یہ سیاپا ایک دن کا نہیں! آئے دن وہاں سے گزرنا ہے۔ جب بھی گزرنا ہے‘ زخم ہرا ہونا ہے۔ بنکاک ایئرپورٹ پر ذہنی تنائو اس قدر اذیت دیتا ہے جیسے ابھی سر پھٹ جائے گا۔ ہر بار ایک ہی سوال کیا ہم ایسا ایئر پورٹ کبھی نہیں بنا سکیں گے؟
چار چاربالشت کے تھائی باشندے ! انگریزی سے تقریباً نابلد! ایشیا کا چھٹا مصروف ترین ہوائی اڈّہ چلا رہے ہیں اور ہر گھنٹے میں لاکھوں کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔ اس ہوائی اڈے نے تھائی لینڈ کو دروازہ بنا دیا ہے۔ مشرقِ بعید کا دروازہ ‘ دنیا کے جنوب مشرقی حصّے کا دروازہ‘ چین اور ہانگ کانگ کے لیے‘ کوریا اور فلپائن کے لیے ڈیوڑھی ! گزشتہ برس ساڑھے پانچ کروڑ مسافروں نے اس ایئر پورٹ سے استفادہ کیا جن میں پونے پانچ کروڑ غیر ملکی تھے تیس لاکھ ٹن کارگو آیا اور گیا۔ ٹرمینل بلڈنگ دنیا کا چوتھا بڑا ٹرمینل ہے۔ (ہانگ کانگ‘ بیجنگ اور دبئی دیگر تین بڑے ٹرمینل ہیں) اس کا ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور دنیا کا سب سے اونچا کنٹرول ٹاور ہے! دو سال پہلے کے اعداد و شمار کی رُو سے اس ایئر پورٹ پر ایک دن میں آٹھ سو پروازیں اترتی ہیں یا روانہ ہوتی ہیں۔
شاید ہی دنیا کی کوئی ایسی ایئر لائن ہو گی جس کا جہاز یہاں نہ آتا ہو۔ چلتے چلے مسافر تھک جاتے ہیں مگر ایئر پورٹ ٹرمینل ختم نہیں ہوتا۔ جا بجا متحرک برقی راستے‘ جگہ جگہ آرام کرنے کے لیے صوفے‘ موبائل فون اور لیپ ٹاپ چارج کرنے کا وافر بندوبست‘ بازار کے بازار‘ انواع و اقسام کا مال فروخت کرتے ہوئے‘ ہر مذہب کے پیروکاروں کے لیے عبادت خانہ! فرش پر تنکا تک نظر آتا ہے نہ کسی دیوار پر کوئی نشان۔ دنیا کی ہر بڑی ایئر لائن کا اپنا الگ لائونج۔ نہیں نام نظر آتا تو اپنی ائیر لائن کا ؎
انجمؔ غریب شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پر رہا کر دیے گئے
دل کیوں نہ بیٹھے ؟ ذہنی تنائو بے حال کیوں نہ کرے؟ ہم اتنے نالائق ہیں کہ ستر سال میں ہم سے بین الاقوامی معیار کا ایک ہوائی اڈہ نہ بن سکا۔ دارالحکومت کے ایئر پورٹ پر کام2007ء میں آغاز ہوا۔ پانچ برس پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ کیا کام ہوا وہاں؟ کیا پراگرس رہی؟
کون پوچھے اور کس سے پوچھے؟ اب 2017ء ہے۔ دس سال۔ پورے دس سال گزر چکے۔ مستقبل قریب میں تکمیل کا نام و نشان نہیں۔ دس برس کے عرصہ میں چین نے شنگھائی سے لے کر بیجنگ تک سینکڑوں کثیر المنزلہ عمارتیں کھڑی کر دیں۔ یہاں پورا عشرہ گزرنے پر ایک ایئر پورٹ نہیں بن سکا۔ سبب کیا ہے؟ اسباب کون کون سے ہیں؟ ذمہ دار کون ہیں؟ کیا کبھی ذمہ داروں کا تعین ہو گا؟ یا لاگت بڑھتی جائے گی اور ٹھیکوں کی تجدید ہوتی رہے گی؟
یہ یتیم‘ مفلوک الحال‘ بے بس بے کس قوم کس کا دامن پکڑے؟ ستّر سال۔ اور ایک جدید ریلوے اسٹیشن نہ بن سکا۔ لاہور اور راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشنوں پر جا کر کوئی دیکھے۔ خستہ شکستہ تکلیف دہ سیڑھیوں پر‘ تھکے ہارے مسافر سروں پر پوٹلیاں اور ہاتھوں میں اٹیچی کیس پکڑے کس اذیت سے اترتے اور چڑھتے ہیں۔ تقسیم کے وقت کے لٹے پٹے قافلے یاد آ جاتے ہیں۔ ریلوے نے دعویٰ کیا کہ آن لائن بکنگ ہو گی! منصوبہ مکمل ناکام رہا!
کیا بیماری ہے ہمیں؟ کوئی ہے جو تشخیص کرے؟ ع
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
عراق کو امیر المومنین علی المرتضیٰؓ کی بددعا ہے۔ اس خطۂ پاک کو کس کی بددعا ہے؟ ٹریفک کی ہلاکتوں میں سرِفہرست! خوراک اور ادویات کی ملاوٹ میں ممتاز! وعدہ خلافی اور دروغ گوئی میں بے مثال! کسی تاجر پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی سیاست دان قابلِ اعتبار نہیں! وکیل ہیں کہ منصفوں کو تھپڑ مارتے ہیں اور انہیں کمرہ ہائے عدالت میں مقفل کر دیتے ہیں! اساتذہ ہیں کہ کلاس روموں کے سوا ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ طلبہ ہیں کہ ایک دوسرے کو قتل کرتے پھرتے ہیں اور مقتولوں کے جنازے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے سربراہ پڑھا رہے ہیں۔ خواندگی ہے کہ غربت کی لکیر کی طرح نیچے ہی نیچے جا رہی ہے۔ شفاخانے مقتل ہیں اور سکولوں کالجوں کی عمارتیں مویشی خانے اور غلّوں کے گودام!
کس کس زخم پر پھاہا رکھا جائے؟
بڑے شہروں سے چند میل دور‘ کسی قصبے کے بسوں کے اڈے پر جا کر دیکھیے اور حیرت میں گم ہو جائیے کہ اتنی آبادی اور اکثریت غیر تعلیم یافتہ ناخواندہ! اپنے حقوق سے اور فرائض سے بے بہرہ! مزاروں پر خاک پھانکتی عورتیں‘ توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی عروج پر! حکمران بے نیاز! اسمبلیاں ربڑ کی مہریں! بیورو کریسی اپنے مفادات میں انگ انگ جکڑی ہوئی!!
تو پھر کیا بیانیہ غلط ملا؟ قرار دادِ مقاصد پر جھگڑے ہوئے‘ سر پھٹول تک ہوا‘ کفرو اسلام کا مسئلہ بن گیا۔ تاہم آغاز سے اب تک قرار دادِ مقاصد ہمارے آئین کا جزوِ لاینفک ہے۔ غیر مسلموں کو ہم چار فٹ سے زیادہ اونچا نہیں ہونے دیتے۔ مگر حاصل کیا ہے؟
قراردادِ مقاصد کی موجودگی میں ہمارا یہ حال ہُوا ہے! درست! اس کی ذمہ داری قرار دادِ مقاصد پر نہیں ڈال سکتے مگر اس کا فائدہ کیا ہوا؟ قرار دادِ مقاصد ہمیں جھوٹ بولنے سے‘ وعدہ خلافی کرنے سے‘ بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرنے سے‘ ٹیکس چوری سے‘ ناقص عمارتیں بنانے سے کیوں نہ روک سکی؟ قرار دادِ مقاصد کا کیا فائدہ جب ریاست کا سربراہ کہے کہ وعدے کوئی قرآن حدیث تھوڑی ہی ہوتے ہیں؟
پھر ایک اوربیانیہ ملا کہ اسلام نظامِ حیات ہے۔ اسلامی حکومت کا خواب دکھایا گیا جامعات یرغمال بن گئیں۔ اخلاق کا جنازہ نکل گیا۔ کنٹینوں کے مالک خوف کے مارے پیسے نہیں مانگ پاتے۔ نظام اسلامی نہ ہوا‘ ہاں پراپرٹی کا کاروبار خوب پھلا پھولا۔
پھر ایک اور بیانیہ اترا۔ جہاد کا بیانیہ۔ کاروبار‘ جائیدادیں‘ مزدوری‘ یہاں تک کہ نادرا کی نوکریاں تک‘ غیر ملکیوں کو مل گئیں۔ وطن کا دفاع کرنے والے غیر شہید اور بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو مارنے والے عمارتیں جلانے والے‘ درس گاہوں کو اڑانے والے شہید قرار دے دیے گئے۔
تعلیم نے تعمیر کے بجائے معاشرے کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ متحارب گروہ! ایک دوسرے کے خلاف صف آرا گروہ! یہاں تک کہ طرزِ زندگی الگ الگ ہو گیا۔ شاید ہی کوئی ایم بی اے یا ڈاکٹر یا انجینئر لڑکی‘ مدرسہ کے پڑھے ہوئے کسی نوجوان سے شادی پر رضا مند ہو۔ شاید ہی مدرسہ کا فارغ التحصیل کوئی لڑکا‘ کسی انگریزی ادب کی استاد یا سی ایس ایس کی لڑکی سے ازدواج کرنے پر تیار ہو۔ اکاّ دکاّ مستثنیات کی اور بات ہے۔ مجموعی طور پر معاشرہ گروہوں میں بٹ گیا ہے۔ شیعہ سنی بریلوی دیو بندی اہل حدیث یہ سب مذہبی گروہ ہیں۔ یہ بھی عموماًآپس میں رشتے ناتے نہیں کرتے۔ نمازیں الگ۔ مسجدیں الگ۔ عملی زندگیاں الگ الگ!
ان سب بیانیوں کے اوپر‘ ایک اور بیانیہ بلور کے خوبصورت ساغروں میں بھر بھر کر خوب خوب ہلایا گیا۔ یہ جمہوریت کا بیانیہ تھا۔ اس کا مطلب تھا‘ منتخب اداروں میں بیٹھے ہوئے اشرافیہ کے رکن ہر قسم کے قانون سے ماورا ہیں۔ وزیر اعظم اور صوبے کا وزیر اعلیٰ اسمبلی سے برگشتہ! کابینہ کا عملاً وجود ہے بھی اور نہیں بھی! فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ وفاق کے سرکاری اجلاسوں میں دختر نیک اختر اور سندھ کے سرکاری اجلاسوں میں فرزندِ گرامی بیٹھتے ہیں؟ کس حیثیت سے؟ مت پوچھیے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا! کرپشن کا نام نہ لیجیے‘ جمہوریت کے آبگینے کو ٹھیس لگ جائے گی!سرکاری دوروں میں صرف ایک صوبے کا حکمران‘ وفاقی سربراہ کے ہمراہ ہوتا ہے! کیوں؟ خاموش رہیے! کہیں جمہوریت کی نازک پیشانی پر شکن نہ پڑ جائے!
مادی ترقی ہوئی نہ اخلاقی! ہم کہیں نہ رہے! ایک طرف لیاقت یہ ہے کہ ہوائی اڈہ نہیں بن پا رہا۔ ریلوے اسٹیشن سو سال پرانا منظر پیش کر رہے ہیں۔ قصبے‘ بستیاں اور قریے پتھر کے زمانے کے لگ رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم اتنے جھوٹے‘ عہد شکن اور ناقابلِ اعتبار ہیں کہ دنیا تو دُور ہے‘ ہم خود ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ جو وعدہ کرتا ہے اسے معلوم ہے کہ وہ پورا نہیں کرے گا۔ جس سے وعدہ ہو رہا ہے وہ ذہنی طور پر وعدہ خلافی کے لیے تیار ہے! بے شمار بظاہر مذہبی افراد سے یہ تاویل سننے میں آتی ہے کہ وعدہ کہاں کیا تھا؟ وہ تو ایک بات کہی تھی!!
کیسے اٹھیں گے؟ کس سے پوچھیں ؟ کس کی دہائی دیں؟ کوئی سر سیّد ہوتا تو کسی حالی سے تنزّل کی اس انتہا پر نئی مسدّس لکھواتا! نئی مسدّس! صرف اہلِ پاکستان کے لیے!!
No comments:
Post a Comment