بنیادی سوال یہ ہے کہ پولیس خدمت کے لیے ہے یا حکمرانی کے لیے؟
جن ملکوں میں پولیس کا کردار عوامی اور جمہوری ہے وہاں پولیس خود سائل کے پاس آتی ہے۔ ہمارے ہاں سائل کو تھانے جانا پڑتا ہے۔
1857ء میں ہندوستان نے انگڑائی لی مگر بات نہ بنی۔ جنگ آزادی کی رہنمائی کے لیے کوئی مرکزی کمانڈ نہ تھی۔ مختلف محاذ کھلے ہوئے تھے جن کے اپنے اپنے کمانڈر تھے۔ دوسری طرف انگریزی حکومت ایک نظام‘ ایک مرکزی اتھارٹی کے تحت باغیوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ باغی شکست کھا گئے۔ پھر داروگیر کا طویل سلسلہ چلا۔ پھانسیاں دی گئیں۔ جائیدادوں پر ہل چلائے گئے۔ قید و بند کے سلسلے شروع ہوئے۔ چار سال بعد انگریزی حکومت نے پولیس کا 1861ء ایکٹ پاس کیا جس میں پولیس کو سامراج کی خدمت کا کردار دیا گیا۔ اس کا کام تھا مخبری کا نظام قائم کر کے مخالفین کو کچلنا۔ اس ایکٹ کے سیکشن 23 میں پولیس کے جن فرائض کا ذکر ہے، اس میں یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ بغیر وارنٹ کے کسی بھی چار دیواری میں داخل ہو سکتی ہے۔ اسے اوپر سے موصول شدہ تمام احکام کو ماننا ہو گا اور خفیہ اطلاعات (انٹیلی جنس) کو جمع کرنا ہو گا۔ آج اگر پولیس کہے کہ اس کے علاوہ اس کے فرائض میں کچھ نہیں تو حق بجانب ہے۔ اس کے فرائض (ڈیوٹی)کے چارٹر میں جب تک توسیع نہ ہو گی وہ صرف حکومت کی خدمت میں لگی رہے گی۔
عوام کو پولیس پراعتماد بالکل نہیں! بے شمار متاثرین اس خوف کے مارے پولیس کے پاس نہیں جاتے کہ ان کے مسائل اور مصائب میں اضافہ ہو گا۔1861ء کے ایکٹ کا سب سے بڑا سقم یہ ہے کہ پولیس کو عوام سے رابطہ کرنے کا پابند نہیں کیا گیا۔ الٹا عوام کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ پولیس کے احکام کی اطاعت کریں، سزا ہر حال میں کمیونٹی ہی کو ملتی ہے۔ ایک بچے کو بھی معلوم ہے کہ 1861ء میں کیا حالات تھے اور اب کیا ہیں۔ اب جمہوریت کا نظام ہے، عوام اپنے حکمرانوں کو خود منتخب کرتے ہیں، اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں پولیس کے حوالے سے بھی عوام کو اختیار حاصل ہونا چاہیے۔ دوسرے ملکوں میں یہی ہو رہا ہے۔ جنوبی افریقہ کے آئین میں یہ شق رکھی گئی ہے کہ ہر صوبے کی یہ باقاعدہ ’’سیاسی ذمہ داری‘‘ ہے کہ پولیس اور کمیونٹی کے درمیان اچھے تعلقات قائم کرے۔ اگر ان تعلقات میں رخنہ پیدا ہو تو باقاعدہ ایک کمیشن بنایا جائے گا جو اسباب کا کھوج لگائے گا۔ 1995ء میں ’’سائوتھ افریقہ پولیس ایکٹ‘‘ پاس کیا گیا جس کی رُو سے ہر تھانے میں ’’عوامی پولیس فورم‘‘ قائم کیا گیا ہے۔ یہ فورم عوام اور پولیس کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ اس فورم کے ذریعے پولیس اپنے علاقے کے عوام کو جواب دہ ہے اور امن و امان کا کام ’’شراکت داری‘‘ کی صورت میں سرانجام دیا جاتا ہے۔ یعنی دونوں برابر کے پارٹنر ہیں! پھر یہ جو ہر تھانے میں فورم کام کرتے ہیں ان کے نمائندے ’’ایریا بورڈ‘‘ میں جاتے ہیں۔ وہاں بحث و تمحیص ہوتی ہے اور پولیس اور عوامی نمائندے مل کر لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ پھر ان بورڈز کے نمائندے صوبائی ہیڈ کوارٹر کے بورڈ میں شرکت کرتے ہیں۔ یوں درجہ بہ درجہ تھانے سے لے کر ضلع اور ڈویژن تک اور پھر صوبائی دارالحکومت تک ہر جگہ پولیس کو عوام کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔ فورم اور بورڈ کے اجلاسوں میں عوام کے نمائندے پولیس کی کارکردگی پر اور رویے پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ پولیس یہ سب کچھ سنتی ہے۔ اس تنقید کی روشنی میں اپنی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے اور رویے کو مزید مثبت کرتی ہے!
برطانیہ کو لے لیجیے۔ وہاں بھی قانون پولیس کو پابند کرتا ہے کہ وہ مقامی عوام کا نکتہ نظر معلوم کرے۔ یہ پولیس کا فرض ہے کہ وہ جرائم کی روک تھام میں عوام کا تعاون حاصل کرے۔
2002ء میں برطانیہ میں ایک بالکل نئی قسم کا قانون پاس کیا گیا۔ اس کی رو سے پولیس کے کچھ اختیارات عوام کو سونپے گئے ہیں۔ پولیس کا سربراہ شہریوں میں سے کچھ حضرات کو ’’مدد گار سٹاف‘‘ کے طور پر باقاعدہ تعینات کرتا ہے۔ اس سول سٹاف کو اختیار ہے کہ وہ غلط کردار رکھنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ سول کے یہ افراد مخصوص حالات میں شراب اور تمباکو ضبط کر سکتے ہیں۔ گاڑیوں کو پکڑ سکتے ہیں اور ٹریفک کا نظام اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔
یہی صورت حال کینیڈا میں ہے۔ قانون پولیس کو پابند کرتا ہے کہ وہ شہریوں کو کام میں شریک کریں۔ ’’برٹش کولمبیا‘‘ کینیڈا کا وہ صوبہ ہے جو بحرالکاہل کے ساحل پر واقع ہے۔ یہ کینیڈا کا مغربی حصہ ہے۔ خوبصورتی میں یہ جنت نظیر ہے۔ اس قدر کہ اسے بی بی سی یعنی ’’بیوٹی فل برٹش کولمبیا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا صدر مقام وکٹوریہ ایک چھوٹ سا جزیرہ ہے تاہم وینکوور بڑا شہر ہے۔ کئی سال تک وینکوور دنیا کے بہترین رہائشی شہروں
(Best - Liveable-Places)
میں پہلے نمبر پر آتا رہا۔اب کچھ عرصہ سے یہ امتیاز میبلورن نے حاصل کر لیا ہے۔ ویانا بھی پہلے یا دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس صوبے میں باقاعدہ ’’پولیس کمیٹیاں‘‘ بنتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ شہریوں اور پولیس کے درمیان پل کا کردار ادا کریں اور شہریوں کو پولیس کی کارکردگی سے باخبر رکھیں۔ ان کمیٹیوں میں شہریوں کو باقاعدہ رکن بنایا جاتا ہے اور ان کا انتخاب میونسپل کونسلیں کرتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کی کارکردگی سے متعلقہ وزیر کو باخبر رکھاجاتا ہے اور اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شہریوں کی امیدیں کیا ہیں‘ وہ مطالبات کیا کیا کر رہے ہیں اور یہ امیدیں اور مطالبات کہاں تک پورے کیے جا چکے ہیں۔
ان مہذب ترقی یافتہ ملکوں میں پولیس کے سربراہ کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنی تعیناتی کی مدت پوری کرے گا۔ اسے کسی وزیر اعلیٰ کے ذہن میں اٹھنے والی اتفاقی لہر کے نتیجے میں نہیں ہٹایا جا سکتا۔ اس کے کام میں سیاسی مداخلت نہیں ہوتی۔ تھانے نہیں بکتے نہ ہی تھانیدار اوپر سے احکام لے کر اپنے افسر کے سامنے اکڑ کر چل سکتا ہے!
بجا کہ پولیس کا سربراہ صوبائی حکومت کے تحت کام کرتا ہے۔ مگر کیا صوبائی حکومت اس ضمن میں من مانی کرے گی؟ جی ہاں! پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پولیس کا صوبائی سربراہ وزیر اعلیٰ کی انگلی کے ایک اشارے کا اسیر ہے۔
بھارت میں 1979ء میں ایک ’’نیشنل پولیس کمیشن‘‘ بنایا گیا جس نے ایک ’’ماڈل ایکٹ‘‘ پیش کیا۔ بھارت کی بہت سی ریاستوں نے اس کمیشن کی تجاویز سے فائدہ اٹھایا اور 1861ء کے ایکٹ میں مناسب ترامیم کیں۔ تاہم یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ بھارت1861ء کے ایکٹ سے پوری طرح جان چھڑا چکا ہے۔ اس کمیشن نے پولیس کے صوبائی سربراہ کو صوبائی حکومت کی ’’آمریت‘‘ سے بچانے کے لیے ایک قانونی ادارہ (باڈی) تجویز کیا جسے ریاستی یعنی ’’صوبائی سکیورٹی کمیشن‘‘ کا نام دیا گیا۔ صوبائی حکمران اعلیٰ کے بجائے یہ ادارہ پولیس کی نگرانی کرے گا۔ متعلقہ صوبائی وزیر (یعنی وزیر داخلہ) اس باڈی کا چیئرمین ہو گا۔ دو ارکان صوبائی اسمبلی سے لیے جائیں گے۔ ایک حزب اقتدار سے اور دوسرا حزب اختلاف سے! چار ارکان‘ صوبائی وزیر اعلیٰ‘ صوبائی اسمبلی کی منظوری سے نامزد کرے گا۔ یہ چار ارکان ریٹائرڈ ججوں سے‘ بیورو کریسی سے یا معاشرے کے تعلیم یافتہ افراد سے ہوں گے۔ یہ ادارہ پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ ایس پی اور اس سے اوپر کے پولیس افسران اِس ادارے کے پاس جا کر فریاد کر سکیں گے کہ ان پر حکومت کی طرف سے ناجائز دبائو ڈالا جا رہا ہے۔
اس پولیس کمیشن نے یہ بھی سفارش کی کہ پولیس کا صوبائی سربراہ تعینات کرتے وقت فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو‘ وفاقی سیکرٹری داخلہ کو، صوبائی چیف سیکرٹری کو اور موجودہ پولیس چیف کو فیصلے میں شریک کیا جائے۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ ہماری پولیس مظلوم ہے۔ افسر سیاسی حکومت کے سامنے بے بس ہیں اور جوان افسروں کے سامنے بے بس! گزشتہ برس سرکاری پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے لشکر نما جتھہ لے کر ایک تھانے پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں عتاب کا نشانہ تھانیدار ہی بنا! پولیس کے سینکڑوں جوان افسروں کی رہائش گاہوں کے سامنے خیمے لگا کر حالتِ جنگ میں رہ رہے ہیں۔ چوبیس گھنٹے شفٹیں چلتیں ہیں۔ یہ خیمے حاضر پولیس افسروں کے محلات کے سامنے تو ہیں ہی‘ ریٹائرڈ پولیس افسران اور وہ بھی جو پولیس کے محکمے سے دوسرے محکموں میں چلے گئے ہیں‘ اس ’’خیمہ پہریداری‘‘ سے مستفید ہو رہے ہیں۔ وی آئی پی نقل و حرکت کے دوران پولیس کے یہ جوان گھنٹوں نہیں پہروں دو پائوں پر شاہراہوں کے کنارے نصب رہتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے کی کسی کو پروا نہیں! ڈیوٹی ختم ہونے پر یہ پبلک سے لفٹ لے کر واپس ٹھکانے پر پہنچتے ہیں۔
ملک بھر میں پولیس کے ہزاروں جوان اور افسر حکمرانوں اور ان کے رشتہ داروں کے محلات پر ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ لاتعداد سیاست دان ان سرکاری پہریداروں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پولیس کو فرائض کی سرانجام دہی میں آزادی بالکل حاصل نہیںٖ! سیاسی مداخلت بھر پور ہے۔ عوام ان سے نفرت کرتے ہیں۔ ناکوں پر انہیں برا بھلا کہا جاتا ہے۔ اس سے پولیس میں مایوسی اور بد دلی پھیلی ہوئی ہے۔ اگر پولیس مجرموں کے ساتھ مل جاتی ہے اور کار چوروں کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہے تو یہ اس مایوسی اور بددلی کا ردِ عمل ہے۔ ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ جو کچھ پولیس کے ساتھ حکومت اور معاشرہ کر رہا ہے‘ پولیس اس کے ردِ عمل میں شعوری یا غیر شعوری طور پر انتقام لے سکتی ہے اور لیتی ہے۔ پولیس پتھروں پر نہیں‘ گوشت پوست کے انسانوں پر مشتمل ہے۔
No comments:
Post a Comment