قیامت کب آئے گی؟
بہت سوں نے پیش گوئیاں کیں۔حساب لگائے‘ تاریخیں دیں مگر کسی کا تخمینہ درست ثابت نہ ہوا۔
شاعر کی قیامت آ بھی چکی! اُس نے شدتِ غم میں کراہتے ہوئے کہا ؎
قیامت سے بہت پہلے قیامت ہم نے دیکھی ہے
ترا مل کر بچھڑ جانا قیامت اور کیا ہو گی
کبھی شاعر نے یہ کام محبوب کی قامت کے سپرد کر دیا ؎
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی
کلامِ پاک میں بتایا گیا ہے: ’’قیامت کے متعلق تجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس کی آمد کا کون سا وقت ہے۔ کہہ دو اس کی خبر تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کر دکھائے گا‘‘۔ اِسی آیت کے آخر میں دوبارہ کہا گیا: ’’کہہ دو اس کی خبر خاص اللہ ہی کے پاس ہے‘‘۔ (7:187)
کبھی کبھی قدرتِ خدا وندی مہربان ہو جاتی ہے اور اپنے خاص بندوں کو ایسی اطلاعات دیتی ہے جو عام لوگوں کے علم میں نہیں سما سکتیں! ہمارے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی ایسے ہی برگزیدہ اشخاص میں سے ہیں۔ فرمایا ہے: ’’سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی کا آخری چانس ملا ہے‘‘۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ اگر سی پیک کے بعد پاکستان کو ڈیڑھ دو سو سال یا پانچ چھ سو سال یا ہزار یا دو تین ہزار سال ملیں تب بھی اسے ترقی کا کوئی چانس نہ ملے۔ یہ ناممکن ہے۔ امکانات کی دنیا وسیع ہے۔ اس کا کوئی انت کوئی کنارہ نہیں! سنگا پور کی کایا ایک عشرے میں پلٹ گئی۔ اہلِ چین نے بیس سال کے عرصہ میں اپنے ملک کی حالت بدل ڈالی۔ فرض کیجیے اگر شیر شاہ سوری کے درباری دعویٰ کرتے کہ شیر شاہ سوری کو شاہراہیں نہ بنانے دی گئیں تو اس کے بعد ناممکن ہو گا‘ تو لوگ اِن درباریوں کو پاگل قرار دیتے۔ مگر ان درباریوں کو اندازہ تھا کہ شیر شاہ سوری کے اقتدار کے خاتمے پر قیامت نہیں آئے گی‘ چنانچہ انہوں نے ایسا کوئی دعویٰ نہ کیا۔ ابوالفضل اور فیضی کی تحریریں پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے چند صفحوں بعد اکبر کو نعوذ باللہ خدا یا پیغمبر قرار دیں گے۔ کیلنڈر ہی اکبر کی تخت نشینی کے سال سے شروع کیا۔ تاہم حد درجہ خوشامد اور شاہ پرستی کے باوجود یہ دعویٰ کرنے کی ہمت نہ ہوئی کہ برِّصغیر کے لیے اکبری عہد‘ ترقی کا آخری چانس ہے۔ تب سے اب تک تین سو برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ برِّصغیر تین ملکوں میں تقسیم ہو کر ترقی کے کئی مراحل طے کر چکا ہے۔ دو بڑے ملک ایٹمی طاقتیں ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم نے شاہراہیں تعمیر کرا کرا کے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ بھارت میں زیر زمین ریلوے اب دوسری صف کے شہروں تک بھی پہنچنے لگی ہے۔
اس ساری بحث سے آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطلب اس کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ سی پیک منصوبہ مکمل ہونے کے بعد قیامت آ جائے گی۔ اگر قیامت نے سی پیک کے فوراً بعد برپا نہیں ہونا تو کوئی احمق ہی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ پاکستان کو ترقی کا چانس نہیں ملے گا۔ کیا عجب دوسو سال بعد پاکستان امریکہ کی طرح ترقی یافتہ ہو جائے۔ کیا عجب تین سو برس مل جائیں تو سوئٹزر لینڈ، جرمنی، فرانس وغیرہ پاکستان کے مقابلے میں پس ماندہ گائوں لگیں!
’’سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی کا آخری چانس ملا ہے‘‘۔ اس کے فوراً بعد دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی! آسمان پھٹ جائے گا۔ زمین شق ہو جائے گی۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے‘ ستارے زمین پر اوندھے منہ گر پڑیں گے۔ کرۂ ارض کی سطح جگہ جگہ سے دھنس جائے گی۔ شہر، قصبے، قریے، بستیاں نیست و نابود ہو جائیں گی۔ نظامِ شمسی تہس نہس ہو جائے گا، سیارے اپنے اپنے مقررہ راستوں سے ہٹ کر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے، زمین کی سطح پر شہاب ثاقب بارش کی طرح برسیں گے۔ نہ جانے کتنے برس‘ کتنا عرصہ یہ کیفیت رہے گی۔ سب مرے پڑے ہوں گے۔ ایک بار اور صور پھونکا جائے گا۔ خلق خدا قبروں سے نکلے گی۔ وہ جنہوں نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی وارننگ پر یقین کرتے ہوئے توبہ کر لی تھی، سرخرو ہوں گے جو خوابِ غفلت سے اس وارننگ کے بعد بھی نہ جاگے‘ وہ اپنی بدبختی پر ماتم کریں گے۔
’’سی پیک کی صورت میں پاکستان کو آخری چانس ملا ہے‘‘۔ اس کے بعد چانس ملنے کا کوئی چانس نہیں‘ اس لیے کہ دنیا ہی نہ رہی تو چانس کیسا! سو اب وقت ہے کہ توبہ کرو‘ استغفار پڑھو‘ جن کا حق ادا کرنا ہے جلد ادا کرو‘ جن سے معافی مانگنی ہے جلد مانگو، قضا نمازیں جلد ادا کرو، جو روزے رہ گئے انہیں رکھنا شروع کرو۔ یاد رکھو‘ ادھر سی پیک مکمل ہوا‘ ادھر قیامت آئی۔ پھر توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
فاضل وزیر یہ بتانا بھول گئے کہ سی پیک کی موجودگی میں وزیر خارجہ کی یا کسی خارجہ پالیسی کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک یتیم بچے کی ماں نے کہا تھا کہ اب میں ہی اس کی ماں ہوں اور میں ہی اس کا باپ بھی ۔ اسی طرح اب سی پیک ہی ہماری خارجہ پالیسی ہے؛ چنانچہ اگر شرق اوسط کے ایک ملک نے بھارت کے ساتھ چودہ معاہدے کر لیے ہیں تو پاکستان کو گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سی پیک یہ کمی پوری کر دے گا۔
بھارت کے حالیہ یوم جمہوریہ کی تقریب میں اس ملک کے ولی عہد مہمان خصوصی تھے ۔ ان کے ہمراہ اعلیٰ سطح کا وفد بھی تھا جس میں سینئر وزرا‘ اعلیٰ بیورو کریٹ اور چیدہ چیدہ تاجر شامل تھے۔ دونوں ملکوں کی قربت کے حوالے سے بھارتی میڈیا نے اس قبیل کے کمنٹ دیے ہیں کہ جو قربت پہلے پاکستان کے ساتھ تھی اب بھارت کے ساتھ ہے۔ دفاع‘ سکیورٹی اور صنعت و حرفت کے علاوہ تیل کے شعبے میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے ہوئے۔ تیل کے اس معاہدے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بھارت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پٹھان کوٹ کے واقعہ کے ضمن میں اس ملک نے بھارت کا ساتھ دیا ہے۔ بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر دنیا کی بلند ترین عمارت جو اس ملک میں واقع ہے بھارتی ترنگے کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ رہا پاکستان تو اس کے ساتھ تعلق اب تلور کے حوالے ہی سے رہ گیا ہے۔ اس ملک کے حکمران کے داماد اور ان کے بھائی دیگر شاہی مہمانوں کے ساتھ دو دن پہلے ڈیرہ غازی خان پہنچے ہیں جہاں وہ بچے کھچے تلوروں کا صفایا کریں گے۔ ان مہمانان گرامی کو سٹیٹ گیسٹ کا درجہ حاصل ہے۔ عالی شان پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ صوبائی اور ضلعی انتظامیہ آگے پیچھے ہٹو بچو کر رہی ہے۔ جس علاقے میں بھارت کے یہ قریبی دوست شکار کھیل رہے ہیں وہاں مقامی باشندوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں!
آپ اسے خارجہ پالیسی کی ناکامی سمجھ رہے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں۔ سی پیک کے بعد جب حشر ہی برپا ہونا ہے اور دنیا ختم ہو جانی ہے تو پھر کیا شرق اوسط اور کیا بھارت! خارجہ پالیسی کی ضرورت ہی نہیں!
یہی حال امن و امان کا ہے۔ ملک پر ڈاکو راج ہے۔ کراچی میں ایک چور کو عوام نے رنگے ہاتھوں پکڑا تو سرکاری انصاف پر’’یقین‘‘ کا یہ عالم تھا کہ دھنائی کے بعد اس پر سموسے بنانے والا گھی انڈیلا اور آگ لگا دی۔ ایک انسان جل کر خاکستر ہو گیا۔ حالانکہ اگر ریاست سے مایوس‘ بپھرے ہوئے عوام انتظار کرتے تو سی پیک کے بعد یومِ حساب آ ہی رہا تھا۔
No comments:
Post a Comment