوئی
روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment