Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, February 03, 2017

ٹرمپ کو چھوڑیں گے نہیں!

گیدڑ کی موت آتی تو شہر کا رخ کرتا ہے۔ ٹرمپ کی شامت آئی ہے تو اس نے مسلمانوں کو للکارا ہے۔ اس نے اپنی شکست کو آواز دی ہے۔
ہم مسلمان گاجر مولی نہیں کہ ٹرمپ کھیت سے اکھاڑے گا اور ہڑپ کر جائے گا۔ ہم دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ کی آبادی رکھتے ہیں۔ ہم پچپن آزاد خود مختار ملکوں کے مالک ہیں۔ ہمارے پاس بہترین افرادی قوت ہے۔ معدنیات کی دولت ہے۔ نباتات کی نعمت ہے۔ اس وقت آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک مسلمان ڈاکٹر چھائے ہوئے ہیں۔ ہم اگر آج ان ڈاکٹروں ہی کو واپس بلا لیں تو ایسا خلا پیدا ہو کہ ترقی یافتہ دنیا کے ہوش اڑ جائیں۔ ہم آج تیل کی برآمد بند کر دیں تو دنیا پتھر کے زمانے کو لوٹ جائے۔ ہم پچپن ممالک ‘ امریکہ سے سفیروں کو واپس بلا لیں اور سفارتی تعلقات ختم کر دیں تو امریکہ خوفناک تنہائی میں بے بس ہو کر رہ جائے!
ٹرمپ یہ نہ سمجھے کہ صومالیہ سوڈان یمن ایران شام لیبیا اور عراق پر پابندی لگا کر اس نے صرف ان سات ملکوں کی دشمنی مول لی ہے۔ اس نے پورے عالمِ اسلام کوچیلنج کیا ہے! ہمارے لیے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا چنداں مشکل نہیں! ہم خاموش اس لیے ہیں کہ کچھ اہم امور طے کرنے میں مصروف ہیں ! ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ہم پچپن مسلمان ممالک‘ ہم ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان‘ چند دنوں میں کیا‘ چند گھنٹوں میں ٹرمپ کے ہوش اڑا دیں اور وہ گھٹنے ٹیک دے۔
ہمیں اندرونی معاملات نے ذرا مشغول کر رکھا ہے۔ ہمارے لیے ٹرمپ کی مصیبت سے بڑی مصیبت شیعہ سنی مسئلہ ہے۔ ہمیں ذرا اس مسئلہ نے الجھا رکھا ہے۔ ہم شیعہ‘ سنیوں کو اور ہم سنی‘ شیعوں کو سبق سکھانے میں لگے ہیں۔
ابھی تو ہمارے اندر جنگ ہو رہی ہے۔ شیعہ سنی کی یہ جنگ شام کے
 پہاڑیوں سے لے کر یمن کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ حوثی قبائل جزیرہ نمائے عرب کے درپے ہیں اور جزیرہ نمائے عرب حوثی قبائل کو نیچا دکھانے میں لگا ہے۔ شام کے شہر اور میدان‘ شیعہ اور سنی کا باہمی قتال کب سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان جیسے کتنے ہی ملکوں کے سنّی اور شیعہ انتہا پسند شام میں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ یہ جو لوگ حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے عیسائی اور یہودی ٹرمپ کے اقدامات کی مخالفت کر رہے ہیں اور کچھ مسلمان بادشاہتیں حمایت کیوں کر رہی ہیں تو اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ان سات ملکوں میں ایران بھی شامل ہے۔ اگر ٹرمپ نے ایک شیعہ اکثریتی ملک کے باشندوں پر پابندیاں لگائی ہیں اور اس سے دوسرے عقیدے والوں کے کلیجے ٹھنڈے ہو رہے ہیں تو بلا سے باقی چھ ممالک بھی زد میں آ جائیں!
یوں تو یہ واحد وجہ بھی نہیں ۔ کچھ مسلمان ممالک جن کے وزرائے خارجہ ٹرمپ کی حمایت میں بیانات دے رہے ہیں‘ ٹرمپ کو اور ری پبلکن حکومت کو خوش بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی نیو ایئر نائٹ کو جب ترکی کے ایک کلب میں دھماکہ ہوا تو جاں بحق ہونے والوں میں پانچ عبادت گزار ایسے ہی ایک ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ ان لوگوں کا اصل طرزِ زندگی باہر جا کر ہی تو ظاہر ہوتا ہے! یہ ٹرمپ کے ہر اقدام کی حمایت کریں گے تاکہ ان کی یاچیں(قیمتی تفریحی بجرے) مغرب کے دلکش نیلے پانیوں پر رواں رہیں۔ یہ جزیرے خریدتے رہیں۔ یہ ایک ایک ہزار ملازموں کے ساتھ میلوں طویل تفریحی ساحل اپنے نام بُک کراتے رہیں۔ یہ مغربی دنیا میں فائیو اور سیون سٹار ہوٹلوں کے شیئر خریدتے رہیں۔ وہاں کے عالی شان گراں بہا سپر سٹوروں میں شاپنگ کی تباہی برپا کرتے رہیں۔ یہ مغرب کے بہترین واٹر فرنٹوں پر محلات تعمیر کرتے رہیں۔ یہ ہوائی جہازوں میں لائونج اور بیڈ روم بنواتے رہیں۔ مغربی بینکوں میں ڈالر اور پائونڈ رکھتے رہیں۔ سونے کی بنی ہوئی کاریں بہاما سے لے کر سوئٹزر لینڈ تک چلاتے رہیں۔
مسلم دنیا اس وقت دو طبقات میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف ارب پتی حکمران ہیں اوردوسری طرف سسکتے بلکتے عوام! چونکہ ٹرمپ کی پابندیوں کی زد میں آنے والوں کی اکثریت کا تعلق عوام سے ہے اس لیے کوئی حکمران احتجاج کرنے کے موڈ میں نہیں!
رہے عوام تو جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے وہ ابھی مصروف ہیں! وہ آپس کی جنگ سے فارغ ہوں تو ٹرمپ کے خلاف احتجاج کریں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ملکوں‘ بشمول امریکہ‘ کے عوام احتجاجی بینر لیے شاہراہوں اور ایئر پورٹوں پر نکل کھڑے ہوئے ہیں مگر مسلمان ملکوں کے عوام نے ایسا نہیں کیا۔ حاشاو کلاّ‘ اس کا سبب یہ نہیں کہ مسلمان عوام ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف نہیں‘ اس کا سبب عوام کی مصروفیت 
ہے۔ ابھی پتلونوں والے پگڑیوں سے برسرِ پیکارہیں۔ ابھی سبز پگڑیوں والے سفید دستار پوشوں کے خلاف اور سفید دستار پوش دستاروں کے خلاف صف آرا ہیں۔ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ کون سی مسجد کس مسلک کی ہے اور کس کس کے پیچھے نمازنہیں ہوتی۔ ابھی ہم پاناما میں کمپنیاں بنانے میں اور عقابوں اور تلوروں کا صفایا کرنے میں مصروف ہیں! ابھی ہم نے عدالتوں میں اپنے ہی حکمرانوں کے خلاف مقدمے دائرکر رکھے ہیں۔ ابھی ہم نے عدالتوں کے باہر عدالتیں قائم کر رکھی ہیں۔ ابھی ہم ایک دوسرے کے پرخچے اڑا رہے ہیں۔ ہم میں سے جو بچ گئے وہ فاتح ٹھہریں گے۔ اس کے بعد ہی ہم ٹرمپ کا سامنا کریں گے۔ ہاں! ہمارے پاس اتنا وقت ضرور ہے کہ اپنے اپنے مسلکی لیڈروں کے لیے شاہراہوں پر آ سکیں۔ جیسے ہی ایک مسلکی لیڈر کو نظر بند کیا گیا‘ اس کے ہم مسلک مودی اورٹرمپ کے پتلے بنا کر سڑکوں پر آ گئے۔ ایسی ہمدردی ہمارے دلوں میں یمن‘ شام‘ سوڈان‘ ایران‘ لیبیا‘ عراق اور صومالیہ کے مسلمانوں کے لیے نہیں! یہ ایک قدرتی بات ہے۔ یہ ہماری فطرت ہے۔ ہم اسلام سے زیادہ اپنے اپنے مسلکوں کے وفادار ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کا اسلام مختلف ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا اسلام صرف اس کے اپنے عقیدے پر مشتمل ہے۔ ہم پہلے شیعہ یا سنی ہیں۔ ہم پہلے بریلوں یا دیو بندی ہیں ہم پہلے اہلِ حدیث یا حنفی ہیں۔ اس کے بعد مسلمان ہیں۔ ہم میں سے جو ممالک آسودہ حال ہیں وہ دوسرے ملکوں میں صرف اپنے اپنے ہم مسلک گروہوں کی حمایت کرتے
ہیں۔ ایرانی اپنے ہم عقیدہ گروہوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں اور عرب اپنے ہم مسلک طبقوں کو نوازتے ہیں۔ ہمارا بس چلے تو ہم ٹرمپ کو یہ سبق پڑھائیں کہ صرف شیعہ حضرات یا صرف سُنّی حضرات کے داخلے پر پابندی لگائے۔ صرف حنفیوں کو یا صرف مالکیوں کو یا صرف حنابلہ کو یا صرف شوافع کو اپنے ہاں آنے دے۔ ہم نے یہ مسلکی لڑائی جی بھر کر برآمد بھی کی ہے۔ ہم نے برمنگھم سے لے کر مانچسٹر تک اور بارسلونا سے لے کر اوسلو تک سطح زمین اپنے اپنے عقیدے کے مولویوں اور پیروں سے بھر دی ہے۔
آج امریکی یہودی اور امریکی نصرانی ہم مسلمانوں کی حمایت کے لیے ہر ممکن حد تک ٹرمپ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کیا جج‘ کیا اٹارنی جنرل‘ کیا ریاستوں کی حکومتیں‘ کیا میڈیا‘ کیا عوام سب ٹرمپ کے اقدامات کے خلاف جو بن پڑ رہا ہے کر رہے ہیں؛ تاہم ہمیں کوئی یہ نہ کہے کہ ہم اس سے سبق سیکھیں اور اپنے اپنے ملکوں میں رہنے والے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اسی رواداری کا سلوک کریں۔ ہمارا اس سلسلے میں اپنا ہی طرزِ عمل ہے۔ ہم دوسرے مذاہب کی صرف جوان لڑکیوں کو مسلمان بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہماری پالیسیوں سے تنگ آ کر خاندانوں کے خاندان سرحد پار کر گئے ہیں۔ ہم چرچ اور عبادت خان جلا دیتے ہیں یا مسمار کر دیتے ہیں۔ ہمارا آئین ہمارے کسی ایسے ہم وطن کو ملک کا یا ریاست کا یا عساکر کا سربراہ نہیں بننے دیتا جو ہمارے مذہب کا نہ ہو۔ مگر ہم اس بات پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ فلاں مغربی ملک کے سربراہ کی دادی مسلمان ہے یا فلاں مغربی شہر کا میئر مسلمان ہے۔ ہمارے معیار دوہرے ہیں۔
ہم ٹرمپ کو چھوڑیں گے نہیں! بس ذرا دوسرے اہم تر مسائل سے نمٹ لیں۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com