ہماری بیورو کریسی اس وقت اَسفلَ سافِلین کے درجے میں ہے۔ اس کا زندہ ثبوت اسلام آباد کا شہر ہے۔
یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ یہ شہر مسلم دنیا میں واحد ایٹمی ملک کا دار الحکومت ہے۔ یہ کوئی ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے نہ کسی تحصیل کا صدر مقام ! یہ کوئی تجارتی منڈی ہے نہ بندر گاہ! یہ کراچی یا فیصل آباد کی طرح بزنس کا مرکز بھی نہیں۔ نہ ہی یہ صنعتی شہر ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ شہر اتنا غیر منظم ‘بدصورت اور بے ترتیب ہو چکا ہے کہ غلہ منڈ ی لگتا ہے یا مچھلی بازار! اس شہر کا سب سے بڑا چارم '' بلیو ایریا‘‘ ہے جو شہر کے وسط میں ‘ مشرق سے لے کر مغرب تک‘ پلازوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہ پلازے دونوں طرف ہیں۔ ان کا منہ شمال کی طرف بھی ہے اور جنوب کی طرف بھی۔ آپ بلیو ایریا کی شمالی جانب ڈرائیو کریں یا جنوبی جانب‘ آپ قدم قدم پر بد ترین ٹریفک جام کا سامنا کریں گے۔ جب آپ بلیو ایریا کی مغربی انتہا پر پہنچیں گے‘ جہاں نادرا کا دفتر ہے تو آپ اچانک پکار اٹھیں گے کہ یہ دارالحکومت ہے یا کوئی غلہ منڈی ہے۔گاڑی چل سکتی ہے نہ پارک کرنے کی جگہ ہے۔ کئی لوگوں سے بات کی۔ تقریباً سبھی نے کہا کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ ون وے ٹریفک کا بندو بست کیا جائے۔ بلیو ایریا والی سائیڈ سے گاڑیاں جائیں اور فضل الحق روڈ والی سائیڈ سے واپس آئیں۔ عقل کی یہ بات جو لوگ کر رہے تھے ان کم بختوں میں سے کوئی بھی سی ایس ایس پاس نہ تھا! سوال یہ ہے کہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے‘ جو بزرجمہر شہر کے والی مقرر کیے گئے ہیں ‘ ان کے بلند مرتبہ جینئس دماغوں میں یہ بات کیوں نہیں آتی ؟ آئیے ! اس کی وجہ جاننے کی سعی کرتے ہیں!
کوئی بھی شہر‘ بڑا ہو یا چھوٹا‘ اس وقت تک خوش انتظامی کا نمونہ نہیں بن سکتا جب تک اس کا حاکم اس کے بازاروں میں‘ اس کے گلی کوچوں میں اور اس کے گنجان ترین حصوں میں ‘ اکثرو بیشتر‘ چلتا پھرتا نظر نہ آئے۔ یہ جو ہم کہانیوں میں پڑھتے ہیں کہ بادشاہ بھیس بدل کرشہر میں پھرا کرتے تھے تو یہ محض افسانہ نہیں‘ حقیقت ہے۔ اکثر و بیشتر بادشاہ ایسا ہی کرتے تھے۔ یوں وہ شہر کے حالات سے براہِ راست آشنائی حاصل کرتے تھے۔آج کے زمانے میں جب حکومتی طریق کار بدل چکا ہے‘ شہروں کو منتخب میئرز کے سپرد کیا گیا ہے جو شہر کے والی ہوتے ہیں اور انچارج!! اسلام آباد کی قسمت کھوٹی یوں ہے کہ یہاں میئر کوئی نہیں! کیوں؟ شاید اس لیے کہ الیکشن جیت کر آنے والا میئر وزیر اعظموں اور وزیروں کے ہر حکم پر '' یس سر ‘‘ نہیں کہے گا۔ وہ شہریوں کے ووٹوں کی مدد سے آئے گا تو شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے پر مجبور ہو گا؛ چنانچہ اسلام آباد میں میئر حکمرانوں کو راس نہیں آسکتا۔ انہیں سرکاری ملازم راس آتا ہے جو حکم کا غلام ہو۔ جس نے ترقی پانی ہو‘ سیکرٹری بننا ہو ‘ ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری میں توسیع لینی ہو! ایسا حاکمِ شہر کسی وزیر کو '' نو ‘‘ کر سکتا ہے نہ کسی اور اتھارٹی کو! تو پھر اسے کیا ضرورت ہے کہ شہر کے دورے کرتا پھرے‘ گلی کوچوں میں چل پھر کر شہر کے حالات دیکھے اور پھر شہریوں کے مسائل حل کرے!
پوزیشن یہ ہے کہ شہر کا انتظام و انصرام سی ڈی اے کے سپرد ہے جس کا چیئرمین بیک وقت شہر کا چیف کمشنر بھی ہے! آپ کا کیا خیال ہے کہ چئیرمین صاحب ، یعنی چیف کمشنر صاحب، خود گاڑی چلاتے ہوئے، کبھی بلیو ایریا سے گذرے ہوں گے ؟ کیا وہ کبھی بلیو ایریا میں واقع شہر کی مقبول ترین بیکری سے ڈرائیو کر کے نادرا کے دفتر تک گئے ہوں گے؟ اور پھر واپس آئے ہوں گے ؟ منطق اس کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ اس لیے کہ اگر انہوں نے یہ تجربہ کیا ہوتا‘ بے شک گاڑی خود نہ بھی چلائی ہوتی‘ بے شک ڈرائیور ہی کے ساتھ گئے ہوتے‘ تو یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے ٹریفک پولیس کو حکم نہ دیا ہوتا کہ بلیو ایریا میں ون وے ٹریفک سسٹم رائج کیا جائے!! کوئی بھی ذی ہوش آدمی بلیو ایریا میں جائے تو اسی نتیجے پر پہنچے گا!! یہی اس کا واحد حل ہے۔ پوری دنیا میں ایسا ہی کیا جاتا ہے۔
یہ جو ہم نے آغاز میں کہا ہے کہ ہماری بیورو کریسی اس وقت اَسفلَ سافِلین کے درجے میں ہے اور اس کا زندہ ثبوت اسلام آباد کا شہر ہے تو یہ بات علم ‘ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہی ہے اور پوری ذمہ داری سے کہی ہے۔ بیورو کریسی کا دوسرا نام سول سرونٹس ہے۔ سرونٹ خادم کو کہتے ہیں۔ مشہور محاورہ ہے سیّد القومِ خادِمْہْم ! یعنی قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ یعنی عوام کا سرونٹ! آج بیورو کریسی کا دردناک المیہ یہ ہے کہ وہ عوام سے مکمل طور پر کٹی ہوئی ہے۔ آپ چیف کمشنر صاحب سے فون پر بات کر نے کی کوشش کیجیے۔ ناممکن ہو گا۔ آپ خط لکھیے‘ عرضی ڈالیے‘ ای میل کیجیے‘ آپ کو کوئی جواب نہیں ملے گا۔ آپ کو شہر کے اس والی کا فون نمبر ہی نہیں ملے گا۔ ای میل ایڈریس ہی نہیں ملے گا۔ اس کے ارد گرد سٹاف کی کئی پرتیں ہیں‘ کئی حصار ہیں! ایک کے بعد دوسرا حصار! دوسری کے بعد تیسری پرت! پھر چوتھی! آپ تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ یہی وہ اسفل سافلین درجہ ہے ‘ بد ترین درجہ‘ جس پر ملک کی نوکر شاہی پہنچ چکی ہے۔ اسلام آباد کو تو چھوڑیے کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے بات کرنے کی کوشش کر دیکھیے! آپ کو بطور ایک شہری‘ بطور ایک ٹیکس دہندہ‘ اپنی اوقات کا پتا لگ جائے گا!!
اسلام آباد جو کبھی خطے کا خوبصورت ترین شہر تھا‘
Slums
میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کے وہ مقامات جنہیں دیکھنے اور جن سے لطف اندوز ہونے کیلئے پورے ملک سے لوگ آتے تھے‘ سپر مارکیٹ‘ جناح سپر‘ میلوڈی مارکیٹ اور دیگر مقامات ‘ خستہ آبادیوں اور گندی بستیوں میں بدل چکے ہیں۔ اب یہ کثافت کے مرکز ہیں۔ پارکنگ کی تو بات ہی نہ کیجیے! غدر کا لفظ بھی کفایت نہیں کر رہا۔ شہر کا کوئی والی وارث ہوتا‘ کوئی مائی باپ ہوتا تو کب کا جفت اور طاق نمبر کی گاڑیوں کا طریقہ رائج ہو چکا ہوتا۔ یعنی ایک دن ‘ خاص طور پر شام تین یا چار بجے کے بعد‘صرف وہ گاڑیاں باہر نکلیں گی جن کے رجسٹریشن نمبر طاق ہیں۔ دوسرے دن صرف وہ گاڑیاں بازاروں میں آئیں گی جن کے رجسٹریشن نمبر جفت ہیں۔ اٹلی سے لے کر ایران تک یہ نظام کار فرما ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے مقامی حکومتوں ( لوکل گورنمنٹس ) سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک کام یقینا انقلابی کیا تھا کہ ضلعی حکومتیں قائم کر کے ضلع کا انتظام ناظم کے سپرد کیا تھا۔ مگر اہلِ سیاست آئے تو انہیں یہ جمہوری نظام راس نہ آیا۔ تختِ لاہور‘ تختِ کراچی‘ تختِ کوئٹہ‘ تختِ پشاور اور تختِ اسلام آباد کے اپنے ہی مزے ہیں۔ ضلعی ناظموں سے جان چھڑائی گئی۔ لارڈ کرزن اور لارڈ میکالے کے زمانے کی نوکر شاہی کو واپس لایا گیا۔ ڈی سی‘ کمشنر ‘ چیف کمشنر۔ ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ضلع اور تحصیل سطح پر عوامی نمائندوں کو مالی اختیارات دینا چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری کیلئے زہر کے پیالے سے کم نہیں! یہی حال اسلام آباد کا ہے۔ اسلام آباد کے شہری لارڈ کرزن کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ انہیں اس امر کی اجازت نہیں کہ وہ اپنے شہر کا میئر خود چنیں! شہر کی حالت عبرتناک ہے۔ اے اربابِ اختیار! خدا کے بندوں پر کچھ رحم کرو! اسلام آباد کو سنگاپور یا امریکہ یا جاپان کو کچھ عرصہ کے لیے ٹھیکے پر ہی دے دو!!
No comments:
Post a Comment