Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, July 29, 2016

…… پنجابیوں نے لُوٹ لیا

سب ہانپ رہے تھے۔ سب سامان اُٹھائے تھے۔ کسی کے سر پر صندوق تھا۔ کسی کے ہاتھ میں بیگ۔ کوئی بوڑھی تھی اور ہائے ہائے کیے جا رہی تھی۔ کوئی نوجوان تھا مگر مشقت اس قدر تھی کہ سانس اس کا پھولا ہوا تھا۔ سیڑھیاں اُترنا تھیں۔ پھر چڑھنا تھیں، پھر اُترنا تھیں۔ پھر چڑھنا تھیں!
یہ اُس قافلے کا ذکر نہیں جو تقسیم ہند کے وقت جالندھر اور امرتسر اور لدھیانہ اور فیروزپور اور ملیر کوٹلہ سے گرتا پڑتا آ رہا تھا اور اُن ہزاروں بے یار و مددگار قافلوں میں شامل تھا جو پاکستان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ تو اُن بے کس، بے بس، مسافروں کا ذکر ہے جو لاہور ریلوے اسٹیشن پر دو روز پہلے ان آنکھوں نے دیکھے، عبرت پکڑی! یہ لکھنے والا خود بھی ان ہانپتے کانپتے مسافروں میں شامل تھا!
یا خواجہ! یا خواجہ سعد رفیق!
اے ریلوے کے وزیر! اے ریلوے کے محنت کرنے والے وزیر! تو کہاں ہے؟مگر ریلوے کے وزیر کو یا کسی بھی وزیر کو اخباری کالم پڑھنے کی کیا ضرورت ہے! اس سے پہلے بائیس اپریل 2016ء کو ریلوے کے مسائل پر تفصیلی کالم روزنامہ دنیا میں چھپ چکا ہے۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ وزیر ریلوے نے وہ بھی نہیں پڑھا ورنہ کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کے احکام جاری ہو چکے ہوتے!
خواجہ صاحب! یہ 2016ء ہے۔ ٹکے ٹکے کے سپر سٹوروں میں بھی برقی سیڑھیاں 
(Escalator) 
نصب ہیں۔ گاہک ان پر کھڑے، آرام سے، اوپر جا رہے ہیں۔ نیچے اُتر رہے ہیں۔ ریلوے کے ملازمین کے تنور نما پیٹوں سے کچھ بچے تو قوم کے لیے نہ سہی، خدا کے لیے لاہور اور راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشنوں پر نئے نہ سہی، سیکنڈ ہینڈ 
Escalator
 ہی لگوا لیجیے! ہانپتے، بد دعائیں دیتے، مسافروں پر رحم کیجیے۔ مانا کہ ریلوے کی ترجیح اب بھی ریلوے کے ملازمین ہیں۔ اس لیے کہ پارلر سے لے کر عام ڈبوں تک، اچھی نشستیں انہی کو ملتی ہیں اور انگریزی زمانے کے سیلون اب بھی ٹیکس دہندگان کا خون نچوڑ رہے ہیں، یہاں تک کہ ریٹائرڈ ملازمین بھی مع اہل و عیال درجن نہیں تو نصف درجن ''ہنی مون‘‘ سال میں ریلوے پر مفت منا سکتے ہیں۔ مگر کچھ حق تو اُن مسافروں کا بھی ہے جو جیب سے پیسے دے کر۔ مفت کے پاس نہیں۔ اصل اور حقیقی ٹکٹ خریدتے ہیں! جن کا حق ہے، انہیں فقیر سمجھا جا رہا ہے اور جو مفت خورے ہیں، مالک بن کر سفر کر رہے ہیں!
لاہور پہنچ کر جو خبریں اسلام آباد سے ملیں وہ پریشان کن تھیں! دارالحکومت میں اضطراب تھا۔ بے چینی تھی۔ احتجاج کی تیاریاں ہو رہی تھیں! یہ احتجاج دارالحکومت کے باشندے نہیں کر رہے تھے بلکہ ترقیاتی ادارے کے ملازمین اور افسران کر رہے تھے۔ احتجاج حکومت کے خلاف نہیں تھا۔ یہ سپریم کورٹ کے خلاف تھا۔ یعنی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے خلاف!
عدالتیں تو انصاف کرتی ہیں! عدالت عظمیٰ تو وہ پنا گاہ ہے جہاں زیریں عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں کی جاتی ہیں! بے انصافیوں کے خلاف دہائی دی جاتی ہے! پھر عدالتِ عظمیٰ نے ایسی کون سی بے انصافی کر دی کے دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ احتجاج کرنا چاہتا ہے؟
عدالت عظمیٰ نے ستم یہ ڈھایا ہے کہ لاہور کے ترقیاتی ادارے کو کہ عرف عام میں ایل ڈی اے کہلاتا ہے ''پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ‘‘ قرار دے دیا! اِس ''نامور‘‘ ادارے نے کچھ شہریوں کے پلاٹ 1990ء میں اِدھر اُدھر کر دیے تھے اور مالکان کو کہا تھا کہ انہیں متبادل قطعات دیے جائیں گے۔ 1990ء سے پچانوے آیا۔ ایک صدی نے دیکھتے دیکھتے دم توڑ دیا۔ نئی صدی آ گئی۔ زمانہ بدل گیا۔ بچے جوان ہو گئے۔ جوان بوڑھے ہو گئے۔ لاہور کا ترقیاتی ادارہ سویا رہا۔ چھبیس سال ہو گئے۔ محروم افراد کو ابھی تک پلاٹ نہیں ملے۔ سپریم کورٹ کیا کرے۔ اس کے پاس انصاف کا ترازو تو ہے مگر کام حکومت نے اور حکومتی اداروں نے کرنا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایل ڈی اے کو پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دے دیا!
ایل ڈی اے حکومت پنجاب کا حصہ ہے۔ حکومتِ پنجاب کے سربراہ ان دنوں چین میں وزیر خارجہ کی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ انہیں اس سے کیا غرض کہ سپریم کورٹ کیا کہہ رہی ہے۔ سنا ہے چین میں ایک محاورہ چل رہا ہے ''پنجاب سپیڈ‘‘ لگے ہاتھوں کوئی چینیوں کو یہ بھی بتا دے کہ پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ پنجاب ہی میں ہے! یہ قرعۂ فال پنجاب کے نام ہی نکلا۔ قائم علی شاہ صاحب کی بد قسمتی دیکھیے۔ سرکاری اجلاسوں میں خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہے، 2016ء کو 2001ء کہتے رہے۔ سارا ملک مذاق اُڑاتا رہا کہ فرعونِ مصر پیدا ہؤا تو قبلہ شاہ صاحب میٹرک کا امتحان پانچویں بار دینے کی تیاری کر رہے تھے۔ نا اہلی کے ہر معیار پر پورا اُترنے کے باوجود قائم علی شاہ پیچھے رہ گئے۔ ملک کا کرپٹ ترین ادارہ سندھ کی قسمت میں نہ تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ سرخاب کا پر پنجاب کی ٹوپی پر لگایا! شاعر نے تو صدی ڈیڑھ صدی پہلے ہی پنجاب کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا کہ 
ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
دہلی اور لکھنؤ کے اہلِ زبان شعرا سے یہ تمغہ لینا آسان نہ تھا۔ یہ پنجاب ہی کا کام تھا! میر تقی میر تو زبان کے بارے میں اتنے حساس تھے کہ سفر کے دوران بیل گاڑی میں بیٹھے دوسرے مسافر سے بات تک نہ کی کہ زبان خراب نہ ہو جائے۔ چلیے! پنجابی اہلِ زبان نہ سہی، اہلِ درد تو تسلیم کر لیے گئے! یوں بھی شاعروں کا کیا ہے۔ زبان کے مسئلے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں! ایک شاعر نے بہت معصومیت سے کہا تھا؎
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کاش پوچھو کہ بدعا کیا ہے
اس کی تشریح میں نثرنگار اتنے دور نکل گئے او ایسی ایسی کوڑی لائے کہ شرفا نے کانوں کو ہاتھ لگا لیے۔
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کا دل ٹوٹ گیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے اعزاز لاہور کے ترقیاتی ادارے کو دے دیا۔ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں۔ کرپٹ ترین ادارہ؟ اس منفرد اعزاز کے لیے تو دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ برسوں سے، بلکہ دہائیوں سے کوشش کر رہا ہے۔ ڈراپ سین غلط ہوا ہے! بہت غلط! وفاق کو نظر انداز کیا گیا ہے! پہلے ہی شور مچ رہا ہے کہ پورے صوبے کے فنڈز ایک شہر کی آرائش و زیبائش پر خرچ کیے جا رہے ہیں، اب کرپٹ ترین ہونے کا اعزاز بھی وفاقی ادارے کے بجائے سب سے بڑے صوبے نے جیت لیا۔ گویا میدان مار لیا۔ اب وہ کراہتی ہوئی آواز، وہ دلگداز فریاد دہلی یا لکھنؤ سے نہیں، پوٹھوہار کی سطح مرتفع سے اُٹھ رہی ہے! کہ ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا۔
عدالتِ عظمیٰ کی خدمت میں بصد ادب حقائق پیش کیے جاتے ہیں! یہ حقائق مصدقہ ہیں اس لیے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سب کمیٹی کے سامنے رکھے گئے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، کوئی عام کمیٹی نہیں، یہ وہ کمیٹی نہیں جو خواتین ڈالتی ہیں! یہ قومی اسمبلی کا حصہ ہے یعنی منتخب ایوان کا!! دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں ایک افسر صرف اس کام پر مامور ہے کہ نا جائز تعمیرات کو روکے۔ اور اگر کوئی تعمیر نا جائز نظر پڑے تو اسے منہدم کرا دے۔ اس افسر نے ہمت کی اور گرین بیلٹ پر خود ہی نا جائز تعمیرات شروع کر دیں۔ ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، پوری چار رہائش گاہیں تعمیر کر ڈالیں۔ پھر وہ کرائے پر چڑھا دیں! پورے ادارے میں، چیئرمین صاحب سے لے کر، نائب قاصد تک، کسی کو معلوم ہوا نہ کسی نے اعتراض کیا۔ یہ خبر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ان کے اپنے ہی ایک منصب دار نے مہیا کی! کمیٹی نے ادارے کے چیئرمین سے، کہ سامنے تشریف فرما تھے، پوچھا۔ چیئرمین کا وہی جواب تھا جو ایسے ہر موقع پر افسر شاہی کا ہر سمجھدار رکن دیتا ہے کہ انکوائری کی جائے گی! سلامتی کے لیے یہ جملہ محفوظ ترین ہے! تردید کیجیے نہ تصدیق! انکوائری ہو گی تو ہو گی!
خدا کے بندو! اس ملک کا مسئلہ امریکہ ہے نہ انڈیا! کوئی بین الاقوامی سازش کہیں اس ملک کے خلاف نہیں ہو رہی! اس ملک کو جو سرطان لاحق ہے وہ نا اہلی ہے! نا اہلی! نا اہلی! صرف نا اہلی! انگریزوں نے اس کے لیے ایک لفظ ایجاد کیا ہے
 Incompetence
؟ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ سات سمندر پار اوباما کیا کر رہا ہے یا اسرائیل میں کیا ہو رہا ہے یا کون سا نظریہ کس کے گلے سے اتارنا ہے یا لبرل کون ہے اور کون نہیں! عوام تو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں دھکے نہ کھانے پڑیں۔ ہسپتالوں میں، سکولوں میں، ترقیاتی اداروں میں خوار نہ ہونا پڑے۔ ٹیلی فون لگوانے کے لیے، بجلی کا بل ٹھیک کرانے کے لیے اور گیس کا کنکشن لینے کے لیے در در کے دھکے نہ کھانے پڑیں، اسمبلی کے حجروں سے سفارشی چٹھیاں نہ لینی پڑیں۔ سرکاری دفتروں کے چکر نہ لگانے پڑیں اور قائداعظم کی تصویروں والے کاغذ نہ چلانے پڑیں!
ترقی یافتہ ممالک، اپنے شہریوں کے گلے سے نظریہ نہیں اُتارتے، سہولیات بہم پہنچاتے ہیں، عزت دیتے ہیں اور عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہاں پلاٹ لینے کے لیے حقدار کو چھبیس چھبیس سال عدالتوں کے دروازے نہیں کھٹکھٹانے پڑتے!

Wednesday, July 27, 2016

میاں رضا ربانی اگر چاہیں تو

میاں رضاربانی اگر چاہیں تو پاکستان کی تاریخ کو ایک موڑ دے سکتے ہیں۔ ایک خوبصورت موڑ۔
آئینی اصلاحات کے ضمن میں‘ ان کی بہت خدمات ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئینی اصلاحات کے صدر رہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے معماروں میں سے ہیں۔ پارٹی نے مجبور کیا تو ایک معاملے میں ووٹ پارٹی کے کہنے پر دیا مگر دُکھ اتنا ہوا کہ روپڑے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں کراچی یونیورسٹی سے سزا کے طور پر نکال دیے گئے۔ جیل یاترا بھی کی۔ والد گرامی گروپ کیپٹن عطا ربانی قائد اعظم کے اے ڈی سی رہے ! سب سے بڑھ کر یہ کہ رضا ربانی کی شہرت وہ نہیں جو پارٹی کا غیر تحریری
(UN-WRITTEN)
منشور رہا ہے کہ کھائو پیو اور بولیاں لگائو۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ سرے محل سے لے کر ‘ فرانس کے اڑھائی سو سالہ پرانے قصرِ شاہی تک۔ اور یوسف رضا گیلانی صاحب کے سکینڈلوں سے چھلکتے عہدِ ہمایونی سے لے کر راجہ پرویز اشرف صاحب کے اندھیارے راج تک‘ کسی مقام پر میاں رضا ربانی صاحب نے احتجاج نہیں کیا! نہ ہی کبھی‘ دبے لفظوں ہی میں سہی‘ پارٹی پر خاندانی آمریت کے مضبوط ہوتے پنجوں کے خلاف آواز اٹھائی مگر آہ! پاکستانی سیاست کی مجبوریاں! کریں تو کیا کریں! جائیں تو کہاں جائیں! قمر زمان کائرہ صاحب سے لے کر رضا ربانی صاحب تک‘ خواجہ آصف صاحب سے لے کر چوہدری نثار علی خان صاحب تک۔ سب عمر رسیدہ سیاست دان‘ آئینے میں چاندی جیسے سفید بالوں کو دیکھ کر دل میں ضرور کہتے ہوں گے کہ ہماری عمریں اس دشت کی سیاحی میں گزر گئیں اور بلاول اور حمزہ شہباز اور بی بی مریم صفدر۔ کل کے بچے ہم سے بہت آگے نکل گئے۔ مگر ساتھ ہی ایک پرانے گیت کے بول ہوا میں اڑتے سنائی دیتے ہیں۔ طاہرہ سیّد نے کیا آواز پائی ہے!
چپ کر جا‘
نہ کر شور
نہیں چلنا تیرا زور
دشتِ سیاست میں عمر گزار دینے والے یہ معمر سیاست دان آج اپنی پارٹیاں چھوڑ بھی دیں تو سینگ کہیں نہیں سمائیں گے سوائے اس کے کہ ایک آوازملامت کرے   ع
مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی
یا مومن کے بقول    ؎
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلمان ہوں گے
مگر ایک موقع ایسا آیا ہے کہ میاں رضا ربانی تاریخ بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کو، اپنے ملک کو‘ وہ شے دے سکتے ہیں جس کے لیے خلق خدا ترس رہی ہے!
یہ بیس جولائی تھی ۔ بدھ کا دن ختم ہونے کے قریب تھا۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے درمیان سرحدی مقام چشمہ پر پولیس والے اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے تھے۔ ملک میں دہشت گردی نے جو صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ اس کے پیش نظر ڈی پی او میانوالی نے اپنے عملے کو سختی سے ہدایت کی کہ کے پی سے کوئی گاڑی بھی چھان بین کے بغیر نہ آنے دی جائے۔ اس مقصد کے لیے کمپیوٹرائزڈ ریموٹ سرچ کے کیمرے نصب کیے گئے۔ پولیس والے ہر گاڑی والے کو ادب و احترام کے ساتھ گزارش کرتے کہ کیمرے سے گزرنا ہے چند ثانیوں سے زیادہ کا کام بھی نہ تھا۔ سب اس قانون کی پابندی کر رہے تھے!
بیس جولائی کا دن آخری دموں پر تھا۔ رات کے گیارہ بجے تھے جب پولیس والوں کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ کے پی کی طرف سے ایک گاڑی آئی۔ جیسا کہ سب گاڑیوں کو کہا جا رہا تھا‘ اس گاڑی سے بھی گزارش کی گئی کہ سرچ کیمرے میں سے گزرے مگر گاڑی میں بیٹھی ہوئی شخصیت نے انکار کر دیا۔ پولیس والوں نے اصرار کیا۔ قانون سب کے لیے تھا مبینہ طور پر گاڑی میں بیٹھی ہوئی شخصیت نے کہا کہ وہ سینیٹر ہے۔ ’’میری گاڑی کی کوئی چیکنگ نہیں کر سکتا‘‘ پولیس والے مجبور تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کی جو صورت احوال ہے اس کے پیش نظر‘ اس قاعدے کی پابندی لازم ہے۔ مگر سینیٹر نے پولیس ملازمین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور یہ گاڑی چیکنگ کرائے بغیر‘ کیمرے کا سامنا کیے بغیر‘ قاعدے کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مارتے ہوئے اور قانون کو گاڑی کے پہیّوں تلے کچلتے ہوئے دارالحکومت کی طرف روانہ ہو گئی۔
یہ ہے اصل سرطان ۔ یہ ہے وہ کینسر جو اس ملک کو لاحق ہے! ملکی سالمیت پر قوم کے مستقبل پر اس سے زیادہ خطرناک وار نہیں ہو سکتا کہ کوئی کہے میں سینیٹر ہوں‘ یا میں ایم این اے ہوں یا میں وزیر ہوں‘ یا میں وزیر اعلیٰ ہوں یا میں بڑا افسر ہوں یا میں فلاں کا بھائی ہوں یا فلاں کا بیٹا ہوں! یہ دعویٰ ہی شدید احساس کمتری کی علامت ہے۔ یہ دعویٰ پس ماندگی کا نشان ہے! جو مہذب ہو گا‘ وہ قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا! قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے سے شان و شوکت گھٹتی نہیں‘ بڑھتی ہے! اس دھرتی پر بوجھ ہے جو یہ کہتا ہے ک میں فلاں ہوں اس لیے میری گاڑی کی چیکنگ کوئی نہیں کر سکتا! ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا کہنے کا‘ قواعد و ضوابط کو پائوں تلے کچلنے کا‘ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا! سنگا پور کے وزیر اعظم کے بیٹے نے ٹریفک کے قاعدے کی خلاف ورزی کی تو جیل میں ڈال دیا گیا، اس کی ماں نے پرائیویٹ شہری کی حیثیت میں اس مقدمے کا سامنا کیا۔ ایک نہیں سینکڑوں ہزاروں مثالیں ہیں۔
یہ ہے اصل بیماری جو اس ملک کو پاتال کی طرف لے جا رہی ہے اور تیزی سے لے جا رہی ہے۔ کوئی بڑا ہوائی اڈہ ‘ کوئی میٹرو بس‘ کوئی اورنج یا بلیو یا گرین یا گرے یا پنک ٹرین اس سرطان کا علاج نہیں! کوئی فی کس شرح آمدنی ہمیں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں نہیں کھڑا کر سکتی جب تک کہ قانون کو چیلنج کرنے والوں کے دہانے کھول کر‘ قانون ان کے اندر نہ انڈیلا جائے۔ مشرق وسطیٰ کا ایک ملک قومی آمدنی اور فی کس آمدنی کے حوالے سے کئی مغربی ملکوں سے آگے ہے شاہراہیں وہاں اتنی چوڑی ہیں کہ رن وے کا کام دے سکتی ہیں! سپر سٹور دنیا بھر کی مصنوعات سے اور پھلوں سے اور اشیائے خوردنی سے اٹے پڑے ہیں۔ گاڑیاں ایسی ایسی سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں کہ کیلی فورنیا کے امرا دیکھیں تو رشک کریں۔ مگر یہ ملک ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں نہیں گنا جاتا، اس لیے کہ شاہی خاندان کا کوئی فرد‘ کسی بھی قطار سے گزر کر‘ سب سے آگے کھڑا ہو جاتا ہے! قانون اس کے آگے بے بس ہے!
میاں رضا ربانی کی ساری زندگی آئین کے لیے جدوجہد کرتے گزری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ وہ سینیٹ کے چیئرمین ہیں۔ سربراہ ہیں! اگر وہ اس قانون شکنی پر خاموش رہتے ہیں تو خاموشی نیم رضا! یعنی پھر وہ گویا اپنے ادارے کے رکن کے‘سینیٹر کے‘ اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں سینیٹ کے چیئرمین کو رولنگ دینا ہو گی کہ کیا صرف ایک سینیٹر قانون سے ماورا ہے یا سب ماورا ہیں؟ اور کیا گاڑیوں کی چیکنگ کے ضابطے ہی کو پائوں تلے ایک سینیٹر پامال کر سکتا ہے یا کسی بھی ضابطے کو؟
ہمت کیجیے! میاں رضا ربانی صاحب! اپنے بڑے والد کے نام کی لاج رکھیے۔ ایوان میں اس سینیٹر کو کھڑا کیجیے اور اسے بتائیے کہ سینیٹ کا رکن ہونا‘ کسی بھی قانون سے‘ کسی بھی ضابطے سے ‘ کسی بھی قاعدے سے‘ کسی بھی رول سے‘ استثنیٰ نہیں دیتا۔ قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہیں۔ کیمرے کی آنکھ سے سب کو گزرنا ہے!اور میاں رضا ربانی صاحب    ع
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!

Monday, July 25, 2016

شُکر

عمر رسیدہ شخص کے سامنے سے ٹرے اٹھاتے وقت پوچھا: ’’آپ کو کچھ اور چاہیے‘‘ کہنے لگا: ’’نہیں! اللہ کا شکر ہے جس نے پیٹ بھر کرکھانا دیا اور کیا چاہیے! پینے کے لیے ٹھنڈا پانی عطا کیا! سانس آ جا رہی ہے! الحمد للہ!‘‘
ہم صحن میں بیٹھے تھے۔ سہ پہر تھی، مگربادل چھائے تھے۔ درجہ حرارت جو ایک دن پہلے اڑتیس تھا، تیس کے لگ بھگ ہو گیا تھا۔ ہوا کے جھونکے جسم کو پرسکون اور ذہن کو شاداب کر رہے تھے۔ عمر رسیدہ شخص نے آسمان کو دیکھا اور جیسے اپنے آپ سے کہنے لگا: ’’کیا بادل تان  دیے ہیں تُو نے ہمارے سروں پر! اور کیا خوشگوار ہوا کے جھونکے فرحت بخش رہے ہیں ہمارے جسموں کو! تیرا شکر ادا کرنے کے لیے لفظ ہی نہیں ملتے۔ واہ پروردگار! تیرے کام انوکھے ہیں! رات بھر ایئرکنڈیشنرکی ہوا میں سونے والے صبح اٹھتے ہیں تو تھکے تھکے ہوتے ہیں۔ چہرے زرد اور بعض کی ٹانگوں میں درد! اور وہ جو چھت پر یا صحن میں سوتے ہیں، رات کو اس خنکی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو آسمان سے براہ راست نازل ہوتی ہے۔ چادر اوڑھنا پڑتی ہے۔ صبح تازہ دم ہوتے ہیں۔ واہ پروردگار! کیا توازن ہے تیرے مدبر الامر ہونے میں! جو سیب کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے، انہیں بیر مہیا کیے ہیں جن کی کیمیائی تشکیل وہی ہے جو سیب کی ہے! جن کے پاس پلازے محلات اور کارخانے نہیں ہیں، وہ کئی جسمانی بیماریوں سے دور ہیں، جو تھوڑا کھاتے ہیں مگر اکل حلال پر انحصار کرتے ہیں، ان کی اولاد فرمانبردار ہے۔ جو وارثوںکے لیے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے، ان کے بیٹے اور بیٹیاں ان کی مغفرت کے لیے دعائیں کرتی ہیں، یاد رکھتی ہیں اور جو کچھ بھی ہیں، اس کا کریڈٹ فخر سے ماں باپ کو دیتی ہیں۔ جو بہت کچھ چھوڑ کرجاتے ہیں، ان کی بیٹیاں بیٹے ایک دوسرے کو عدالتوں میں گھسیٹتے پھرتے ہیں، بات چیت کے روادار نہیں! اور کیڑے نکالتے ہیں کہ باپ نے یہ تو کیا مگر وہ نہیں کیا، اپنے کانوں سے سنا ایک شخص اپنے مرے ہوئے باپ کے بارے میں اظہار افسوس کر رہا تھا کہ آہ! بے وقوف نے پلاٹ چھوڑا مگر یہ نہ سوچا کہ بیٹا تعمیر کیسے کرے گا!‘‘
پانی کا گلاس عمر رسیدہ شخص نے ہاتھ میں تھمایا۔ پوچھا: ’’گھر میں مٹی کا پیالہ نہیں ہے؟‘‘ جواب دیا ’’نہیں بزرگو! اب کون رکھتا ہے گھروں میں مٹی کے برتن!‘‘ مگر اس نے عجیب بات کی:’’ تو پھر سڑکوں کے کنارے مٹی کے برتن فروخت کرنے والے کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘ پھر وہ خود کلامی کی طرف لوٹ گیا: ’’کیا خوشبو آتی ہے مٹی کے پیالے میں پانی پینے سے! اور مٹی کے برتنوں میں کھانا کھانے سے! افسوس! لاکھوں روپے کے ڈنر سیٹ میں کھا کر، شکر ادا کرتے ہیں نہ صحت پاتے ہیں۔ ایک پلیٹ بھی ٹوٹ جائے تو ملازم کی شامت آ جاتی ہے۔ زندگی میں افسوس کا زہر گھل جاتا ہے۔ مگر مٹی کے برتن!  ؎
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے!
اس نے پانی پیا! اورپی کر پھر شکر ادا کیا! ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا، پودے ہلنے لگے، دیوار کے اس طرف کھڑے درخت کے پتے اوپر نیچے ہونے لگے جیسے دھوپ ہو اور چھائوں بن رہے ہوں! اس نے آسمان کی طرف دیکھا، بدلیاں چھائی ہوئی تھیں۔ اس کے منہ سے بے اختیار ’’سبحان اللہ‘‘ نکلا! یوں محسوس ہوا جیسے وہ اس خنک ہوا کے ایک ایک جھکورے کی قدر و قیمت سے آگاہ تھا! اسے معلوم تھا کہ اس سے پورا پورا لطف اندوز کیسے ہونا ہے! جیسے یہ موسم پروردگار نے اسی کے لیے اتارا تھا۔ اسی لئے وہ مسلسل پروردگار کو رسید دے رہا تھا۔ یوں لگتا تھا شکر کا لفظ اس کی زبان سے نہیں، اس کے دل سے، اس کی جان سے، اس کی روح سے نکلتا ہے اور پھر براہ راست فضا میں پھیل جاتا ہے!
اچانک اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں: ’’اخبار میں لکھتے ہو؟‘‘ ، جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے بات جاری رکھی۔ سیاست پر لکھتے ہو اور اقتصادیات پر اور ادب پر اور سماجیات پر!! زہر پھیلاتے ہو! مایوسی کا پرچار کرتے ہو، حکمرانوں کی اور سیاست دانوں کی برائیاں کرتے ہو! کبھی شکر کی بھی تلقین کی ہے؟ کبھی پڑھنے والوں کو نعمتیں بھی گنوائی ہیں؟ آہ! تم لکھنے والے! تم اپنے وجود پر اترنے والی نعمتوں کا شکر نہیں ادا کرتے، اپنے اردگرد نازل ہونے والی برکات کی رسید نہیں دیتے ، تم قوم کو کیا بتائو گے کہ اس پر رب کریم کے کس قدر احسانات ہیں!
یہ ایک احسان ہی کتنا بڑا ہے کہ تمہاری ہر دکان اور ہر مکان میں پتھر کے اور مٹی کے اور لکڑی کے بُت نہیں پڑے ہوئے کہ ہرصبح ان کے آگے ماتھا ٹیکو! خوش قسمت ہیں وہ جو کسی قبر پر سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ کسی سانپ، کسی گائے، کسی بندر، کسی ہاتھی کو برتر نہیں جانتے۔ اپنے جیسے کسی انسان کے سامنے نہیں جھکتے، کسی کو مافوق الفطرت طاقتوں کا منبع نہیں مانتے، کسی سے پیٹھ پر مار نہیں کھاتے۔ کسی کو ہاتھ دکھا کر، فال نکلوا کر، مستقبل کا حال نہیں پوچھتے، اولاد کے لیے اور صحت کے لیے اور ترقی کے لیے اور دولت کے لیے اور بیرون ملک سفر کے لیے اور دشمن سے نجات کے لیے کسی کو بندر کا خون اور الو کا سر اور کالے بکرے کا کلیجہ اور سرخ مرغ کی کلغی نہیں پیش کرتے اور شکستہ خستہ قبروں میں کاغذ کے وہ ٹکڑے نہیں دفن کرتے جن کے بارے میں انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ آخران پر کیا لکھا ہے! روشن بخت والے ہیں اور چمکتے ستارے ہیں ان کی کھلی پیشانیوں پر جو کسی لمبے سبز چولے والے کو اور گلے میں منکوں کا ہار پہننے والے کو اور تھری پیس سوٹ پہن کر گھومنے والی کرسی پر اکڑ کر بیٹھنے والے اپنے جیسے انسان کو نفع نقصان کا مالک نہیں سمجھتے اور جو سچ ہو منہ پر کہتے ہیں!
اپنی حکومتوں اور اپنے سیاست دانوں اور اپنے عساکرکی برائیاں کرنے والو! شکر ادا کرو!! خدا کا شکر ادا کرو، جس نے تمہیں اپنا الگ ملک دیا ورنہ تمہارے بارے میں اب بھی تاثر وہی پھیلایا جاتا ہے کہ مُسلے حساب کتاب میں کمزور ہیں! یہ ملک نہ ہوتا تو تمہاری نسلیں اسی طرح نچلے درجے کی دکانداری کر رہی ہوتیں جو آج دکن اور یو پی کے مسلمان کر رہے ہیں؟ یو اے ای میں دیکھو! وہی ماحول ہے جو تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان میں تھا۔ پاکستانیوں کو ملازمت حاصل کرنے کے لیے عرب مالکوں کے علاوہ ہندو منیجروں کی سربفلک دیوار بھی سر کرنا ہوتی ہے جو کبھی سر ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی!
شکر ادا کرو کہ تمہارا ملک شام کی طرح نہیں یا عراق کی طرح نہیں یا یمن نہیں! جہاں حفاظت کرنے والی فوجیں ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہیں۔ عوام کا گلا کاٹتی ہیں اور ایک دوسرے کوفتح کرتی ہیں یا شکست دیتی ہیں! تمہارا ملک اس پڑوسی ملک کی طرح تنگ دل اور متعصب نہیں جہاں دوسرے مسلک والے کو مسجد تعمیرکرنے کی اجازت نہیں اور شرق اوسط کے ان ملکوں کی طرح نہیں جہاں سنگدلی اور وحشت اتنی زیادہ ہے کہ معصوم بچوں کو دوڑتے ہوئے اونٹوں سے گرتا دیکھ کر تالیاں بجائی جاتی ہیں اور تکبر سے مسلمان بھائیوں کو رفیق یا مسکین کہہ کر تذلیل کی جاتی ہے۔ مگر جب مشکل آن پڑے تو ان کی افواج کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے! 
لیکن شکر اپنی ذات سے آغاز ہوتا ہے۔ اپنے اردگرد سے شروع ہوتا ہے۔ شکر کا دائرہ، اس کے بعد پھیلتا ہے۔ بچے نارمل اور صحت مند ہیں تو شکر ادا کرو۔ آنکھیں، ہاتھ پائوں، دل، جگر درست کام کر رہے ہیں تو شکر ادا کرو۔ مصنوعی گھٹنے اچھی قسم کے تیرہ لاکھ میں لگتے ہیں۔ جگر، گردے، دل کی پیوند کاری لاکھوں کے خرچ کے علاوہ کبھی کامیاب ٹھہرتی ہے کبھی نہیں! وہ شخص جو سامنے ویل چیئر پر بیٹھا ہے، اس کی جگہ تم بھی ہوسکتے تھے۔ تمہاری سونگھنے کی حس سلامت ہے۔ پھولوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہو۔ ذائقہ چکھ سکتے ہو۔ ہاتھ پائوں کی انگلیاں جوڑوں والی جگہ سے موڑ سکتے ہو۔ ریڑھ کی ہڈی درست حال میں ہے۔ یادداشت صحیح کام کر رہی ہے۔ رات کو نیند آتی ہے۔ دن کو بھوک لگتی ہے۔ ابر آلود مطلع دیکھ سکتے ہو۔ گوشت کا ٹکرا جسے زبان کہتے ہو، تالو سے لگتا ہے تو واپس آ سکتا ہے۔ لفظ دماغ میں بنتا ہے تو منہ سے ادا بھی ہو جاتا ہے۔
شکرِ نعمت ہائی اُو۔۔۔ چندانکہ نعمت ہائی اُو
عُذرِ تقصیراتِ ما۔۔۔ چندانکہ تقصیراتِ ما
شکر ادا کرو! ہر دم شکر ادا کرو!

Wednesday, July 20, 2016

بازارِ دل میں اپنی دکاں ہم نے کھول لی

بظاہر یہ دو کمروں پر مشتمل ایک دفتر ہے جو دارالحکومت کے مرکز میں واقع ایک پرانے بے رنگ پلازے کی بیسمنٹ میں ہے، مگر اصل میں کروڑوں اربوں کا کاروبار ہے!
چھوٹے کمرے میں میرا معاون بیٹھتا ہے۔ سارا سامان دو میزوں‘ چند کرسیوں‘ ایک ٹیلی فون اور دو لیپ ٹاپ پر مشتمل ہے۔ نسبتاً بڑے کمرے میں مَیں خود بیٹھتا ہوں۔ میں چیف ایگزیکٹو بھی ہوں، بورڈ آف ڈائریکٹر بھی ہوں، ایڈوائزر بھی ہوں اور سچ پوچھیے تو چائے بنانے والا ملازم بھی ہوں۔
بازار تیز ہے۔ شاعر کہا کرتے ہیں کہ بازارِ عشق تیز ہے! نہیں، یہ اور بازار ہے۔ راولپنڈی میں ایک مولانا صدر الدین کاشمیری تھے۔ عالم دین اور بلا کے مقرّر۔ سیٹلائٹ ٹائون کی ایک مسجد میں خطبہ دیا کرتے تھے۔ عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ اردو بازار میں ایک دکان پر بیٹھتے تھے۔ اِس لکھنے والے کا سِن اُس وقت کچا تھا۔ والدِ گرامی کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا۔ معلوم نہیں ان کی اپنی دکان تھی یا صرف بیٹھتے تھے۔ بہر طور ایک گاہک آیا اور پوچھا: ’’کیا وہ کتاب آپ کے پاس ہے جس کا نام ’اُس بازار میں‘ ہے‘‘۔ مولانا ہنسے اور جواب دیا، وہ جوکتاب ہے ’اُس بازار میں‘ وہ آپ کو اِس بازار میں نہیں ملے گی!
بازار تیز ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا    ؎
بازارِ دل میں اپنی دکاں ہم نے کھول لی
لاہور! تجھ کو حاجتِ اہلِ ہنر کہاں!
ترکی میں فوج کے ایک گروہ نے قبضہ کرنا چاہا۔ ناکام ہوا۔ ہر طرف شور برپا ہے کہ کیوں ناکام ہوا؟ فہم و فراست والا بزنس مین وہی ہوتا ہے جو بازار میں طلب کے رجحان کو فوراً جانچ لے۔ ابھی قندیل بلوچ زہد و تقویٰ کی بھینٹ چڑھی ہے۔ سمجھ دار مصنف دیکھتے دیکھتے بازار میں کتابیں لے آئیں گے:
’’قندیل بلوچ کو کس نے قتل کیا‘‘
’’قندیل بلوچ۔۔۔ اصل کہانی‘‘
’’قندیل بلوچ کون تھی‘ پردہ اٹھتا ہے‘‘  وغیرہ وغیرہ۔
بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنے والے لوگ فوراً خریدیں گے اور پڑھ جانے کے بعد اپنے آپ سے زیر لب کہیں گے کہ یہ سب تو اخبارات میں آ چکا ہے!
مگر ہم نے اس قبیل کی کوئی کاروباری ڈنڈی نہیں مارنی۔ ہم نے پوچھنے والوں کو صرف یہ بتانا ہے کہ فوجی بغاوت (یا انقلاب؟) کو کامیاب بنانے کے لیے کیا ضروری ہے۔ انگریزوں نے اس موقع کے لیے ایک جامع محاورہ ایجاد کیا ہے:
Dos and Donts
 یعنی کیا کچھ کرنا ہوگا اور کیا کچھ نہیں کرنا ہو گا!
پلازے کے باہر سے گزرنے والا سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس بے رنگ پرانی عام سی عمارت کے تہہ خانے میں کیا ہ رہا ہے۔ بظاہر دو میزیں اور دو لیپ ٹاپ! مگر جیسے ہی میرے معاون نے نیویارک ٹائمز میں اشتہار چھپوایا کہ ’’فوجی بغاوت کو کامیاب کرنے کے لیے ہم سے رابطہ کیجیے‘‘ ، ای میلوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہوا یوں کہ امریکی حکومت‘ امریکی تھنک ٹینک، امریکی پریس ہماری پشت پر کھڑے ہو گئے۔ شاطر لوگ ہیں، آن کی آن میں ہمارا اشتہار یورپ‘ امریکہ اورکینیڈا وغیرہ کو چھوڑکر پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ خاص ہدف ان کا جنوبی امریکہ‘ افریقہ‘ مشرق وسطیٰ اور دوسرے اسی طرح کے ممالک تھے۔ ہمیں (یعنی مجھے اور میرے معاون کو) اس کھکھیڑ میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ امریکیوں کی ہمارے کاروبار کو کامیاب بنانے میں کیا دلچسپی ہے۔ ہمیں آم کھانے ہیں، گھٹلیاں نہیں گننی! اگر امریکی حکومت اور امریکی تھنک ٹینک چاہتے ہیں کہ فوجی بغاوتیں افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ ہی میں کامیاب ہوں‘ تو چاہتے رہیں! ہم تو بازار میں بیٹھے ہیں۔ گاہک جو بھی ہوا‘ جہاں سے بھی آیا‘ طلب پوری کریں گے۔ اس وقت تک کئی ممالک کی افواج ہمارا سودا خرید چکی ہیں۔ نام ان کے صیغہ راز میں رہیں گے کہ کاروبار میں اعتماد اور راز داری ازحد ضروری ہے۔
یوں تو ہم ہر گاہک کو اس کے مخصوص حالات اور جغرافیائی اور تاریخی سیاق و سباق میں مشورہ دیتے ہیں مگر یہاں چند ایسے عمومی رہنما اصول بیان کیے دیتے ہیں جو فوجی انقلاب کو کامرانی سے بہرہ ور کرنے کے لیے لازم ہیں!
اوّل: ملک میں جمہوریت ہو مگر یہ جمہوریت واوین میں ہو یعنی۔۔۔’’جمہوریت‘‘ ! اس کا اصل جمہوریت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ سیاسی پارٹیاں ہوں مگر ان کے اندر انتخابات نہ ہوتے ہوں۔ ان پر خاندانی گرفت مضبوط ہو۔ عمر رسیدہ چٹ سرے سیاست دانوں کی موجودگی میں بھی جانشینی کے فرائض صاحبزادی سرانجام دے یا بہن‘ فرزند یا برادر زادہ! (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ برادر زادہ کو عام اردو میں بھتیجا اور پنجابی میں بھتریّا کہتے ہیں) سفید سروں والے عمر رسیدہ پارٹی ارکان‘ فرزند یا برادر زادہ یا دختر نیک اختر یا بہن کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوں اور اس کے ایک اشارۂ ابرو پر دبئی بھی جانا پڑے تو ایئر پورٹ کی طرف بھاگ پڑیں!
دوم: ’’جمہوری‘‘ حکمران ازحد امیر کبیر ہوں بلکہ کھرب پتیوں کی فہرست میں ان کے اسمائے گرامی موجود ہوں۔ جائیدادیں ان کی نیو یارک سے فرانس تک‘ جدہ سے لندن تک‘ دبئی سے ہسپانیہ تک پھیلی ہوئی ہوں۔ آف شور کمپنیوں میں نام ہوں۔ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اکائونٹس ہوں۔ یاد رہے کہ فوجی انقلاب اتنا ارزاں نہیں کہ غریب جمہوری لیڈر اسے خرید سکیں! اس کے لیے دولت چاہیے! اس دنیا میں کامیاب وہی ہے جس کی تجوری بھری ہوئی ہے اور بھاری ہے۔ آپ اگر اتنے غریب ہوںکہ سبکدوش ہونے والے برطانوی وزیر اعظم کی طرح گھر کا سامان خود اٹھا کر ٹرک میں رکھ رہے ہوں‘ خاتون اول کے لیے پرانی گاڑی خرید رہے ہوں، سنگا پور کے لی کی طرح ایک مکان کے علاوہ ترکہ کچھ نہ چھوڑ رہے ہوں یا امریکی صدرکی طرح سرکاری تحائف کا حساب دے رہے ہوں تو معاف کیجیے‘ اتنی غربت میں فوجی انقلاب کا تصوّر بھی نہ کیجیے اور ہمارا قیمتی وقت ضائع نہ فرمائیے۔
سوم: ضروری ہے کہ عوام کی زندگی میں حقیقی تبدیلی دور دور تک نظر نہ آئے۔ حقیقی تبدیلی سے مراد ہے خواندگی‘ تعلیم‘ پٹواری اور تھانہ کلچر سے چھٹکارا‘ دفاتر میں سرخ فیتے‘ رشوت، سفارش اور تاخیر کا خاتمہ۔ اگر ہر کام کے لیے کچہری اور ہسپتال سے لے کر ترقیاتی اداروں تک عوام کو ذلیل ہونا پڑے گا تو فوجی انقلاب کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ رہا یہ سوال کہ کیا فوجی حکمران ان مسائل کو حل کر دیں گے تو یہ آپ کا درد سر نہیں! آپ نے جو معاوضہ ہماری خدمات کا ہمیں دینا ہے وہ صرف فوجی انقلاب کی ابتدائی کامیابی کا ہے!
چہارم: ترکی کی حالیہ ناکام بغاوت میں پولیس کا کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ ہمارے بہت سے کلائنٹ پولیس کا خاص طور پر پوچھ رہے ہیں۔ سو عرض ہے کہ پولیس اگر پیشہ ورانہ امور ہی کے لیے استعمال ہو گی اور سیاسی مداخلت سے پاک ہو گی تو وہ فوجی انقلاب کے راستے میں رکاوٹ بن جائے گی!اگر آپ نے فوجی انقلاب کو کامیاب بنانا ہے تو پولیس کو عضو معطل بنا کر رکھ دیں۔ افسروں، تھانیداروں‘ انسپکٹروں یہاں تک کہ کانسٹیبلوں کی تعیناتیاں بھی سفارش کی بنیاد پر کریں۔ ہزاروں جوانوں کو اپنے محلّات کے پہرے کے لیے استعمال کریں۔ محلّات کی تعداد زیادہ کرنے کے لیے شادیاں متعدد کریں۔ اور یوں سارے محلّات کو سارکاری رہائش گاہوں کا درجہ دے دیں۔ اگر پولیس والے اغوا برائے تاوان اور کاروں کی چوری میں مشکوک کردار ادا کرتے ہیں تو کرنے دیجیے۔ یہ پولیس فوجی انقلاب یا کسی بھی انقلاب کو روکنے کے قابل نہ رہے گی۔
پنجم: اور یہ آخری نکتہ ہے۔ فوجی انقلاب کے بعد آپ ملک میں رہنے کا سوچیں بھی نہیں! پہلی فرصت میں سودا بازی کر کے دبئی‘ جدہ‘ یورپ یا امریکہ کا رُخ کریں۔ زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ جب پیچھے رہ جانے والوں کی جد وجہد کے نتیجے میں جمہوریت واپس آئے تو آپ بھی واپس آ جائیں اور آتے ہی عوامی خدمت کا نعرہ لگائیں۔ جن سیاست دانوں نے فوجی آمر کا ساتھ دیا تھا‘ انہیں پارٹی میں نہ صرف خوش آمدید کہیں بلکہ اعلیٰ مناصب سے بھی نوازیں۔
آخر میں گاہک ملکوں کو یاد دلاتے چلیں کہ مشورے کی فیس ڈالروں میں ادا کرنا ہو گی جو یورپ کے بینکوں میں ہمارے اکائونٹ میں براہ راست جمع کرائی جائے گی۔

Monday, July 18, 2016

ہمارا اقبال اور اصل اقبال -2


21مارچ 1932ء کو بیرون دہلی دروازہ لاہور آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں شروع ہوا۔ 22 مارچ کے اختتامی اجلاس میں اقبال نے ایک مختصر تقریر کی جس میں یہ بھی کہا: ’’روحانی اعتبار سے ہم مسلمان خیالات و جذبات کے ایک ایسے زندان میں محبوس ہیں جو گزشتہ صدیوں میں ہم نے اپنے گرد خود تعمیر کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ ساری مسلم قوم کی موجودہ ذہنیت یکسر بدل دی جائے تاکہ وہ پھر نئی آرزوئوں، نئی تمنائوں اور نئے نصب العین کی اُمنگ محسوس کرنے لگے۔ کسی فرمان سے توقعات وابستہ مت کرو‘ مسولینی کا قول ہے کہ جس کے پاس لوہا ہے اس کے پاس روٹی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جو خود لوہا ہے اس کے پاس سب کچھ ہے‘‘۔
3 جولائی 1933ء کو راغب احسن کا خط موصول ہوا۔ اقبال نے اسی روز اپنے جوابی مکتوب میں تحریر فرمایا: ’’میرا ایک مدت سے عقیدہ ہے کہ علما اور صوفیا قرآن کے اصل مقاصد سے بے خبر ہو چکے ہیں۔ نئی نسل میں سے چند لوگوں نے فرنگی تعلیم کے باوجود اس حقیقت کو محض اپنی سلیم الفطرتی کی وجہ سے پا لیا ہے‘‘۔
ستمبر 1935ء میں اقبال نے پروفیسر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو جوابی خط میں تحریر فرمایا کہ میرا عقیدہ یہ ہے جو شخص اس وقت قرآنی نکتہ نگاہ سے زمانہ حال کے جیورس پروڈنس پر تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا دین اسلام کا مجدّد کہلائے گا۔ بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہو گا۔ مگر افسوس ہے زمانہ حال کے اسلامی فقیہ زمانے کے میلانِ طبیعت سے بالکل بے خبری میں مبتلا ہیں۔11 اکتوبر 1936ء کو اقبال بارود خانہ لاہور میں محمد دین تاثیر اور کرسٹابل جارج کی شادی میں شریک ہوئے۔ علی بخش اور جاوید بھی ساتھ تھے۔ فریقین کا نکاح نامہ اقبال نے تحریر فرمایا۔ خود نکاح پڑھایا اور گواہ بھی بنے۔نومبر  1936ء میں ماہنامہ الحکیم کا نمائندہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ضبط تولید کے مسئلہ پر آپ کے خیالات معلوم کرنا چاہتا تھا۔ آپ نے فرمایا،فریقین رضامند ہوں تو جہاں تک میرا علم میری رہنمائی کرتا ہے ضبط تولید قابل اعتراض نہیں ہے۔ اصولِ شرعی یہ ہے کہ بیوی اولاد کی خواہش مند نہیں تو خاوند اسے اولاد پیدا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
حافظ محمد فضل الرحمن انصاری اسلامی تحقیق کے سلسلے میں یورپ جانا چاہتے تھے۔ رہنمائی کے لیے انہوں نے اقبال کو خط لکھا۔ اقبال نے 16جولائی 1937ء کو جوابی خط میں تحریر فرمایا کہ یورپ جانا بے سود ہے۔ آپ مصر جائیے اور عربی زبان میں مہارت پیدا کیجئے۔ اسلامی علوم‘ اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ‘ تصّوف‘ فقہ اور تفسیر کا بغور مطالعہ کر کے محمد عربی ﷺ کی اصل رُوح تک پہنچنے کی کوشش کیجیے۔
1938ء۔۔۔ ایک روز ڈاکٹر چکرورتی اقبال کے ہاں آئے اور کہا کہ پنڈت نہرو سے جب کبھی آپ کا ذکر آیا انہوں نے بڑی عقیدت کا اظہارکیا ہے۔ وہ آج لاہور آ رہے ہیں میرا جی چاہتا ہے کہ ان کی آپ سے ملاقات ہو جائے۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس میں اعتراض کی کیا بات ہے، آپ کو جب موقع ملے انہیں ملانے کے لیے لے آئیے۔ اس وقت رسمی دو مسئلے درپیش ہیں، ایک ہندوستان کی آزادی‘ دوسرے آزادی کی اس جدوجہد میں مسلمانوں کا حصّہ۔ پنڈت جی ان دونوں مسائل پر غور کر کے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب اس روز شام کو پھر آئے اور کہنے لگے، پنڈت جی کو آج فرصت ہے ہم لوگ آٹھ بجے حاضر ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ بسر و چشم تشریف لائیے۔ کہنے لگے،آپ کو تکلیف تو نہیں ہوگی اس وقت شاید آپ سو جاتے ہیں۔ آپ نے ہنس کر فرمایا کہ آج ہم ذرا دیر سے سو جائیں گے۔
پنڈت صاحب کا استقبال کرنے کے لیے آپ نے جاوید اقبال اور میاں محمد شفیع کو برآمدے میں کھڑا رہنے کی ہدایت فرمائی۔ پنڈت نہرو آٹھ بجے کے قریب پہنچے، ان کے ساتھ ڈاکٹر چکرورتی بھی تھے۔ دو ایک خواتین اور میاں اور بیگم افتخار الدین بھی ساتھ آئے۔ پنڈت نہرو جاوید اقبال سے بڑی محبت کے ساتھ پیش آئے اور کمر میں ہاتھ ڈالے اسے اپنے ساتھ اقبال کے کمرے تک لے گئے۔ کمرے میں کرسیاں رکھ دی گئی تھیں لیکن پنڈت نہرو اور ان کے ساتھی کرسیوں پر نہ بیٹھے بلکہ تعظیماً فرش پر بچھے قالین پر براجمان ہوئے۔ دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ روس، انگلستان، جرمنی اور اٹلی کی سیاست زیر بحث آئی۔ دوران گفتگو پنڈت جی نے کہا کہ اگر مسلمان بلاشرط کانگرس کا ساتھ دیں تو کیا اچھا ہو‘ یوں آزادی کی منزل جلد طے ہو جائے گی۔ انگریز بھی دیر تک ہمارا راستہ نہیں روک سکیں گے۔ اقبال اور پنڈت جی کے درمیان اس موضوع پر مکالمے ہوئے۔ پنڈت جی نے کہا اگر ہم نے اپنی سرگرمیاں تیز تر کر دیں تو انگریز خود ہی ملک سے نکل جائیں گے۔ انگریز گئے تو ہم دستور ساز اسمبلی طلب کریں گے، پھر وہ اشتراکی آئین نافذ کرے گی۔ آپ نے پنڈت جی سے دریافت فرمایا کہ سوشلزم کے سلسلے میں کانگرس کے کتنے آدمی آپ کے ہم خیال ہیں۔ نہرو نے جواب دیا نصف درجن کے قریب۔ علامہ نے فرمایا تعجب کی بات ہے آپ کی جماعت میں آپ کے ہم خیال رہنما صرف چھ ہیں، ادھر آپ مجھ سے کہتے ہیںکہ میں مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونے کا مشورہ دوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں دس کروڑ مسلمانوں کو چھ آدمیوں کی خاطر آگ میں جھونک دوں! یہ سن کر پنڈت صاحب خاموش ہو گئے۔ اقبال پھر ہندو مسلم تعلقات کا ذکر فرمانے لگے۔ انہوں نے دونوں اقوام کے مابین خوشگوار تعلقات قائم کرنے پر زور دیا۔ ابھی سلسلہ گفتگو جاری تھا کہ میاں افتخارالدین کہنے لگے ڈاکٹر صاحب! آپ مسلمانوں کے لیڈرکیوں نہیں بن جاتے‘ مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگریس سے گفت و شنید کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔ ڈاکٹر صاحب اب تک لیٹے ہوئے تھے، یہ سنتے ہی غصے میں آ گئے۔ اُٹھ کر بیٹھے اور انگریزی میں فرمایا، اچھا تو یہ خیال ہے۔ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں، میں تو ان کا ایک معمولی سپاہی ہوں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے اور کمرے میں سکوت طاری ہو گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب سر سکندر حیات نے یوم اقبال منانے کے سلسلے میں یہ بیان دیا تھا کہ شاعراعظم کی خدمت میں روپوں کی تھیلی نذر کی جائے…اس بیان کا جواب دیتے ہوئے آپ نے 10دسمبر 1937ء کو ایک بیان میں فرمایا کہ موجودہ حالات میں قوم کی اجتماعی ضروریات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے مقابلے میں ایک شخص کی انفرادی ضرورت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ آج وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ اسلامی علوم کی جدید تحقیق کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں ایک شعبہ قائم کیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسلامی فکر اور طرز حیات کا بغور مطالعہ کر کے عوام کو بتایا جائے کہ اسلام کا اصل مقصد کیا تھا اور ہندوستان میں اسے کس طرح تہہ بہ تہہ پردوں میں چھپا کر اسلام کی روح کو مسخ کر دیا گیا۔ مجھے امید ہے کہ میری تجویز وزیراعلیٰ پسند کریں گے۔ تاہم میں ایک سو روپے کی حقیر رقم اس مقصد کے لیے مجوزہ فنڈ کی نذر کرتا ہوں۔
آخری لمحات… رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چوہدری محمد حسین‘ سید نذیر نیازی‘ سلامت شاہ‘ حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آ گئے۔ اس زمانے میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم جاوید منزل ہی میں مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں مسلسل خون آ رہا تھا۔ اسی بنا پر چوہدری محمد حسین نے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کر لیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر کرنل امیرچند‘ ڈاکٹر الٰہی بخش‘ ڈاکٹر محمد یوسف‘ ڈاکٹر یار محمد اور ڈاکٹر جمعیت سنگھ موجود تھے۔ ان سب نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی پریشان دکھائی دیتا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر آج کی رات خیریت سے گزر گئی تو اگلے روز سے نیا طریق علاج شروع کر دیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہ آپ کے احباب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے سرگوشیاںکر رہے تھے۔
اقبال سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی تھی لیکن آپ بڑے تیز فہم تھے۔ جان گئے تھے کہ موت کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ اس رات آپ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آئے۔ نو بجے کے قریب جاوید اقبال والد کے کمرے میں داخل ہوئے تو اقبال پہچان نہ سکے۔ دریافت کیا کون ہے، جواب دیا، جاوید۔ آپ ہنس پڑے اور فرمایا جاوید بن کر دکھائو تو جانیں۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’چوہدری صاحب! جاوید نامہ کے آخر میں جو دعا خطاب بہ جاوید ہے اسے ضرور پڑھوا دیجئے گا‘‘۔ اتنے میں علی بخش اندر داخل ہوا، آپ نے اسے پاس بیٹھنے کا کہا۔ یہ سنتے ہی علی بخش بلند آواز میں رونے لگا۔ چوہدری صاحب نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی۔ اس پر اقبال نے کہا: ’’آخر چالیس برس کی رفاقت ہے اسے رو لینے دو‘‘۔ رات گیارہ بجے اقبال کو نیند آ گئی۔ اس کے بعد چوہدری صاحب‘ محمد حسن قرشی‘ نذیر نیازی اور سلامت شاہ خاموشی سے اُٹھ کر چلے گئے۔ محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے بھی اس رات جاوید منزل ہی میں قیام کیا۔
اقبال گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے کہ مثانے میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقیوم اور محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی مگر انکار کر دیا اور فرمایا: ’’دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا‘‘۔ اس کے بعد علی بخش اور محمد شفیع آپ کے شانے اور کمر دبانے لگے۔ لیکن تین بجے رات تک آپ کی حالت غیر ہو گئی۔ محمد شفیع فوراً حکیم قرشی کو بلانے ان کے گھر چلے گئے، لیکن ان تک رسائی نہ ہو سکی۔ اقبال درد سے نڈھال ہو چکے تھے۔ محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا، افسوس! قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ صبح تقریباً پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اندر آئے، اقبال کی حالت بدستور تشویش ناک تھی۔ وہ پھر حکیم صاحب کو لانے روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد آپ کے کہنے پر پلنگ گول کمرے سے خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ پھر فروٹ سالٹ کا گلاس پلایا گیا۔ اس وقت صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ نماز فجر کی اذانیں بلند ہونے لگیں‘ سب کو یقین ہوا کہ مصیبت کی گھڑی کٹ گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع صبح کی نماز پڑھنے قریب کی مسجد چلے گئے اور صرف علی بخش آپ کے پاس رہ گیا۔ اسی اثنا میں اچانک اقبال نے اپنے ہاتھ دل پر رکھے اور آپ کے منُہ سے ’ہائے‘ کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر آپ کے شانے تھام لیے۔ تب اقبال نے کہا: ’’دل میں شدید درد ہے‘‘۔ قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کرتا اقبال نے ’’اللہ‘‘ کہا اور سر ایک طرف ڈھلک گیا۔

Saturday, July 16, 2016

ہمارا اقبال اور اصل اقبال

’’آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے کشمیری النسل تھے۔ والد ٹوپیاں بناتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہو کر آپ یورپ گئے جہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ واپس آ کر وکالت کرنے لگے۔ مہینے میں اتنے ہی مقدمے لیتے تھے جن سے بس گزارہ ہو سکے۔ 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد میں تصوّرِ پاکستان پیش کیا۔ بانگِ درا اور بالِ جبریل آپ کی شاعری کے مجموعے ہیں۔ کچھ شاعری آپ نے فارسی میں بھی کی۔ آپ کا مزار شاہی مسجد لاہور کی بغل میں ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال آپ کے فرزند تھے‘‘۔
یہ ہے ہمارا عمومی تصوّر علامہ اقبال کے بارے میں! اگر آپ بی اے کے ایک اچھے خاصے ہونہار طالب علم سے اقبال پر مضمون لکھنے کا کہیں تو کم و بیش یہی کچھ لکھے گا! زیادہ سے زیادہ ساتھ قائد اعظم کا ذکر کر دے گا!
اقبال کا نام سن کر ہماری چشم تصوّر اکثر و بیشتر یہی دیکھتی ہے کہ آپ کوئی کام وام نہیں کرتے تھے۔ سردیوں میں کشمیری دھسہ لپیٹے اور گرمیوں میں بنیان اور تہمد پہنے‘ چارپائی پر نیم دراز‘ فکرِ سخن میں مصروف رہتے تھے۔
ایک وجہ اس بے خبری کی یہ بھی ہے کہ سرکاری سطح پر علامہ اقبال کی کوئی مستند‘ تفصیلی سوانح حیات نہیں لکھوائی گئی۔ پاکستان کے برعکس‘ بھارت میں گاندھی اور نہرو پر بہت کام ہوا اور مسلسل ہوا۔ ہمارے ناقص علم کی رُو سے ان رہنمائوں کی وہاں کئی جلدوں میں سوانح عمریاں لکھی اور لکھوائی گئیں۔ یہاں اقبال کے نام پر ادارے تو بہت بنے مگر وہ زیادہ تر مقبرے ثابت ہوئے اور مجاوروں کے مالی حالات بہتر کرنے میں مُمِد رہے۔ اقبال کے نام پر بننے والے اداروں کو سیڑھی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اپنی تشہیر کی گئی۔ کچھ کٹ تھروٹ
 (CUT THROAT) 
قسم کے حضرات نے تو اپنے نام نہاد تصوّف کے میزائل بھی انہی چبوتروں سے لانچ کئے۔ کچھ حضرات نے کام تو اقبال پر کیا مگر جن مذہبی گروہوں سے وابستہ تھے ان گروہوں کا رنگ کام پر حاوی رہا۔ عینکوں میں لگے ہوئے رنگین شیشے نہ اترے۔ کسی کو اقبال سارے کا سارا سبز دکھائی دیا کسی کو تمام سرخ!
بالآخر ایک تصنیف ایسی سامنے آئی ہے جس میں اقبال کی زندگی کو ترتیب کے ساتھ‘ سال بہ سال‘ بغیر کسی گروہی یا نظریاتی وابستگی کے‘ پیش کیا گیا ہے۔ عزیز گرامی یاسر پیرزادہ نے دو جلدوں پر مشتمل یہ گراں قدر تحفہ مرحمت کیا ہے اور یہ فیاضی کمشنر ریونیو ہونے کے باوجود دکھائی ہے!
ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین نے اقبال پر موجود تمام حوالوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عہد بہ عہد‘ علامہ کے حالات قلم بند کر دیئے ہیں۔ امتحان میں ان کے مضامین سے لے کر خطوط تک‘ سیاسی سرگرمیوں سے لے کر یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں سے وابستگی تک‘ سفر سے لے کر قیام تک، سب کچھ تاریخ وار محفوظ کر دیا ہے(یہاں یہ وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ مصنف سے ہماری ملاقات ہے نہ تعارف۔)
اس قابل قدر تذکرۂ اقبال سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے انتہائی مصروف زندگی گزاری، مسلسل مصروفیات! کبھی یونیورسٹی میں‘ کبھی حمایت اسلام کی انجمن کے ساتھ‘ کبھی سیاسی سرگرمیاں‘ کبھی نصابی کتب کی تدوین‘ کبھی اپنی تصانیف کی اشاعت‘ کبھی بیرون ملک سکالرز سے رابطہ! شاید ہی کوئی ایسا خط ہو جس کا آپ نے جواب نہ دیا ہو۔ یہاں تک کہ جو سادہ دل افراد ان کے مقام اور مصروفیات کونظر انداز کرتے ہوئے اپنا کلام اصلاح کے لیے بھیج دیتے تھے، انہیں بھی معذرت کرتے ہوئے خط کا جواب ضرور دیتے تھے۔ یونیورسٹی فیکلٹی کے لیے مسلسل خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ڈین کے فرائض سرانجام دیے۔ انجمن حمایت اسلام یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج کی شاید ہی کوئی ایسی کمیٹی یا ذیلی کمیٹی تھی جس کے آپ سربراہ یا رکن نہ تھے۔ ہر اجلاس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔ بورڈ آف سٹڈیز کی صدارت کرتے تھے۔ کلکتہ سے لے کر لکھنؤ اور الٰہ آباد تک یونیورسٹیوں کی کانفرنسوں میں پنجاب یونیورسٹی کی نمائندگی کرتے تھے۔ کئی یونیورسٹیوں میں جا کر زبانی امتحانات لیے۔ علمی تقاریب میں لیکچر دیتے تھے۔ انٹرنس کے طلبہ کے لیے نصابی کتاب’’آئینہ عجم‘‘ مرتب کی۔ اس کے علاوہ کئی نصابی کتب تالیف کیں۔ دہلی‘ حیدر آباد‘ بھوپال‘ لدھیانہ‘ جالندھر‘ علی گڑھ، شملہ کے سفر مسلسل درپیش رہے۔ جاوید نامہ میں افلاک کی سیر کرنے والے اس شخص کو زمین کے معاملات سے کس قدر با خبری تھی؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھوپال میں قیام کے دوران‘ بھوپال کے حکمران کو تجویز پیش کی کہ ریاست کے غیر آباد علاقوں میں مسلمانوں کو آباد کر کے آبادکاری کی سہولیات پہنچائی جائیں تاکہ غیر آباد زمینوں کی کاشت سے پیداوار بڑھے اور عوام خوشحال ہوں۔ بیگمات بیمار رہیں تو ان کے علاج میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ والد جب تک حیات رہے سیالکوٹ مسلسل آتے جاتے رہے۔ بھتیجے کی تعلیم اور ملازمت میں ہر دم رہنمائی کرتے رہے۔ زمین خریدی پھر مکان بنوایا۔ بیگم کی وفات کے بعد بچوں کی تربیت اور پرورش کے لیے اچھی گورنس تلاش کی۔ الغرض اقبال نے سیاست اور تعلیم کے میدان میں اتنا ہی حصہ ڈالا جتنا ادب اور شاعری میں! خاندانی فرائض سے بھی غفلت نہ برتی۔ آخری کئی برس بیماریوں میں کٹ گئے۔ پائوں میں نقرس(گائوٹ ) ہو گیا۔ چلنے پھرنے سے رہ گئے۔ دانتوں کی تکلیف بہت رہی۔ بینائی کم ہو گئی اس کے باوجود ہر ممکن حد تک‘ سرگرمیاں جاری رکھیں!
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو سیاست اور مذہب پر بحث کرنا ازحد پسند کرتی ہے اس لیے کہ ذہنی عیاشی، دماغی تفریح اور جبڑوں کی ورزش کے لیے یہ شغل بہت مناسب ہے۔ ہم میں سے ہر شخص مذہب پر‘ تصوّف پر‘ مختلف مسالک اور مکاتب فکر پر اتھارٹی ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے لوگوں کو نماز میں ناف کے نیچے یا اوپر ہاتھ باندھنے پر گھنٹوں کیا پہروں بحث کرتے دیکھا ہے۔ بحث‘ مجادلہ کی صورت اختیار کر جاتی ہے پھر ذاتی تعلقات میں رخنہ پیدا ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی دشنام طرازی سے ہمارا مزاج ماپا جا سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ مسائل کو ہم نے کفر و اسلام کی کسوٹی سمجھ لیا اور کچھ پہلو جو اہم تھے‘ انہیں معمولی گرداننے لگے۔ ہم اس حوالے سے حیات اقبال سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ چند اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جو ہمارے مروجہ خیالات میں‘ ممکن ہے‘ ارتعاش کا سبب بنیں مگر لازم نہیں کہ وہی کچھ سنا جائے جو کانوں کو بھلا لگتا ہے۔ دنیا ہمارے ذہن سے وسیع تر ہے! خواہ یہ دنیا سیاروں کے حوالے سے ہو‘ یا خیالات، عقائد اورمفروضوں کی دنیا ہو!
’’30دسمبر1915ء کے خط میں حسن نظامی کو تحریر فرمایا کہ میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے۔ یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی قوی ہو گیا کیونکہ فلسفہ یورپ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنی غلطی محسوس ہو گئی اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کر دیا‘‘۔
’’ضیاء الدین برنی کو 31 اگست 1916ء کو لکھتے ہیں مہدی و مسیح کے متعلق جو احادیث ہیں ان پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں بحث کی ہے۔ ان کی رائے میں یہ تمام احادیث کمزور ہیں۔ میں بھی ان کا ہم نوا ہوں۔
’’10نومبر1919ء کو سید سلیمان ندوی سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ جب موکلین وکلا کے پاس مقدمات کی پیشی کے لیے آئیں تو ان میں سے بعض پھل پھول یا مٹھائی کی صورت میں ہدیہ لاتے ہیں۔ یہ ہدیہ‘ مقررہ فیس کے علاوہ ہوتا ہے اور لوگ اپنی خوشی سے لاتے ہیں، کیا یہ مال مسلمانوں کے لیے حلال ہے؟‘‘
21اپریل1920ء کو کشمیر سے ایک پیرزادہ آپ سے ملنے آیا۔ اس کی عمر تیس پینتیس سال تھی۔ وہ شریف ہوشیار پڑھا لکھا اورسمجھدار لگتا تھا۔ آپ کو دیکھ کر بے اختیار زار و قطار رونے لگا۔ آپ نے سمجھا کہ وہ مصیبت زدہ اور مدد کا طالب ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں، اس پر خدا کا بڑا فضل ہے۔ مفصل کیفیت پوچھنے پر اس نے بتایا کہ نوگام میں میرا گھر ہے۔ میں نے عالم کشف میں نبی کریمؐ کا دربار دیکھا جب نماز کے لیے صف کھڑی ہوئی تو سرورکائناتؐ نے پوچھا کہ محمد اقبال آیا ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ محفل میں نہیں تھا۔ اس پر ایک بزرگ کو اقبال کے بلانے کے لیے بھیجا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ ایک جوان آدمی جس کی داڑھی منڈی ہوئی تھی اور رنگ گورا تھا ان بزرگ کے ساتھ صف نماز میں داخل ہو کر حضور سرورکائناتؐ کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ جب میں نے کشمیر میں بزرگ نجم الدین سے یہ قصّہ بیان کیا تو انہوں نے آپ کی نشان دہی فرمائی سو محض ملاقات کی خاطر کشمیر سے یہاں آیا ہوں۔ آپ کو دیکھ کر مجھے رونا آ گیا کیونکہ میرے کشف کی تصدیق ہو گئی۔ اقبال نے یہ سارا واقعہ اپنے والد بزرگوار کو 23 اپریل کے خط میں لکھ بھیجا اور ان سے رہبری کی درخواست کی!‘‘
مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی کو ان کے مکتوب کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ آپ نے ٹھیک فرمایا ہے کہ سر سید احمد خان کی تحریک سے پیشہ ور مولویوں کا اثر بہت کم ہو گیا تھا مگر خلافت کمیٹی نے اپنے پولیٹیکل مفتیوں کی خاطر ہندی مسلمانوں میں پھر ان کا اقتدار قائم کر دیا، یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کا احساس ابھی تک غالباً کسی کو نہیں ہوا۔ مجھے حال ہی میں اس کا تجربہ ہوا ہے۔ میں نے ’’اجتہاد‘‘ پر ایک انگریزی مضمون ایک جلسے میں پڑھا، اس پر بعض لوگ مجھے کافر کہنے لگے‘‘۔
(جاری )

Friday, July 15, 2016

اپنی توہین نہ کر، میرا تماشا نہ بنا

مدتوں پہلے، کئی عشرے قبل، ایک دفتر جانا ہوا۔ میز پر ایک کیلنڈر پڑا تھا۔ پشت پر لکھا تھا: مَنْ کَتَمَ سِرَّہ بَلَغَ مُراَدہ، یعنی جس نے اپنا راز افشا نہ کیا، اپنے مقصد کو پہنچ گیا۔ جانے کیا سحر تھا، پانچ الفاظ کا جملہ، بلاغت میں کتابوں پر بھاری، دل میں بیٹھ گیا اور ذہن پر نقش ہو گیا۔ الفاظ حدیث کے تھے۔ 
کیا تلقین ہے! زندگی کو ہنگاموں سے اور آشوب سے اور سازشوں سے اور حسد سے بچانے والی! ایک دوست تھے‘ شہنواز خٹک۔ بڑے منصب پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ آج کل غالباً پشاور میں مقیم ہیں۔ ایک بار عندیہ دیا کہ فلاں جگہ تعیناتی چاہتے ہیں۔ انہیں یہ حدیث سنائی اور مشورہ دیا کہ کوشش کیجیے، مگر جب تک احکام جاری نہ ہو جائیں، پھر جب تک وہاں جا کر چارج نہ لے لیں، کسی سے ذکر نہ کریں۔ کچھ عرصہ بعد ملے تو مسکراتے ہوئے بتایا کہ کامیابی ہوئی۔
درِ رسالت سے ایک اور ہدایت جاری ہوئی: ’’اپنی حاجتیں پوری کرنے کے لیے کتمان سے مدد لو، (یعنی راز کو راز ہی رکھو) اس لیے کہ ہر وہ شخص جسے نعمت سے سرفراز کیا جاتا  ہے، اس پر حسد بھی کیا جاتا ہے‘‘۔ ایک بار فرمایا: جس نے اپنی بات افشا نہ کی، اس کے ہاتھ میں خیر ہے۔ پھر فرمایا: عقل مندوں کے دل قلعے ہیں جن میں راز محفوظ ہوتے ہیں۔ اس طرح بھی روایت آئی ہے کہ احرار کے قلوب، اسرار کی قبور ہیں‘ یعنی اہلِ ہمت کے دل میں راز دفن ہو جاتے ہیں اور باہر نہیں آتے۔
زندگی کو کامیاب بنانے کے یہ گُر، یہ نصائح، یہ تراکیب، یہ قیمتی نسخے، مزاروں پر ملتے ہیں نہ پاکپتن کی کسی خاتون کے پاس نہ پبلسٹی کے بھوکے نام نہاد روحانیت فروشوں کے پاس۔ یہ موتی، یہ لعل، یہ جواہر، یہ عقیق، یہ مروارید، یہ یاقوت، یہ مرجان، یہ الماس یہ زرِ خالص تو فقط رسالت کی دہلیز پر ملتا ہے! رومی نے کہا تھا، بے وقوفو! معشوق تمہارا، تمہارے ہمسائے میں ہے۔ دیوار سے دیوار ملی ہے اور تم دشت و صحرا میں خوار ہو رہے ہو! اُس راستے سے، اُس گھر میں دس بار گئے مگر افسوس! ایک بار اِس گھر سے ہو کر، اِس بام پر نہ آ سکے۔ دوبارہ افسوس! کہ اپنے خزانے پر خود ہی پردہ بن کر بیٹھے ہو!
جی ہاں! اگر ارادہ کیا ہے تو یاوہ گوئی سے پرہیز کیجیے، بڑ نہ ہانکیے، کچے پن کا مظاہرہ نہ کیجیے۔ اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو حاصل کرنے سے پہلے ہی اسے تماشا نہ بنا ڈالیے۔ 
حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں جب انسان دیکھتا ہے کہ میانوالی جیسے حیادار خطے سے تعلق رکھنے والا عمران خان اپنے گھر کے معاملات کو، جو چاردیواری کے اندر کے معاملات ہیں، کس طرح سرِ بازار اچھالتا ہے یا اچھلنے دیتا ہے۔ یہ خطہ تو اتنا محتاط ہے کہ گھر کی خواتین کے نام تک بتانے سے گریز کیا جاتا ہے چہ جائیکہ خانگی زندگی کی ایک ایک بات، نکاح سے لے کر طلاق تک، میڈیا کی ملکیت میں دے دی جائے۔ یہ لوگ تو گھر کے ملازموں کی موجودگی میں کھل کر بات نہیں کرتے! 
بجا کہ عمران خان ایک زمانے میں سٹار تھے۔ ورلڈ کپ جیتا۔ میدانِ کرکٹ کے یکتا شہسوار تھے۔ کوئی ثانی نہ تھا۔ سٹار فلم کا ہو یا کھیل کے میدان کا، اپنی ذاتی زندگی اچھالتا ہے! رانی فلم سٹار تھی‘ پہلی شادی اپنے ڈائریکٹر حسن طارق سے کی‘ جو طلاق پر منتج ہوئی۔ دوسری بار ڈولی میں بیٹھی تو پروڈیوسر میاں جاوید قمر کے کہاروں نے ڈولی اُٹھائی۔ یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی۔ پھر کرکٹ کے کھلاڑی سرفراز نواز سے شادی کی۔ یہ رانی کا تیسرا راجہ تھا۔ یہ یاری بھی تڑک کرکے ٹوٹ گئی۔ محسن خان کرکٹ سٹار تھے۔ بھارتی اداکارہ رینا رائے سے شادی رچائی۔ گھر گھر چرچا ہؤا۔ میڈیا نے اتنی خاک اڑائی جتنی سکندرِ اعظم کی لڑائیوں میں اُڑتی تھی۔ 
نظامی گنجوی نے عجیب رنگ میں اِس اُڑتی ہوئی مٹی کا تذکرہ کیا؎
ز سمِ ستوراں درآں پہن دشت
زمین شش شد و آسمان گشت ہشت
گھوڑوں کے قدموں سے میدانِ جنگ میں وہ گرد اُٹھی کہ ساتویں زمین ساری کی ساری دھول میں تبدیل ہو گئی۔ پھر یہ دُھول آسمان کی طرف اُٹھی اور آٹھویں آسمان میں تبدیل ہو گئی۔ گویا زمینیں سات سے چھ رہ گئیں اور آسمان سات سے آٹھ ہو گئے۔
بہرطور محسن خان کی رینا رائے سے نبھ نہ سکی۔ راستے جدا ہو گئے۔ ماضی قریب میں شعیب ملک نے ثانیہ مرزا سے بندھن باندھا۔ عالمی میڈیا نے کوریج دیا۔ میرا جیسی ایکٹریسوں کا ذکر ہی کیا بہرطور اس کی پبلسٹی بھی ایک سٹار ہی کی پبلسٹی ہے!
مگر عمران خان؟ یا وحشت!! وہ اب کرکٹ سٹار نہیں! وہ سیاسی رہنما ہیں۔ لاکھوں افراد کے پسندیدہ لیڈر ہیں! وزیر اعظم بننے کے امیدوار ہیں۔ قوم کے ہچکولے کھاتے سفینے کو پار لگانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ کشمیریوں سے کشمیر دلانے کا پیمان باندھ رہے ہیں۔ کرکٹ سٹار کا عہد گزر گیا۔ وقت تبدیلیاں لاتا ہے۔ جو ماں بچے کو نہلاتی ہے جب وہ کڑپل جوان بن جاتا ہے اس کی خواب گاہ الگ کر دیتی ہے۔ خان صاحب نے پہلی شادی کی۔ تفصیلات منظرِ عام پر آئیں۔ دوسری کی تو کون سی تفصیل تھی جو خلقِ خدا کی زبان پر نہ آئی۔ یہ تک بتایا گیا کہ پالتو کتے کو بیڈ روم میں لانے پر یا شاید نہ لانے پر بدمزگی ہوئی۔ پھر ریحام خان طلاق کے بعد میڈیا پر جلوہ گر ہوئیں اور رہی سہی گھریلو باتیں بھی عوامی ملکیت میں آ گئیں۔
اب جو عمران خان نے کہا کہ ایک اور شادی کروں گا کہ شکست میرے خون میں نہیں، تو ان کی ذہنی سطح پر ہر سنجیدہ شخص کو صدمہ ہوا ہے۔ اگر عزمِ صمیم کا، آہنی ارادے کا اور شکست خون میں نہ ہونے کا دعویٰ، سیاسی حوالے سے کرتے تو بات بھی تھی۔ سارا عزم صمیم، ساری قوتِ ارادی، ساری پہاڑ سی مضبوطی، شادیوں ہی کے لیے رہ گئی ہے؟ واہ عمران خان صاحب واہ!
جتنی چاہیں شادیاں کیجیے‘ لیکن متانت کو بروئے کار لائیے۔ لوگوں کو ٹھٹھا کرنے کا موقع نہ دیجیے۔ آپ اب سٹار نہیں کہ آپ کے صرف فین ہوں۔ آپ اب لیڈر ہیں اور عوام آپ کے پیچھے چل رہے ہیں، گھر کی باتیں گھر کے اندر رکھیے۔ چار دیواری بنوائیے۔ اس کے ساتھ باڑ
 HEDGE 
لگوائیے۔ مخالفین کو ہنسنے کا موقع نہ فراہم کیجیے‘ حامیوں کو شرمندگی سے بچائیے! آپ کے گھر میں کوئی کیوں جھانکے؟ آپ انگریزوں کے گھر میں رہے۔ آپ سے زیادہ 
LAUGHING STOCK 
کا مطلب کسے معلوم ہو گا! تر دیدیں کرنے کی نوبت ہی کیوں آئے؟ اور پھر دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہو! 
ظہور نظر نے کہا تھا:
اُس کا محبوب کہ تھا
صرصرِ دشتِ وفا کا جھونکا
اُس کی آغوش کو وا
اُس کے شبستان کو کھُلا چھوڑ گیا
سال ہا سال کے بعد
ایک دن ایک بھری بزم کی تنہائی میں
اُس نے اُس حسنِ سیہ پوش کو چپکے سے کہا
آ اُسی موڑ پہ مل بیٹھیں ذرا
لیکن اُس نے
عجب انداز میں صرف اتنا کہا
اس بھری بزم میں ہم دونوں کو سب جانتے ہیں
اپنی توہین نہ کر، میرا تماشا نہ بنا

Wednesday, July 13, 2016

خدمت یا کاروبار؟

ہمارے ایک دوست مفت ڈسپنسری چلاتے ہیں۔ سینکڑوں ایسے مریض جو ڈاکٹروں کی فیس اور دوائوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے‘ اس ڈسپنسری میں جاتے ہیں۔ یہاں لیبارٹری بھی ہے، ضروری ٹیسٹ مفت کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے دوست کے جاننے والے‘ ان کے رشتہ دار‘ احباب‘ متعلقین ڈسپنسری کے لیے فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ دامے درمے‘ جو کسی کی استطاعت ہے‘ ان کے حوالے کر دیتا ہے۔ کبھی کوئی خوشحال مریض آ نکلے تو وہ بھی عطیہ دیتا ہے۔ ایک صاحب نے ایک مشین لیبارٹری کی نذرکی!
آپ کا کیا خیال ہے جو رقوم‘ درد مند حضرات ڈسپنسری کے اخراجات کے لیے دیتے ہیں‘ اگر ہمارے دوست‘ اس میں سے کچھ حصہ اپنے گھر کے اخراجات کے لیے رکھ لیں‘ اس میں سے بچے کو موٹر سائیکل خرید دیں یا ان پیسوں سے مری، نتھیا گلی سیر کے لیے چلے جائیں تو کیا یہ جائز ہو گا؟ آپ کا جواب یقیناً نہیں میں ہوگا۔ اس لیے کہ ڈسپنسری خدمت کے لیے کھولی گئی ہے،کاروبار کے لیے نہیں! خدمت اور کاروبار میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ’’خدمت‘‘ کا منصوبہ ہو تو آپ عطیات وصول کر سکتے ہیں بشرطیکہ دیانت داری کے ساتھ ایک ایک پائی خدمت ہی پر صرف کی جائے۔ کاروبار آپ اپنے سرمایے سے کریں گے، کوئی دوسرا حصہ ڈالے گا تو شراکت دار کہلائے گا۔ پیسے پیسے کا حساب مانگے گا اور یہ حساب مانگنا اس کا حق ہو گا۔ پرائیویٹ کلینک چلانے والے ڈاکٹر خدمت نہیں‘ کاروبار کرتے ہیں۔ اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی‘ جہاں چاہیں خرچ کریں، سیرو تفریح کریں یا بھنگ پئیں‘ کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں!
خدمت اور کاروبار میں واضح فرق ہے۔ ایدھی صاحب کی رحلت نے اس فرق کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ خدمت خلق ایدھی صاحب کا کاروبار نہیں تھا‘ یہ سو فیصد خدمت تھی! وہ عوام سے عطیات لیتے تھے۔ نقد بھی، زیورات بھی‘ کھالیں بھی‘ کپڑے بھی‘ یہ سب کچھ ان کے ذاتی اخراجات سے الگ تھا۔ اس میں سے وہ ایک پیسہ بھی اپنے اوپر، اپنے اہل و عیال پر خرچ نہیں کرتے تھے۔ انہی کی زبانی سنیے۔ (یہ فقرے نذیر ناجی صاحب کے کالم سے منقول ہیں جو روزنامہ دنیا کی دس جولائی کی اشاعت میں چھپا ہے۔)
’’ایدھی ٹرسٹ کے اخراجات گھر سے بالکل الگ ہیں۔ اور ٹرسٹ کا ایک پیسہ بھی ذاتی طور پر استعمال نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ ذاتی جائیداد میں میٹھادر والا مکان جو شروع میں 1300روپے کا خریدا گیا تھا وہ بلقیس ایدھی کے نام پر ہے جبکہ چھاپہ گلی والا چھوٹا سا مکان جس سے والدین اور بہن بھائی کا جنازہ اٹھا تھا میرے نام پر ہے۔ گھر کے خرچے کے لیے پہلے دکانیں تھیں وہاں سے بھی کرایہ آتا تھا۔ اگر اخراجات سے کچھ پیسہ بچتا ہے‘ تو وہ بھی ایدھی ٹرسٹ میں ڈال دیا جاتا ہے‘‘۔
ایدھی صاحب کا طرز زندگی سب کے سامنے تھا۔ ناشتے میں سوکھی روٹی‘ کھانا فرش پر یا چارپائی پر! کپڑوں کے دو جوڑے‘ جوتے کینوس کے! یہی وہ طرز زندگی ہے جو ایدھی صاحب کے اس دعوے کو سچ کرتا ہے کہ ’’ٹرسٹ کا ایک پیسہ بھی ذاتی طور پر استعمال نہیں کرتا‘‘۔
ملک میں لاکھوں تعلیمی ادارے عطیات پر چل رہے ہیں۔ ان اداروں میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کے چلانے والوں میں معروف شخصیات بھی ہیں۔کیا ان تعلیمی اداروں کے چلانے والے ایدھی صاحب کی طرح یہ دعویٰ کر سکتے ہیںکہ عطیات کی رقم جو عوام ادارے کے لیے دیتے ہیں، ان کی ذات پر، ان کے اہل و عیال پر خرچ نہیں کی جاتی؟ اس سوال کا جواب آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی! اگرچہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے جو مذہب کے حوالے سے عطیات وصول کرتے ہیں (اندرون ملک سے بھی اور بیرون ملک سے بھی) ’’خدمت‘‘ ہے تو پھر عوام جس مقصد کے لیے عطیات دیتے ہیں‘ اس مقصد کے علاوہ ایک پیسہ بھی کہیں اور خرچ ہوگا تو بددیانتی ہوگی۔ اگر کاروبار ہے تو پھر وہ عطیات سے نہیں ہو سکتا! اگر عطیات کی رقم سے جہازوں میں سفر ہو رہے ہیں‘ صاحبزادگان قیمتی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں‘ ایک قابل رشک معیار زندگی رکھا جا رہا ہے تو پھر ’’خدمت‘‘ خدمت نہیں‘ کاروبار ہے!!
جو افسوسناک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر گردش میں ہے اور جسے کروڑوں لوگ دیکھ کر اور سن کرکانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں‘ اس کی تہہ میں یہی مسئلہ ہے! ایدھی صاحب ’’ملحد‘‘ اور ’’زندیق‘‘ اس لیے تھے کہ عوام ان پر اعتماد کرتے ہوئے عطیات انہیں دیتے تھے۔ عطیات اس لیے دیتے تھے کہ ان کی رہائش گاہ اور لباس لوگوں کو نظر آ رہا تھا! یہ جو شکوہ ہے کہ ’’لوگ جا کر زندیق کے ادارے کو دیتے ہیں، صدقے کے بکرے وہاں دیتے ہیں، زکوٰۃ خیرات وہاں دیتے ہیں‘‘ تو یہی اعتراض کا لب لباب ہے۔ اسی بنا پر یہ ’’فیصلہ‘‘ کیا گیا ہے کہ وہ جہنم میں جائے گا اور اسے صدقہ خیرات دینے والے بھی اللہ کے عذاب کے لیے تیار رہیں! اس قسم کے اعلانات سے دین کی کیا خدمت ہوئی؟ اچھے بھلے مذہبی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس انداز گفتگو کی وجہ سے مذہب سے متنفر ہو رہے ہیں۔ ان کے تاثرات سوشل میڈیا پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ کہاں یہ فرمان الٰہی کہ ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دانش مندی اور اچھی نصیحت سے بلائو اور بحث کرو پسندیدہ طریقے کے ساتھ۔۔۔۔‘‘ اور کہاں بات بات پر لعنت‘ منہ توڑ دینے کی دھمکی۔ عذاب کی وعید، جہنمی ہونے کا اعلان! اور دوبارہ نکاح پڑھوانے کی ہدایت!!
یقیناً اب بھی ایسے دیانت دار لوگ موجود ہیں جو تعلیمی اداروں کو خدمت سمجھ کر چلا رہے ہیں۔ ان میں علماء بھی ہیں اور دوسرے شعبوں کے لوگ بھی۔ علماء میں ہر مسلک اور ہر مکتب کے کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات عطیات سے نہیں‘ اپنے ذاتی وسائل سے پورے کرتے ہیں! مگر ماضی میں علماء کرام کی اکثریت اس طرح کی تھی! قرآن پاک کے معروف مفسر اور استاد مولانا حسین علی جو میانوالی کے علاقے واں بھچراں سے تھے‘ ان کے بارے میں بزرگوں سے سنا ہے کہ اپنے کھیتوں میں خود ہل چلاتے تھے اور ہل چلاتے ہوئے طلبہ کو پڑھاتے بھی جاتے تھے۔ یہ مولانا حسین علی وہی ہیں جو والد محترم کے دوست اور بزرگ مولانا غلام اللہ خان کے استاد تھے۔ محب گرام میجر عامر کے والد گرامی مولانا محمد طاہر(پنج پیر) بھی انہیں کے شاگرد تھے۔ والد گرامی کے استاد حضرت مولانا قاضی شمس الدین طلبہ کو پڑھاتے تھے مگر اپنے گھر کا خرچ پورا کرنے کے لیے صابن بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری لگا رکھی تھی اور یوں صابن فروخت کر کے گزر اوقات کرتے تھے! جون ایلیا نے اپنے پہلے مجموعہ کلام ’’شاید‘‘ کے طویل دیباچہ میں ایک پیراگراف دلچسپ لکھا ہے:
’’علمائے دیو بند وطن پرستانہ سیاست کے حامی تھے، آج یہ معاملہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ مجھے ان علماء کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ کسی طرح بھی دنیا دار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ وہ درویشانہ زندگی گزارتے تھے اور انہوں نے افلاس اور فاقہ کشی کی زندگی رضا کارانہ طور پر اختیار کی تھی۔ میں عربی ادب اور فلسفے میں ان کا ایک ادنیٰ شاگرد رہا ہوں۔ میں ان کا واحد شہری طالب علم رہ گیا تھا جو اپنے ذاتی شوق میں عربی ادب اور فلسفہ پڑھ رہا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ مہینے میں ان علماء کی فاقہ کشی کا کیا اوسط تھا؟ جب میں ان کے بارے میں یہ سنتا تھا کہ یہ لوگ بکے ہوئے ہیں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ آپ اپنے نظریاتی حریفوں سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کیجیے مگر گالیاں تو نہ دیجیے‘‘۔
جون ایلیا آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’ہمارے ماحول کا اپنے غیر مذہبی نوجوانوں کے بارے میں بہت فراخ دلانہ رویہ تھا۔ علماء ان کے باغیانہ اور منکرانہ خیالات سن کر مسکرا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مطالعہ کرتے رہے تو راہ راست پر آ جائیں گے۔ ان ملحد نوجوانوں کے حق میں جو سب سے زیادہ نامہربان بلکہ شدید فیصلہ صادر کیا جاتا تھا وہ یہ تھا کہ پڑھ بہت لیا ہے اس لیے ہضم نہیں ہوا!‘‘
بات خدمت اور کاروبار سے چلی تھی اور قوتِ برداشت تک پہنچ گئی۔ خدمت اورکاروبار میں فرق ہے۔ اس فرق کو کوئی نہیں مٹا سکتا! جو عطیات دیتے ہیں وہ عطیات وصول کرنے والے کا طرز زندگی پرکھنے کا حق رکھتے ہیں اور حساب کتاب کا معائنہ کرنے کا بھی!!

Monday, July 11, 2016

محبت عاشقوں کو رفتہ رفتہ کھو رہی ہے

جانے یہ روایت درست ہے یا نہیں، بہر حال سنتے آئے ہیں کہ احمد بن حنبلؒ نے (غالباً) عباسی خلیفہ سے کہا تھا کہ تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ ہم دونوں کے جنازے کریں گے۔ ایدھی صاحب کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ اس کالم نگار جیسے لاکھوں کروڑوں لوگ اُن کے جنازے میں شامل ہونے کے لیے تڑپ رہے تھے مگر اُس شہر سے دور تھے جہاں اِس بے تاج بادشاہ کا آخری سفر اپنے مرحلے طے کر رہا تھا۔
ایدھی صاحب نے ثابت کر دیا کہ لوگوں پر حکمرانی کرنے کے لیے تخت پر بیٹھنا ضروری نہیں۔ محلات بنوانے کی حاجت نہیں! ہٹو بچو کی صداؤں میں گھری ہوئی زندگیوں میں قید ہونا ضروری نہیں! ڈیزائنر سوٹ درکار ہیں نہ کروڑوں کی گھڑی۔ دبئی، جدہ، لندن، نیویارک میں رہائش گاہیں بھی درکار نہیں! کیا تھا ایدھی صاحب کے پاس؟ دو جوڑے کپڑوں کے، ایک ٹوپی جو قیمتی نہیں تھی۔ جوتوں کا جوڑا، جس کی بیس برس سے زیادہ عمر تھی اور جو مرمت ہوتا رہا! یہ تھی ان کی ساری اقلیم! یہ تھی کل کائنات۔ مگر رخصت ہوئے تو خلقِ خدا کی چیخیں نکل گئیں۔ دل بجھ گئے۔ آنکھیں بھیگ گئیں، مسکراہٹیں ہونٹوں سے چھن گئیں۔ جو پہنچ سکتے تھے، چل پڑے۔ جو دور تھے ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھے گئے۔
مدت ہوئی ایک خیالی جنازے کی کیفیت نظم کی تھی۔ ایدھی صاحب کی رحلت پر اس نظم کا ایک حصہ یاد آرہا ہے:
’’خلقت ٹوٹ پڑی ہے
اور راستے اَٹ چکے ہیں
اور کھیت میدان بن گئے ہیں
اور گلیاں پھٹنے والی ہیں
اور ہجوم بڑھتا جا رہا ہے
ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے مسح کرنے کے لیے چرم کے موزے پہنے ہوئے ہیں
اور عبائیں اوڑھ رکھی ہیں
اور وہ بھی ہیں جنہوں نے کندھوں پر چادریں ڈالی ہوئی ہیں
اور وہ بھی ہیں جن کی پوشاکیں فرنگی
اور جوتے تسموں والے ہیں
اور وہ بھی ہیں جنہیں اس سے پیشتر کسی نے نہ دیکھا
اور وہ بھی ہیں جو ادب اور تاریخ کے عالم ہیں
اور وہ بھی جو ناخواندہ ہیں
اور وہ بھی جو جوان ہیں
اور وہ بھی جن پر ضُعف غالب آرہا ہے
اور عورتیں بھی ڈھکی ہوئی اور نظر آنے والی
اور سب ایک ہی سمت جا رہے ہیں
اور سب سکوت میں ہیں‘‘۔
ہسپتال میں کام کرنے والے ایک ڈسپنسر نے ایک بار بتایا کہ ایک پڑھے لکھے بابو قسم کے شخص کا والد ہسپتال میں داخل تھا۔ اُس نے قے کی تو بیٹا پیچھے ہٹ گیا۔ ڈسپنسر نے فوراً مریض کو سنبھالا اور قے اپنے اوپر لے لی۔ خدمتِ خلق کا نعرہ لگانا اور دعویٰ کرنا آسان ہے، کرنا مشکل ہے۔ ایدھی صاحب نے تعفّن سے بھرے مُردے سنبھالے۔ بچوں کے پاخانے صاف کیے۔ انہیں نہلایا۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا۔ گھر میں کھانے کی میز نہیں تھی، فرش پر بیٹھتے یا چوکی یا چارپائی پر، ہاتھ سے چاول کھاتے، کوٹھی تھی نہ کروفر والی کار میں پچھلی نشست پر بیٹھے۔ گرمیاں آئیں تو پہاڑ کا رُخ نہ کیا۔ جاڑا آیا تو لحاف لے کر دبک نہیں گئے۔ اتنے بڑے آدمی کے صاحبزادے کے پاس پجارو تھی نہ اسے امریکہ یا برطانیہ بھیجا۔ لوگوں نے بہت باتیں کیں مگر اپنے مشن پر قائم رہے۔ بارش تھی یا طوفان، دن تھا یا رات، کوئٹہ کی یخ ہوائیں تھیں یا قیامت خیز گرمی! صبح سے رات گئے تک کام کیا۔
ایدھی صاحب کا موازنہ کسی سے کیا جا سکتا ہے تو اس کالم نگار کی ناقص رائے میں سرسید احمد خان سے کیا جا سکتا ہے! یہ موازنہ صرف شکل و صورت تک محدود نہیں، عزم و استقلال میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ سر سید نے بھی اپنا مشن طے کر لیا کہ اپنے خول میں بند مسلمانوں کو باہر نکال کر جدید تعلیم کی مدد سے اس قابل بنانا ہے کہ ہندوؤں اور انگریزوں کا مقابلہ کر سکیں اور ان سے کسی احساس کمتری کے بغیر بات کر سکیں! سرسید نے بھی ایدھی صاحب کی طرح جھولی پھیلائی، بھیک مانگی، اپنا اثاثہ تک فروخت کر ڈالا۔ جمع پونجی اکٹھی کی اور لندن گئے۔ اپنے خرچ پر رہے۔ انگریز مصنفین کی گستاخانہ کتابوں کے جواب لکھے۔ مغرب کا مطالعہ کیا۔ سرسید نے بھی کچھ نہ بنایا، کوٹھی نہ بگھی۔ مال و دولت نہ کر و فر! طوائفوں نے چندہ دیا۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو کہا اس سے ادارے کے غسل خانے بنواؤں گا۔ ڈٹے رہے! یہ جو آج ہمارے لاکھوں نوجوان مغربی ملکوں میں پڑھ اور پڑھا رہے ہیں، آئی ٹی میں کام کر رہے ہیں، بڑے بڑے ڈاکٹر اور سرجن لگے ہوئے ہیں (ان میں علماء کرام کی اولاد بھی ہے) یہ سب سر سید کے لگائے ہوئے پودے کا فیض ہے!
ایک اور پہلو سے سر سید کے ساتھ موازنہ دلچسپ ہے! مذہبی حلقوں کی مخالفت! سرسید پر فتوے لگے۔ مخالفت ہوئی۔ کرسٹان تک کہا گیا۔ ایدھی صاحب کی مخالفت اس حد تک تو نہ ہوئی مگر ہوئی ضرور! سوشل میڈیا پر ان کی وفات کے بعد فتویٰ نما ارشادات اچھی خاصی تعداد میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ ناجائز (یہاں ایک اور لفظ استعمال کیا گیا ہے!) بچوں کی پرورش کرتا تھا۔ اور ہیرونچیوں (نشے کے عادی افراد) کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا نا جائز بچہ مجرم ہے؟ کیا اس کی جان بچانے یا پرورش کرنے سے منع کیا گیا ہے؟ کیا نشے کی لت میں مبتلا افراد کا علاج کرنا اور کرانا گناہ کا کام ہے؟
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ      ؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
نہیں! ایسا ہر گز نہیں ہؤا! ایدھی صاحب کو ان کے ہم وطنوں نے عزت دی۔ پذیرائی کی۔ اعزازات سے نوازا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان پر اعتبار کیا۔ عورتوں نے زیور اتار کر ان کے قدموں میں رکھے۔ جس فٹ پاتھ پر کھڑے ہوئے، روپوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ پر الزام ہے امریکہ سے پیسے لیتے ہیں۔ جواب دیا کہ پہلے انڈیا کا کہتے تھے اب امریکہ کا نام لیتے ہیں مگر میرے ہم وطن مجھے پیسے دیتے ہیں، مجھے باہر سے لینے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے کہ جنازہ مسلح افواج نے ہائی جیک کر لیا۔ شاید ہماری نفسیات اس قدر مسنح ہو چکی ہے کہ ہم ہر بات کا منفی پہلو اُجاگر کرتے ہیں! اگر مسلح افواج آخری رسوم میں شامل نہ ہوتیں تب بھی معترضین حضرات نے شکوہ کرنا تھا کہ سرد مہری برتی! جو اعزاز ایدھی صاحب کو ملا، وہ اس کے مستحق تھے۔ یہ ساری عزت، یہ سرکاری اور عسکری عمل دخل اس لمحے کا تقاضا تھا!
ایدھی صاحب جوتے مرمت کراتے رہے، نئے نہ خریدے۔ حکیم سعید امریکہ گئے تو پیدل چلنا پڑا۔ جوتا کاٹنے لگ گیا۔ احباب نے نیا لینے کا مشورہ دیا۔ قیمت پوچھی تو سو ڈالر کے لگ بھگ تھی حکیم صاحب نے نہ لیا۔ کہا یہ سو ڈالر ہمدرد کو کیوں نہ دوں؟ اُسی جوتے کے اندر روئی رکھ کر کام چلاتے رہے!
اہلِ ہمت ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں    ؎
گیا جب لوٹ کر گھوڑا، سوار اس پر نہیں تھا
محبت عاشقوں کو رفتہ رفتہ کھو رہی تھی
حکیم سعید چلے گئے۔ اب ایدھی صاحب نے رختِ سفر باندھا اور افق کے پار اتر گئے۔ اللہ کے بندو! خدا کا شکر ادا کرو ایدھی صاحب قتل نہیں کر دیے گئے۔ طبعی موت مرے۔

Saturday, July 09, 2016

ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ

شاہی قافلے میں سینکڑوں ہاتھی تھے۔ کتنے ہی ہاتھیوں پر بادشاہ کا ذاتی سامان لدا تھا۔ کشمیر جاتے ہوئے بھمبر وہ مقام تھا، جہاں ہاتھی رُک جاتے تھے۔ اس سے آگے قلی سامان لے جانے پر مامور تھے۔ بادشاہ کا ذاتی سامان پانچ ہزار قلی اُٹھاتے تھے!
فرض کیجیے، شاہ جہان اور اورنگ زیب کے زمانے میں پارلیمنٹ ہوتی! کیا پھر بھی شاہی سامان ڈھونے پر خزانہ بے دریغ خرچ کیا جاتا؟
مغل بادشاہت کے برعکس ہمارے ہاں جمہوریت کا راج ہے۔ ایک پارلیمنٹ ہے۔ اس کے ارکان منتخب ہیں! کیا پارلیمنٹ اس بات کا نوٹس لے گی کہ وزیراعظم کو لندن سے واپس لانے کے لیے خصوصی طیارہ پاکستان سے بھیجا جا رہا ہے؟ غالباً نہیں! اس لیے کہ پارلیمنٹ میں دم خم نہیں! اکثریت ایسے ارکان کی ہے جو بولتے ہیں نہ کسی معاملے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ صرف چند ممبر ہیں جو سرگرم ہیں۔ مگر و زیراعظم پر اُٹھنے والے بے جا اخراجات پر احتجاج کرنے والا کوئی نہیں! یہ ایسی پارلیمنٹ ہے جس کے ارکان خود اپنی مراعات بڑھانے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں اور جب بھی مراعات بڑھانے کا مسئلہ در پیش ہو، مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں!
حکمران کو راہِ راست پر رکھنے کی صرف دو صورتیں ہیں! پہلی یہ کہ حکمران خود محتاط ہو۔ قومی خزانے کے سلسلے میں حساس ہو، اپنا محاسبہ خود کرے اور مسلسل کرتا رہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے مسند آرائے خلافت ہونے کے بعد جو اقدامات کیے، جاگیریں شاہی خاندان سے واپس لیں، اپنی زندگی جس طرح ازحد سادہ کرلی، اس پر انہیں کسی پارلیمنٹ نے یا کسی نگران ادارے نے مجبور نہیں کیا تھا۔ یہ سب کچھ وہ اپنے آپ کر رہے تھے۔ قائداعظم جس طرح سرکاری گاڑی اور سرکاری طیارہ لینے میں حد درجہ چھان بین کر رہے تھے، انہیں کسی ادارے نے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا، یہ ان کی ذات کے اندر رچی ہوئی قانون پسندی تھی۔
اور اگر حکمران بے حس ہو تو عوام یا عوام کے نمائندے ایسے ہوں جو اُسے تیر کی طرح سیدھا رکھیں! ادارے ترقی یافتہ شکلیں اختیار کر چکے ہیں۔ آڈیٹر جنرل کا ادارہ پارلیمنٹ کا حصہ ہے۔ کیا آڈیٹر جنرل کا ادارہ ایوانِ وزیراعظم اور ایوانِ صدر کا محاسبہ اسی طرح کرتا ہے جیسے باقی محکموں کا؟ یاد نہیں پڑتا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں کبھی اِن بلند ایوانوں سے کوئی پرنسپل سیکرٹری، کمیٹی کے سامنے پیش ہوا ہو اور اخراجات کا دفاع کیا ہو!
برطانوی وزیرخزانہ جارج اَوسبورن نے چند دن پہلے اپنی قوم کو بتایا کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر حکومتی اخراجات کو کاٹ کر کم کیا جا رہا ہے۔ اگر وزیرخزانہ اخراجات پر کلہاڑا چلانے کے بجائے ٹیکسوں میں اضافہ کرتے تو پارلیمنٹ میں طوفان کھڑا ہو جاتا! ایک ایک ٹیکس کا دفاع کرنا پڑتا۔ سوال جواب ہوتے۔ اور اگر ارکان پارلیمنٹ مطمئن نہ ہوتے تو ٹیکس کے احکام واپس لینے پڑتے!
خصوصی طیارہ جو بھیجا جا رہا ہے، اس میں وزیراعظم کے خاندان کے افراد بھی ہوںگے۔ کیا وہ سفرکے اخراجات قومی خزانے میں داخل کریں گے؟ یا وہ بھی’’عوامی مہمان‘‘ ہوں گے؟ ان سوالوں کا جواب شاید ٹیکس دہندگان کو کبھی نہ ملے۔ جو پارلیمنٹ اس قدر بے جان ہو کہ یہ بھی نہ پوچھ سکے کہ وزیراعظم کی ملک سے طویل غیر حاضری کے دوران سربراہ حکومت کے فرائض کون سرانجام دے رہا ہے، اُس پارلیمنٹ میں اتنی ہمت کہاں کہ قومی خز انے کی حفاظت کر سکے۔ ادارے کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں۔ پارلیمنٹ نے آج تک یہ نہیں پوچھا کہ فیڈرل پبلک سروسز کمیشن کے ارکان اور چیئرمین کے انتخاب کا معیار کیا ہے؟ کیا صرف وزیراعظم کا اشارۂ ابرو یہ انتخاب کرتا ہے؟ وفاقی محتسب کا ادارہ ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کا قبرستان بن چکا ہے۔ درجنوں نہیں، بیسیوں ضعیف اور ازکار رفتہ نوکرشاہی کے سابق ارکان قومی خزانے کو چوس رہے ہیں۔ یوں بھی سرکاری اداروں کے لیے وفاقی محتسب کے احکام صرف سفارش کا درجہ رکھتے ہیں۔ لازم نہیں کہ ان کی تعمیل کی جائے۔
پارلیمنٹ کے بے حسی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ایک وفاقی وزیر اعلان کرتا ہے کہ افغان مہاجرین نے دس لاکھ ملازمتوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اگر ایسا ہوشربا انکشاف کسی جیتی جاگتی قوم میں کیا جاتا تو پارلیمنٹ میں ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔ اِن ملازمتوں کی تفصیلی فہرست مانگی جاتی! ملازمتیں مہیا کرنے والوں کے نام شائع کرنے پڑتے، پھر ان کوسزائیں دی جاتیں۔ مگر یہاں پارلیمنٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی! دس لاکھ نہیں، دس کروڑ ملازمتیں غیر ملکیوں کو دے دیجیے، زمین لرزے گی نہ آسمان ٹوٹے گا!
جنرل راحیل شریف نے جب آرمی پبلک سکول پشاور کے متاثرہ خاندانوں اور قبائلی علاقوں کے بے گھر خاندانوں کو تحائف بھیجے اور جب عید کی نماز شمالی وزیرستان میں صف آرا عساکر کے ساتھ ادا کی تو یہ ان کی اپنی سوچ تھی! انہیں کسی قانون، کسی ادارے، کسی پارلیمنٹ نے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا! یہ لیڈر شپ کی کوائلٹی تھی جس کا اظہار انہوں نے کیا۔ فارسی میں کہتے ہیں فکرِ ہر کس بقدر ہمتِ اوست!
ہر شخص کا اندازِ فکر، اس کی ہمت پر منحصر ہے یعنی اُس کا ذہن کہاں تک کام کرتا ہے؟ اس کی سوچ کا معیار کتنا بلند یا پست ہے؟ وزیراعظم کے خاندان کے اکثر افراد نے عید ان کے ساتھ لندن میں منائی! وزیراعظم کا اندازِ فکر مختلف ہوتا تو وہ شہباز شریف کو حکم دیتے کہ وہ عید کا دن عساکر کے ساتھ افغان بارڈر پر گزاریں یا جب کراچی میں لاکھوں غم زدگان امجد صابری کا سوگ منا رہے تھے، وزیراعظم اُس موقع پر ایک عالی شان گراں ترین سٹور پر شاپنگ سے گریز کرتے! مگر لگتا ہے کہ قوم کی سمت الگ ہے اور وزیراعظم اپنے خاندان کی معیت میں ایک اور سمت رواں ہیں۔ من چہ می سرایم وطنبورۂ من چہ می سراید! میں کچھ اور گا رہا ہوں مگر میرا طنبورہ کچھ اور! وزیراعظم کی بے نیازی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل قوم کے ساتھ نہیں! ان کی اپنی الگ دنیا ہے، جس میں ان کی ذات اور ان کا خاندان ان کی اوّلین ترجیح ہے۔ 
ان کی واپسی پر ’’فقید المثال‘‘ استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں! صرف ایک کسر رہ گئی ہے کہ دربار منعقد ہو اور استاد ذوق غسلِ صحت کی خوشی میں قصیدہ پڑھیں!
جب رعایا کا محبوب وزیراعظم لندن کے مہنگے سٹوروں میں خریداری کر رہا تھا، لندن کی دُھلی ہوئی عالی شان شاہراہوں پر چہل قدمی کر رہا تھا اور ریستوران میں نرم و لطیف چائے کے دل آویز گھونٹ بھر رہا تھا، اُس وقت رعایا کیا کر رہی تھی؟ رمضان کے دوران گرمی بے پناہ تھی، لوڈ شیڈنگ زوروں پر تھی، عید قریب آئی تو قیمتوں کا گراف مسلسل اوپر جانے لگا، کوئی والی تھانہ وارث! وزیراعظم کی پسندیدہ تاجر کمیونٹی نے خوب ہاتھ رنگے۔ چار سو کی شے ڈیڑھ ہزار میں بیچی اور اگلے عمرہ کے لیے فوراً ارادہ کر لیا! گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ کاریں چوری ہو رہی ہیں۔ شاہراہوں پر لاقانونیت کا مکمل راج ہے۔ ٹریفک کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ریاست کا سرے سے وجود ہی نہیں!
یہ تسلیم کرنے میں کیا مضائقہ ہے کہ سندھ حکومت کا مرکز دبئی میں ہے اور مرکزی حکومت، کم از کم، گزشتہ چند مہینوں سے وہیں ہے جہاں لارڈ کلائیو پیدا ہوا تھا!
رہی متبادل قیادت تو اس کا عالم یہ ہے کہ تیس کروڑ کی خطیر رقم ایک خاص مدرسہ کی نذر کی گئی۔ عمران خان پہلے تو اس غلط بخشی کا دفاع کرتے رہے، اب سنا ہے کہ وزیراعلیٰ سے پوچھ رہے ہیں کہ رقم کیوں دی گئی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ نے کابینہ سے مشورہ کیے بغیر یہ کام کیا۔ بہر طور صوبے کی اسمبلی اس سے بے خبر تھی! یہی کچھ پنجاب میں چلتا ہے، یعنی فردِ واحد کا فرمان!گویا متبادل قیادت میں متبادل کوئی نہیں صرف قیادت ہے۔ عوام کو چاہیے کہ مصطفی زیدی کے مشورہ پر عمل کریں   ؎
ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ

Wednesday, July 06, 2016

جوش یا ہوش؟

کچھ یورپی ممالک ایسے ہیں جہاں عوامی مقامات پر برقع اوڑھنے پر پابندی ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات کے شہری ان جگہوں پر جائیں تو انہیں سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ اس پابندی پر عمل کریں تاکہ قانونی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے نہ ہی جرمانہ عائد ہو سکے۔ یورپی ممالک میں سکیورٹی کے حوالے سے جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ ان کے پیش نظر وہاں سفر کرنے والوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ سکیورٹی کے حوالے سے یہ تبدیلیاں اس لیے بھی رونما ہوئی ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں صورتحال ابتر ہوئی ہے اور پھر جو مہاجرین یورپ  پہنچے ہیں‘ وہ بھی ایک سبب ہے۔یہ ہدایات امارات کی وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر احمد الزہیری نے چار دن پہلے جاری کی ہیں۔ 
وزارت خارجہ کے افسر نے کچھ اور تفصیلات اپنے عوام کے گوش گزار کیں‘ مثلاً یہ کہ فرانس‘ بیلجیم‘ ڈنمارک اور نیدرلینڈ نے برقع پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اسی طرح ہسپانیہ کے شہر بارسلونا میں چہرہ چھپانے پر پابندی ہے۔ جرمنی اور اٹلی کے کچھ حصوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ یکم جولائی 2016ء کو یعنی ایک ہفتہ پیشتر سوئزرلینڈ نے اس علاقے میں جو اٹلی کے ساتھ لگتا ہے چہرہ چھپانے کو ممنوع قرار دے دیا۔ خلاف ورزی کرنے والے کو ایک ہزار فرانک جرمانہ دینے کے ساتھ ساتھ سوئزرلینڈ چھوڑنا بھی پڑے گا۔ سوئزرلینڈ کے اس حصے میں جھیل کے کنارے آباد شہر لوکارنو میں سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔
تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ ان ہدایات کے فوری اجرا کا سبب‘ محض برقع پر پابندی نہیں‘ بلکہ ایک افسوسناک واقعہ ہے جو 29 جون کو امریکہ میں پیش آیا۔ شام چھ بجے کا وقت تھا۔ ریاست اوہائیو کے شہر ایون 
(AVON)
 کے ہوٹل کی لابی میں ایک شخص عربی لباس پہنے سر پر عربی رومال‘ کالی سی رسّی کے ساتھ اوڑھے‘ موبائل فون پر عربی میں کسی سے بات کر رہا تھا۔ ہوٹل کی خاتون کلرک نے اسے دیکھا اور کسی کو فون کیا کہ داعش کا ایک دہشت گرد ہوٹل میں پایا گیا ہے۔ چند منٹ گزرے اور پولیس خودکار رائفلوں سے مسلح ہو کر پہنچ گئی۔ ٹخنوں تک لمبا کرتہ دیکھ کر اور عربی زبان میں گفتگو سن کر پولیس والے بدحواس ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ اُن کے خیال میں دھماکہ ہوتا اور ہوٹل ہوا میں تحلیل ہو جاتا‘ انہوں نے چیخ کر عرب ’’دہشت گرد‘‘ کو وارننگ دی کہ وہ زمین پر لیٹ جائے۔ ساتھ ہی بہت سے سپاہیوں نے اسے زمین پر پھینکا اور ہتھکڑی لگا دی۔ اصل میں خاتون کلرک نے خوف زدہ ہو کر ٹیلی فون اپنی بہن اور والد کو کیا تھا۔ جنہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس والے اسے تھانے لے گئے۔ سر سے پائوں تک تلاشی لی۔ جیبوں سے فون‘ بٹوہ اور دیگر کاغذات نکال کر چیک کئے۔ عرب مسافر کا نام احمد منہالی تھا۔ وہ متحدہ عرب امارات کا شہری تھا اور علاج کے لیے امریکہ آیا ہوا تھا۔ بہرطور جب وہ بے ضرر نکلا تو پولیس کے اعلیٰ افسر نے اور شہر کے میئر نے اس سے معافی مانگی۔
متحدہ عرب امارات نے سفارتی احتجاج تو کیا مگر ساتھ ہی اپنے شہریوں کو ہدایت کی کہ بیرون ملک اپنا مخصوص لباس پہننے سے گریز کریں خاص طور پر عوامی مقامات مثلاً ہوٹلوں بازاروں شاہراہوں اور ہسپتالوں میں۔
یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک مسلمان ملک نے شہریوں کو دوسرے ملکوں میں اپنا لباس نہ پہننے کی ہدایت کی ہے۔ مسلمانوں کے ثقافتی اور مغربی پس منظر میں یہ واقعہ غیر معمولی ہے‘ کیا اس پر ہم غور کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ایک ردعمل تو یہ ہو سکتا ہے‘ جس کا زیادہ امکان بھی ہے کہ ہم میز پر مکہ مار کر نعرہ لگائیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنے ’’مذہبی ‘‘حق سے محروم نہیں کر سکتی! یہ ’’مذہبی‘‘ حق کیا ہے؟ ہمارا لباس!۔ کچھ سال پہلے جب فرانس نے نقاب پر پابندی لگائی تو پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی کی خاتون رہنما نے اخبارات میں پرجوش مضمون لکھا کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی شعائر سے کوئی نہیں روک سکتا! خواہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔ لہو گرمانے اور دلوں میں ولولہ پیدا کرنے والی اس تحریر میں نقاب پوش خاتون لیڈر نے اس معاملے کو بالکل نہ چھیڑا کہ پچاس ساٹھ مسلمان ملکوں کو ٹھکرا کر فرانس جانے کی ضرورت ہی کیا ہے! ایک لطیفہ نما واقعہ امریکہ میں پیش آیا جہاں ٹیکسی چلانے والے پاکستانی نے ٹیکسی ڈرائیوروں کا مخصوص یونیفارم پہننے سے انکار کر دیا اور شلوار قمیض پہننے پر اصرار کرتے ہوئے دلیل یہ دی کہ یہ اس کا ’’مذہبی‘‘ لباس تھا۔ اس دلیل کو امریکی جج نے بھی تسلیم کر لیا اور یوں ڈرائیور نے مقدمہ جیت لیا۔ جج صاحب نے یہ نہ پوچھا کہ دنیا کے کتنے مسلمان یہ لباس زیب تن کرتے ہیں اور جو نہیں پہنتے اُن کے اسلام کی کیا پوزیشن ہے؟
یو اے ای کے اس حکومتی اقدام سے ہم کم از کم تین نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ اوّل : اس بات پر سارے پچپن مسلمان ملکوں کو منہ سر پیٹ کر باقاعدہ ماتم کرنا چاہیے کہ بھائی احمد منہالی کو علاج کرانے کے لیے ایک کافر ملک میں جانا پڑا۔ پچپن ساٹھ ملکوں میں ایک ملک بھی اس قابل نہیں کہ علاج کے لیے وہاں کا رُخ کیا جا سکے۔ مہاتیر محمد جیسے ایک آدھ غیرت مند رہنما کو چھوڑ کر‘ مسلمان ملکوں کے اکثر سربراہان حکومت اور والیان ریاست ان کافر ملکوں ہی کو مرکز علاج و شفا سمجھتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم تو کئی ہفتوں مہینوں سے لندن میں مقیم ہیں اور واپسی کے لیے کافر ڈاکٹروں کے اشارہ ابرو کا انتظار کر رہے ہیں۔ 
دوم : متحدہ عرب امارات کی ان ہدایات سے یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ لباس کا مسئلہ کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں ہے! یو اے ای حکومت نے اپنے شہریوں کو یہ نہیں کہا کہ پبلک مقامات پر نماز نہ پڑھیں۔ صرف یہ کہا ہے کہ اپنے لباس سے گریز کریں اور جہاں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی ہے وہاں اصرار کرنے کے بجائے پابندی پر عمل پیرا ہوں۔ یو اے ای ایسا ملک ہے جہاں اکثریت عرب لباس پہنتی ہے اور نقاب اور عبایا کے بغیر شاید ہی کوئی مقامی خاتون باہر نکلتی ہو۔ ان ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک متحدہ عرب امارات کا تعلق ہے چہرے کو ڈھانپنا ایسا مسئلہ نہیں جس پر اصرار کیا جائے۔ حکومت نے یہ ہدایت نہیں کی کہ نقاب اوڑھنے والی خواتین ان ملکوں یا شہروں میں جانے سے گریز کریں بلکہ یہ کہا ہے کہ وہاں جا کر اس پابندی پر عمل کریں! تادم تحریر متحدہ عرب امارات کے کسی عالم‘ کسی تنظیم نے اس ہدایت کی مذمت کی ہے نہ مخالفت نہ احتجاج! تیسرا سبق یہ ہے کہ چست اور مستعد حکومتیں اپنے شہریوں کی حفاظت کا حد درجہ اہتمام کرتی ہیں! حکومت کے پاس ایک آپشن تو یہ تھا کہ احمد منہالی کو مشکل پیش آئی ہے تو حکومت کی بلا سے۔ اس میں خود اتنی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے تھی کہ احتیاط کرتا! مگر یو اے ای نے اس سنگدل آپشن کو یکسر رد کر دیا۔ اس نے ہدایات جاری کیں۔ ایسی ہدایات جو نقاب اور لباس جیسے حساس اور ذاتی معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہیں۔ مگر حکومت نے ایسا کیا اور اس کے علماء نے اور عوام نے حکومت کا ساتھ دیا! گویا‘ امریکہ یورپ اور جاپان کا تو ذکر ہی کیا‘ یو اے ای بھی پالیسیوں میں اور معقولیت میں اور توازن میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ وہی یو اے ای جسے ہم چند عشرے پہلے چرواہا ہونے کا طعنہ دیتے تھے!!
ہماری حکومتوں کا رویہ اپنے شہریوں کے ساتھ کس قدر ’’ہمدردانہ‘‘ رہا ہے؟ اس کا سراغ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ ان سے کسی نے کہا کہ اکثر پاکستانی باہر جانا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے ’’تو جائیں‘ روکا کس نے ہے؟‘‘ یو اے ای کا سربراہ ہوتا تو کہتا کہ یہ افسوسناک ہے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک کے حالات بہتر ہو جائیں اور لوگ ہجرت کا نہ سوچیں!
جنرل مشرف کا یہ ریمارک بھی تاریخ میں محفوظ ہے کہ پاکستانی عورتیں خود آبروریزی کراتی ہیں تاکہ ویزے لیں اور ڈالر وصول کریں!

Monday, July 04, 2016

پوٹلیاں اور گٹھڑیاں

رخصت ہو رہا ہوں۔ اگلے برس پھر آؤںگا۔ تم میں سے جو زندہ رہے ان سے پھر سامنا ہو گا، جو نہ رہے ان کی کارکردگی کی رپورٹ اُن تک پہنچ جائے گی!
بظاہر میں خاموش ہوں۔کچھ تو ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے میری آمد ہی نہیں ہوئی۔ لیکن میرا حال بھی اُن ستاروں جیسا ہے جن کا ترانہ تمہارے شاعر اقبال نے لکھا تھا کہ ’’می نگریم و می رویم‘‘ دیکھتے جاتے ہیں اور گزرتے جاتے ہیں! میں بھی سب کچھ دیکھتا ہوں خاموشی سے اور گزرتا جاتا ہوں۔
مجھے سب معلوم ہے، ان کا بھی جو تحریروں اور تقریروں میں میرے فضائل بیان کرتے ہیں۔ صبح اُٹھ کر پراٹھے کھاتے ہیں، دن کو سردائیاں نوش فرماتے ہیں، سہ پہر کو چائے اور پھر شام کو افطار ڈنر اٹنڈ کرتے ہیں۔
اُن کا بھی پتا ہے جو رات کو قیام کرتے ہیں۔ سحری اٹھتے ہیں۔ نمازِ فجر التزام سے پڑھتے ہیں، دن بھر بھوکے پیاسے رہتے ہیں مگر جھوٹ بولتے ہیں۔ قسمیں اٹھاتے ہیں۔ دعوے کرتے ہیں۔ عہد و پہچان باندھتے ہیں۔ پھر سب کچھ توڑ دیتے ہیں۔ عہد و پیمان بھی قسمیں بھی! مردہ بھائیوں کا گوشت مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ ہر ناجائز منافع خوری کے بعد الحمد للہ کہتے ہیں۔
انہیں بھی جانتا ہوں جو حرمین شریفین میں سینکڑوںکو افطارکرواتے ہیں، وڈیو لنک کے ذریعے اہتمام کرتے ہیں، جن کے اپنے سرونٹ کوارٹر میں اور پڑوس میں خلقِ خدا ٹھنڈے پانی اور گرم سالن کے بغیر روزہ کھولتی ہے!
ایک ایک تاجر کا معلوم ہے جو میرے آتے ہی کمر کس لیتا ہے۔ سال بھر اتنا نفع نہیں نچوڑتا جتنا مجھ ایک مہینے میں! تجوریاں بھر جاتی ہیں! نوکر شاہی کے اُن کارندوں کو بھی جانتا ہوں جو میرے کاندھے پر بندوق رکھ کر اپنے ہدف پورے کرتے ہیں۔ جن سے کام پڑتا ہے، انہیں افطاریوں پر بلاتے ہیں؛ حالانکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنہیں بلا رہے ہیں، اُن کا مجھ سے دور کا تعلق بھی نہیں! انہیں بھی جانتا ہوں جو اہتمام سے میرے آخری عشرے میں حرمین کا قصد کرتے ہیں! افسوس آج تک انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ حج اور عمرہ سے زیرو میٹر دوبارہ نہیں شروع ہوتا۔ ہزار طواف کرنے سے بھی حقوق العباد معاف نہیں ہوںگے۔ جس کا مال باطل طریقے سے کھایا ہے، جس کا حق مار کر دوسرے کو نوازا ہے، جس سے وعدہ خلافی کر کے اس کا دل دکھایا ہے، صرف وہی معاف کر سکتا ہے! ان کا بھی معلوم ہے جو میرا نام لے کر ڈیوٹیوں پر تاخیر سے حاضر ہوتے ہیں اور مقررہ وقت سے پہلے سائلوںکو منتظر چھوڑکر اُٹھ آتے ہیں! وہ بھی میری نگاہوں میں ہیں جن کی سحری بھی رزقِ حرام سے ہوتی ہے اور افطار بھی ناجائز مال سے۔
اُن گویوں، پارچہ فروشوں، مسخروں، صدا کاروں، اداکاروں کو بھی اندر باہر سے پہچانتا ہوں جو میرے آتے ہی مذہبی سکالر بن جاتے ہیں۔ پردۂ سیمیں پر تھرکتے ہیں، ٹھٹھے کرتے ہیں، نخرے عشوے کر کے اُن مولویوں سے میرے فضائل کے بارے میں سوالات پوچھتے ہیں جو علمِ دین کے نہیں، پی آر کے ماہر ہیں۔ جن کے چہروں پر نور نہیں، سیروں خضاب کی کالک ہے اور جو کیمرے کے سامنے اسی طرح مسکرانے کی ایکٹنگ کرتے ہیں جیسے پردہ سیمیں کے دوسرے ’’ماہرین‘‘! آہ! اِن ظالموں نے مجھے بھی ریٹنگ بڑھانے اور معاوضے دو چند کرانے کا ذریعہ بنا لیا! چودہ سو سال میں میری اس قدر بے حرمتی نہیں ہوئی، جتنی اب یہ کیمرہ بریگیڈ کر رہا ہے! مجھے اُن دعاؤں کی تاثیر کا بھی علم ہے جو کیمرے کے سامنے مانگی جاتی ہیں۔ اُن آنسوئوں کی حقیقت بھی جانتا ہوں جو صرف تیز روشنی میں نکلتے ہیں! قرآن فروشی کے اُن خطیر معاوضوں کا بھی علم ہے جو بزرگوں کے مشورے سے ’’قرض‘‘ کے طور پر وصول کیے جاتے ہیں اور بعد میں چینل والے یہ ’’قرض‘‘ معاف کر دیتے ہیں! مکر کیا اِن ظالموں نے! اللہ ان سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے اور میںخود ان چالبازیوں، مکاریوں، حیلوں، فریب کاریوں کا گواہ ہوں! 
رہے وہ حُفّاظ جو مجھے دیکھتے ہی مصلوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے پیچھے دست بستہ مقتدی! تو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اُس قرآن کی پانچ آیات کا مفہوم بھی ان ریاضت کیشوں کو نہیں معلوم، جسے وہ اہتمام سے ہر رات سنتے اور سناتے ہیں! جس میں تکبّر سے اور دروغ گوئی سے، اور حرام مال کھانے سے، اور جھوٹ سے اور عہد شکنی سے اور قطع رحمی سے اور بخل سے اور حسد سے اور غیبت سے، اور نفاق سے اور جھگڑنے سے اور دوسروں کا نام رکھنے اور بگاڑنے سے اور کج بحثی سے اور اسراف و تبذیر سے اور یتیموں کا مال کھانے سے اور وارثوں کا حصہ ہڑپ کرنے سے جا بجا منع کیا گیا ہے! قرآن کا مطلب تو دور کی بات ہے، ان کی اکثریت کو تو اُس نماز کا مطلب نہیں معلوم جو دن میں پانچ بار پڑھتے ہیں۔ یہ تو اُن دعاؤں کا معنی نہیں جانتے جو امام صاحب ہر نماز کے بعد دہراتے ہیں اور یہ آمین کہتے جاتے ہیں!
میں عبادت تھا، انہوں نے عادت بنا ڈالا؛ میں امتحان تھا،انہوں نے کھیل میں بدل دیا۔ میں ایثار سکھانے آیا تھا، انہوں نے شکم اور تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ اس پر تو جھگڑتے رہے کہ ٹوتھ پیسٹ سے روزہ ٹوتا ہے یا نہیں، اس کی فکر نہیں کی کہ جھوٹ بولنے سے مجھ پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ اس بحث میں پڑے رہے کہ ٹیکہ لگوانا درست ہے یا نہیں اور خلقِ خدا کو یہ مسلسل ٹیکے لگاتے رہے۔ یہ اس فکر میں  غلطاں رہے کہ دس منٹ پہلے روزہ کھولیں یا دس منٹ بعد، مگر یہ نہ سوچا کہ قبولیت کا معیار اور ہے۔ یہ اس شوق میں رہے کہ روزہ ایک ہی دن شروع اور ایک ہی دن ختم ہو مگر اس کی پروا نہیں کہ اتحاد دلوں کے جُڑنے سے ہوتا ہے۔ فرقوں، مسلکوں، نسلوں، زبانوں میں بٹی ہوئی اس نام نہاد قوم نے ایک ہی دن روزہ شروع کر دیا توکیا حاصل کیا؟ یہ تو ایک دوسرے کی مسجد میں، ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھ سکتے۔ ان کے تو مدارس بھی فرقوں کی بنیاد پر چل رہے ہیں! ان کی تو دستاروں کے رنگ مسلکوں کی بنیاد پر ہیں! چاند دیکھے جانے یہ نہ نظر آنے پر ان کے جھگڑے دیکھ کر میں تبسم کرتا ہوں کہ ایک ہی دن ہونے والی اس عید کا کیا فائدہ جس کے دوسرے دن شاہراہوں پر ٹریفک کی بد نظمی دیکھ کر ریوڑوں میں چلنے والے مویشی بھی نفرین بھیجیں۔ جانوروں سے بدتر اُن لفنٹروں نے جن کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے خلقِ خدا بچ نکلنے کا شکر ادا کرے، ایک ہی دن عید منا بھی لی تو کس جنت کی ضمانت مل جائے گی؟
جا رہا ہوں۔ تمہارے اعمال کی پوٹلیاں اور کرتوتوں کی گٹھڑیاں ساتھ لیے جا رہا ہوں۔ تم میں سے جو زندہ رہے انہیں اگلے برس پھر آزماؤںگا۔

Saturday, July 02, 2016

بُدھو میاں

’’فہرست کے مطابق محمود اچکزئی وزیر اعظم کے خصوصی مشیر ہیں۔ ان کے بھائی محمد خان اچکزئی بلوچستان کے گورنر ہیں۔ بھائی حمید خان اچکزئی ایم پی اے ہیں۔ بھائی مجید خان اچکزئی بھی ایم پی اے ہیں۔ بیوی کی بھابھی بھی ایم پی اے ہیں۔ بیوی کی بہن نسیمہ حفیظ ایم این اے ہیں(ان تمام منتخب رشتہ داروں میں شاید ہی کسی نے ایک ہزار سے زیادہ ووٹ لیے ہوں۔) برادر نسبتی منیجر کوئٹہ ایئر پورٹ تعینات ہیں۔ دوسرا برادر نسبتی حسن منظور ڈی آئی جی موٹر وے پولیس ہے۔ بیوی کا بھتیجا سالار خان بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں لیکچرر ہے اور اسی یونیورسٹی میں بیوی کا کزن قاضی جلال رجسٹرار کی سیٹ پر براجمان ہے‘‘۔
یہ اقتباس نذیر ناجی صاحب کے کالم سے ہے جو چند دن پہلے شائع ہوا ہے۔ ویسے سوشل میڈیا پر جو فہرستیں محمود خان اچکزئی کے متعلقین کی گردش کر رہی ہیں وہ اس فہرست سے طویل تر ہیں جو ناجی صاحب نے بہت محتاط ہو کر پیش کی ہے۔ یہ سارے متعلقین اس ریاست سے حلوہ کھا رہے ہیں جسے پاکستان کہتے ہیں اور جس کا ایک صوبہ۔۔۔ جی ہاں پورے کا پورا صوبہ محمود خان اچکزئی نے افغانستان کو عطا کر دیا ہے۔
تیمور نے حافظ شیرازی کو بلا کر شکوہ کیا تھا کہ جس سمر قند کو میں نے خوں ریز جنگوں کے بعد دنیا بھر کے کاریگروں اور ہنر مندوں کو بلا کر بنایا سنوارا اسے تم اپنے محبوب کے ایک خال پر قربان کیے جا رہے ہو۔ اشارہ حافظ کے اس مشہور زمانہ شعر کی طرف تھا  ؎
اگر آن ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ مارا
بہ خالِ ہندئوش بخشم سمرقند و بخارا را
حافظ نے اُسی حاضر جوابی کا مظاہرہ کیا جس کا صدیوں بعد غالب نے کیا تھا۔ غالب نے انگریز حاکم کو کہا تھا آدھا مسلمان ہوں۔ شراب پیتا ہوں‘ سؤر نہیں کھاتا۔ حافظ نے تیمور کو جواب دیا کہ جہاں پناہ اپنی غلط بخشیوں کی وجہ سے تو اس حال کو پہنچا ہوں! کاش آج بھی کوئی حکمران اچکزئی کی غلط بخشی کا نوٹس لیتا۔
یہ شخص‘ محمود خان اچکزئی‘ اگر حکومت کا اتحادی نہ ہوتا تو مرفوع القلم ہوتا اور اس قسم کی یاوہ گوئی پر توجہ دینے کی قطعاً ضرورت نہ ہوتی۔ مگر اپنے پورے خاندان کیا‘ پورے قبیلے کو ریاست پاکستان کے دستر خوان پر بٹھانے والے اس ’’محب وطن‘‘ کی یاوہ گوئی پر گرفت کرنا اس لیے ضروری ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کا اتحادی ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ تادمِ تحریر‘ مسلم لیگ نون یا حکومت کے کسی اہم یا غیر اہم ترجمان نے اچکزئی کی مذمت نہیں کی۔ ظفر علی خان نے کہا تھا  ؎
بدھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں
اک مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
اچکزئی حکومت کا ایک اہم اور نمایاں اتحادی ہے اس لیے جب تک حکومت اعلانِ برأت نہیں کرتی اچکزئی کا بیان حکومتی ایوانوں پر منڈلاتا رہے گا۔
کوئی محب وطن سیاست دان‘ جتنا بھی حکومت کا مخالف کیوں نہ ہو‘ کسی دوسرے ملک میں جا کر‘ یا کسی دوسرے ملک کے اخبار یا ٹیلی ویژن کے ذریعے‘ ایسا بیان نہیں جاری کرتا جس سے وطن کی یا حکومت کی تنقیص کا پہلو نکلے۔ مگر اچکزئی کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ افغانستان کے اخبار کے ذریعے اعلان کیا ہے کہ خیبر پختونخوا افغانوں کا ہے! آج ہر پاکستانی پوچھ رہا ہے کہ کیا خیبر پختونخوا کا صوبہ محمود خان اچکزئی کو آبائو اجداد کی طرف سے وراثت میں منتقل ہوا ہے جو اس طرح بانٹتا پھرتا ہے؟ اس پس منظر میں ایک معروف ٹیلی ویژن چینل کا وہ پروگرام یاد کیجیے جس میں محمود خان اچکزئی اور افغان بریگیڈیئر رازق اچکزئی کے باہمی تعلق کو ایکسپوز کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ بریگیڈیئر رازق پاکستان دشمنی کے لیے مشہور ہے!
شیخِ حرم کے بارے میں اقبال نے کہا تھا   ؎
یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا
مگر محمود اچکزئی تو شیخِ حرم سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا جو چادر اوڑھنے کا ڈرامہ کر کے وطن کی چادر بیچنے نکل کھڑا ہے۔ خیبر پختونخوا کے عوام وہی ہیں جنہوں نے ریفرنڈم میں ووٹ پاکستان کے حق میں ڈال کر اچکزئی کے نظریاتی بزرگوں کو عبرتناک شکست دی تھی۔ اس شکست کا زخم دشمن ابھی تک چاٹ رہا ہے اور انتہائی یاس میں وطن کے ٹکڑے کر کے دوسروں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے مگر ہمیشہ کی طرح اب بھی عبرت ناک شکست ہی دشمن کا مقدر بنے گی!
عذر گنہ بدتراز گنہ‘ موصوف نے وضاحت یہ کی ہے کہ افغان اخبار نے بیان تروڑ مروڑ کر شائع کیا ہے اور یہ کہ کہا یہ تھا کہ خیبر پختونخوا‘ تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ رہا ہے۔ اس قبیل کے کرداروں کا یہ پرانا وتیرہ ہے کہ ایک ملک میں ایک بیان دیتے ہیں اور دوسرے ملک میں دوسرا۔ بہرحال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس کردار نے یہی کہا تھا جس کا دعویٰ کر رہا ہے تو یہ بات بھی غلط ہے۔ تاریخی طور پر تو افغانستان پورے کا پورا مغل سلطنت کا حصہ رہا ہے۔ بابر سے لے کر اورنگزیب تک کابل پر حکومت مغلوں کی تھی جن کا وارث پاکستان ہے! اچکزئی کو اقبال کا شعر اس موقع پر یاد دلانا مناسب رہے گا جو انہوں نے فلسطین پر یہودی ملکیت کے جواب میں کہا تھا  ؎
ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیںکیوں اہلِ عرب کا
کیا افغان چیتھڑے کو‘ جس میں اچکزئی کا بیان چھپا ہے‘ اچکزئی یہ بتانے کی ہمت کرے گا کہ افغانستان سینکڑوں سال برِّصغیر کی مسلم حکومت کا حصہ رہا ہے؟
پھر لہجہ ملاحظہ کیجیے: ’’افغان مہاجرین کو ہراساں نہیں کرنے دوں گا‘‘! افغان مہاجرین کو ہراساں کیا جاتا تو ان کی تین نسلیں پاکستان میں جوان نہ ہوتیں! پھر یہ شخص ہوتا کون ہے اس لہجے میں بات کرنے والا؟ کیا یہ خیبر پختونخوا کا دادا بنا ہوا ہے جو دادا گیری کے لہجے میں بات کر رہا ہے؟
اچکزئی کا مسئلہ یہ ہے کہ فائدے ریاست پاکستان سے اٹھانے ہیں اور وفاداری کا پیمان کسی دوسری ریاست سے باندھا ہوا ہے! وہ جو محاورہ ہے جس تھالی میںکھانا اسی میں چھید کرنا‘ اس کی عملی تفسیر اس شخص نے پیش کر دی ہے!
پس نوشت: ہم نے ان صفحات پر کبھی کسی کے لیے واحد غائب کا صیغہ استعمال نہیں کیا، آج مجبوراً کرنا پڑا ہے، اس لیے کہ جو شخص تقدیسِ وطن کو خاک میں ملانے کی کوشش کرے گا یہ قلم اس کے لیے ادب کا صیغہ استعمال کرنے سے منکر ہے اور منکر رہے گا۔

 

powered by worldwanders.com