پاکستان کو اپنے روایتی حریف بھارت پر جہاں دیگر بہت سے معاملات میں برتری حاصل ہے وہاں جاگیرداری کے ضمن میں بھی پاکستان زیادہ خوش قسمت واقع ہؤا ہے۔ ہائے! کیا رومانس ہے۔ زمینداری، گھوڑے، زمینیں، مزارع، ہاری، خادمائیں، حویلیاں، بندوقیں اور قتل!
خدا سلامت رکھے ہمارے قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید احمد شاہ کو، دل خوش کر دیا انہوں نے! خبر آئی ہے کہ اپنی زمینوں کا معائنہ کرتے ہوئے آپ گھوڑے سے گر گئے اور چوٹ آئی!
یہ دل خوش کن خبریں، یہ جاگیرداری کی باتیں، یہ گھڑ سواری، یہ زمینوں کے معائنے! واہ واہ! اس گئے گزرے زمانے میں بھی ہمارے پاس یہ نعمتیں موجود ہیں۔ بھارت نے دور اندیشی سے کام نہیں لیا۔ تقسیم کے فوراً بعد زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالا۔ نوابیاں، راجواڑے، جاگیرداریاں سب بیک جنبشِ قلم ختم کر ڈالیں۔ کچھ راجے مہاراجے نواب ملک چھوڑ گئے۔ کچھ نے اپنے محلات میں ہوٹل کھول لیے۔ پھر بھارت نے زرعی ملکیت کی حد بھی مقرر کر ڈالی! پاکستان نے ایسی کوتاہ اندیشی کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں نہ جانے آج تک کیوں ہمارا نام نہ آسکا۔ جس قبیل کی سرداری اور جس نوع کی جاگیرداری ہمارے ہاں اِس زمانے میں رائج ہے، اس کا باقی دنیا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ نام نہاد منتخب اداروں میں نسل در نسل موروثی نشستیں برقرار ہیں۔ ستر ستر اسّی اسّی سال سے، یعنی تقسیم سے قبل کی سیاسی وراثتیں اس طرح محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں میں زبان! قریشی، مخدوم، کھر، لغاری، مزاری، جتوئی اور دیگر بہت سے سابقے اور لاحقے بدستور اپنا طمطراق دکھا رہے ہیں۔ ساری سیاسی پارٹیوں نے اس نعمت سے برابر کا حصہ پایا ہے۔ شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی میں ہیں تو گیلانی صاحب اور ہالہ کے مخدوم پیپلز پارٹی میں ہیں۔ جنوبی پنجاب کے کھوسے کبھی مسلم لیگ نون میں بہت ’’اِن‘‘ تھے، بعد میں تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ مگر کئی اور جدی پشتی جاگیردار مسلم لیگ نون کی زنبیل میں موجود ہیں۔ رائیونڈ میں پارٹی کے سربراہ نے اپنی جاگیر الگ قائم کر لی ہے۔ جاگیر بھی! حویلیاں بھی اور سیاست میں موروثی موجودگی بھی!
مغلوں کے زمانے میں جاگیر دی جاتی تھی۔ اس کے بدلے میں جاگیردار، جنگ کے موقع پر سپاہیوں کی شکل میں ایندھن مہیا کرتا تھا مگر مغل سیانے تھے‘ جب جاگیردار مرتا تو بادشاہ زمین واپس لیے لیتا۔ انگریز آئے تو انہوں نے واپسی کا جھنجٹ ختم کر ڈالا۔ جاگیریں دیں تو وارثوں کا حق محفوظ رکھا۔ 1857ء میں جن جن جاں نثاروں نے ملکہ کی سلطنت کا دفاع کیا اور جنگِ آزادی لڑنے والے مجاہدین کا مقابلہ کر کے سفید فام آقاؤں کی مدد کی، ان کے نام باقاعدہ سرکاری کاغذات میں لکھے گئے۔ دو قسم کی کاروائیاں بیک وقت ہو رہی تھیں۔ ایک طرف جنگِ آزادی میں حصہ لینے والے مجاہدوں اور غازیوں کے ناموں کی فہرستیں بن ر ہی تھیں۔ دوسری طرف وفاداروں جاں نثاروں کے نام محفوظ کیے جا رہے تھے۔ پہلی فہرست میں جو خوش قسمت شامل تھے، انہیں پھانسیاں دی گئیں، تختہ ہائے دار کم پڑے تو درختوں کے ساتھ لٹکایا گیا۔ ان کے وارثوں کو قلاش رکھنے کے لیے پورا سامان کیا گیا۔ دوسری طرف وفاداروں کو آنریری مجسٹریٹ کے عہدے انعام میں دیے گئے۔ جاگیریں دی گئیں، خطابات سے نوازا گیا۔ ایک انگریز نے تو 1857ء میں مرتے ہوئے قلم میسر نہ آیا تو اپنے خون سے لکھا کہ ’’فلاں‘‘ نے بہت خدمت کی یعنی Did Well۔ ان خاندانوں کو کونسل کی ممبریاں، گورنریاں، وزارتیں ملیں وزارتِ اعلیٰ کے منصب دیے گئے۔ یہ خاندان آج بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔ جاگیریں جوں کی توں قائم ہیں۔ اس موضوع پر کام بہت ہؤا ہے۔ کسی بھی اچھی لائبریری میں ایسی کتابیں ضرور موجود ہوں گی جن میں ان خاندانوں کی ابتدا، ارتقا اور سیاست میں عمل دخل کے تذکرے محفوظ ہیں۔ چونکہ زرعی اصلاحات کا کوئی امکان مستقبل قریب یا بعید میں موجود نہیں، اس لیے ان خاندانوں کا حقِ حکومت محفوظ ہے!
کچھ حضرات کندھے اچک کر بے نیازی سے کہتے ہیں کہ پاکستان میں فیوڈلزم کا کوئی وجود نہیں! یہ وہ حضرات ہیں جن کی اکثریت شہروں میں پیدا ہوئی، وہیں پلی بڑھی، وہیں رہی، کچھ خوش بخت یورپ امریکہ سے ہو آئے یہ اور بات کہ اگر پوچھیں کہ کے پی یا سندھ یا بلوچستان کے اضلاع کتنے ہیں اور کون کون سے ہیں یا قلعہ سیف اللہ یا موسیٰ خان کہاں واقع ہیں یا کوٹ ادو لاہور سے کتنا دور ہے تو بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ ایسے ہی ایک صاحب تھے جنہوں نے عشروں پہلے پوچھا کہ گندم کا درخت کتنا بڑا ہوتا ہے۔ روایت ہے کہ وفاقی سیکرٹریٹ میں ایک صاحب طویل عرصہ تک کاٹن پالیسی بناتے رہے اور حالت یہ تھی کہ اپنی زندگی میں کپاس کا پودا نہیں دیکھا تھا۔ بات دور نکل گئی۔ بہر طور کوئی ’’ثقافتی انقلاب‘‘ پاکستان میں آتا تو اِن شہری بابوؤں کو ضرور جاگیروں پر بھیجا جاتا۔ تب پائپ پینے والے اِن تھری پیس سوٹ پوشوں کو معلوم ہوتا کہ فیوڈلزم ہے یا نہیں! جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ اگر فیوڈلزم موجود نہیں تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مودی احرام میں ملبوس پائے گئے! اس کالم نگار کو ایک زمیندارنی نے بتایا کہ ووٹ ڈالنے سے پہلے عورتوں کو حویلی میں طلب کیا جاتا ہے۔ پھر انہیں اچھی طرح یاد کرایا جاتا ہے کہ ٹھپہ کہاں لگانا ہے۔ کچھ تو حویلی کے دروازے سے باہر جا کر پلٹ آتی ہیں اور دوبارہ پوچھتی ہیں کہ بی بی جی، آپ نے کیا بتایا تھا ٹھپہ کس پر لگانا ہے۔ اس پر بی بی جی دوبارہ بتاتی ہیں اور ساتھ دماغ بھی درست کرتی ہیں!
جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے جاگیردارانہ نظام کو دس سے ضرب دیں تو جو جواب آئے گا وہ بلوچستان کا سرداری نظام ہو گا! گذشتہ ستر برسوں میں اس نظام میں ذرا سی تبدیلی بھی نہیں آئی۔ یہ جوں کا توں قائم ہے۔ سچ اور جھوٹ کا پتہ چلانے کے لیے آج بھی سردار کے حکم سے ملزموں کو جلتے کوئلوں پر چلایا جاتا ہے۔ مائنڈ سیٹ کا یہ عالم ہے کہ کچھ عرصہ پہلے صوبے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ پر مشتمل ایک گروہ کے سامنے اِس رسم کی مذمت کی گئی تو اکثر شرکا نے بُرا منایا کہ سردار کے خلاف کیوں بات کی گئی ہے۔ ایک بلوچ سردار نے تقریباً دو اڑھائی سال پیشتر لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس رسم کا باقاعدہ دفاع یہ کہہ کر کیا کہ یہ ہماری روایت ہے۔ سرداری نظام اپنی تمام روایات کے ساتھ زندہ سلامت ہے۔ قبیلے کا سردار، قبیلے کے ارکان کے گھریلو معاملات میں بھی فیصلے کرنے کا مجاز ہے۔ وہ کسی کو کسی وقت قتل کر یا کرا سکتا ہے۔ سرداروں کے علاقوں میں سکولوں اور کالجوں کی سرکاری عمارتیں غلہ گودام بنی ہوئی ہیں یا مویشی خانے! پاکستان کی تاریخ میں ڈاکٹر عبدالمالک پہلے اور اب تک آخری وزیراعلیٰ ہیں جو سردار نہیں ’’رعیت‘‘ سے تھے! پھر جلد ہی سجدۂ سہو کرتے ہوئے انہیں وزارت اعلیٰ سے بے دخل کیا گیا اور حق ’’حقدار‘‘ کو واپس دیا گیا!
معلوم نہیں جناب خورشید شاہ جس زمین کا معائنہ گھوڑے پر سوار ہو کر کر رہے تھے وہ 1857ء سے چلی آرہی ہے یا اُن کے اپنے زورِ بازو کا پھل ہے، بہرطور ان کی صحت یابی کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ شاہ صاحب مجسم ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ ہیں! وہ کیرم بورڈ کھیلتے وقت ہدف اپنی گوٹی کو بناتے مگر پاکٹ مسلم لیگ نون کی گوٹی ہوتی ہے۔
قلیل المیعاد حوالے سے بات کی جائے تو مسلم لیگ نون کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ رہا طویل المیعاد قصہ تو خاطر جمع ہو کہ سرداروں اور جاگیرداروں کا مستقبل محفوظ ہے۔ ہاں! ایک اور عدالت ایک اور جگہ ضرور لگنی ہے؎
گھوڑے، حشم، حویلیاں، شملے، زمین،زر
میں دم بخود کھڑا رہا کتبوں کے سامنے
No comments:
Post a Comment