Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, February 22, 2017

کیا اب اونٹ کو خیمے سے نکالا جا سکے گا؟

تھائی لینڈ ملائشیا کے شمال میں واقع ہے۔ سمگلنگ دونوں ملکوں کے لیے مسئلہ بنا ہوا تھا۔ 1970ء کے عشرے میں دونوں ملکوں نے اپنی اپنی سرحد پر دیواریں تعمیر کر دیں‘ یہ دیواریں کنکریٹ اور لوہے سے بنائی گئیں ‘اوپر خار دار تار لگائی گئی۔ کہیں کہیں لوہے کی باڑ بھی تھی۔ دونوں دیواروں کے بیچ میں جو فاصلہ رہ گیا تھا‘ سمگلروں اور منشیات کے سوداگروں نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔2001ء میں دونوں ملک پھر سر جوڑ کر بیٹھے۔ اب کے یہ طے ہوا کہ صرف ایک دیوار ہو گی اور وہ تھائی لینڈ کی زمین پر تعمیر ہو گی ۔ اڑھائی میٹر بلند یہ دیوار‘ نیچے سے کنکریٹ کی ہے اور اوپر سے لوہے کی ۔ دیوار بنانے کی جو وجہ بتائی گئی وہ سمگلنگ کا انسداد تھا مگر 1990ء اور 2000ء کے عشروں کے دوران جنوبی تھائی لینڈ میں بغاوت کی ہلچل تھی‘ چنانچہ سیکورٹی بھی ایک بڑا سبب تھا!
دنیا کے بیسیوں ممالک ایسے ہیں جنہوں نے بارڈر پر دیواریں بنائی ہوئی ہیں یا لوہے اور تاروں کی ناقابل عبور باڑ لگا دی ہے۔ ارجنٹائن اور پیراگوئے کے درمیان دیوار زیر تعمیر ہے بوٹسوانا اور زمبابوے کے درمیان پانچ سو کلو میٹر لمبی دیوار بنائی گئی ہے چین اور شمالی کوریا کے درمیان ڈیڑھ ہزار کلو میٹر لمبی دیوار زیر تعمیر ہے۔ ہنگری اور سربیا کے درمیان ایک سو پچھتر میل لمبی دیوار ہے۔ یو کرین اور روس کے درمیان دو ہزار کلو میٹر لمبی دیوار بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بہت سے دوسرے ملکوں کی سرحدوں پر بھی بیریئر بنائے جا رہے ہیں۔
سمگلنگ ‘ غیر قانونی آمدو رفت اور ناپسندیدہ عناصر کو روکنے کے لیے سرحدوں پر دیوار تعمیر کرنا کوئی آج کی جدت نہیں قدیم زمانے میں دیوارِ چین اسی وجہ سے بنائی گئی تھی۔ افغان بارڈر پاکستان کے لیے ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا کوئی حل ممکن نہیں ‘سوائے اس کے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ناقابل عبور دیوار تعمیر کر دی جائے خواہ اسے بنانے میں دس سال لگیں یا تیس سال لگ جائیں یہ بارڈر اول دن سے پاکستان کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ پولیو پیدائشی نہیں ہوتا مگر یہ بارڈر ایسا پیدائشی پولیوہے جس نے پاکستانی ریاست کو لولا لنگڑا کیا ہوا ہے ۔ہزاروں افراد ہر روز آتے اور جاتے ہیں اگر پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں بنانے والے حکمرانوں میں ذرہ بھر بھی وژن ہو تو وہ آج ہی سے اس دیوار کو اٹھانے کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ افغانستان اس کی بھر پور مخالفت کرے گا مگر وہ اپنے مفادات کی بنا پر مخالفت کرے گا۔ پاکستان کے مفادات کے تقاضے مختلف ہیں۔ پاکستان یہ دیوار بزور بنائے یا مذاکرات کے ذریعے باہمی رضا مندی سے‘ بہر طور پہ اس کی سکیورٹی کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔
تاہم سو ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پالیسی سازوں میں وژن نام کی کوئی شے موجود ہے؟ آپ مضحکہ خیز صورت احوال ملاحظہ فرمائیے کہ دہشت گردی کی حالیہ خوفناک لہر کے بعد کے پی کے گورنر نے جو فاٹا کے بے تاج بادشاہ ہیں کہا ہے کہ پاکستان نے افغان بھائیوں کی تیس سال تک خدمت کی ہے انہیں پناہ دی ہے اور اب ان کی حدود سے ہم پر حملے ہو رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کار افغان مہاجرین ہیں! جب یہ طے ہے کہ افغان مہاجر سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں تو انہیں پورے ملک میں آزادانہ گھومنے پھرنے سے منع کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ 
آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں‘ پاکستان کو سرکاری سطح پر اعتراف کرنا پڑے گا کہ افغان مہاجرین کو ملک کے اندر کیمپوں میں محصور نہ کر کے تاریخی غلطی کی ہے ۔ اس مہلک غلطی کا سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر ہے! افغان مہاجرین کی بات کی جائے تو کچھ حلقے افغان جہاد کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں مسئلے الگ الگ ہیں ایک کا دوسرے سے کوئی تعلق نہیں! افغان مجاہدین کو امریکی امداد پہنچانے کا یہ مطلب کہاں سے اخذ ہوتا ہے کہ مہاجرین کو مہاجرین کی طرح نہ رکھا جائے؟ اس ملک پر ظلم کیا گیا۔ عوام کے حقوق پر شب خون مارا گیا۔ بارڈر کی تمیز ختم کر دی گئی۔ ریاست اور ریاست کے ساتھ وابستہ مذہبی جماعتوں نے ملک کے وسائل غیر ملکیوں کے ہاتھ میں دے دیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج گورنر کے پی سے لے کر وزیر داخلہ تک اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ مہاجرین دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں۔ آج قوم کو بتایا جا رہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے شہروں سے بڑی تعداد میں افغان باشندے پکڑے گئے۔ سوال یہ ہے کہ افغان باشندے ان تمام شہروں میں کیسے پہنچ گئے؟ انہیں روکنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟
کل ایک پاکستانی دکھ کے ساتھ بتا رہا تھا کہ اس کی غیر ملکی بیوی کو نادرا پاکستانی شہریت دینے کے لیے تیار نہیں حالانکہ نادرا نے فیس وصول کر لی ہے مگر لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ پلیٹ میں رکھ کر دیے گئے یہاں تک کہ نادرا جیسے حساس محکمے میں افغان شہری ملازمت کرتے ہوئے بھی پائے گئے۔
روزنامہ دنیا کی اطلاع کے مطابق لاہورشہر میں 80 ہزار افغان دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ کر رہے ہیں۔ گاڑیوں کی چوری میں بھی یہی عناصر ملوث ہیں۔ راوی روڈ کے اسلحہ ڈیلر ان افغانوں ہی کی وساطت سے اسلحہ منگوا رہے ہیں۔ لاہور میں پختون مارکیٹ اوریگا سنٹر سمیت جہاں جہاں افغان بیٹھے ہیں وہیں سے منشیات پورے شہر میں پھیلائی جا رہی ہیں۔ فیروز والا کے قریب موجود افغان بستی منشیات فروشی سب سے بڑا مرکز ہے۔
کیا یہ وہ ’’پنجاب سپیڈ‘‘ ہے جس کے بارے میں فخر سے بتایا جاتا ہے کہ چین تک میں مشہور ہے؟ اس کالم نگار نے گزشتہ تین برس کے دوران درجنوں کالموں میں ان افغان بستیوں سے خبردار کیا ہے جو صوبائی دارالحکومت کے اندر اور اردگرد قائم ہیں مگر انگلی لہرانے والے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی! تو پھر کون ذمہ دار ہے ان اسی ہزار غیر ملکیوں کی موجودگی کا اور ان کی Pocketsکا؟ بار بار متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر ان غیر ملکیوں کو نکالا نہ گیا اور اگر لسانی بنیادوں پر الگ آبادیوں کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو لاہور کا انجام کراچی سے مختلف نہ ہو گا مگر اس ضمن میں کوئی پالیسی وضع کی گئی نہ روک تھام کی گئی۔ آج حالت یہ ہے کہ پانی سر سے گزر گیا ہے‘ اٹک سے لے کر جنوبی پنجاب تک لاکھوں غیر ملکی دندناتے پھر رہے ہیں جب صوبے کے شہر اور قصبے غیر ملکیوں سے اٹے پڑے ہوں تو وحشت کی اس فضاء میں شاہراہوں‘ پلوں‘ میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں کا کیا فائدہ؟ کیا حکمران قوم کے سامنے اعتراف کریں گے کہ عین ان کی ناک کے نیچے غیر ملکی اپنے پائوں جما چکے ہیں؟۔
یہ غیر ملکی مسلح ہیں اور ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ بنے ہوئے ہیں یہ اپنی بستیوں میں کسی مقامی تاجر کو برداشت نہیں کرتے۔ اٹک اور کئی دوسرے شہروں میں مقامی تاجر قتل کیے گئے ہیں۔ کچھ ماہ قبل دارالحکومت کے ایک نواحی قصبے میں بچوں کے جھگڑے کے نتیجے میں یہ غیر ملکی بندوقیں اٹھا کر پہنچ گئے اور مقامی باشندوں کو ہراساں کیا۔
اور تو اور وفاقی دارالحکومت تک انتہائی غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر سے پندرہ منٹ کی مسافت پر بارہ کہو غیر ملکیوں سے بھراپڑا ہے یہی حال شہر کے دوسرے کنارے پر ترنول کا ہے۔ دارالحکومت کے وسط میں جی12کا سیکٹر عملاً دارالحکومت کا حصہ نہیں! اس کے تنگ‘ بے ترتیب گلی کوچوں میں کون کون لوگ رہ رہے ہیں؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں!
سہراب گوٹھ آسمان سے نہیں اترا تھا۔ سندھ کے حکام کی آنکھوں کے سامنے بنا تھا۔ کیا یہی کہانی پنجاب میں دہرائی جانے کو ہے؟

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com