پنجاب پولیس سے میری محبت بے وجہ نہیں! یہ جو میں پنجاب پولیس پر صدقے قربان ہوتا ہوں تو اس کے پیچھے اس کی بے مثال فرض شناسی ہے۔
پنجاب پولیس کا بنیادی فرض کیا ہے؟ جرائم کی روک تھام! اس وقت جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے‘ سامنے لاہور کی خبروں والا صفحہ کھلا ہے۔ لکھا ہے‘ کاہنہ سے ایک لاکھ 35 ہزار نقد اور زیورات‘ گرین ٹاؤن سے ایک لاکھ تیس ہزار روپے اور موبائل فون‘ غازی آباد سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اور موبائل فون‘ مغل پورہ سے ایک لاکھ دس ہزار روپے اور موبائل فون‘ لاری اڈا سے ایک لاکھ پانچ ہزار روپے اور موبائل فون اور دیگر سامان لوٹ لیا گیا۔ ڈیفنس اور گارڈن ٹاؤن سے گاڑیاں جبکہ مزنگ‘ مانگا منڈی اور یکی گیٹ سے موٹر سائیکلیں چوری ہو گئیں۔ ایک دن پہلے کا اخبار دیکھتا ہوں۔ شمالی چھاؤنی سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اور زیورات‘ نشتر کالونی سے ایک لاکھ دس ہزار روپے اور موبائل فون‘ لیاقت آباد سے ایک لاکھ روپے اور موبائل فون‘ راوی روڈ سے ایک لاکھ روپے اور موبائل فون‘ گلشن راوی‘ انار کلی‘ ساندہ اور بادامی باغ سے گاڑیاں‘ فیصل ٹاؤن‘ شاہدرہ اور سول لائنز سے موٹر سائیکل چوری ہو گئے۔ تھانہ فیکٹری ایریا شیخوپورہ کے علاقے میں ڈاکوؤں نے دورانِ مزاحمت پستول کے بٹ مار کر شہری کو زخمی کر دیا اور اسّی ہزار روپے نقد مع قیمتی موبائل فون چھین کر فرار ہو گئے۔ اُس سے ایک دن پہلے بھی ایسی ہی خبروں سے صفحہ بھرا تھا۔ ایک دن اور پیچھے جاتا ہوں۔ بادامی باغ‘ گجر پورہ‘ مناواں‘ مانگا منڈی اور کاہنہ سے لاکھوں روپے اور بیسیوں موبائل فون لوٹے گئے۔ نولکھا‘ شادمان‘ سبزہ زار‘ نشتر کالونی‘ مانگا منڈی اور سندر سے گاڑیاں اٹھا لی گئیں جبکہ اسلام پور‘ شاہدرہ‘ فیکٹری ایریا‘ شالیمار اور سبزہ زار سے موٹر سائیکل چوری کیے گئے۔ یہ صرف چار دن کے وہ واقعات ہیں جو میڈیا نے رپورٹ کیے ہیں۔ منطق کہتی ہے کہ جو واقعات رپورٹ نہیں ہوئے ان کی تعداد بہت زیادہ ہو گی۔ پھر یہ صرف لاہور اور اس کی نواحی بستیوں میں رونما ہونے والے واقعات ہیں۔ ملتان‘ فیصل آباد‘ پنڈی‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ جیسے بڑے شہروں میں جو کچھ ان چار دنوں میں ہوا اس کا ذکر ان کے علاوہ ہے۔ رہے ضلعی شہر اور تحصیل لیول کے قصبے تو ان تک میڈیا کی رسائی ہی کم ہے‘ تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ یہ واقعات جرائم میں شمار نہیں ہوتے۔ پنجاب پولیس کی توجہ اصل جرائم کی طرف ہے اور اصل جرائم اس کی دوربین‘ تیز نگاہوں سے نہیں بچ سکتے! لاہور کی پولیس نے ایک ہوٹل پر چھاپہ مارا۔ ہوٹل میں ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ڈانس پارٹی ہو رہی تھی۔ خواتین سمیت پندرہ افراد کو اس پارٹی سے گرفتار کر لیا گیا۔ ملزمان سے حقہ‘ شیشہ اور ساؤنڈ سسٹم برآمد کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا۔ اس خبر کا ضمیمہ تو ماسٹر پیس ہے۔ علاقے کے ایس پی صاحب نے فرمایا ہے کہ ''جرائم‘‘ کی روک تھام کے لیے بلا امتیاز کارروائیاں جاری ہیں۔ ہوٹل کی چار دیواری کے اندر جو مرد وخواتین پارٹی کر رہے تھے‘ اگر وہ زیورات چوری کرتے‘ موبائل فون چراتے‘ نقدی لوٹتے یا گاڑیاں اور موٹر سائیکل چراتے یا چھینتے تو انہیں یقینا کچھ نہ کہا جاتا کیونکہ اصل جرائم میں چوری‘ ڈاکہ اور لوٹ مار جیسے بے ضرر اقدامات شامل نہیں۔ اصل جرائم میں گھر یا ہوٹل کی چار دیواری کے اندر پارٹی سے لطف اندوز ہونا شامل ہے۔ اور پھر حقہ اور شیشہ پینا تو ایسے جرائم ہیں جو چوری‘ ڈاکے‘ قتل‘ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی جیسی معصوم حرکتوں کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ گھناؤنے جرائم ہیں! اور ساؤنڈ سسٹم؟ اللہ اللہ! ساؤنڈ سسٹم کے بجائے اگر ان ''مجرموں‘‘ کے قبضے سے ناجائز اسلحہ‘ راکٹ اور بم یا ہیروئن نکلتی تو انہیں چھوڑا جا سکتا تھا مگر ساؤنڈ سسٹم! ساؤنڈ سسٹم تو ایٹم بم سے زیادہ مہلک اور ہائیڈروجن بم سے زیادہ خطرناک ہے۔
چلیں! یہ سب تو طنز تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان چیزوں سے ہم کب نکلیں گے؟ ملک جرائم سے اَٹا پڑا ہے۔ قتل ایک سال میں جتنے ہوتے ہیں شمار سے باہر ہیں! ہر شہر‘ ہر قصبے میں چوریاں اور ڈاکے بے حساب پڑ رہے ہیں۔ اغوا کے کیس لا تعداد ہیں۔ ٹیکس چور کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ بچوں کے دودھ میں ملاوٹ ہو رہی ہے۔ جعلی دواؤں کی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور ناروا نفع خوری زوروں پر ہے۔ پولیس ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیوں نہیں پکڑتی؟ ایف آئی آر کٹوانے کے مراحل میں لوگ ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر پولیس رقص کرنے والوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ تھیٹر میں رقص ہو رہا ہے۔ فلموں میں رقص ہو رہا ہے۔ ویلنٹائن ڈے پر رقص کرنا جرم کیسے ہو گیا؟ اس کالم نگار نے ویلنٹائن ڈے کبھی نہیں منایا۔ مگر جو منانا چاہتے ہیں انہیں کس قانون کی رُو سے پکڑا جا رہا ہے؟ کیا وہ امنِ عامہ میں خلل ڈال رہے ہیں؟ حقہ‘ شیشہ اور ساؤنڈ سسٹم رکھنا جرم کیسے ہو گیا؟
بسنت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مہلک ڈور بنانے والوں اور استعمال کرنے والوں کو ''لائق‘‘ پولیس پکڑ نہیں سکتی‘ اس لیے پتنگ اڑانے کو ہی جرم قرار دے دیا گیا۔ اگر چند ڈرائیور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کریں تو کیا تمام گاڑیاں بند کر دو گے؟ اگر چند ڈاکٹروں کی ڈگریاں جعلی نکل آئیں تو کیا سارے ہسپتال مقفل کر دو گے؟ یہ کیسی مستعدی اور کارکردگی ہے؟ بسنت کا تہوار صدیوں سے منایا جا رہا ہے! پولیس چاہے تو مہلک ڈور بنانے‘ بیچنے اور خریدنے والوں کو سات زمینوں کے نیچے سے بھی پکڑ سکتی ہے۔ پولیس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دھاتی ڈور کہاں کہاں بن رہی ہے اور کون کون بیچ رہا ہے۔ ان قاتل صفت درندوں کو پھانسی پر لٹکانے کے بجائے آپ نے تہوار ہی کا گلا گھونٹ دیا! ٹوپی چھوٹی ہو تو سر نہیں کاٹتے‘ ٹوپی کا سائز بڑا کرتے ہیں۔ مگر آپ تو سر پر ہی رندا پھیرنا شروع ہو گئے!
ایک بچے کے ماں باپ سکول میں بچوں کی استانی کو ملنے گئے۔ باپ خوش شکل استانی کو مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔ استانی نے بچے کے باپ کو کہا کہ ''جتنی توجہ آپ مجھ پر دے رہے ہیں اس سے آدھی توجہ بچے پر دیتے تو بچے کا پڑھائی میں یہ حال نہ ہوتا!!‘‘ پولیس جتنی کارکردگی ویلنٹائن ڈے پر اور نئے سال کی رات پر دکھاتی ہے اس سے آدھی بھی چوروں‘ ڈاکوؤں اور قاتلوں کو پکڑنے میں لگائے تو یہ ملک جنت بن جائے مگر بات وہی ہے کہ سائیکل کی ہر شے بج رہی ہے سوائے گھنٹی کے۔ کوئی جوڑا پارک میں بیٹھا ہے تو اس سے نکاح نامہ مانگا جائے گا۔ کبھی کسی کا منہ سونگھا جا رہا ہے۔ محلوں اور گلیوں میں عوام نے اپنے خرچ پر چوکیدار رکھے ہوئے ہیں۔ گاڑیوں پر ٹریکر لگانے پڑتے ہیں۔ واردات کی شکایت کرنے کوئی تھانے میں آ جائے تو اس کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔ پولیس کا نام سن کر شریف لوگوں کو ہول پڑنے لگتے ہیں۔ ٹریفک پولیس پر قومی خزانے سے اٹھنے والے اخراجات دیکھیے اور ٹریفک پولیس کی کارکردگی دیکھیے۔ رات کو وفاقی دارالحکومت کی کسی بھی سڑک کے کنارے دس منٹ کے لیے کھڑے ہو کر سروے کر لیجیے‘ نوے فیصد موٹر سائیکلوں کی پیچھے والی بتیاں کام نہیں کر رہیں‘ سامنے کی لائٹوں کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد بھی ہوشربا ہے۔ موٹر سائیکل ٹریفک کے لیے کینسر بن چکے ہیں۔ ٹریفک پولیس کہاں ہے‘ کیا کر رہی ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں! عام شہری کی پولیس کے بڑے افسر وں تک رسائی ہی ممکن نہیں!
نجم حسین سید کا لکھا ہوا ڈرامہ یاد آجاتا ہے۔ تھانے میں بے گناہ عورت کو مارا جا رہا تھا۔ مولوی صاحب کا گزر ہوا تو عورت کو ڈانٹا کہ سر پر دوپٹہ نہیں ہے‘ سیدھی جہنم میں جاؤگی! ویلنٹائن ڈے اور بسنت سے پرہیز کیجیے۔ چوریوں اور ڈاکوں کی خیر ہے۔
No comments:
Post a Comment