لاہور ہائیکورٹ نے 2018ء سے سی ایس ایس کے امتحانات اُردو میں لینے کا حکم دیا ہے۔
اس حکم پر تکنیکی اور ماہرانہ رائے تو ان اداروں کو دینا چاہیے تھی جو اُردو زبان کے نفاذ اور ترویج کے لیے تقریباً نصف صدی سے قائم ہیں‘ مگر ان کی طرف سے اس حکم کے قابلِ عمل ہونے یا نہ ہونے کے متعلق گہرا سکوت ہے۔ مقتدرہ قومی زبان اسی مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا تھا لیکن تاحال یہ ادارہ تراجم اور وضعِ اصطلاحات سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ شاید اسی لیے حکومت کو اس کا نام بدلنا پڑا۔ اس میں کیا شک ہے کہ تراجم اور وضعِ اصطلاحات کا کام‘ نفاذ اُردو کے راستے میں اہم سنگ میل کا مرتبہ رکھتا ہے مگر اصل کام اس سے آگے کا ہے!
کیا فوراً سی سی ایس کے امتحانات اُردو میں لیے جا سکتے ہیں؟ کیا متعلقہ ادارے‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن‘ اس کے لیے تیار ہیں؟ ان سوالات کا حقیقت پسندانہ جواب ملنا ضروری ہے۔ پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اگر سی ایس ایس کے امتحانات اُردو میں شروع ہو گئے تو انگریزی کی کیا حیثیت ہو گی؟ کیا اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا یا بین الاقوامی اہمیت کے پیشِ نظر اسے اہم کردار سونپنا ہو گا؟
اِس وقت سی ایس ایس کے چھ پرچے لازمی ہیں‘ جن میں انگریزی زبان‘ انگریزی مضمون
(essay)
‘ حالاتِ حاضرہ‘ پاکستان کے امور‘ بنیادی سائنس اور بنیادی اسلامیات شامل ہیں۔
چھ سو نمبر کے پرچے ان لازمی پرچوں کے علاوہ ہیں‘ جو اختیاری ہیں۔ ان کا دائرہ زبانوں سے لے کر سائنس تک اور سوشل سائنسز سے لے کر ریاضی‘ قانون اور تاریخ تک پھیلا ہوا ہے۔ تین سو نمبر کے زبانی اور نفسیاتی امتحانات اس کے علاوہ ہیں۔
کامن سینس کیا کہتا ہے؟ عقل کا اور منطق کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کام آہستہ آہستہ‘ مرحلہ وار‘ درجہ بہ درجہ ہونا چاہیے۔ پوری ریاستی مشینری ایک ہی بار انگریزی سے اُردو قالب میں نہیں ڈھل سکتی۔ ایسا کیا گیا تو یہ گاڑی کو گھوڑے کے آگے جوتنے کے مترادف ہو گا اور نتیجہ منفی نکلے گا!
2008ء کا غالباً وسط تھا‘ جب مقتدر قومی زبان کے اُس وقت کے سربراہ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب نے فون پر بتایا کہ وہ غربت کدے پر تشریف لانا چاہتے ہیں۔ 1965ء سے 1967ء تک کے عرصہ میں جب یہ کالم نگار گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں بی اے کا طالب علم تھا تو محترم ملک صاحب اُسی کالج میں اُردو زبان و ادب کے پروفیسر تھے۔ اگرچہ اُن کی کلاس میں ہونے کا اعزاز نصیب نہ ہو سکا‘ تاہم انہیں ہمیشہ اساتذہ اور بزرگوں کی صف میں گردانا۔ بہرطور ملک صاحب تشریف لائے۔ اُن دنوں میں گریڈ 22 میں سول سروس سے ریٹائرڈ ہو کر گھر ہی میں ہوتا تھا۔ والدِ گرامی بسترِ علالت پر تھے۔ اپنی میز کرسی میں نے ان کے کمرے ہی میں رکھ لی تھی‘ اُن دنوں ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے قیام کے حوالے سے ’’دی بنگلہ دیش ٹوڈے‘‘ میں مضامین لکھا کرتا تھا۔
ملک صاحب نے فرمایا کہ وہ ریکٹر کی حیثیت سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی تشریف لے جا رہے ہیں۔ اپنے جانشین کے طور پر‘ یعنی مقتدرہ قومی زبان کی سربراہی کے لیے وہ ایک پینل وزیراعظم کی خدمت میں بھیج رہے ہیں‘ اس پینل میں ایک نام میرا بھی ہو گا۔ ملک صاحب نے ساتھ تفصیل سے بتایا کہ بنیادی کام ہو چکا ہے۔ اب نفاذ کا مرحلہ ہے جس کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن‘ وزیراعظم آفس اور فیڈرل پبلک سروس کمشن میں بیٹھے‘ منجھے ہوئے بیورو کریٹ صاحبان سے معرکہ آرائی کی ضرورت ہے۔ یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو خود بیورو کریسی سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کے لیے ملک صاحب پینل میں میرا نام ڈال رہے تھے۔ یہ ملک صاحب کی قدر دانی تھی۔ چنانچہ پینل میں نام ڈال کر انہوں نے اُوپر بھجوا دیا۔
پھر کیا ہوا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے جس کی تفصیل غالباً خودنوشت میں آ رہی ہے۔ مختصراً یہ کہ ایک دوست جمال ناصر عثمانی کی دخترِ نیک اختر کی شادی کی تقریب تھی۔ وہیں ایک برخوردار‘ جو اُن دنوں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں اعلیٰ عہدے پر تعینات تھے‘ ملے۔ ان سے پینل کے ضمن میں پراگرس کا پوچھا تو مسکرا کر بتایا کہ ’’اُوپر سے احکام آئے ہیں کہ آپ کے ایک بزرگ دوست کو‘ جو پہلے بھی مقتدرہ میں رہے ہیں‘ پھر سے چیئرمین لگایا جائے‘‘۔
جو روڈ میپ اس کالم نگار نے ذہن میں ترتیب دیا تھا‘ وہ یہ تھا کہ اُردو کے نفاذ کے لیے تین مراحل میں کام کرنا ہو گا۔ پہلے مرحلے میں سی ایس ایس کا امتحان انگریزی ہی میں جاری رہے گا مگر دو سو نمبر کے اُردو کے دو پرچے لازمی قرار دیئے جائیں گے۔
دوسرے مرحلے پر دونوں آپشن دیئے جائیں گے کہ چاہیں تو اُردو میں جوابات دیجئے‘ چاہیں تو انگریزی میں۔ مگر انگریزی کی اہلیت جانچنے کے لیے لازمی انگریزی کے پرچے بدستور رہیں گے۔
تیسرے مرحلے میں آخری اور فائنل اقدام کیا جائے گا۔ انگریزی زبان کے پرچے بدستور لازمی ہوں گے مگر باقی تمام امتحان صرف اور صرف اُردو میں ہو گا۔ یہ بھی طے کر لیا تھا کہ اگر ایک برس کے دوران پہلا مرحلہ سر نہ ہو سکا تو استعفیٰ دے دیا جائے گا۔
اِن درجہ بہ درجہ مراحل کے علاوہ کوئی اور راستہ نفاذِ اُردو کا قابلِ عمل نہیں! یہ کام صرف اور صرف مرحلہ وار ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وزیراعظم آفس کی بیورو کریسی کو قائل بھی کرنا پڑے گا اور موم بھی کرنا ہو گا! یہ کام کوئی بیورو کریٹ ہی کر سکتا ہے۔ الحمدللہ اس وقت بیورو کریسی میں ایسے ایسے نوجوان افسران موجود ہیں جو اُردو سے گہرا قریبی اور قلبی تعلق رکھتے ہیں اور حکومتی حساسیت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ ان میں یاسر پیرزادہ ہیں جو اُردو کے مانے ہوئے ادیب ہیں۔ ڈاکٹر وحید احمد اور شکیل جاذب جیسے منجھے ہوئے بیورو کریٹ حکومت کے پاس موجود ہیں جنہوں نے کئی سرکاری اداروں میں کام کر کے گھاٹ گھاٹ کا تجربہ حاصل کیا ہوا ہے‘ اور اُردو شعر و ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ کوئٹہ میں محفوظ علی خان بیٹھے ہیں جو نیپا
(NIPA)
کوئٹہ کے سربراہ رہے اور کئی سال صوبائی سیکرٹری خزانہ کے طور پر کام کیا۔ محفوظ کو پشتو‘ فارسی‘ بلوچی‘ براہوی سمیت تمام پاکستانی زبانوں پر عبور حاصل ہے اور دفتری امور سے نمٹنا جانتے ہیں۔
رہے ہمارے بزرگ شاعر اور ادیب‘ تو ہم ان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ انہیں کوئی بھی علامتی منصب دے کر کہیں بھی فائز کیا جا سکتا ہے۔ مگر جہاں تک حکومتی سطح پر نفاذِ اُردو کا تعلق ہے تو اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ افسر شاہی کے کسی رکن ہی کو یہ کام سونپا جائے۔ ایسا رکن جو اُردو سے علمی اور فنی لحاظ سے خوب آشنا ہو اور اُردو سے محبت بھی رکھتا ہو۔ عربی کا مقولہ ہے کہ ’’لِکُل فَنّ رِجال‘‘ ہر کام کے لیے اُس کام کے ماہرین کی ضرورت ہے! اداروں کا وجود اس لیے نہیں کہ ان میں شخصیات کو سمویا جائے اور محض
(ACCOMODATE)
کیا جائے۔ شخصیات ایسی تلاش کرنا ہوں گی جو اِن اداروں کا اصل مقصد پورا کریں اور عملی اعتبار سے کچھ حاصل کریں!
لاہور ہائی کورٹ کا حکم اس راستے میں اہم سنگِ میل ثابت ہو گا۔ بشرطیکہ مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر عملی اقدامات کیے جائیں۔
اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ کام مرحلہ وار ہی نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment