جانے یہ روایت درست ہے یا نہیں، بہر حال سنتے آئے ہیں کہ احمد بن حنبلؒ نے (غالباً) عباسی خلیفہ سے کہا تھا کہ تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ ہم دونوں کے جنازے کریں گے۔ ایدھی صاحب کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ اس کالم نگار جیسے لاکھوں کروڑوں لوگ اُن کے جنازے میں شامل ہونے کے لیے تڑپ رہے تھے مگر اُس شہر سے دور تھے جہاں اِس بے تاج بادشاہ کا آخری سفر اپنے مرحلے طے کر رہا تھا۔
ایدھی صاحب نے ثابت کر دیا کہ لوگوں پر حکمرانی کرنے کے لیے تخت پر بیٹھنا ضروری نہیں۔ محلات بنوانے کی حاجت نہیں! ہٹو بچو کی صداؤں میں گھری ہوئی زندگیوں میں قید ہونا ضروری نہیں! ڈیزائنر سوٹ درکار ہیں نہ کروڑوں کی گھڑی۔ دبئی، جدہ، لندن، نیویارک میں رہائش گاہیں بھی درکار نہیں! کیا تھا ایدھی صاحب کے پاس؟ دو جوڑے کپڑوں کے، ایک ٹوپی جو قیمتی نہیں تھی۔ جوتوں کا جوڑا، جس کی بیس برس سے زیادہ عمر تھی اور جو مرمت ہوتا رہا! یہ تھی ان کی ساری اقلیم! یہ تھی کل کائنات۔ مگر رخصت ہوئے تو خلقِ خدا کی چیخیں نکل گئیں۔ دل بجھ گئے۔ آنکھیں بھیگ گئیں، مسکراہٹیں ہونٹوں سے چھن گئیں۔ جو پہنچ سکتے تھے، چل پڑے۔ جو دور تھے ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھے گئے۔
مدت ہوئی ایک خیالی جنازے کی کیفیت نظم کی تھی۔ ایدھی صاحب کی رحلت پر اس نظم کا ایک حصہ یاد آرہا ہے:
’’خلقت ٹوٹ پڑی ہے
اور راستے اَٹ چکے ہیں
اور کھیت میدان بن گئے ہیں
اور گلیاں پھٹنے والی ہیں
اور ہجوم بڑھتا جا رہا ہے
ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے مسح کرنے کے لیے چرم کے موزے پہنے ہوئے ہیں
اور عبائیں اوڑھ رکھی ہیں
اور وہ بھی ہیں جنہوں نے کندھوں پر چادریں ڈالی ہوئی ہیں
اور وہ بھی ہیں جن کی پوشاکیں فرنگی
اور جوتے تسموں والے ہیں
اور وہ بھی ہیں جنہیں اس سے پیشتر کسی نے نہ دیکھا
اور وہ بھی ہیں جو ادب اور تاریخ کے عالم ہیں
اور وہ بھی جو ناخواندہ ہیں
اور وہ بھی جو جوان ہیں
اور وہ بھی جن پر ضُعف غالب آرہا ہے
اور عورتیں بھی ڈھکی ہوئی اور نظر آنے والی
اور سب ایک ہی سمت جا رہے ہیں
اور سب سکوت میں ہیں‘‘۔
ہسپتال میں کام کرنے والے ایک ڈسپنسر نے ایک بار بتایا کہ ایک پڑھے لکھے بابو قسم کے شخص کا والد ہسپتال میں داخل تھا۔ اُس نے قے کی تو بیٹا پیچھے ہٹ گیا۔ ڈسپنسر نے فوراً مریض کو سنبھالا اور قے اپنے اوپر لے لی۔ خدمتِ خلق کا نعرہ لگانا اور دعویٰ کرنا آسان ہے، کرنا مشکل ہے۔ ایدھی صاحب نے تعفّن سے بھرے مُردے سنبھالے۔ بچوں کے پاخانے صاف کیے۔ انہیں نہلایا۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا۔ گھر میں کھانے کی میز نہیں تھی، فرش پر بیٹھتے یا چوکی یا چارپائی پر، ہاتھ سے چاول کھاتے، کوٹھی تھی نہ کروفر والی کار میں پچھلی نشست پر بیٹھے۔ گرمیاں آئیں تو پہاڑ کا رُخ نہ کیا۔ جاڑا آیا تو لحاف لے کر دبک نہیں گئے۔ اتنے بڑے آدمی کے صاحبزادے کے پاس پجارو تھی نہ اسے امریکہ یا برطانیہ بھیجا۔ لوگوں نے بہت باتیں کیں مگر اپنے مشن پر قائم رہے۔ بارش تھی یا طوفان، دن تھا یا رات، کوئٹہ کی یخ ہوائیں تھیں یا قیامت خیز گرمی! صبح سے رات گئے تک کام کیا۔
ایدھی صاحب کا موازنہ کسی سے کیا جا سکتا ہے تو اس کالم نگار کی ناقص رائے میں سرسید احمد خان سے کیا جا سکتا ہے! یہ موازنہ صرف شکل و صورت تک محدود نہیں، عزم و استقلال میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ سر سید نے بھی اپنا مشن طے کر لیا کہ اپنے خول میں بند مسلمانوں کو باہر نکال کر جدید تعلیم کی مدد سے اس قابل بنانا ہے کہ ہندوؤں اور انگریزوں کا مقابلہ کر سکیں اور ان سے کسی احساس کمتری کے بغیر بات کر سکیں! سرسید نے بھی ایدھی صاحب کی طرح جھولی پھیلائی، بھیک مانگی، اپنا اثاثہ تک فروخت کر ڈالا۔ جمع پونجی اکٹھی کی اور لندن گئے۔ اپنے خرچ پر رہے۔ انگریز مصنفین کی گستاخانہ کتابوں کے جواب لکھے۔ مغرب کا مطالعہ کیا۔ سرسید نے بھی کچھ نہ بنایا، کوٹھی نہ بگھی۔ مال و دولت نہ کر و فر! طوائفوں نے چندہ دیا۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو کہا اس سے ادارے کے غسل خانے بنواؤں گا۔ ڈٹے رہے! یہ جو آج ہمارے لاکھوں نوجوان مغربی ملکوں میں پڑھ اور پڑھا رہے ہیں، آئی ٹی میں کام کر رہے ہیں، بڑے بڑے ڈاکٹر اور سرجن لگے ہوئے ہیں (ان میں علماء کرام کی اولاد بھی ہے) یہ سب سر سید کے لگائے ہوئے پودے کا فیض ہے!
ایک اور پہلو سے سر سید کے ساتھ موازنہ دلچسپ ہے! مذہبی حلقوں کی مخالفت! سرسید پر فتوے لگے۔ مخالفت ہوئی۔ کرسٹان تک کہا گیا۔ ایدھی صاحب کی مخالفت اس حد تک تو نہ ہوئی مگر ہوئی ضرور! سوشل میڈیا پر ان کی وفات کے بعد فتویٰ نما ارشادات اچھی خاصی تعداد میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ ناجائز (یہاں ایک اور لفظ استعمال کیا گیا ہے!) بچوں کی پرورش کرتا تھا۔ اور ہیرونچیوں (نشے کے عادی افراد) کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا نا جائز بچہ مجرم ہے؟ کیا اس کی جان بچانے یا پرورش کرنے سے منع کیا گیا ہے؟ کیا نشے کی لت میں مبتلا افراد کا علاج کرنا اور کرانا گناہ کا کام ہے؟
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
نہیں! ایسا ہر گز نہیں ہؤا! ایدھی صاحب کو ان کے ہم وطنوں نے عزت دی۔ پذیرائی کی۔ اعزازات سے نوازا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان پر اعتبار کیا۔ عورتوں نے زیور اتار کر ان کے قدموں میں رکھے۔ جس فٹ پاتھ پر کھڑے ہوئے، روپوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ پر الزام ہے امریکہ سے پیسے لیتے ہیں۔ جواب دیا کہ پہلے انڈیا کا کہتے تھے اب امریکہ کا نام لیتے ہیں مگر میرے ہم وطن مجھے پیسے دیتے ہیں، مجھے باہر سے لینے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے کہ جنازہ مسلح افواج نے ہائی جیک کر لیا۔ شاید ہماری نفسیات اس قدر مسنح ہو چکی ہے کہ ہم ہر بات کا منفی پہلو اُجاگر کرتے ہیں! اگر مسلح افواج آخری رسوم میں شامل نہ ہوتیں تب بھی معترضین حضرات نے شکوہ کرنا تھا کہ سرد مہری برتی! جو اعزاز ایدھی صاحب کو ملا، وہ اس کے مستحق تھے۔ یہ ساری عزت، یہ سرکاری اور عسکری عمل دخل اس لمحے کا تقاضا تھا!
ایدھی صاحب جوتے مرمت کراتے رہے، نئے نہ خریدے۔ حکیم سعید امریکہ گئے تو پیدل چلنا پڑا۔ جوتا کاٹنے لگ گیا۔ احباب نے نیا لینے کا مشورہ دیا۔ قیمت پوچھی تو سو ڈالر کے لگ بھگ تھی حکیم صاحب نے نہ لیا۔ کہا یہ سو ڈالر ہمدرد کو کیوں نہ دوں؟ اُسی جوتے کے اندر روئی رکھ کر کام چلاتے رہے!
اہلِ ہمت ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؎
گیا جب لوٹ کر گھوڑا، سوار اس پر نہیں تھا
محبت عاشقوں کو رفتہ رفتہ کھو رہی تھی
حکیم سعید چلے گئے۔ اب ایدھی صاحب نے رختِ سفر باندھا اور افق کے پار اتر گئے۔ اللہ کے بندو! خدا کا شکر ادا کرو ایدھی صاحب قتل نہیں کر دیے گئے۔ طبعی موت مرے۔
No comments:
Post a Comment