چوہدری صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ منطق اور عقل ان کے رہنما ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے سارے فیصلے سو فیصد عقل کی بنیاد پر کیے ہیں اور اللہ کے فضل وکرم سے سب ٹھیک ثابت ہوئے۔ سوچ سمجھ کر بچوں کے رشتے طے کیے۔ عقل کو بروئے کار لا کر بزنس کیا‘ مکان تعمیر کیا۔ انگریزی میں کوئی تبصرہ کرے تو چوہدری صاحب کو ضرور
Rational
کہے گا۔ ان کی زندگی میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مذہب کے حوالے سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ فرائض سرانجام دیں اور کبائر سے اجتناب کریں۔ مگر وہ ان بکھیڑوں میں نہیں پڑتے کہ کسی مزار کی طرف پیدل چل پڑیں۔ یہ اکبر بادشاہ کا طریقہ تو ہو سکتا ہے مگر اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کے ہاں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کسی کے بارے میں رائے دینی ہو تو چوہدری صاحب اس کا پورا پروفائل دیکھ کر رائے دیتے ہیں۔ غلطی ان کا قریبی عزیز بھی کرے تو اسے غلطی ہی کہتے ہیں۔
یہ سب کچھ تو ہے‘ مگر ان کی شخصیت میں ایک عجیب وغریب تضاد ہے جو حیران کن ہے۔ جب ان کے پسندیدہ لیڈر کی بات ہو تو ان کی ساری عقلیت‘ منطق پرستی‘
rationalty
غائب ہو جاتی ہے۔ اس معاملے میں وہ شخصیت پرستی کی تمام حدود پار کر جاتے ہیں اور ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ میرے لیڈر میں کسی غلطی یا خامی ہونے کا امکان ہی نہیں! لیڈر کے فیصلے ہوں یا اقدامات‘ چوہدری صاحب ایسی توجیہات پیش کرتے ہیں کہ انسان حیرت سے گنگ ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ کیا یہ وہی چوہدری صاحب ہیں جو عقل اور دلیل کے علمبردار ہیں! یوں لگتا ہے کہ لیڈر کے معاملے میں وہ آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ بزدار صاحب کو سب سے بڑے صوبے کا حکمران بنانے کی آخر کیا ضرورت تھی۔ ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ جینئس تھا۔ راجہ ٹوڈرمل اور اکبر کے نورتن تو خیر بزدار کے سامنے صفر تھے ہی‘ کوئی انگریز گورنر بھی اس کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بزدار صاحب کے دور میں پنجاب سوئٹزر لینڈ اور سنگاپور جیسے ملکوں کا مقابلہ کرتا تھا۔ جب انہیں بتایا جائے کہ خان صاحب تو بزدار صاحب کو جانتے ہی نہیں تھے۔ یہ تو گجر صاحب تھے جو بزدار کو لے کر آئے تھے تو چوہدری صاحب پورے صدقِ دل کے ساتھ جواب دیتے ہیں کہ گجر صاحب جیسا مردم شناس شخص گزشتہ کئی صدیوں میں نہیں پیدا ہوا۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ان دنوں جب گجر صاحب پوشیدگی اور روپوشی کے عالم میں ہیں‘ تو اصل میں وہ ایک یورپی حکمران کے چیف ایڈوائزر ہیں! جب انہیں بتایا گیا کہ پارٹی کے کئی ثقہ ارکان نے وٹس ایپ پر شکایت کی تھی کہ سول سروس کی تعیناتیاں فروختنی ہیں اور فلاں خاتون کا نام اس ضمن میں اوپن سیکرٹ ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تو چوہدری صاحب نے انتہائی سنجیدگی سے دعویٰ کیا کہ فلاں نام کی کوئی خاتون پاکستان میں گزشتہ دو سو سال سے پیدا ہی نہیں ہوئی۔ آخری خاتون اس نام کی رنجیت سنگھ کے دور کے اوائل میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نے بھی کثرتِ اسہال کی وجہ سے جان دے دی تھی‘ چنانچہ یہ الزام ہی بے سروپا ہے۔ جب چوہدری صاحب کو بتایا گیا کہ ایک بڑی ایجنسی کے سربراہ نے حاضر ہو کر اہلِ خانہ کے حوالے سے کرپشن کی اطلاع دی تھی تو بجائے اس کے کہ اطلاع دینے والے کا شکریہ ادا کیا جاتا‘ الٹا اسی کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے تاریخ فرشتہ کھولی اور کہا کہ یہ واقعہ ضرور رونما ہوا تھا مگر 1600ء سے پہلے‘ دکن کی ریاست بیجاپور میں عادل شاہی دور میں رونما ہوا تھا۔ دشمنوں نے اسے ہمارے لیڈر کے سر تھوپ دیا۔ چوہدری صاحب سے پوچھا گیا کہ تلوّن کی انتہا ہے کہ جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا گیا‘ اسے سینے سے لگا لیا گیا اور اس پر بزدار جیسی نابغہ روزگار شخصیت کو قربان کر دیا گیا۔ جسے چپڑاسی کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا تھا اسے داخلہ جیسی حساس وزارت دے دی گئی۔ جسے جلسوں میں ڈیزل کہا جاتا تھا اس کی چوکھٹ پر پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کو رکوع کی حالت میں دیکھا گیا۔ جس کی تضحیک کرنے کے لیے اس کے سٹائل میں چادر اوڑھ کر جلسوں کے شرکا کو ہنسایا جاتا تھا‘ اسے بڑی بڑی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ آخر ان ڈاکوئوں‘ چپڑاسیوں‘ ڈیزلوں کو کیوں قبول کیا گیا؟ چوہدری صاحب ہنسے۔ کہنے لگے: یہ وہ مصلحتیں ہیں جسے تم جیسے عامی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ میرے لیڈر کو پورا حق ہے کہ اپنے قول سے پھر جائے۔ اگر وہ ہزار بار بھی پھرے گا‘ تب بھی میں اسے درست ہی کہوں گا!! چوہدری صاحب سے پوچھا گیا کہ اگر سب سے بڑے ڈاکو سے بغل گیر ہوا جا سکتا ہے تو جن دو سیاستدانوں کو چور کہا جاتا ہے ان سے معانقہ کیوں حرام ہے؟ چوہدری صاحب نے جواب دیا: جس وقت میرا لیڈر چاہے گا ان چوروں کی بھی ڈرائی کلیننگ کر دی جائے گی اور انہیں بھی اپنا لیا جائے گا اس لیے کہ لیڈر کے پاس مافوق الفطرت طاقت ہے۔ وہ نیکوکاروں کو گنہگار اور گنہگاروں کو صاف ستھرا کر سکتا ہے۔ جب سب سے بڑے ڈاکو کو سب سے بڑے صوبے کا حکمرانِ اعلیٰ بنایا گیا تو اسے دودھ سے دھو کر پاک صاف کیا گیا تھا۔ جو چپڑاسی بننے کے لائق بھی نہ تھا‘ اسے وزیر داخلہ جیسی بلند ترین پوسٹ پر بٹھانے سے پہلے جنات کے پاس بھیجا گیا تھا جنہوں نے اس کے سینے کو ان تمام علوم سے بھر دیا تھا جو کیمبرج‘ آکسفرڈ‘ ہارورڈ اور جان ہاپکنز میں پڑھائے جاتے ہیں۔ جسے ڈیزل کہا جاتا تھا‘ اس کی چوکھٹ پر اپنے بندے بھیجنے سے پہلے اسے عرقِ گلاب سے دھویا گیا تھا اور ڈیزل کی بو کو ختم کر دیا گیا تھا۔ چوہدری صاحب کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ جو شخص ایک خاتون کے کہنے پر ایک چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جائے‘ اسے پورے ملک کا انتظام وانصرام کیسے سونپا جا سکتا ہے! اس پر چوہدری صاحب نے لاحول پڑھی اور کہنے لگے تمہاری عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ارے بیوقوفو! خاتون مافوق الفطرت طاقتوں کی مالک ہے۔ اسی کے عمل سے وزارتِ عظمیٰ ملی۔ وہی تو فیصلے کرتی تھیں کہ کس بیورو کریٹ کو کہاں لگانا ہے۔ کس سے کس وقت بات کرنی ہے۔ جب وزارتِ عظمیٰ ملی اور حلف برداری کی تقریب منعقد ہونا تھی تو خاتون ہی کو تو خواب میں بتایا گیا تھا کہ پارٹی کا فلاں پرانا جان نثار تقریب میں شامل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان تو کیا‘ مؤکلین پوری دنیا کی ایڈمنسٹریشن سنبھال سکتے ہیں۔ چوہدری صاحب سے آخری سوال‘ اپنی ایجو کیشن کے لیے‘ پوچھا کہ برطانیہ سے جو بھاری رقم قومی خزانے میں جمع ہونے کے لیے آئی تھی وہ ایک پراپرٹی ٹائیکون کے جرمانے کے طور پر کہیں اور کیوں جمع کرا دی گئی اور کابینہ سے بند لفافے کی‘ مندرجات بتائے بغیر‘ منظوری کیوں لی گئی! یہ وہ ہیں جن کے خلاف کی گئی تقریریں ریکارڈ پر ہیں۔ یعنی:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اس آخری سوال پر چوہدری صاحب نے کمال کی بات کہی جو یقینا سارے معاملے کی کنجی ہے۔ فرمایا: بھائی! ہم نے اپنے لیڈر کے ہر اقدام کو درست قرار دینا ہے۔ سیاہ کرے یا سفید‘ قرمزی کرے یا ارغوانی‘ دن کو کہے رات ہے یا رات کو کہے دن ہے‘ ہم نے اس کی ہر بات کو درست سمجھنا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ غلطیوں سے مبرا ہے۔ تم دلائل دیتے رہو‘ ہماری ایک ہی دلیل ہے کہ ہمارا لیڈر غلطی کر ہی نہیں سکتا!!
No comments:
Post a Comment