بات ہو رہی تھی کہ بادشاہ بھیس بدل کر راتوں کو شہروں میں گھومتے تھے۔ بہت سے دن کو بھی ایسا کرتے تھے۔ زبانی روایت ہے کہ سعودی بادشاہ عبد العزیز بھیس بدل کر تنور پر روٹی خریدنے گیا۔ روٹی کو تولا تو وزن کم تھا۔ اس نے تنورچی کو تنور میں ڈال دیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آج تک روٹی کا وزن کم نہیں ہوا۔ ایک اور بادشاہ کی کہانی ہے کہ بھیس بدل کر دن کو بازار میں پھر رہا تھا۔ گھوڑا گاڑی والے سے کہا کہ فلاں جگہ جانا ہے۔ کیا اتنے روپے کافی ہوں گے۔ اس نے کہا اور اوپر جاؤ‘ بادشاہ نے کرائے کی رقم بڑھا دی۔ کوچوان نے کہا اور اوپر جاؤ‘ بادشاہ نے رقم اور بڑھا دی۔ کوچوان کہنے لگا‘ بجاؤ تالی۔ مطلب یہ تھا کہ ٹھیک ہے۔ سودا ہو گیا۔ بادشاہ گھوڑا گاڑی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کوچوان کی چھٹی حِس نے اسے بتایا کہ یہ گاہک کوئی عام آدمی نہیں لگتا۔ پوچھا آپ کوئی عہدیدار ہیں؟ بادشاہ نے کہا: اوپر جاؤ۔ پوچھا: درباری ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا بہت بڑے افسر ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا: وزیر ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا: وزیراعظم ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ اب کوچوان نے کہا کہ پھر آپ بادشاہ ہیں؟ بادشاہ نے کہا: بجاؤ تالی! اب بگھی والا خوف زدہ ہو گیا۔ اسے اپنے جرم کا بھی احساس ہوا۔ کہنے لگا میں نے کرایہ ناجائز حد تک زیادہ مانگا۔ کیا سزا میں مجھے جرمانہ ہو گا؟ بادشاہ نے کہا: اوپر جاؤ۔ پوچھا: کوڑے لگیں گے؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا: قید کی سزا ملے گی؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ اب کوچوان نے کہا کہ کیا پھانسی دی جائے گی؟ بادشاہ نے کہا: بجاؤ تالی!
آپ اپنے منصب کا اپنے ہم سفر کو بتائیں گے تو کئی منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ ایک امکان تو یہ ہے کہ وہ مرعوب ہو جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ مؤدب‘ محتاط اور خاموش ہو جائے گا۔ تمام سفر کے دوران وہ آسودگی اور اطمینان سے محروم رہے گا۔ آپ کو خوش کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہے گا۔ اس سے آپ بھی سکون سے محروم ہو جائیں گے۔ دوسرا امکان یہ ہو گا کہ اگر وہ مرعوب نہ ہوا تو وہ مسائل بتانا شروع کر دے گا جو اسے آپ کے ادارے میں درپیش آتے ہیں۔ اس داستانِ الم سے بھی آپ کا سفر بیزاری میں کٹے گا۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ وہ آپ کے ادارے کے خلاف ایک طویل تقریر شروع کر دے گا۔ اگر اس نے آپ کو بحث میں الجھا لیا تو یہ ایک اور درد سر ہو گا۔ بہترین سفر وہی ہوتا ہے کہ آپ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر سے کوئی بات نہ کریں۔ یوں آپ ٹرین یا جہاز میں سو بھی سکتے ہیں‘ سوچ بھی سکتے ہیں اور کتاب کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ٹرین میں پنڈی سے کراچی جا رہے تھے۔ ساتھ بیٹھے مسافر سے پوچھ بیٹھے کہ کیا کام کرتے ہیں۔ یہ ایک چابی تھی جو انہوں غلطی سے اسے دے دی۔ اس کے بعد وہ صاحب کراچی تک خاموش نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ جب سیڑھی چڑھ کر اوپر کی برتھ پر جارہے تھے تو اس دوران بھی گفتگو جاری رکھی۔ آپ استاد ہیں یا تاجر‘ کمشنر ہیں یا پولیس مین‘ صحافی ہیں یا وکیل‘ ڈاکٹر ہیں یا عسکری ملازم‘ تعارف آپ کو کئی پریشانیوں اور الجھنوں میں ڈال سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی کرید کر پوچھے یا جہاں ضروری ہو‘ وہاں بتانا ہی پڑتا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو بہت بڑے افسر تھے‘ سرکاری کام پر ہوائی جہاز سے گلگت گئے۔ واپسی پر کئی دن جہاز نہیں ملا۔ ایسا وہاں اکثر ہوتا ہے۔ اس میں نہاد قومی ایئر لائن کی بدانتظامی اور دروغ گوئی کا بھی کردار ہے۔ انہیں جیپ کی پیشکش کی گئی مگر اس کا انہیں تلخ تجربہ تھا۔ ماضی میں ایک بار وہ جیپ میں ڈرائیور کے ساتھ گلگت جا رہے تھے تو لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے شاہراہ مسدود تھی۔ انہیں رات جیپ میں گزارنا پڑی۔ بس وہ تھے اور ڈرائیور! جنگلی جانور بھی تھے اور کھانے کو بھی کچھ نہ تھا۔ اب کے انہوں نے جیپ پر واپس جانے سے انکار کر دیا اور بس سے واپس آنے کا فیصلہ کیا کہ کم از کم ہمہ یاراں دوزخ تو ہو گا! دن کے دو بجے بس گلگت سے چلی۔ دوسرے دن صبح دس بجے راولپنڈی پہنچنا تھی۔ ان کے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے‘ ان سے بات چیت شروع کی۔ وہ انہی کے ادارے کا ایک اہلکار تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس اہلکار نے ان سے نہ پوچھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا بھی نہیں۔ یہ اہلکار ادارے کے سربراہ کو یعنی ان صاحب کو خوب گالیاں دے رہا تھا۔ اس کو دکھ یہ تھا کہ اسے گلگت پوسٹ کیا گیا ہے۔ راستے میں چائے پانی کیلئے جہاں بھی بس رکی‘ انہوں نے چائے کھانے کا اس کا بھی بل اصرار سے ادا کیا۔ دو تین بار اس سے انجان بن کر پوچھا کہ میں بھول گیا ہوں آپ کس ادارے میں کام کرتے ہیں؟ وہ ادارے کا نام بتاتا اورکچھ برا بھلا مزید کہہ دیتا۔ بہر طور سفر کٹ گیا۔ صبح دس بجے بس پنڈی پہنچی تو انہوں نے اس ہم سفر سے کہا کہ ہم اتنی دیر ایک دوسرے کے ساتھی رہے ہیں‘ میرا گھر ساتھ ہی ہے‘ آپ میرے ساتھ آئیں‘ نہا دھو لیں۔ اس موقع پر انہوں نے ایک بار پھر محکمے کا نام پوچھا اور یہ بھی بتایا کہ انہیں بھولنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بہر طور وہ اسے گھر لے آئے۔ بڑا سا سرکاری گھر اور کمرے میں کتابوں کے انبار دیکھ کر وہ کچھ ٹھٹکا۔ نہایا دھویا۔ کھانا کھایا۔ چائے پی۔ جانے لگا تو انہوں نے بتایا کہ تمہارے محکمے کا سربراہ میں ہی ہوں۔ اس نے معافی مانگی تو انہوں نے ہنس کر اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں۔ پھر انہوں نے دفتر فون کیا کہ اس شخص کا کام فوراً کیا جائے اور اس کا بہت خیال رکھا جائے۔ ذرا سوچیے کہ اگر وہ اسے اپنا تعارف شروع ہی میں کرا دیتے تو دونوں کا سفر تکلف‘ تکلیف اور اذیت میں کٹتا۔
اب ایک اور واقعہ سنیے جو بہت مشہور اور منقول ہے۔ ممکن ہے بہت سوں نے پڑھا یا سنا بھی ہو مگر واقعہ انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔
ایک نوجوان ڈپٹی کمشنر چیف سیکرٹری کو ملنے کے لیے لاہور میں اعلیٰ افسروں کی کالونی میں گیا۔ ایک سرکاری گھر کے لان میں ایک شخص بڑی قینچی کے ساتھ باڑ کاٹ رہا تھا۔ ڈپٹی کمشنر نے اسے انگلی کے اشارے سے بلایا اور چیف سیکرٹری کے گھر کا پتا پوچھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتانا چاہا مگر ڈپٹی کمشنر نے اسے ساتھ چل کر دکھانے کو کہا اور ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ شخص اسی طرح قینچی اٹھائے اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور چیف سیکرٹری کا گھر دکھا کر واپس پیدل چلا آیا۔
چیف سیکرٹری نے ڈپٹی کمشنر کو جس کام کے لیے طلب کیا تھا وہ یہ تھا کہ چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ کے اعزاز میں عشائیہ تھا جس کی سکیورٹی کے تمام تر انتظامات اسے کرنا تھے۔ عشائیہ کے روز ڈپٹی کمشنر دن بھر سکیورٹی کے انتظامات میں مصروف رہا‘ شام کے وقت جب چیف جسٹس کی گاڑی آئی تو وہ خود وہاں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ موجود تھا۔ پولیس کا دستہ سلامی دینے کے لیے الرٹ ہو گیا۔ ڈپٹی کمشنر نے خود آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا۔ جیسے ہی چیف جسٹس نے گاڑی سے باہر قدم رکھا‘ ڈپٹی کمشنر کے ہوش اُڑ گئے۔ یہ تو وہی آدمی تھا جس کی اس نے مالی سمجھ کر اہانت کی تھی۔ وہ بہت زیادہ پریشان ہو گیا۔ چیف جسٹس نے اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: نوجوان ! کوئی بات نہیں‘ حوصلہ رکھو‘ زندگی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ وہ جسٹس ایم آر کیانی تھے‘ نہایت منکسرالمزاج طبیعت کے مالک۔
یہ معلوم نہیں کہ اس واقعہ کا اصل راوی کون ہے۔
No comments:
Post a Comment