پھول بانٹنے پر پابندی ہے۔ لہو بہانے کی آزادی ہے ع
اے مری قوم! ترے حُسنِ کمالات کی خیر!
جوان مارے جا چکے۔ زمین ہے کہ اس کی پیاس نہیں بجھتی۔ چار ہزار کے لگ بھگ پولیس کے جوان اور افسر اپنے آپ کو نچھاور کر چکے۔ ہزاروں سویلین شہید ہو چکے۔ ہزاروں فوجی مائوں کو بے آسرا اور بچوں کو یتیم چھوڑ گئے۔ اے ارضِ وطن! اب اور کیا چاہیے؟
اے سرزمینِ وطن! تیری تو اپنی قسمت خراب ہے۔ ایسے ایسے تیرے فرزند تیرے سینے پر چل رہے ہیں جو تجھے ماں ہی نہیں مانتے۔ وہ گیہوں تیری کھاتے ہیں۔ پانی تیرا پیتے ہیں تیری چاندنی سے آنکھوں کی بینائی تیز کرتے ہیں۔ تیرے درختوں کی چھائوں میں‘ میٹھی ٹھنڈی چھائوں میں‘ بیٹھ کر مزے لیتے ہیں مگر جب تیرے سینے میں خنجر گھونپنے والوں کا ذکر آ جائے تو نفرین بھیجنے کے بجائے ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔ آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ اگر‘ مگر ‘ اِف اور بَٹ لگاتے ہیں۔ تیرے دشمنوں کواپنے بچے کہتے ہیں۔ دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر!
اے تیرہ بخت سرزمینِ وطن! تیرے فرزند ساری دنیا سے انوکھے ہیں۔ امریکہ میں نائن الیون برپا ہوا۔ ایک امریکی بھی ایسا نہیں جو ہلاکت برپا کرنے والوں کا حامی ہو یا ان کے فعل کا جواز پیش کرے! سب بیک زبان انہیں دشمن سمجھتے ہیں اور برملا کہتے ہیں! کسی اور ایسے حادثے سے بچنے کے لیے امریکیوں کی آزادی سلب کر لی گئی۔ کسی نے اُف تک نہ کی! ان کی اولین ترجیح امریکی سرزمین کی تقدیس ہے۔ انگلستان میں سیون سیون کی دہشت گردی ہوئی۔ کوئی ایک انگریز‘ کوئی ایک سکاٹ لینڈ کا رہنے والا‘ کوئی ایک ویلز کا باشندہ ایسا نہیں جس نے قاتلوں کی حمایت کی ہو۔ مگر آہ؟ اے خاکِ وطن! تو اندر تک سرخ ہو چکی ہے۔ آنسوئوں کے دریا بہہ چکے ہیں۔ آہیں ایک نیا آسمان بُن چکی ہیں۔ شہیدوں کے لاشے اٹھانے والے کاندھے تھک گئے ہیں۔ سکول بموں سے اڑا دیے گئے ہیں۔ بازار‘ مزار‘ باغ اور گلزار انسانی اعضا سے اٹ چکے ہیں۔ پھول سے بچوں کے سینوں میں گولیاں اتار دی گئی ہیں۔ مگر ایک دو نہیں‘ چار پانچ سو نہیں‘ تین چار ہزار نہیں تیرے لاکھوں باشندے مظلوموں کے ساتھ نہیں ظالموں کے ساتھ ہیں! افسوس ! یہ اب بھی تیرے سینے پر چل پھر رہے ہیں!
دہشت گردوں کے سہولت کار اس طرح محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان! ہمیں بتایا گیا کہ فلاں طالبان کا سربراہ فلاں طالبان کے سربراہ کی اشیر باد سے تعینات ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہزاروں باشندوں کے قاتل کو سربراہ تعینات کیا گیا۔ کس کی اشیر باد سے؟ وہ کس کے سایہء عاطفت میں رہ رہا ہے؟ اسے کیوں کچھ نہیں کہا جاتا؟
تباہی انتہا تک پہنچ گئی اور یہاں یہ بحث ہوتی رہی کہ جنگ کس کی ہے؟ اے خاکِ وطن! بیٹے تیرے لہو میں نہاتے رہے اور جنگ کو کسی اور کی جنگ کہا جاتا رہا! اے وطن کی مٹی! تجھ پر قربان ہونے والے قومی عساکر کو شہید کہنے سے انکار کیا گیا! افسوس! زمین دھنسی نہ آسمان ٹوٹا!
کوئی قوم… دنیا کی کوئی قوم… اپنی حفاظت نہیں کر سکتی جب تک اس میں نظریاتی ہم آہنگی نہ ہو! جب تک وہ دشمن کو دشمن کہنے کے لیے ہم زبان نہ ہو! یہ کالم نگار بارہا چیخ چیخ کر بتا چکا کہ قوم تقسیم ہو چکی ہے! ہوش کے ناخن لو! دو طبقات ‘ الگ الگ وجود میں آ چکے ہیں! ان کی کوئی چیز آپس میں مطابقت نہیں رکھتی! ان کے لباس الگ ہیں۔ ان کا پڑھا پڑھایا جانے والا لٹریچر الگ الگ ہے۔ ان کے تعلیمی ادارے الگ الگ ہیں دونوں کے نصابوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تہذیبوں میں تفاوت ہے۔ ایک گروہ دوسرے کو کافر کہتا ہے کہ وہ فلاں لباس پہنتا ہے۔ دوسرا پہلے کی تضحیک کرتا ہے۔ نماز قائم کرنے والوں‘ اکلِ حلال کا التزام کرنے والوں اور خدا سے ڈرنے والوں کو فاسق کا خطاب دیا جاتا ہے۔ کوئی دستار کی توہین کرتا ہے کوئی پتلون پر پھبتی کستا ہے۔ یہ دو طبقے آپس میں رشتے ناتے تک نہیں کرتے۔ یہ دو متوازی لکیریں کوس در کوس‘ فرسنگ در فرسنگ آمنے سامنے چلتی جاتی ہیں‘ مگر کوئی نقطۂ اتصال نہیں ہے! ایک کے ہیرو دوسرے کے ولن ہیں۔ ایک جسے قائد اعظم اور بانیٔ وطن کہتا ہے‘ دوسرا اس کے نام تک سے بھاگتا ہے۔ آٹھ آٹھ دس دس سال کے نصابوں میں پاکستان کا نام آتا ہے نہ اس کے بنانے والے کا!
یہ خلیج کون پاٹے گا؟ کس طرح پاٹے گا؟ یہ خلیج ہی تو فساد کا سبب ہے۔ مسئلہ دہشت گردی سے زیادہ سہولت کاری کا ہے مسئلہ ذہن سازی کا ہے! کیا کچھ گروہوں کے کرتا دھرتا خود اس فکر میں نہیں مبتلا کہ ان کے وابستگان فلاں گروپ سے نہ جا ملیں؟ یہ نرسریاں کب تک پھولیں پھلیں گی؟ یہ نظریاتی سپلائی لائن کب تک قائم رہے گی؟ اس میں کیا شک ہے کہ بہت سے دہشت گرد جدید تعلیمی اداروں سے پڑھ کر اُٹھے ۔ لیکن اگر یہ ذہن سازی جدید تعلیمی اداروں میں ہوتی تو چند نہیں‘ لاکھوں نوجوان دہشت گرد ہوتے! یہ مائنڈ سیٹ کہیں اور ترویج پا رہا ہے!
حکمران کہتے ہیں ہم اپنے بہادر سپوتوں کے خون کا بدلہ ضرور لیں گے اور جب تک آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے! فرماتے ہیں’’جن سفاک درندوں نے معصوم لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں وہ اور ان کے سہولت کار عبرت ناک انجام کو پہنچیں گے‘‘ آپ انہیں اور ان کے سہولت کاروں کو عبرت ناک انجام تک تبھی پہنچا سکیں گے جب آپ ان کی شناخت کر سکتے ہوں ! تو پھر قوم کو بھی بتائیے کہ وہ کون ہیں اور ان کے سہولت کار کون ہیں؟ قوم سے یہ حقائق خفیہ کیوں رکھے جا رہے ہیں؟ آپ خون کا بدلہ ضرور لیں گے! اب تک جو بدلہ یا بدلے لیے ہیں‘ ان کا بھی بتا دیجیے۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپ چین سے نہیں بیٹھیں گے! عالی جاہ! آپ کو آخری تو کیا‘ پہلے دہشت گرد کا بھی اتا پتا کچھ معلوم نہیں! آپ قوم کے زخموں پر نمک کیوں چھڑکتے ہیں؟
حکومت کی ایک ذمہ دار شخصیت نے کہا کہ ملک میں دس فیصد سے بھی کم مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ اس پر علمائے کرام نے اور مدارس چلانے والے بزرگوں نے بار بار پوچھا کہ دس فیصد سے کم وہ کون کون سے مدارس ہیں؟ ان کی تخصیص کی جائے۔ مگر قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ آخر سب مدارس کو کیوں بدنام کیا جا رہا ہے؟ اس میں کوئی اشتباہ نہیں کہ مدارس کی اکثریت ایسی وطن دشمن سرگرمیوں میں ہرگز ملوث نہیں۔ بھاری اکثریت مدارس کی ایسی ہے جہاں پڑھانے اور پڑھنے والے اتنے ہی محبِ وطن ہیں‘ جتنا کوئی اور پاکستانی! پھر اس قسم کے پراسراربیانات دے کر سب مدارس کو مشکوک کیوں کیا جا رہا ہے۔ کالی بھیڑوں کی نشان دہی نہ کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ سفید بھیڑوں کے آگے بھی سوالیہ نشان لگا دیا جائے!
سیسہ پلائی ہوئی دیوار!! یہ محاورہ ہمارے رہنما بہت استعمال کرتے ہیں! جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نہ سیسہ پلائی ہوئی ہے اور نہ ہی دیوار کا وجود ہے!قوم فرقوں‘ گروہوں‘ طبقوں‘ نسلوں اور زبانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا منہ دوسری طرف ہے۔ لیڈر شپ کو ادراک ہی نہیں کہ ہم آہنگی مفقود ہے۔ ادراک ہو جائے تو شاید اقدامات بھی کر لیے جائیں مگر ادراک کیسے ہو؟ یہاں تو ترجیحات ہی اور ہیں ؎
وہ شاخِ گُل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
No comments:
Post a Comment