لاہور جب بھی آؤں‘ سب سے بڑے کتب فروش سے ضرور پوچھتا ہوں کہ انڈیا سے کتابیں آنے کا سلسلہ شروع ہوا یا نہیں؟ اب کے بھی یہی سوال کیا اور اب کے بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ شاید یہ ملک کا واحد کتاب فروش ہے جس نے اپنی تین چار منزلہ دکان میں کیفے بھی بنا رکھا ہے۔ مغربی ملکوں میں ایسے کیفے عام ہیں۔ آپ کتابیں بھی دیکھ اور پڑھ سکیں اور وہیں‘ چائے اور کافی بھی پی سکیں تو اس سے زیادہ لطف آور سچوایشن کیا ہو گی!! اسلام آباد میں ''مسٹر بکس‘‘ کے مالک یوسف صاحب نے‘ جو بہت اچھے دوست تھے‘ ایک بار بتایا تھا کہ وہ سٹار بکس کافی کی برانچ اپنی بک شاپ میں لانا چاہتے ہیں۔ اب تو یوسف مرحوم ہو گئے۔
بھارت سے کتابیں آنے اور کتابیں وہاں بھیجنے کا سلسلہ بند ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ زیادہ نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے یا بھارت کا؟ 2012-13ء میں پاکستان میں 3811 کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے ساڑھے آٹھ سو کے قریب انگریزی میں تھیں۔ اسی سال بھارت میں نوّے ہزار کتابیں چھپیں جن میں بائیس ہزار انگریزی زبان میں تھیں۔ یہ بائیس ہزار کتابیں ہمیں اُن کتابوں سے سستی مل سکتی ہیں جو اَب ہم یورپ یا امریکہ سے مہنگی منگوا رہے ہیں۔ آپ یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انڈیا کی آبادی زیادہ ہے اس لیے کتابیں بھی زیادہ تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ مگر ایران کے بارے میں کیا خیال ہے جس کی آبادی نو کروڑ ہے اور ایک سال میں چھپنے والی کتابوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے! برادر ملک ترکیہ کی آبادی بھی ساڑھے آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر ایک سال میں شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد پچھتر‘ اسی ہزار سے کم نہیں ہوتی! ایک وجہ خواندگی کی شرح بھی ہے۔ ایران اور ترکیہ کی شرح خواندگی ہماری مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ آج اگر پیاز یا ٹماٹر کی قلت ہو جائے تو فوراً انڈیا سے منگوا لیے جائیں گے۔ کتابیں ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ اس وقت ڈالر اور پاؤنڈ کا جو ریٹ ہے اس میں یورپ اور امریکہ سے درآمد کی جانے والی کتابیں خریدنا آسان نہیں۔ اور جب کتابیں بکیں گی نہیں تو درآمد کون کرے گا؟ شاید وہ وقت قریب آ رہا ہے جب مطالعہ کے شائق جو چند پاگل ملک میں پائے جاتے ہیں وہ بھی ناپید ہو جائیں گے! حکومتیں ہمیں اشاریوں کی مار دیتی ہیں کہ معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں مگر اصل اشاریے اور ہیں! ہماری کرنسی کہاں کھڑی ہے؟ ہمارے پاسپورٹ کا عالمی رینکنگ میں کیا مقام ہے؟ ہماری کتنی فیصد آبادی ہوائی جہاز میں سفر کرتی ہے؟ اور ہر سال کتنے لوگ دوسرے ملکوں میں صرف سیر وتفریح کے لیے جاتے ہیں اور جا سکتے ہیں؟ کتنی کتابیں ہر سال چھپتی ہیں اور کتنی باہر سے منگوائی جاتی ہیں؟ یہ سب اشاریے وہ ہیں جو ہمیں کمزور‘ لاغر‘ نحیف اور غریب ثابت کرتے ہیں۔ مگر اب ایک اور اشاریہ بھی نمایاں ہو رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر سال کتنے پاکستانی سرسبز چراگاہوں کو تلاش کرتے ہوئے‘ وطن سے دور‘ کشتیوں میں سفر کرتے مر جاتے ہیں؟ یہ نوجوان کیوں جاتے ہیں؟ کیا انہیں جانا چاہیے؟ یہ ایک متنازع ایشو ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ یہاں جو اقتصادی صورتحال ہے اس کے پیش نظر لوگ جانے پر مجبور ہیں۔ یہاں رہ کر وہ اچھے گھر بنا سکتے ہیں نہ اپنے خاندانوں کا معیارِ زندگی بہتر کر سکتے ہیں۔ مگر کیا مجبوری اس قدر ہے کہ جان کا خطرہ مول لیا جائے؟ اگر نوبت فاقہ کشی تک جا پہنچے اور یہاں بھی بھوک سے مر جانے کا اندیشہ ہو تو پھر تو کشتی میں مرنے کا خطرہ مول لینے کا جواز ہے۔ مگر کیا یہ لوگ جو کشتیوں میں مر جاتے ہیں یا جنہیں کشتیوں میں مار کر سمندروں میں پھینک دیا جاتا ہے‘ واقعی وطن میں بھوک سے مر رہے تھے؟ نہیں! ان کی حالت ایسی نہ تھی۔ سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جو چالیس‘ پچاس لاکھ روپیہ یہ نوجوان فریبی ایجنٹوں کو دے کر اپنے لیے موت اور پسماندگان کے لیے عمر بھر کا ماتم خریدتے ہیں اسی سے یہاں رہ کر کوئی کاروبار کر کے خوشحالی کا سفر شروع کر سکتے ہیں۔ اس بہت بڑی آبادی والے ملک میں کچھ اشیا کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اشیائے خور ونوش کی دکانیں ہمیشہ چلیں گی۔ ریستوران اور ڈھابے کہیں بھی ویرانی کا شکار نہیں۔ ادویات کا بھی یہی حال ہے۔ بچوں کے ملبوسات اور جوتے غریب سے غریب کنبے بھی ضرور خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بیسیوں نسخے ہیں۔ آخر اسی ملک میں قلاش کاروبار کر کے آسودہ حال ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ ہاں اگر قانونی طریقے سے جا سکتے ہیں تو ضرور جائیے۔ ایک مصیبت ہمارے معاشرے میں دوسروں کو دیکھنے اور دوسروں کو دکھانے کی ہے۔ ریس‘ حرص اور حسد کے عارضے عام ہیں۔ یہ بیماری گاؤں میں زیادہ ہے۔ فلاں باہر گیا اور اس نے اب کوٹھی تعمیر کر لی ہے‘ یہ ترقی کئی نوجوانوں کو بے چین کر دیتی ہے۔ گھر والے بھی سوچتے ہیں کہ اگر فلاں کا بیٹا جا سکتا ہے تو ہمارا بھی جائے‘ اسی لالچ اور امید میں لاکھوں روپے مانگ تانگ کر بچے کو روانہ کر دیتے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ منزل تک پہنچنے والے چند ہی ہوتے ہیں باقی ریگستان کے سراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بیماری راتوں رات امیر بننے کی ہے۔ یہ سوچ کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ جائز طریقے سے راتوں رات امیر کوئی بھی نہیں بنتا‘ نہ بن سکتا ہے۔ سرکاری شعبہ ہو یا نجی‘ کسی اچھی پوزیشن تک پہنچنے میں دہائیاں صرف ہوتی ہیں۔ سپاہی کو تھانیدار بننے میں‘ بابو کو افسر بننے میں‘ لیکچرر کو پرنسپل بننے میں‘ ٹیچر کو ہیڈ ماسٹر بننے میں‘ مزدور کو ٹھیکیدار بننے میں‘ رپورٹر کو ایڈیٹر بننے میں‘ نئے انجینئر کو جی ایم بننے میں آدھی عمر کھپ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح کاروبار میں بھی عروج تک پہنچنے میں عشرے صرف کرنا پڑتے ہیں۔ مشہور شاعر سنائی کے بقول پتھر کے ٹکڑے کو لعلِ بدخشاں یا عقیقِ یمن بننے میں کئی برس لگتے ہیں۔ کپاس کے بیج کو کتنے ہی مہینے مٹی اور پانی میں رہنا پڑتا ہے تب جا کر کسی معشوق کا لباس یا کسی شہید کا کفن بنتا ہے۔ بھیڑ کی پشت سے اتاری گئی اُون کو کسی عابد وزاہد کا جُبّہ بننے میں کتنے ہی دن لگ جاتے ہیں۔ ایک موزوں طبع بچے کو عالمِ باعمل یا شیریں کلام شاعر بننے کے لیے ایک عمر درکار ہے۔ اور اویس قرنی جیسی ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں! تیز رفتار بے ہنگم گاڑی راستے میں الٹ جاتی ہے‘ آہستہ اور محتاط ڈرائیور‘ تاخیر سے سہی‘ منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو ان نوجوانوں کو بتائے کہ ہزاروں میل دور‘ موت کے بے رحم پنجوں کا شکار ہونے کے بجائے وطن ہی میں محنت کریں اور مستقل مزاجی سے کام لیں! یا پھر ایسی اہلیت حاصل کریں کہ دوسرے ملکوں میں جانے کے لیے قانونی راستہ کارگر ثابت ہو۔
بات کتابوں سے چلی تھی اور کہیں دور جا پہنچی! کوئی ہے جو حکومت کرنے والے صاحبان کو قائل کرے کہ بھارت سے گفت وشنید کر کے دونوں ملکوں کے درمیان کتابوں کی نقل وحمل کو ممکن بنائیں! بڑے میاں صاحب انڈیا سے تعلقات کو نارمل رکھنے کے حامی ہیں۔ آج ملک میں ان کی پارٹی حکمرانی کر رہی ہے۔ ان کے بھائی وزیراعظم ہیں۔ صاحبزادی وزیراعلیٰ ہیں۔ کاش بڑے میاں صاحب کو کتابوں میں دلچسپی ہوتی اور حکومت کو حکم دیتے کہ یہ بندش کھلوائیں۔ کتابیں بھیجنے اور منگوانے سے ہمارے دفاع کو کوئی خطرہ ہے نہ آن کو۔ بھارت میں اُردو پڑھنے لکھنے والوں کو بھی پاکستان میں چھپنے والی ادبی کتابوں اور رسالوں کی اشد ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment