ماشاء اللہ! ایک اور ''قومی کشمیر کانفرنس‘‘ منعقد ہو چکی!
ذرا عزائم اور اعلانات دیکھیے: حکومت کشمیر پر اے پی سی بلائے۔ جنرل باجوہ کی کشمیر پر سودے بازی کی باتوں پر وضاحت دی جائے۔ عالمی برادری کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کرے۔ جموں وکشمیر کا تنازع کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ کشمیری متاثرین کو نیورمبرگ ٹرائلز
(Nuremberg Trials)
کی طرح بین الاقوامی فوجداری عدالت اور عالمی عدالت انصاف کے ذریعے انصاف دلایا جائے۔
یہ تو صرف فرشتوں ہی کو معلوم ہوگا کہ یہ کِتویں کشمیر کانفرنس تھی؟ ویسے پوچھا جا سکتا ہے کہ اب تک کی منعقد کردہ کشمیر کانفرنسوں پر آج تک قومی خزانے سے کتنا خرچ ہو چکا ہے اور ان کانفرنسوں سے آزادیٔ کشمیر کی منزل کس قدر نزدیک تر ہوئی؟ کچھ اور سوال بھی پوچھے جانے چاہئیں۔ حکومت اے پی سی بلائے گی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا اس سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ یہ کسے کہا جا رہا ہے کہ جنرل باجوہ کی کشمیر پر سودے بازی کی باتوں پر وضاحت دی جائے؟ جنرل باجوہ پاکستان میں موجود ہیں! آپ خود ان سے کیوں نہیں پوچھتے؟ اتنا آسان کام بھی دوسروں سے کرانا چاہتے ہیں! اور یہ مطالبہ کس سے کیا جا رہا ہے کہ کشمیری متاثرین کو نیورمبرگ ٹرائلز کی طرح بین الاقوامی فوجداری عدالت اور عالمی عدالت انصاف کے ذریعے انصاف دلایا جائے؟ مدعی کون ہوگا؟ کانفرنس کے تمام مقررین معزز اور بااثر افراد ہیں۔ وہ کیوں نہیں یہ مقدمہ دائر کرتے؟ ان معززین میں ایک صاحب آزاد کشمیر کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں یہ کام کیوں نہ سر انجام دیے؟ مگر کانفرنس کا مضحکہ خیز ترین حصہ یہ تھا کہ ایک ''فرینڈز آف کشمیر فورم‘‘ بنانے کی منظوری دی گئی جو ''مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری میں رائے عامہ ہموار کرے گا‘‘۔ یعنی کشمیر کے نام پر مزید غیر ملکی دورے ہوں گے۔ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا یہ ہے کہ اس ''فرینڈز آف کشمیر فورم‘‘ کا سربراہ ایک ایسے صاحب کو بنایا گیا ہے جن کی شہرت صرف پارٹیاں بدلنے کی ہے اور ہر حال میں ایوانِ بالا کی نشست حاصل کرنے کی ہے!! بس کر دیجیے! خدا کے لیے بس کر دیجیے! قوم کے ساتھ‘ خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے ساتھ یہ مذاق بند کیجیے۔ پہلے اس بھوکی ننگی قلاش قوم کو یہ بتائیے کہ ''کشمیر کمیٹی‘‘ پر آج تک کتنا روپیہ لگا ہے؟ جن اربابِ سیاست کو اس نام نہاد کمیٹی کی صدارت سیاسی رشوت کے طور پر دی جاتی رہی‘ ان کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے کون کون سے ضلعے‘ کون کون سی تحصیلیں اور کون کون سی وادیاں آزاد ہوئیں؟ نوابزادہ صاحب نے اس کمیٹی کے صدر کے طور پر کتنے دورے کیے؟ کہاں کہاں گئے؟ کشمیر کاز کو کیا فوائد پہنچے؟ مولانا صاحب بھی اس کمیٹی کے صدر رہے! کہاں کہاں گئے؟ کیا حاصل حصول رہا؟ قومی خزانے سے ان معززین کے دوروں کے لیے جو اخراجات ادا کیے گئے ان کی تفصیل کیا ہے؟ معروف سفارتکار‘ سابق سفیر‘ جناب کرامت غوری اپنی خود نوشت ''بار شناسائی‘‘ میں کشمیر کی آزادی کے لیے اس قوم نے جو ''جدوجہد‘‘ کی‘ اس کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔ یہ کویت کا حال ہے جہاں کرامت غوری اُس وقت سفیر تعینات تھے۔
''مولانا فضل الرحمن کا سب نے ہی بہت تپاک سے استقبال کیا اور پھر ہم سب اس کانفرنس روم میں جا کر بیٹھ گئے جو اس قسم کی ملاقاتوں کے لیے مخصوص تھا۔ جام الصقر صاحب نے مولانا کو باضابطہ اور خوشگوار الفاظ میں خوش آمدید کہنے کے بعد ان سے درخواست کی کہ وہ جس مقصد کے لیے وارد ہوئے وہ بیان کریں لیکن مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف سے میں حاضرین کو آگاہ کروں۔
مجھے حیرت ہوئی کہ مولانا خود اس فریضے کی ادائیگی سے کیوں جان چھڑانا چاہ رہے ہیں‘ لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ مولانا کو یاد دلائوں کہ وہ پاکستان کے خصوصی ایلچی بن کر وارد ہوئے ہیں اور وزیراعظم بینظیر کی خصوصی ہدایات کے بموجب میں انہیں اس ملاقات کے لیے لے کر گیا تھا۔ مولانا کچھ قائل ہوئے‘ کچھ نہیں ہوئے لیکن خاموشی جب بوجھل ہونے لگی تو انہوں نے رک رک کر اردو زبان میں پانچ سات منٹ تک کلمات ادا کیے جن کا میں انگریزی میں ترجمہ کرتا رہا لیکن پھر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ مولانا نفسِ مضمون کی طرف نہیں آ رہے اور معزز سامعین بھی ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے دیکھ رہے ہیں‘ لہٰذا حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کی نیت سے میں نے لقمہ دیا کہ مولانا اگر پسند فرمائیں تو گفتگو کو میں آگے بڑھائوں اور یوں لگا جیسے مولانا اسی لمحے کے منتظر تھے۔ انہوں نے فوراً ہامی بھر لی اور سامنے میز پر رکھے ہوئے کیک پیسٹری کی طرف رجوع ہو گئے اور پھر ایک گھنٹے تک ان کی طرف سے میں ہی بولتا رہا اور وہ اپنے پیٹ کی میزبانی کرتے رہے۔ ایک دوسرے موقع پر مولانا طے شدہ سرکاری تقریب میں آنے کے بجائے شہر سے باہر پٹھانوں کے ایک ڈیرے پر ضیافت اڑانے پہنچ گئے جہاں مدرسے کے لیے چندہ بھی جمع کیا‘‘۔
نواب زادہ صاحب کے حوالے سے بھی کرامت غوری صاحب نے لکھا ہے۔ مشہور صحافی رضا علی عابدی لکھتے ہیں: ''اسی ضمن میں نوابزادہ نصراللہ کا ذکر ہے جنہیں کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا کر دنیا کے دورے کرائے گئے کہ وہ شہر شہر جاکر کشمیر کے بار ے میں پاکستان کا موقف اجاگر کریں۔ مغربی دنیا کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں قیام کا لطف اٹھاتے ہوئے نوابزادہ صاحب جب لندن میں وارد ہوئے اور ایک پریس کانفرنس بلائی گئی‘ میں بھی اس میں شریک تھا۔ وہاں برطانیہ کے قومی پریس کے نامہ نگاروں کا کیا کام؟ وہاں تو ساری کارروائی اردو میں ہونی تھی لہٰذا دو یا تین پاکستانی رپورٹر اصلی تھے‘ باقی مجمع لگانے کے لیے وہ نامہ نگار بلا لیے گئے تھے جنہیں آج کل کی اصطلاح میں دو نمبر کہا جاتا ہے‘‘۔ یہ ہیں اُس کھیل کی چند جھلکیاں جو ہم کشمیر کے نام سے کھیلتے آئے ہیں اور کھیل رہے ہیں۔ اس میں حکومتیں ہی نہیں‘ تمام اہلِ سیاست شامل رہے ہیں کیونکہ یہ کمیٹیاں پارلیمنٹ ہی کی پیداوار تھیں۔ کیا کسی نے ان سیاسی رشوتوں پر اعتراض یا احتجاج کیا؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو مرحوم شخصیات کشمیر کے لیے دوسروں کے بچوں کو جہاد اور شہادت کی نعمتیں مہیا کرتی رہیں اور اپنے بچوں کو مغربی ملکوں میں پڑھا کر بزنس میں ڈالتی رہیں‘ اب ان کی اولادیں کشمیر کے نام پر لیڈریاں کر رہی ہیں۔ مودی حکومت نے جب بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کیا تو واحد ایکشن جو ہم نے لیا یہ تھا کہ کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سرینگر ہائی وے رکھ دیا! کیا کہنے اس ردعمل کے!! ہماری‘ ہمارے پاسپورٹ کی‘ ہماری کرنسی کی جو حالت اور شہرت ہے اس کے سامنے ہم عالمی برادری کے سامنے کشمیر کی بات کریں بھی تو کون سنے گا؟ پاکستانیوں کو ہزاروں کی تعداد میں دوسرے ملکوں سے ناپسندیدہ قرار دے کر نکالا جا رہا ہے۔ جب تک ہم اپنی عزت بحال نہیں کریں گے اور قوموں کی برادری میں برابر کی حیثیت نہیں حاصل کریں گے‘ ہماری بات کوئی نہیں سنے گا۔ ابھی تو ہم سعودی امداد پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر تیل فراہم ہونے پر گھی کے چراغ جلا رہے ہیں۔ مانسہرہ جیسے چھوٹے شہروں کی واٹر سپلائی سکیم کے لیے بھی رعایتی قرض حاصل کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں یہ خبر عام ہے کہ شہر کی میلوڈی مارکیٹ کی مرمت اور نوسازی کے لیے فنڈ آذربائیجان دے رہا ہے۔ یعنی اب ہم سے اپنے عام‘ روز مرہ بجٹ کا بندوبست بھی نہیں ہو رہا۔ اس عبرتناک فلاکت کے ساتھ ہم دنیا کے سامنے کشمیر کے لیے آواز اٹھائیں گے؟؟ کشمیر کمیٹیوں اور کشمیر کانفرنسوں سے اگر کچھ بن سکتا تو ہم نے جتنی کمیٹی کمیٹی کھیلی ہے اور جتنی کانفرنسیں کی ہیں تو اب تک آدھا بھارت ہم لے چکے ہوتے!!
No comments:
Post a Comment