مکان باپ کے نام تھا۔ وہ بیٹے کے نام کرانا چاہتا تھا۔ باپ بیٹا کچہری گئے۔ متعلقہ اہلکار نے 25 ہزار روپے مانگے۔ پوچھا کہ کیا اس کی رسید ملے گی۔ جواب ملا کہ رسید ملے گی نہ اب کام ہو گا۔ باپ بیٹے نے کسی نہ کسی طرح ایڈیشنل کمشنر ریونیو کو پکڑا۔ سفارش تگڑی تھی۔ چائے بھی پلائی گئی اور مکان کا انتقال بھی ہو گیا۔ سرکاری فیس ڈیڑھ ہزار روپے کے لگ بھگ تھی۔
گاؤں سے ایک عزیز کا فون آیا کہ زرعی رقبے کی نشان دہی کرانی ہے۔ بہت کوششیں کیں اور منت سماجت مگر متعلقہ سٹاف گھاس نہیں ڈال رہا۔ جو لوگ دیہی پس منظر رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ ''نشان دہی‘‘ کیا چیز ہے اور کتنی ضروری ہے۔ تحصیلدار صاحب تک رسائی ہوئی۔ تب جا کر یہ کام ہوا۔
پنجاب ہی کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست نے زرعی فارم بنایا۔ شوق تھا۔ زندگی بھر کی پونجی لگا دی۔ اب پھر دیہی پس منظر کی بات آگئی۔ ایک شے ہوتی ہے ''گرداوری‘‘۔ یہ محکمہ مال یعنی کچہری والے کرتے ہیں۔ متعلقہ محکمے نے اس کے لیے چار لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔
یہ فقط تین مثالیں پیش کی ہیں۔ کورٹ کچہری کی دنیا ہی الگ ہے۔ گاؤں ہو یا شہر‘ کورٹ کچہری سے چھٹکارا نہیں۔ زرعی زمین کے تو خیر بے شمار مسائل ہیں۔ ''فرد‘‘ نکلوانا ہی کارے دارد ہے۔ ایک شے ہوتی ہے ''لٹھا‘‘ وہ بھی پٹواری بہادر کے پاس ہوتا ہے۔ زرعی زمین بیچنی ہو یا خریدنی ہو‘ لگ پتا جاتا ہے۔ انسانیت کی جتنی تذلیل ان کاموں کے لیے کچہریوں میں ہوتی ہے‘ کم ہی کہیں اور ہوتی ہو گی۔ شہر کی جائداد‘ مکان‘ پلاٹ کی خرید و فروخت میں بھی فریقین رُل جاتے ہیں۔ آج کل جدید ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا دور ہے۔ ان میں کچہری سے واسطہ عام طور پر نہیں پڑتا۔ سی ڈی اے اور ایل ڈی اے میں کیا ہوتا ہے‘ یہ آج کے موضوع سے خارج ہے۔ مگر شہر میں رہنے والے کو بھی جب کچہری میں جانا پڑتا ہے‘ ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ آپ ذرا کچہری کے اہلکاروں کی تنخواہوں کے سکیل دیکھیے۔ نومبر 2023ء میں ان کے سکیل بڑھائے گئے۔ محکمہ مال کے ذرائع کے مطابق پٹواری کا سکیل نو سے بڑھا کر گیارہ اور گرداور کا گیارہ سے چودہ کیا جا رہا تھا۔ نائب تحصیلدار کا سکیل چودہ سے سولہ کیا جا رہا تھا۔ دوسری طرف ان اہلکاروں کے ٹھاٹ دیکھیے تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ میرا‘ ایک سکول کے زمانے کا کلاس فیلو پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ ادھر میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے اکنامکس کرنے گیا‘ اُدھر وہ ہیلے کالج آف کامرس میں ایم کام میں داخل ہو گیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہیلے کالج برصغیر میں کامرس کی تعلیم کے لیے صفِ اول کا ادارہ ہے۔ یہ 1927ء میں وجود میں آیا۔ اس کے لیے سر گنگا رام نے اپنی پراپرٹی ''نابھا ہاؤس‘‘ عطیے کے طور پر دی تھی۔ اُس وقت پنجاب کا گورنر
Sir Malcolm Hailey
تھا۔ اسی کے نام پر کالج کا نام ہیلے کالج رکھا گیا۔ میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کر کے آچکا تھا۔ ہم اسلام آباد میں رہتے تھے۔ ایک دن اسی کلاس فیلو کا خط آیا کہ وہ فلاں دن اسلام آباد آرہا ہے‘ ملازمت کے لیے انٹر ویو دینا ہے۔ اور یہ کہ میرے پاس ہی قیام کرے گا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس نے ہیلے کالج سے ایم کام کیا ہے اور اچھے نمبروں سے کیا ہے اس لیے انٹرویو یا تو لیکچرر شپ کے لیے ہو گا یا بینک کی ملازمت کے لیے۔ مگر جب وہ آیا تو یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ انٹرویو نائب تحصیلدار کی پوسٹ کے لیے ہے۔ اس وقت نائب تحصیلدار دس یا گیارہ گریڈ میں تھا۔ پوچھا تو اس نے بغیر کسی تکلف کے بتایا کہ یار! اس میں اوپر کی آمدنی بہت ہے۔ یہ اوپر کی آمدنی جو پٹواری سے آغاز ہوتی ہے‘ اوپر کہاں تک جاتی ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کہاں تک جاتی ہے!! یہ وہ اوپن سیکرٹ ہے جس سے بچہ بچہ آگاہ ہے!
یہی قیامت تھانوں میں بھی برپا ہے۔ مہذب ملکوں میں جہاں واردات ہو وہاں پولیس خود پہنچتی ہے۔ یہاں واردات کا ڈسا ہوا خود پولیس کے حضور پیش ہوتا ہے اور پھر جو کچھ ہوتا ہے‘ راز نہیں ہے بلکہ ضرب المثل ہے! ایف آئی آر کٹوانا کوہِ ہمالیہ سر کرنے کے برابر ہے۔ کتنے معاملات میں ایف آئی آر بغیر سفارش اور دباؤ کے کٹ جاتی ہے‘ ہم سب بخوبی جانتے ہیں! جو نوجوان میری گاڑی چلاتا ہے‘ اس نے ایک پرانی مہران گاڑی رکھی ہوئی تھی جسے ڈیوٹی کے بعد ٹیکسی کے طور چلا کر بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ پرسوں رات وہ اس کے گھر کے سامنے سے چوری ہو گئی۔ ایف آئی آر کے لیے متعلقہ ایس ایچ او صاحب سے مجھے دو بار گزارش کرنا پڑی تب جا کر کٹی۔ مگر گاڑی ملنے کا امکان صفر ہی کے برابر ہے۔ مل جائے تو معجزہ ہو گا۔ یہ تو خیر وفاقی دار الحکومت کی بات ہے‘ پنجاب میں صورت حال قطعاً مختلف نہیں! صرف ایک دن‘ جی ہاں صرف ایک دن کے اخبارات میں فقط بڑے شہروں میں ہونے والی چوریوں‘ ڈاکوں اور وارداتوں کی خبریں پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ جیسے پنڈی‘ لاہور‘ ملتان اور فیصل آباد۔ ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹروں کو تو چھوڑ ہی دیجیے۔ یوں معلوم ہوتا ہے پولیس کا وجود ہی نہیں!
اس عزاداری کا مقصد وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ اس طرف دلانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ مریم نواز دن رات محنت کر رہی ہیں‘ بہت فعال ہیں اور اپنے منصوبوں میں از حد سنجیدہ ہیں! یہ الگ بات کہ منصوبے کثیر تعداد میں شروع کر رہی ہیں۔ منصوبے کم تعداد میں ہوں اور زیادہ توجہ حاصل کریں تو نتائج بہتر نکلتے ہیں۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! چیف منسٹر صاحبہ اگر واقعی صوبے میں کوئی انقلابی کام کرنا چاہتی ہیں تو کچہری اور تھانے کا کلچر بدلیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ کسی ایک کچہری میں بھی رشوت (یا سفارش) کے بغیر کام نہیں ہو رہا۔ 77 برسوں میں اس لعنت کا خاتمہ ہوا نہ کسی نے اس طرف توجہ دی۔ کیا کوئی کمشنر‘ کوئی ڈی سی‘ کوئی اے سی‘ آسمانی کتاب پر ہاتھ رکھ کر دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کے نیچے جو ضلع کچہری یا تحصیل ہے اس میں رشوت کے بغیر کام ہو رہا ہے؟؟ کوئی ہے تو یہ چیلنج قبول کرے اور دعویٰ کرکے دکھائے! چیف منسٹر صاحبہ بھیس بدل کر تحصیلوں اور ضلعوں کی کچہریوں میں جا کر دیکھیں۔ انتقال کا یا نشان دہی کا یا گرداوری کا کوئی کام عام پاکستانی کی حیثیت سے لے کر جائیں اور دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے؟ کسی تھانے میں بھیس بدل کر جائیں اور ایف آئی آر کی درخواست دے کر دیکھیں۔ تب معلوم ہو گا کہ کیا ہو رہا ہے!
کچہریوں اور تھانوں کی تطہیر آسان کام نہیں! یہ جان جوکھوں کا سفر ہے۔ لیکن اگر وزیراعلیٰ صوبے کے لیے واقعی کچھ کرنا چاہتی ہیں تو کچہریوں اور تھانوں سے رشوت کا خاتمہ کریں۔ یہ کیسے ہو گا؟ اس کے لیے میکانزم انہیں خود بنانا ہو گا۔ اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ سول سروس کے وہ دو طائفے ہیں جو کچہریوں اور تھانوں کے انچارج ہیں! اگر چیف منسٹر صاحبہ یہ جہاد انہی طائفوں کے ذریعے کرنا چاہیں گی تو یہ ایسے ہی ہو گا جیسے گاڑی چلاتے وقت بریک پر پاؤں رکھ دینا!! سول سروس کے یہی دو برہمن گروپ ہی تو مسئلے کا حصہ ہیں! مسئلے کے حل میں انہیں کیسے شریک کیا جا سکتا ہے!! عالی قدر! چیف منسٹر صاحبہ! خدا آپ کا وقار اور اقتدار قائم و دائم رکھے یہ کام کر ڈالیے ورنہ:
گر یہ نہیں تو بابا! پھر سب کہانیاں ہیں!!
No comments:
Post a Comment