ایک معاصر نے گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی کے بارے میں ایک نوٹ شائع کیا ہے۔ یہ کالج پوٹھوہار میں سرکاری سیکٹر کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہے۔ پروفیسر اشفاق علی خان اور ڈاکٹر سید صفدر حسین جیسے مشاہیر یہاں پرنسپل رہے ہیں۔ ہم جیسے طالب علموں نے بھی یہیں سے گریجوایشن کی۔ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کالج میگزین کی ایڈیٹری کی۔ کتابیں بھی لکھیں۔ ماڑے موٹے انعامات اور اعزازات بھی حاصل کیے‘ مگر کالج کے سابق طلبہ کا ذکر ہو تو نام کھلاڑیوں اور اداکاروں کے لیے جاتے ہیں! بقول مجید امجد: دنیا تیرا حُسن یہی بد صورتی ہے!
چند ماہ پہلے کالج کے پرنسپل‘ معروف عربی دان‘ پروفیسر ڈاکٹر محسن کبیر نے کالج میں مدعو کیا اور طلبہ اور طالبات سے گفتگو کرنے کا موقع دیا۔ کالج کی مجموعی حالت دیکھ کر شدید رنج پہنچا۔ اس کالج کی اصل شناخت اُس قدیم عمارت سے ہے جو 1903ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ تب یہ سناتن دھرم ہائی سکول تھا۔ پاکستان بنا تو اسے کالج کا درجہ دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ اصل عمارت کھنڈر بن چکی ہے۔ پُرشکوہ مینار زبانِ حال سے اپنی ویرانی کا ماتم کر رہے ہیں! برآمدے گریہ کر رہے ہیں۔ فرش اُکھڑے ہوئے ہیں۔ عمارت کا بیشتر حصہ ناقابلِ استعمال ہے۔ چند ہی کمرے ہیں جو آباد ہیں! کالج عملاً نئی عمارات میں منتقل ہو چکا ہے۔ یہی اصول رہا تو نئی بلڈنگز جب بوسیدہ ہو جائیں گی تو کیا انہیں متروک قرار دے کر مزید عمارتیں تعمیر کی جائیں گی؟ اسے کہتے ہیں ''اَگوں دوڑ تے پچھوں چَوڑ‘‘۔ دیکھ بھال‘ مرمت ساتھ ساتھ ہوتی رہتی تو یہ عمارت تندرست رہتی! اس سے زیادہ پرانی عمارتیں پاکستان اور بھارت میں موجود ہیں اور اچھی حالت میں ہیں! سوال یہ ہے کہ اس افسوسناک صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ پنجاب میں تعلیم کے کئی سیکرٹری ہیں۔ سکول ایجوکیشن کے سیکرٹری صاحب الگ ہیں۔ ہائر ایجو کیشن کے الگ ہیں۔ لٹریسی اور نان فارمل بیسک ایجوکیشن کے الگ ہیں اور سپیشل سکولز کے الگ ہیں۔ ان حضرات کی ماتحتی میں ایڈیشنل سیکرٹریوں اور ڈپٹی سیکرٹریوں کے ڈھیر لگے ہیں! ایک شہری کی حیثیت سے اور اصغر مال کالج کے سابق طالب علم کے طور پر میرا سوال ہے کہ کیا پنجاب ایجوکیشن کے کسی سینئر یا جونیئر افسر نے اس بدقسمت کالج کا کبھی معائنہ کیا؟ بلڈنگ کی مرمت بر وقت کیوں نہیں کرائی گئی؟ فنڈز کیوں نہیں دیے گئے؟ جتنے فنڈز ان با رعب اور عالی قدر افسران کی فوج ظفر موج کی پرورش اور کفالت پر لگتے ہیں‘ ان سے کہیں کم فنڈز میں اس یادگار‘ شاندار عمارت کو سنبھالا جا سکتا تھا! ممکن ہوتا تو عمارت کی خستگی اور بدحالی کی وڈیو اس کالم کے ساتھ اٹیچ کی جاتی مگر اخبار میں ایسا ہو نہیں سکتا! کیا پنجاب کے وزیر تعلیم اس بدقسمتی کا نوٹس لیں گے؟ یا ایک ایک کالج‘ ایک ایک عمارت کے لیے چیف منسٹر صاحبہ کو پکارنا پڑے گا؟ یا سناتن دھرم والوں کو سرحد پار سے بلانا پڑے گا کہ بلڈنگ بنائی تھی تو اب آکر اس کی مرمت اور تزئینِ نو بھی کریں ؟
پس نوشت1: حمیت نام تھا جس کا‘ تیمور کے گھر سے تو گئی ہی تھی ہمارے گھر سے بھی جا چکی ہے۔ پہلے ہمارے ایک سابق وزیراعظم مشرقِ وسطیٰ کے ایک بادشاہ کے سالہا سال ''مہمان‘‘ رہے۔ ایک سابق صدر نے‘ جو جنرل بھی تھے‘ ایک بادشاہ کی عطا کردہ رقم سے جائداد خریدی۔ معروف انگریزی معاصر نے 15 فروری 2017ء کی اشاعت میں ان سابق صدر اور جنرل صاحب کا بیان شائع کیا تھا کہ موصوف نے 2009ء میں شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز السعود سے لاکھوں ڈالر کا عطیہ لیا اور اس رقم سے دبئی اور لندن میں اپارٹمنٹ خریدے! فرمایا کہ ''شاہ عبد اللہ میرے بھائی کی طرح تھے ‘‘۔ ان مرحوم جنرل صاحب‘ سابق صدر سے کوئی پوچھتا کہ بھائی تھے تو آپ نے بھی کبھی ان کو کچھ دیا یا آپ صرف لینے والے ''بھائی‘‘ تھے؟ اندازہ لگائیے مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کے سابق صدر اور دنیا کی چھٹی طاقتور ترین فوج کے کمانڈر انچیف ایک اور ملک کے بادشاہ سے خیرات لے رہے ہیں۔ خیرات نہیں تھی تو یہ کیا تھا؟ پھر ایک سابق وزیراعظم ایک شہزادے کے جہاز پر امریکہ گئے۔ خدا کے بندے! دستِ سوال دراز کرنے کے بجائے کمرشیل فلائٹ پر چلے جاتے۔ ملک کی بے عزتی تو نہ ہوتی! پَھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان! اور پھر واپسی پر شہزادے نے راستے ہی میں اُتار دیا! شاید تاریخ میں اس کی مثال کوئی نہ ہو گی! سینے کے یہ سب داغ اس لیے تازہ کرنا پڑے ہیں کہ اب خواری اور رسوائی کا ایک اور کام کیا جا رہا ہے۔ وہ امریکی عورت جو پاکستانی لڑکے کے چکر میں پاکستان آئی تھی‘ اس کی نگہداشت اور خوش سلوکی پر ہماری ایف آئی اے‘ پولیس اور ایئر پورٹ میڈیکل سٹاف کے سولہ افسروں اور اہلکاروں کو تعریفی اسناد دی جائیں گی! یہ تعریفی اسناد کون دے گا؟ حکومت پاکستان ؟ نہیں! یہ تعریفی سرٹیفکیٹ امریکی قونصل جنرل دے گا!! انا للہ و انا الیہ راجعون!! افسروں اور اہلکاروں کے نام بھی بتائے گئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں یہ بخشش کی جارہی ہو گی!! حمیت اور غیرت کا‘ اور عزتِ نفس کا تقاضا یہ تھا کہ امریکی قونصل جنرل کو کہا جاتا کہ حضور! ٹھیک ہے‘ دنیا آپ کی مٹھی میں ہے مگر ہماری بھی کوئی عزت ہے! ہمیں آپ کی تعریفی اسناد کی کوئی ضرورت نہیں! ہم نے جو کچھ کیا وہ ہمارا فرض تھا۔ ہماری ڈیوٹی تھی۔ ہمیں ہمارا ملک اس کام کیلئے تنخواہ دیتا ہے!! میرا دعویٰ ہے کہ جس وقت یہ تقریب ہو رہی ہو گی اور جس وقت امریکی قونصل جنرل یہ اسناد دے رہا ہو گا تو وہ اپنے آپ کو آقا سمجھ رہا ہو گا اور ہمارے افسروں اور اہلکاروں کو اپنی کالونی کا حصہ!! مجھے یقین ہے بھارت‘ ترکیہ‘ ایران یا کوئی اور ملک ایسی ''مشفقانہ‘‘ اور ''پدرانہ‘‘ تعریفی اسناد قبول کرنے سے صاف انکار کر دیتا۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ایمل کانسی کو جب پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا تو امریکیوں نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی ڈالروں کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں‘ چار دانگِ عالم میں پھیل گئی تھی!!
پس نوشت2: پنجاب کی وزیر اطلاعات نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ڈمپر روزانہ کی بنیاد پر کراچی کے شہریوں کو مار رہے ہیں!! ہم وزیر اطلاعات کے اس افسوس میں برابر کے شریک ہیں! سندھ حکومت کو اس قتل عام کا سدِ باب کرنا چاہیے۔تاہم ہم پنجاب کی وزیر سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اس ضمن میں پنجاب میں کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ ان صفحات پر کئی بار حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے۔ پنجاب میں ٹریکٹر ٹرالیاں اور ڈمپر‘ شاہراہوں پر موت کا رقص کر رہے ہیں‘ دیوانہ وار کر رہے ہیں اور رات دن کر رہے ہیں! ماضی میں راولپنڈی کے ہر دلعزیز پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر ایک ڈمپر کی بھینٹ چڑھ گئے۔ حال ہی میں ملتان میں ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو ٹریکٹر ٹرالی قسم کی شے نے کچل دیا۔ ہر ماہ کئی شہری ان جناتی گاڑیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اصل میں یہ صرف سندھ یا صرف پنجاب کا مسئلہ نہیں‘ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ پورے ملک میں ڈمپروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کے انسان نما اَن پڑھ ڈرائیور انسانوں کو کچل رہے ہیں۔ سارے صوبوں کو مل بیٹھ کر اس ایشو کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ''آہستہ چلنے والی زرعی گاڑیوں‘‘ کے مسئلے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ ان سے بچنے کے لیے عام ڈرائیوروں کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے پر صوبے آپس میں لفظی لڑائی لڑیں گے تو فائدہ کسی کو بھی نہیں ہو گا!!
No comments:
Post a Comment