Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, January 13, 2025

ایک بار پھر دوہری شہریت کا شوشہ


حکومت پاکستان ہر سال دو شوشے چھوڑتی ہے اور ایسا کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔
پہلا یہ کہ ریٹائرمنٹ کی عمر تبدیل کی جا رہی ہے۔ یہ کھیل دو دہائیوں سے جاری ہے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے سے! کبھی کہا جاتا ہے کہ اٹھاون سال ہو رہی ہے۔ پھر حکومت کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ بڑھائی جا رہی ہے۔ ساٹھ سے باسٹھ سال ہو رہی ہے۔ ایک بار پینسٹھ سال کا شوشہ بھی چھوڑا گیا۔ اس بار (دس دسمبر) کو پچپن کی خبر چلی کہ وزیراعظم کو اس سلسلے میں بریف کیا گیا۔ یہ بھی کہ تجویز ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور یہ کہ اگر یہ فیصلہ کر لیا گیا تو اس کا اطلاق صرف سول ملازمین پر کیا جائے گا۔ ایسی خبر پڑھ کر غیر ارادی طور پر منہ سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ ہوتے ہیں'آہ! بے چارے سول ملازمین‘‘!! موجودہ قانون یہ ہے کہ ساٹھ سال کی عمر پر ریٹائرمنٹ ہو جاتی ہے۔ مگر یہ قانون '' اپنے‘‘ بندوں کے لیے قانون نہیں‘ کانون بن جاتا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے اسّی اسّی سال کے‘ بیٹری پر چلنے والے‘ بابے دفتروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم جن کے بارے میں مشہور تھا (دروغ بر گردنِ راوی) کہ سنجیدہ اجلاس کے دوران اچانک پوچھتے تھے کہ لہوروں مچھی آ گئی اے کہ نئیں! (یعنی لاہور سے مچھلی پہنچ گئی ہے کہ نہیں)‘ پوچھتے تھے کہ بندہ اپنا ہے؟ جواب اثبات میں ہو تو ملازمت میں توسیع مل جاتی۔ ایسی دوست نوازیاں صرف انہوں نے ہی نہیں کیں‘ سب نے کیں! اس سے بڑی دوست نوازی کیا ہو گی کہ طبیب کو پٹرولیم کا وزیر لگا دیا گیا۔ پچپن سال پر ریٹائرمنٹ کر بھی دی گئی تو ''اپنوں‘‘ کو پھر بھی توسیع بلکہ توسیع در توسیع ملتی رہے گی۔ جنرل پرویز مشرف کے مبارک دور میں ایک بریگیڈیئر صاحب کو وفاقی حکومت میں شعبہ تعلیم کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ (اصل میں یہ پوسٹ سول کی تھی! آہ بے چارے سول ملازمین!!) ان بریگیڈیئر صاحب کی ملازمت میں پانچ بار توسیع کی گئی!!
دوسرا شوشہ جو کئی برسوں سے چھوڑا جا رہا ہے‘ بیورو کریسی کی دہری شہریت کا ہے۔ ہر سال یہ قصہ چھیڑا جاتا ہے۔ ایک بار ان افسروں کی فہرست بھی شائع کی گئی جن کے پاس دوسرے ملکوں کی شہریت ہے۔ دو دن پہلے سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی نے ایک بل پر غور کیا ہے جس کا مقصد سول سرونٹس کی دہری شہریت پر پابندی لگانا ہے۔ جن سینیٹر صاحب نے یہ بل پیش کیا انہوں نے فرمایا کہ سول سرونٹس ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں جبکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص دو ملکوں کا وفادار رہے۔ اصولی طور پر بات صحیح ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ پابندی تمام سرکاری ملازمین کے لیے ہو گی یا صرف بیچارے سول ملازمین کے لیے؟ کیا منتخب نمائندوں کے لیے بھی یہ پابندی ہو گی؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کچھ سیاستدانوں کے کنبے امیر ملکوں میں رہ رہے ہیں‘ مستقل رہ رہے ہیں اور لاس اینجلس اور ہیوسٹن جیسے شہروں کے مہنگے علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ اب جس کے بیوی بچے کسی اور ملک میں رہ رہے ہوں تو وہ اُس ملک کا بھی تو وفادار تو رہے گا۔ اگر کسی کے بیوی بچے‘ یا بیویاں بچے‘ امریکہ یا کینیڈا وغیرہ میں رہ رہے ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ امریکہ یا کینیڈا کے ساتھ وفادار نہ ہو جبکہ پاکستان میں وہ وزیر بھی ہو یا اسمبلی کا رُکن بھی ہو یا کوئی اور حساس ذمہ داری بھی سنبھالے ہو؟
یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ سیاستدان امریکہ‘ یورپ‘ یو اے ای‘ ہسپانیہ اور جرمنی میں جائدادوں پر جائدادیں بنائیں‘ وہاں کارخانے لگائیں‘ عیدیں شبراتیں وہیں کریں‘ ان کی اولاد فخر سے کہے کہ ہم وہاں کے شہری ہیں‘ چھینک بھی آ جائے تو علاج کے نام پر وہاں پہنچ جائیں‘ اس کے باوجود وزیراعظم بھی بنا دیے جائیں‘ صدارت کا منصب بھی سنبھال لیں‘ وزارتوں پر بھی فائز ہو جائیں مگر ان کی وفاداری کے حوالے سے کوئی چُوں بھی نہ کرے! اور سول سرکاری ملازمین کی کاغذی شہریت آئے دن موضوع بنے! اس ملک میں یہ بھی ہوا ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے کے لیے ایمرجنسی میں قومی شناختی کارڈ بنایا گیا۔ کسی نے نہ پوچھا کہ کہاں کا شہری ہے۔ وزارت عظمیٰ گئی تو سیدھا ایئر پورٹ گیا اور جہاں سے آیا تھا‘ وہیں دفن بھی ہوا! ایک اور وزیراعظم کو حلقہ انتخاب خیرات میں دیا گیا۔ اس کا اس حلقہ انتخاب سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا میرا اور آپ کا روس یا جرمنی سے ہے۔ پھر اسے وہاں سے جتوایا گیا۔ پھر اسے وزارت عظمیٰ پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئی۔ مگر اس کی وفاداری پر کوئی شک نہ کیا گیا۔ جیسے ہی وزارت کی مسند سے اُترا‘ مال سمیٹا‘ کروڑوں کے سرکاری تحائف کی گٹھڑی سر پر رکھی‘ گیا اور کبھی پلٹ کر نہ آیا!
 کبھی کسی کو فکر نہ دامن گیر ہوئی کہ یہ کھلاڑی جو پاکستان کے لیے کھیلتے ہیں‘ ان کی شہریتیں کہاں کہاں کی ہیں! ان کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں؟ اور جس دن اہلِ صحافت کی دہری شہریت کی فہرست نکلی تو ایسے ایسے نام سامنے آئیں گے کہ لوگ دنگ رہ جائیں گے۔ مگر سرکاری ملازم پر ہاتھ ڈالنا اس لیے آسان ہے کہ وہ احتجاج کر سکتا ہے نہ بدلے میں حکومت کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔ آئینی تحفظ کی چھتری جو اس کے سر پر سایہ فگن تھی‘ بھٹو صاحب نے چھین لی۔ پھر آج تک واپس نہ ملی۔ ٹیکس آپ اس کی تنخواہ سے اسے پوچھے بغیر‘ اسے بتائے بغیر کاٹ لیتے ہیں‘ سرکاری رہائش کے لیے وہ دس دس پندرہ پندرہ سال لائن میں کھڑا رہتا ہے‘ جس دن اس کی کوئی بات آپ کو نا گوار گزرتی ہے‘ اسے او ایس ڈی بنا دیتے ہیں‘ اس سے بہتر قربانی کا بکرا 
 (scapegoat)
کون ہو گا؟ ویسے بھی اس جیسا مفید جانور کہاں ملے گا۔ آپ تو فائل پڑھ ہی نہیں سکتے‘ پڑھ سکتے بھی ہوں تو آپ کے پاس وقت کہاں‘ کام تو سارا سول سرونٹ ہی نے کرنا ہے‘ آپ نے صرف دستخط ثبت فرمانے ہیں! مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ بڑے میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دوران ایک وفاقی وزیر ایسا بھی تھا جو ہفتے میں صرف ایک دن‘ بدھ کو‘ دفتر آتا تھا۔ مگر اس پاکستان میں سب چلتا ہے۔ اس کی وزارت اہم وزارت تھی۔ پبلک ڈیلنگ بھی تھی۔ کون چلاتا تھا ؟ یہی بدبخت سرکاری ملازم!
سول سرونٹس کی دہری شہریت پر پابندی ضرور لگائیے۔ اصولی طور پر یہ درست اقدام ہے مگر عالی جاہ! بندہ پرور! یہ پابندی سب پر لگائیے۔ صرف سول ملازمین پر کیوں؟ خاکی ملازمین پر بھی لگائیے۔ اہلِ سیاست پر بھی لگائیے! اہلِ وزارت پر بھی لگائیے! قومی ٹیموں میں شامل ہو کر کھیلنے والوں پر بھی لگائیے۔ ان اہل صحافت پر بھی لگائیے جو آئے دن حساس مقامات پر جا کر بریفنگ لیتے ہیں‘ پریس کانفرنسیں اٹینڈ کرتے ہیں اور ضیافتیں اڑاتے ہیں۔ کیا کسی کو معلوم ہے کتنے سابق سفیر دوسرے ملکوں کے شہری بن کر وہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ ان کے سینوں میں بھی تو قومی راز ہیں! انہیں آپ نے ملک چھوڑنے کی اور دوسرے ملکوں کی وفاداری کا حلف اٹھانے کی اجازت کیوں دی ہوئی ہے؟ اور آپ کا کیا خیال ہے کہ ان سابق سفیروں نے یہ غیر ملکی شہریتیں ریٹائرمنٹ کے بعد لی ہیں؟ کیا بات ہے آپ کی!! بہت بھولے ہیں آپ!
وہ شاخّ گُل پہ زمزموں کی دھُن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
وضاحت: اس کالم نگار کے پاس صرف اور صرف پاکستانی شہریت ہے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com