پہلا منظر ۔
جناب وزیر اعظم! یہ عثمان بزدار ہیں! ازراہ کرم انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ تعینات کر دیجیے؟ “
“ میں انہیں نہیں جانتا! ا ن میں ایسی کون سی خصوصیت ہے کہ انہیں پنجاب جیسے بڑے صوبے کا حکمران مقرر کیا جائے۔ “؟
” جناب ! ان کی خصوصیت یہ ہےکہ ان کی بیگم میری بیگم کی سہیلی ہیں اور میری بیگم کے متعلق تو آپ جانتے ہی ہیں کہ مرشدہ کے بہت قریب ہیں! “
“نہیں! یہ ممکن نہیں! وہ اس منصب کا اہل نہیں! میں پنجاب کا وزیر اعلی اسے لگاؤں گا جو لائق ہو اور تجربہ کار ہو! “
{
دوسرا منظر ۔
” جناب وزیر اعظم! بہت افسوسناک خبر ہے ۔ پولیس افسر کو ، جو، پاک پتن کا انچارج ہے، وزیر اعلیٰ ہاؤس میں طلب کیا گیا۔ وزیر اعلی کی موجودگی میں گجر صاحب نے پولیس افسر سے حاکمانہ لہجے میں باز پرس کی۔ وزیر اعلی ،خاموش، دیکھتے رہے! گجر صاحب نہ جانے کس حیثیت میں یہ رعب جھاڑتے رہے۔”
“ یہ ناقابل برداشت ہے۔ وزیر اعلی کو بتائیے کہ یہ واقعہ ان کے لیے باعث شرم ہے۔ آئندہ ایسی لا قانونیت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ گجر سے کہا جائے کہ پولیس افسر سے معذرت کرے!”
{
تیسرا منظر ۔
” جناب وزیر اعظم! ہوابازی کے وفاقی وزیر نے قومی اسمبلی میں ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان داغا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ پاکستان کی قومی ائر لائن کے پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں۔ یہ بیان حقیقت کے خلاف ہے۔اس کی وجہ سے بہت سے ملک ہماری ائر لائن پر پابندی لگا رہے ہیں! مستقبل قریب میں اس پابندی کے ہٹنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں! “
“ وزیر ہوابازی کو میرا حکم پہنچایا جائے کہ اعداد و شمار سے اپنا دعوی ثابت کرے۔ ورنہ اسے وزارت کے منصب سے ہٹا دیا جائے”
{
چوتھا منظر۔
“جناب وزیر اعظم! یہ ایک سیکرٹ فائل ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کر رہاہوں۔ کیس نازک ہے کیونکہ اس کا تعلق آپ کے گھر سے ہے۔ اس میں ایک معروف پراپرٹی ٹائیکون کا نام آرہا ہے۔ کچھ تحائف کا معاملہ ہے۔ یہ آپ کی عزت کا سوال ہے اس لیے فائل آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے۔”
“ بہت شکریہ جنرل! اگر ایسا ہؤا ہے تو غلط ہؤا ہے۔ میں فائل پڑھوں گا اور اس کی روشنی میں مناسب اقدامات اٹھاؤں گا ۔ اصولی بات یہ ہے کہ میرے اہل خانہ کو کسی سے بھی مالی فائدہ اٹھانے کا حق نہیں ہے۔ امیں یہ ہر گز نہیں برداشت کر سکتا کہ میری شہرت داغدار ہو۔ اور جنرل! تم نے مجھے اطلاع دے کر اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے ۔ میں تمہاری اس کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں! مجھے امید ہے کہ تم آئندہ بھی اپنے فرائض اسی طرح بے خوفی اور دیانتداری سے سرانجام دو گے۔ “
{
پانچواں منظر ۔
“جناب وزیر اعظم ! خفیہ ادروں نے خبر دی ہے کہ توشہ خانہ سے کچھ تحائف آپ کے گھر میں آئے ہیں۔یہ بھی خبر ہے کہ انہیں فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ “۔
“ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر میں یا میرے اہل خانہ توشہ خانے کے معاملات میں ملوث ہو گئے تو مجھ میں اور گذشتہ حکمرانوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ وہ بھی تو یہی کچھ کرتے رہے ہیں! میں ان پر اس حوالے سے کڑی تنقید کرتا رہا ہوں ۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اب میں خود توشہ خانے میں دلچسپی لوں یا کوئی اور ، میرا نام لے کر، یہ کھیل کھیلے۔ میں توشہ خانے کے مال اموال کو ٹھوکر پر رکھتا ہوں۔ میں نے جو دعوے کیے ہیں اور قوم سے جو عہدو پیمان کر رکھے ہیں، ان کے بعد مجھے زیب نہیں دیتا کہ میرا نام بھی دوسروں کی طرح توشہ خانے کے ساتھ منسلک ہو۔ میرے سٹاف اور ملٹری سیکرٹری کو بتا دیا جائے کہ میرے گھر سے توشہ خانے کے حوالے سے کوئی فرمائش ہو تو معاملہ فورا” میرے علم میں لایا جائے۔ “
{
چھٹا منظر ۔
“ جناب وزیر اعظم! وفاقی دارالحکومت میں جتنی غیر قانونی تعیرات تھیں ، آپ کی حکومت نے گرا دی ہیں۔ بد قسمتی سے آپ کا گھر بھی اُسی کیٹیگری میں آتا ہے۔ خوشامدی مصاحبین کی رائے ہے کہ عدالت سے معمولی سا جرمانہ عائد کرا کے آپ کے گھر کو
Regularise
کرا لیا جائے تاکہ معاملہ رفع دفع ہو جائے۔”
“ ہر گز نہیں! میں اپنے ساتھ ترجیحی سلوک کی اجازت ہر گز نہیں دوں گا۔ جو قانونی حکم دوسروں پر نافذ کیا گیا ہے، مجھ پر بھی نافذ ہو گا۔ خوشامد کرنے والے عمائدین کو احساس کرنا چاہیے کہ میں دوسرے حکمرانوں سے مختلف ہوں۔ میں نے میرٹ پر چلنے کے وعدے کیے ہیں۔ میں نے عوام کے سامنے خلافت راشدہ کی مثالیں پیش کی ہیں۔ میں نے ہمیشہ مغرب کے جمہوری ملکوں کے طریقوں کا ذکر کیا ہے۔ قانون سےکوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ میں بھی نہیں! دوسروں کے گھروں کی طرح میرا گھر بھی گرایا جائے ۔ اس کی تعمیر نو میرے ذاتی وسائل سے ہو گی! “
“ ساتواں منظر ۔
جناب وزیر اعظم! ہوا بازی کی وزارت میں میرٹ کو کچل کر غیر قانونی تعیناتی کی گئی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی ( سی اے اے ) کے ڈائرکٹر جنرل کی اسامی پُر کرنے کے لیے اشتہار دیے گئے تھے۔ اشتہار میں مطلوبہ اہلیت کی تفصیلات دے دی گئی تھیں۔ چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ ان میں سے اٹھارہ امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔ان اکا انٹرویو کیا گیا۔ مگر بدقسمتی سے کسی درخواست دہندہ کو چُننے کے بجائے گورنر سندھ کے سیکرٹری کو اس پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا جس کا اس شعبے سے کوئی تعلق ہے نہ اس نے درخواست دی نہ اس کا انٹر ویو ہؤا۔ ۔ اس ناجائز تعیناتی کو عدالت میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔ “۔
“ایسی ایک بھی تعیناتی میری حکومت کے ماتھے پر بد نما داغ ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے۔یہ اُن تمام امیدواروں کی توہین ہے جنہوں نے اشتہار پڑھ کر درخواستیں دیں اور جن کے انٹر ویو ہوئے ۔میں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ تعیناتیاں میرٹ پر ہوں گی، بیک ڈور سے نہیں ہوں گی ۔ گورنر سندھ کے سیکرٹری کو اس منصب سے فورا” سبکدوش کیا جائے ۔ سیکرٹری ہوابازی کو نوٹس جاری کیا جائے اور پوچھا جائے کہ یہ غلط بخشی اس نے کس کے دباؤمیں آ کر کی۔ جن اٹھارہ امیدواروں کے انٹرویو کیے گئے ، ان کے نتائج مجھے پیش کیے جائیں! “
{
آٹھواں منظر۔
“جناب وزیر اعظم! آپ کے مشیر برائے احتساب ایک خطرناک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں! برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے معروف پراپرٹی ٹائیکون سے ایک سو نوّے ملین پاؤنڈ بر آمد کر کے حکومت پاکستان کو بھجوائے ہیں۔ یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں جمع ہونی ہے۔ یہ عوام کی ملکیت ہے۔ مگر مشیر احتساب کی تجویز ہے کہ یہ رقم پراپرٹی ٹائکون کی طرف سے ، جرمانے کی مد میں، سپریم کورٹ کو دی جائے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھاری رقم پراپرٹی ٹائکون کو واپس کر دی جائے۔اس کے بدلے میں پراپرٹی ٹائیکون سے زمین لی جائے اور اس پر یونی ورسٹی کی عمارت تعمیر کرائی جائے۔ پھر اسے ایک ٹرسٹ کی شکل دی جائے جس کے ٹرسٹی وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ ہوں! جناب وزیر اعظم! مشیر احتساب کی یہ تجویز انتہائی خطرناک بلکہ مہلک ہے۔ اس سے آپ پر واضح کرپشن کا الزام لگے گا۔ آپ کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا!”
“ مشیر احتساب کی یہ تجویز مکمل طور پر رد کی جاتی ہے۔ قوم سے شفافیت کا وعدہ کر کے میں ایسا اندھیر برپا کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا۔ یہ رقم فورا” قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔ مشیر احتساب کو کہا جائے کہ اپنے عہدے سے استعفی دے!
……………………………………………………………………………………………………………
No comments:
Post a Comment