Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, February 13, 2017

تعلیمی ادارے یا اکھا ڑے


سنگاپور میں تین قومیتیں آباد ہیں؛ چینی، مَلے (ملائیشیا کے اصل باشندے) اور انڈین۔ چینی تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر مَلے اور اس کے بعد انڈین۔ انڈین تقریباً تمام تامل ہیں۔ سنگاپور کا پہلا صدر ایک مَلے تھا۔ یوسف بن اسحاق جو 1965ء سے 1970ء تک صدارت پر فائز رہا۔ چھٹا صدر انڈین تامل تھا، ایس آر ناتھن!
آپ پورا سنگاپور گھوم جائیے، کوئی علاقہ، کوئی محلہ، کوئی سیکٹر ایسا نہیں ملے گا جہاں کسی ایک قومیت کے ماننے والے بھاری اکثریت میں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں علاقہ چینیوں کا گڑھ ہے، فلاں محلے میں مَلے رہتے ہیں اور انڈین لوگوں کی پاکٹ فلاں جگہ ہے۔ سنگاپور حکومت کی رہائشی پالیسی دنیا کی کامیاب ترین رہائشی پالیسیوں میں شمار ہوتی ہے۔ کسی بھی نئی آبادی کی منصوبہ بندی ہو تو وہاں تینوں قومیتوں کو سمویا جاتا ہے۔ نئے اپارٹمنٹوں پر مشتمل رہائشی بلاک زیر تعمیر ہوں تو ہر قومیت کے گھروں کی تعداد پہلے سے مقرر ہوگی۔ یعنی یہاں اتنے گھر چینیوں کے ہوں گے اور اتنے مَلے کے اور اتنے انڈین کے۔ اس پالیسی کے کئی فوائد ہیں۔ فسادات کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے کہ آبادی ہر جگہ مکسڈ ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع تینوں قومیتوں کو خوب ملتے ہیں۔ رہائشی اپارٹمنٹوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ کھیل کے میدانوں میں اور سنٹرز میں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ اس سے تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتی ہے اور باہمی شادیاں بھی ہوتی ہیں۔
مشرقی پاکستان میں اردو بولنے والے مہاجرین سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی کہ وہ اپنی الگ آبادیاں بسا بیٹھے۔ میر پور اور محمد پور میں غیر بنگالی نہ ہونے کے برابر تھے۔ فسادات ہوئے تو ان آبادیوں پر حملہ کرنا آسان تھا۔ بنگالی اور غیر بنگالی اسی سبب سے ایک دوسرے سے قریب بھی نہ ہوسکے۔ یہی صورت حال اب کراچی میں ہے۔ نسلی اور لسانی بنیادوں پر آبادیاں الگ الگ ہیں۔ یہ علاقہ پٹھانوں کا ہے تو وہ ہزارہ وال لوگوں کا، فلاں پاکٹ بلوچیوں کی ہے تو فلاں محلے اردو بولنے والوں کے۔ لاہور میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ لاہور کے مقتدر حلقوں میں وژن مفقود ہے ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ نسلی اور لسانی بنیادوں پر جو آبادیاں ابھر رہی ہیں کل وہ قیامت ڈھائیں گی۔ اور تو اور، غیر ملکی اپنی الگ بستیاں بسائے جا رہے ہیں!
ڈھاکہ ،کراچی اور لاہورجیسے بڑے شہروں کا کیا رونا! یہاں تو ایک یونیورسٹی کے چند ہوسٹلوں میں طلبہ کو کمرے اس وژن کے ساتھ نہیں الاٹ کیے جاسکتے کہ ان میں ہم آہنگی پیدا ہو۔ تین دن پیشتر لاہور میں جوفساد ہوا اور جس طرح طلبہ کے مختلف گروہ آپس میں برسر پیکار ہوئے اس کا احوال پڑھ کر یونیورسٹی انتظامیہ کی کوتاہ بینی پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر انتظامیہ میں وژن ہوتا تو وہ مختلف ہوسٹلوں کو مختلف گروہوں کے گڑھ نہ بننے دیتی۔ نسلی بنیادوں پر نہ لسانی حوالے سے اور نہ ہی مذہبی یا سیاسی  پارٹیوں کے نکتہ نظر سے۔ اب اگر ایک ہوسٹل ایک مذہبی تنظیم کا گڑھ ہے اور دوسرے میں ایک خاص علاقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی اکثریت ہے تو اس عدم توازن کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ کے ضعف بصیرت اور ضعف بصارت پر ہے۔ خدا کے بندو! عقل کے ناخن لو۔ کسی ایک ہوسٹل کو کسی ایک گروہ کا گڑھ نہ بننے دو۔ کمروں کی الاٹمنٹ کرتے وقت ایسی عینک لگائو کہ دس فٹ دور نہیں تو چار فٹ دور تک تو دیکھ سکو۔
اس کالم نگار کی اور اس روزنامے کی، طلبہ کے کسی گروہ سے، خواہ وہ مذہبی ہے یا لسانی یا علاقائی، کوئی مخالفت ہے نہ مخاصمت! ہمارے نزدیک ہر پاکستانی قابل احترام ہے اور محبت کیے جانے کے قابل! یونیورسٹیاں ہماری نظر میں مقدس ہیں اس لیے کہ وہ علم کے حوالے سے ہماری مائیں ہیں۔ اسی لئے تو انہیں’’الما میٹر‘‘
(ALMA MATAR) 
کہا جاتا ہے۔ قدیم لاطینی میں’’الما‘‘ مہربان کو کہا جاتا ہے اور میٹر کا لفظ ماں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی مادر مہرباں! اصلاً  یہ لفظ دیوی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یونیورسٹی کے لیے پہلی بار اس کا اطلاق بولونا یونیورسٹی پر ہوا۔ شمالی اٹلی کی یہ یونیورسٹی 1088ء میں بنی۔ اسے
ALMA-MATER-STUDIORUM
 کا نام دیا گیا۔ یعنی تعلیم کی مادر مشفق! الماہی سے آلمنائی کا لفظ ہے جو ان دنوں کسی ادارے کے سابق طلبہ اپنی انجمن کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
رہے طلبہ تو وہ جس مذہبی تنظیم سے بھی تعلق رکھتے ہوں، جس علاقے سے بھی ہوں، جو زبان بھی بولتے ہوں، جو نسل بھی ان کی شناخت ہو، جس سیاسی نظریے کے بھی وہ علمبردار ہوں، ہمارے لیے وہ پاکستان کے مستقبل کی روشن علامت ہیں! وہ ہمارے بچے ہیں، ہماری آنکھوں کے تارے اور لخت ہائے جگر ہیں! ان کی سلامتی تمام مصلحتوں پر بھاری ہے!
یونیورسٹیوں کی تقدیس اور طلبہ کی سلامتی۔۔۔۔ یہ دو پہلو ہیں جو بنیادی ہیں۔ یہ دونوں پہلو کسی اور شے پر قربان کر دیے گئے تو یونیورسٹی، یونیورسٹی نہیں رہے گی اور طلبہ کی سلامتی خطرے میںپڑ جائے گی۔ اس لیے یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ کہنا کہ چونکہ فلاں تنظیم نے تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے وعدہ کیا ہے اس لیے اس کے بدلے میںاس کے خلاف کوئی سخت ایکشن نہیں لیا جائے گا، ایک ایسی بات ہے جو متاثر نہیں کرتی۔ یونیورسٹی کے اندر تعلیمی سرگرمیوں کا فروغ، طلبہ کی کسی تنظیم کی نہیں، یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے۔ فرض کیجئے، یونیورسٹی میں طلبہ کی دس مذہبی تنظیمیں ہوں اور ہر تنظیم اپنے طور پر تعلیمی سرگرمیوں کا فروغ چاہے تو یونیورسٹی کی حالت کیا ہو جائے گی؟ اس لیے کہ ہر مذہبی تنظیم کا تعلیم کے بارے میں اپنا مخصوص نکتہ نظر ہے۔ یہ نکتہ نظر، دوسری تنظیم کے نکتہ نظر سے متحارب بھی ہو سکتا ہے۔ نتیجہ معاصرت، مخاصمت اور جنگ و جدل کے سوا کچھ اور نکل ہی نہیں سکتا! پھر کسی بھی خاص تنظیم کے لوگو
 (LOGO) 
اور جھنڈے، یونیورسٹی کے درودیوار پر غالب کیوں نظر آئیں؟ آخر ایک یونیورسٹی کتنے 
LOGO
 اور کتنے جھنڈے برداشت کرسکتی ہے؟ اگر یونیورسٹی ماں ہے تو اس کے نزدیک سب بچے یکساں سلوک کے مستحق ہونے چاہئیں۔ یونیورسٹی کسی ایک گروہ کو کیسے یہ اختیار دے سکتی ہے کہ وہ طلبہ کی زندگیوں کو کنٹرول کرے؟ اور فیصلہ کرے کہ ایک طالب علم کس سے بات کرسکتا ہے اور کس سے نہیں۔ حد درجہ بودی اور ضعیف ہے وہ انتظامیہ جو طلبہ کوکسی ایک گروہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور اپنے وجود کو بے اثر کردے! کوئی گروہ، کوئی تنظیم یہ حق نہیں رکھتی کہ اپنا نکتہ نظر دوسروں پر مسلط کرے۔ پھر تسلط کی اس کوشش میں اگر طاقت کا بے رحم استعمال بھی شامل ہو جائے تو صورتحال ازحد مایوس کن ہے! ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ادارے کی انتظامیہ صرف تماشائی ہے؟ افسوس ہے ایسے تعلیمی ادارے پر جس کے اندر پولیس کو آنا پڑے۔
مذاکرات حریفوں سے ہوتے ہیں، اپنے بچوں سے نہیں ہوتے۔ مذاکرات دو برابر فریقوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی کے اساتذہ طلبہ کے برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟ ایک استاد باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ طالب علم اس کا فرزند ہے۔ فرزند کی سعادت اس میں ہے کہ وہ اپنے استاد کا، جو اس کا روحانی باپ ہے، ہر حال میں حکم مانے اور بلاچون و چرا مانے۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو علم اس سے روٹھ جائے گا! علم سیکھنے کے لیے لازم ہے کہ استاد کو برتر اور مقدس مانا جائے۔ اس کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کیا جائے۔ ہاں علمی موضوع پر بحث مباحثہ اور چیز ہے۔ یہ تعلیمی عمل کا حصہ ہے!
آخر ایک یونیورسٹی میں علاقوں اور صوبوں کے حوالے سے تنظیموں کا کیا کام ہے؟ تعلیمی ترقی کی تحریک 
(Educational Development Movement)
 خواہ وہ پنجابی ہو یا سندھی یا بلوچی یا پختون یا سرائیکی یا کشمیری، ایک جامعہ میں قائم ہی کیوں کی جائے؟ یونیورسٹی تو خود تعلیمی ترقی کی تحریک ہے! تحریک کے اندر ایک اور تحریک کا کیا مطلب؟ علم کسی صوبے یا کسی زبان کو نہیں مانتا۔ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ اگر کسی خاص علاقے یا زبان کے حوالے سے کوئی تنظیم بنے گی تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اس میں سارے طلبہ شامل نہیں ہو سکتے۔ صرف وہ خاص زبان بولنے والے یا اس خاص علاقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ ہی اس کے رکن بن سکتے ہیں۔ نہیںٖ! ایسی دیواریں کھڑی کرنا علم کے چاہنے والوں کو زیب نہیں دیتا۔ اگر انتظامیہ ایسی دیواریں کھڑی کرنے کی اور ایسی Pockets بنانے کی اجازت دیتی ہے تو ہمدردی کی مستحق ہے ایسی انتظامیہ! پھر تو کار طفلاں تمام خواہد شد! سنور چکا طلبہ کا مستقبل!!
ہم کیمبرج، آکسفورڈ اور ہارورڈ تو بنانے سے رہے، کم از کم جو بری بھلی یونیورسٹیاں موجود ہیں انہیں تو یونیورسٹیاں رہنے دیں! اکھاڑے نہ بنائیں!!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com