Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, February 18, 2025

کیا ادیب‘ شاعر ہونے کیلئے بیروزگاری ضروری ہے؟


میرا دوست لاہور‘ پنجاب سیکرٹریٹ میں تعینات تھا۔ میں اسے ملنے کے لیے پہنچا تو وہ اپنے دفتر کے باہر کھڑا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔ گاڑی آئی تو اس نے اپنے ساتھ مجھے بھی بٹھا لیا۔ پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ کہنے لگا: یار اقبال ساجد آ رہا ہے‘ اس لیے فی الحال بھاگنے ہی میں عافیت ہے‘ اس نے آکر پیسے ہی مانگنے ہیں۔ اب بندہ کب تک دیتا رہے۔ اقبال ساجد باکمال شاعر تھا مگر مستقل ذریعۂ آمدنی کوئی نہیں تھا۔ مانگ تانگ کر گزر اوقات ہوتی تھی۔ یہ مصرع اُسی کی ایک غزل کا ہے۔
میں بھوک پہنوں‘ میں بھوک اوڑھوں‘ میں بھوک دیکھوں‘ میں پیاس لکھوں
اقبال ساجد کے علاوہ بھی کچھ ادیب اور شاعر ایسے گزرے ہیں جن کا مستقل ذریعۂ آمدنی نہیں تھا‘ ان سب کی کہانیاں مشہور ہیں۔ یہ قصہ اس لیے یاد آیا کہ چند دن پہلے پاکستان اکادمی ادبیات نے ملک کے اطراف واکناف سے 20 نوجوان ادیبوں اور شاعروں کو اسلام آباد مدعو کیا تھا۔ اکادمی نے ان کے قیام وطعام کا بندو بست کیا تھا۔ انہوں نے اسلام آباد کے شاعروں اور ادیبوں سے ملاقاتیں کیں۔ ایک شام انہوں نے میرے ساتھ بھی بسر کی۔ جہاں اور بہت سی باتیں ہوئیں وہاں میں نے انہیں اس بات کی بھی تلقین کی کہ ادبی مشاغل کے علاوہ کوئی نہ کوئی ایسی مستقل مصروفیت ضرور ہونی چاہیے جس سے باقاعدہ آمدنی حاصل ہوتی رہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں قلم کے ذریعے روزی کمانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ جہاں نثر کی کتاب ہزار کی تعداد میں چھپے اور شاعری کی پانچ سو‘ وہاں ادب سے گھر کیسے چلے گا؟ ایک بار تاشقند میں وہاں کے ادیبوں کے ساتھ گپ شپ ہو رہی تھی۔ اُس وقت ازبکستان کی آبادی دو کروڑ تھی۔ بتایا گیا کہ کسی بھی کتاب کا پہلا ایڈیشن پچاس ہزار چھپتا ہے۔ پھر اگر کتاب ہِٹ ہو جائے تو دو لاکھ کی تعداد میں دوبارہ شائع کی جاتی ہے۔ ازبکستان کی شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ ہمارا سرکاری دعویٰ پچپن یا اٹھاون فیصد ہے مگر اصل شرح خواندگی اس سے بہت کم ہے۔ متعدد علاقے ایسے ہیں جہاں خواتین کی تعلیم تو دور کی بات ہے‘ گھر کی خواتین کی تعداد پوچھنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے افغانستان کے طالبان کا جو مائنڈ سیٹ ہے‘ وہ پاکستان کے کچھ طبقات اور کچھ علاقوں میں بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں قلم اور کتاب کے ذریعے گھر کی رسوئی کا خرچ چلانا ممکن ہی نہیں! چنانچہ ان نوجوانوں کو نصیحت کی کہ ادب کو ایک طرف رکھ کر پہلے بیوی بچوں کے مستقل اور باعزت نان نفقے کا بندوبست کریں۔ کسی سکول کالج میں پڑھانے کا کام ہو یا کسی دفتر میں ملازمت یا کوئی کاروبار‘ روزی کمانے کا مستقل بندوبست لازم ہے۔ ہمارے شاعروں اور ادیبوں میں سے کچھ بیروزگار تو تھے ہی‘ انگور کی بیٹی کے بھی دلدادہ تھے۔ چنانچہ روٹی کیلئے تو مانگتے ہی تھے‘ مے نوشی کیلئے بھی دستِ سوال دراز کرتے تھے۔ کچھ باروزگار ہونے کے باوجود شغلِ بادہ نوشی کے طفیل‘ کنگال رہتے تھے۔ ایک شاعر کو اس کی اہلیہ نے کچھ روپے دیے کہ بچہ بیمار ہے‘ دوا لے کر آؤ۔ موصوف تین دن کے بعد لوٹے! عبد الحمید عدم ملٹری اکاؤنٹس میں کلرک تھے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے اکاؤنٹ افسر ہو گئے تھے۔ ان کے محکمے والے آدھی تنخواہ براہِ راست ان کے اہلِ خانہ کو بھجواتے تھے کیونکہ عدم صاحب گھر کیلئے کچھ بچا نہیں پاتے تھے۔ ان کے اشعار سے ان کے طرزِ زندگی معلوم ہو جاتا ہے۔ جیسے:
لوگ کہتے ہیں عدم نے میگساری چھوڑ دی
افترا ہے‘ جھوٹ ہے‘ بہتان ہے‘ الزام ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعر وہ بہت بڑے تھے۔
بے روزگاروں کی ایک قسم اور بھی ہے۔ یہ شاعر نہیں لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ یہ کوئی باقاعدہ پروفیشن نہیں اپناتے۔ پڑھانے کا کام کرتے ہیں نہ بینکار ہوتے ہیں۔ صحافت میں جاتے ہیں نہ فوج میں‘ نہ کہیں اور ملازمت کرتے ہیں‘ نہ ہی کوئی کاروبار! کبھی کسی ادارے میں عارضی نوکری کر لی‘ کبھی ٹی وی کا کوئی پروگرام مل گیا۔ کبھی کسی تنظیم سے وابستہ ہو گئے۔ انہیں کسی نہ کسی حکومت کے بھی نزدیک رہنا پڑتا ہے۔ چونکہ کسی بھی پروفیشن سے تعلق نہیں رکھتے اس لیے خانہ بدوش 

۷۸(Rolling stone) 

ہی رہتے ہیں۔ باقاعدہ کیریئر اپنانا ہمارے جیسے ملک میں بہت ضروری ہے۔ آپ پرائمری سکول کے استاد ہیں یا فوجی ملازم ہیں‘ وکیل ہیں یا ڈاکٹر ہیں۔ کلرک ہیں یا افسر یا کسی اور پکی ملازمت میں ہیں یا کاروبار کرتے ہیں اور ساتھ ادب سے وابستہ ہیں تو آپ تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ کو یہ فکر نہیں کرنا پڑتی کہ اب فلاں ادارے سے وابستہ ہونے کی کوشش کروں یا فلاں نوکری کے لیے وزرا یا حکام کا دروازہ کھٹکھٹاؤں۔ ایسے افراد جو کسی کیریئر سے وابستہ نہیں ہوتے‘ اپنے آپ کو فری لانسر بھی کہتے ہیں۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ فری زیادہ ہوتے ہیں اور لانسر کم! پریم چند پرائمری سکول میں استاد تھے۔ مجید امجد فوڈ کے محکمے میں ملازم تھے۔ ان حضرات کو نان ونمک کے لیے کہیں ہاتھ نہیں پھیلانے پڑے۔ اس کے بر عکس جوش ملیح آبادی کو کئی دروازے کھٹکھٹانے پڑے۔ کہیں بھی مستقل نہ رہ سکے۔ نظام حیدر آباد کے دارالترجمہ میں رہے۔ کچھ عرصہ انڈین حکومت کے رسالہ 'آج کل‘ کے مدیر رہے۔ پاکستان آئے تو کچھ عرصہ ترقیٔ اردو بورڈ میں کام کیا۔ پھر اسے بھی چھوڑ دیا۔ افتادِ طبع کی بھی بات ہوتی ہے۔ کچھ افراد کے پاؤں میں چکر ہوتا ہے۔ کسی ایک جگہ مستقل رہنا یا ایک ہی ادارے سے وابستگی ان کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہوتی! کچھ ادیب اور شاعر بڑے بڑے مناصب پر فائز رہے۔ ڈپٹی نذیر احمد ڈپٹی کلکٹر کے منصب تک پہنچے۔ مولوی چراغ علی نظام کی حکومت میں سیکرٹری فنانس تھے۔ شفیق الرحمان میجر جنرل تھے۔ پطرس بخاری پروفیسر تھے‘ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ مغربی میڈیا نے ان کی انگریزی کی تقریروں کی دل کھول کر تعریف کی۔
بادشاہوں اور درباروں کے زمانے میں شاعروں اور ادیبوں کی بے روزگاری چھپ جاتی تھی۔ قصیدہ خوانی کرکے کسی نہ کسی حکمران یا نواب کے دربار سے وابستہ ہو جاتے تھے۔ یوں رزق کا بندوبست ہو جاتا تھا۔ یہ اور بات کہ حضورِ شاہ دست بستہ کھڑا رہنا پڑتا تھا۔ مغل عہد میں شعرا ایران سے یوں آتے رہے جیسے چیونٹیوں کی قطار چلتی ہے۔ صرف ایک مثال دیکھیے۔ نظیری نیشا پوری ایران سے چلا اور آگرہ پہنچ کر عبد الرحیم خانِ خاناں کا قصیدہ کہا۔ پھر خانخاناں کی وساطت سے اکبر تک رسائی ہوئی۔ جہانگیر تخت نشین ہوا تو اس کی تعریف میں قصیدہ پیش کیا۔ انعام میں بادشاہ نے ایک ہزار روپے نقد‘ خلعت اور گھوڑا عطا کیا۔ ایک اور قصیدے کے عوض بادشاہ نے زمین بھی دی۔ مانگنے کے بھی طریقے تھے‘ خانخاناں سے کہنے لگا کہ میں نے ایک لاکھ روپے کا ڈھیر کبھی نہیں دیکھا۔ خانخاناں نے ڈھیر لگوا دیا۔ نظیری نے خوشامد کی کہ خدا کا شکر ہے آپ کی بدولت لاکھ روپے کا ڈھیر دیکھ لیا۔ خانخاناں نے وہ روپیہ اسی کے گھر میں بھجوا دیا۔ آج کل کے زمانے میں بیرونِ ملک کے مشاعرے ان درباروں کے ایک لحاظ سے نعم البدل ہیں۔ قصائد کا دور نہیں مگر بیرونِ ملک رہنے والوں کو دیوان کے دیوان لکھ کر دیے جاتے ہیں جو وہ اپنے نام سے چھپوا کر شاعرہ یا شاعر ہونے کی حسرت پوری کرتے ہیں۔ یہ شعرا وہاں جا کر فرمائشیں بھی کرتے ہیں اور شَرَبَ یَشرِبُ کا شوق بھی پورا کرتے ہیں۔ منیر نیازی نے ایک مرحوم شاعر کے بارے میں کہا تھا کہ باہر سے آٹا ملے تو وہ بھی لے آتا ہے۔
بہرطور نوجوان نسل جو ادب سے وابستگی کا شوق رکھتی ہے‘ لازم ہے کہ کیریئر کی طرف بھی توجہ دے۔ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com