21مارچ 1932ء کو بیرون دہلی دروازہ لاہور آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں شروع ہوا۔ 22 مارچ کے اختتامی اجلاس میں اقبال نے ایک مختصر تقریر کی جس میں یہ بھی کہا: ’’روحانی اعتبار سے ہم مسلمان خیالات و جذبات کے ایک ایسے زندان میں محبوس ہیں جو گزشتہ صدیوں میں ہم نے اپنے گرد خود تعمیر کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ ساری مسلم قوم کی موجودہ ذہنیت یکسر بدل دی جائے تاکہ وہ پھر نئی آرزوئوں، نئی تمنائوں اور نئے نصب العین کی اُمنگ محسوس کرنے لگے۔ کسی فرمان سے توقعات وابستہ مت کرو‘ مسولینی کا قول ہے کہ جس کے پاس لوہا ہے اس کے پاس روٹی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جو خود لوہا ہے اس کے پاس سب کچھ ہے‘‘۔
3 جولائی 1933ء کو راغب احسن کا خط موصول ہوا۔ اقبال نے اسی روز اپنے جوابی مکتوب میں تحریر فرمایا: ’’میرا ایک مدت سے عقیدہ ہے کہ علما اور صوفیا قرآن کے اصل مقاصد سے بے خبر ہو چکے ہیں۔ نئی نسل میں سے چند لوگوں نے فرنگی تعلیم کے باوجود اس حقیقت کو محض اپنی سلیم الفطرتی کی وجہ سے پا لیا ہے‘‘۔
ستمبر 1935ء میں اقبال نے پروفیسر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو جوابی خط میں تحریر فرمایا کہ میرا عقیدہ یہ ہے جو شخص اس وقت قرآنی نکتہ نگاہ سے زمانہ حال کے جیورس پروڈنس پر تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا دین اسلام کا مجدّد کہلائے گا۔ بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہو گا۔ مگر افسوس ہے زمانہ حال کے اسلامی فقیہ زمانے کے میلانِ طبیعت سے بالکل بے خبری میں مبتلا ہیں۔11 اکتوبر 1936ء کو اقبال بارود خانہ لاہور میں محمد دین تاثیر اور کرسٹابل جارج کی شادی میں شریک ہوئے۔ علی بخش اور جاوید بھی ساتھ تھے۔ فریقین کا نکاح نامہ اقبال نے تحریر فرمایا۔ خود نکاح پڑھایا اور گواہ بھی بنے۔نومبر 1936ء میں ماہنامہ الحکیم کا نمائندہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ضبط تولید کے مسئلہ پر آپ کے خیالات معلوم کرنا چاہتا تھا۔ آپ نے فرمایا،فریقین رضامند ہوں تو جہاں تک میرا علم میری رہنمائی کرتا ہے ضبط تولید قابل اعتراض نہیں ہے۔ اصولِ شرعی یہ ہے کہ بیوی اولاد کی خواہش مند نہیں تو خاوند اسے اولاد پیدا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
حافظ محمد فضل الرحمن انصاری اسلامی تحقیق کے سلسلے میں یورپ جانا چاہتے تھے۔ رہنمائی کے لیے انہوں نے اقبال کو خط لکھا۔ اقبال نے 16جولائی 1937ء کو جوابی خط میں تحریر فرمایا کہ یورپ جانا بے سود ہے۔ آپ مصر جائیے اور عربی زبان میں مہارت پیدا کیجئے۔ اسلامی علوم‘ اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ‘ تصّوف‘ فقہ اور تفسیر کا بغور مطالعہ کر کے محمد عربی ﷺ کی اصل رُوح تک پہنچنے کی کوشش کیجیے۔
1938ء۔۔۔ ایک روز ڈاکٹر چکرورتی اقبال کے ہاں آئے اور کہا کہ پنڈت نہرو سے جب کبھی آپ کا ذکر آیا انہوں نے بڑی عقیدت کا اظہارکیا ہے۔ وہ آج لاہور آ رہے ہیں میرا جی چاہتا ہے کہ ان کی آپ سے ملاقات ہو جائے۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس میں اعتراض کی کیا بات ہے، آپ کو جب موقع ملے انہیں ملانے کے لیے لے آئیے۔ اس وقت رسمی دو مسئلے درپیش ہیں، ایک ہندوستان کی آزادی‘ دوسرے آزادی کی اس جدوجہد میں مسلمانوں کا حصّہ۔ پنڈت جی ان دونوں مسائل پر غور کر کے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب اس روز شام کو پھر آئے اور کہنے لگے، پنڈت جی کو آج فرصت ہے ہم لوگ آٹھ بجے حاضر ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ بسر و چشم تشریف لائیے۔ کہنے لگے،آپ کو تکلیف تو نہیں ہوگی اس وقت شاید آپ سو جاتے ہیں۔ آپ نے ہنس کر فرمایا کہ آج ہم ذرا دیر سے سو جائیں گے۔
پنڈت صاحب کا استقبال کرنے کے لیے آپ نے جاوید اقبال اور میاں محمد شفیع کو برآمدے میں کھڑا رہنے کی ہدایت فرمائی۔ پنڈت نہرو آٹھ بجے کے قریب پہنچے، ان کے ساتھ ڈاکٹر چکرورتی بھی تھے۔ دو ایک خواتین اور میاں اور بیگم افتخار الدین بھی ساتھ آئے۔ پنڈت نہرو جاوید اقبال سے بڑی محبت کے ساتھ پیش آئے اور کمر میں ہاتھ ڈالے اسے اپنے ساتھ اقبال کے کمرے تک لے گئے۔ کمرے میں کرسیاں رکھ دی گئی تھیں لیکن پنڈت نہرو اور ان کے ساتھی کرسیوں پر نہ بیٹھے بلکہ تعظیماً فرش پر بچھے قالین پر براجمان ہوئے۔ دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ روس، انگلستان، جرمنی اور اٹلی کی سیاست زیر بحث آئی۔ دوران گفتگو پنڈت جی نے کہا کہ اگر مسلمان بلاشرط کانگرس کا ساتھ دیں تو کیا اچھا ہو‘ یوں آزادی کی منزل جلد طے ہو جائے گی۔ انگریز بھی دیر تک ہمارا راستہ نہیں روک سکیں گے۔ اقبال اور پنڈت جی کے درمیان اس موضوع پر مکالمے ہوئے۔ پنڈت جی نے کہا اگر ہم نے اپنی سرگرمیاں تیز تر کر دیں تو انگریز خود ہی ملک سے نکل جائیں گے۔ انگریز گئے تو ہم دستور ساز اسمبلی طلب کریں گے، پھر وہ اشتراکی آئین نافذ کرے گی۔ آپ نے پنڈت جی سے دریافت فرمایا کہ سوشلزم کے سلسلے میں کانگرس کے کتنے آدمی آپ کے ہم خیال ہیں۔ نہرو نے جواب دیا نصف درجن کے قریب۔ علامہ نے فرمایا تعجب کی بات ہے آپ کی جماعت میں آپ کے ہم خیال رہنما صرف چھ ہیں، ادھر آپ مجھ سے کہتے ہیںکہ میں مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونے کا مشورہ دوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں دس کروڑ مسلمانوں کو چھ آدمیوں کی خاطر آگ میں جھونک دوں! یہ سن کر پنڈت صاحب خاموش ہو گئے۔ اقبال پھر ہندو مسلم تعلقات کا ذکر فرمانے لگے۔ انہوں نے دونوں اقوام کے مابین خوشگوار تعلقات قائم کرنے پر زور دیا۔ ابھی سلسلہ گفتگو جاری تھا کہ میاں افتخارالدین کہنے لگے ڈاکٹر صاحب! آپ مسلمانوں کے لیڈرکیوں نہیں بن جاتے‘ مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگریس سے گفت و شنید کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔ ڈاکٹر صاحب اب تک لیٹے ہوئے تھے، یہ سنتے ہی غصے میں آ گئے۔ اُٹھ کر بیٹھے اور انگریزی میں فرمایا، اچھا تو یہ خیال ہے۔ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں، میں تو ان کا ایک معمولی سپاہی ہوں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے اور کمرے میں سکوت طاری ہو گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب سر سکندر حیات نے یوم اقبال منانے کے سلسلے میں یہ بیان دیا تھا کہ شاعراعظم کی خدمت میں روپوں کی تھیلی نذر کی جائے…اس بیان کا جواب دیتے ہوئے آپ نے 10دسمبر 1937ء کو ایک بیان میں فرمایا کہ موجودہ حالات میں قوم کی اجتماعی ضروریات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے مقابلے میں ایک شخص کی انفرادی ضرورت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ آج وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ اسلامی علوم کی جدید تحقیق کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں ایک شعبہ قائم کیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسلامی فکر اور طرز حیات کا بغور مطالعہ کر کے عوام کو بتایا جائے کہ اسلام کا اصل مقصد کیا تھا اور ہندوستان میں اسے کس طرح تہہ بہ تہہ پردوں میں چھپا کر اسلام کی روح کو مسخ کر دیا گیا۔ مجھے امید ہے کہ میری تجویز وزیراعلیٰ پسند کریں گے۔ تاہم میں ایک سو روپے کی حقیر رقم اس مقصد کے لیے مجوزہ فنڈ کی نذر کرتا ہوں۔
آخری لمحات… رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چوہدری محمد حسین‘ سید نذیر نیازی‘ سلامت شاہ‘ حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آ گئے۔ اس زمانے میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم جاوید منزل ہی میں مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں مسلسل خون آ رہا تھا۔ اسی بنا پر چوہدری محمد حسین نے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کر لیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر کرنل امیرچند‘ ڈاکٹر الٰہی بخش‘ ڈاکٹر محمد یوسف‘ ڈاکٹر یار محمد اور ڈاکٹر جمعیت سنگھ موجود تھے۔ ان سب نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی پریشان دکھائی دیتا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر آج کی رات خیریت سے گزر گئی تو اگلے روز سے نیا طریق علاج شروع کر دیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہ آپ کے احباب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے سرگوشیاںکر رہے تھے۔
اقبال سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی تھی لیکن آپ بڑے تیز فہم تھے۔ جان گئے تھے کہ موت کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ اس رات آپ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آئے۔ نو بجے کے قریب جاوید اقبال والد کے کمرے میں داخل ہوئے تو اقبال پہچان نہ سکے۔ دریافت کیا کون ہے، جواب دیا، جاوید۔ آپ ہنس پڑے اور فرمایا جاوید بن کر دکھائو تو جانیں۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’چوہدری صاحب! جاوید نامہ کے آخر میں جو دعا خطاب بہ جاوید ہے اسے ضرور پڑھوا دیجئے گا‘‘۔ اتنے میں علی بخش اندر داخل ہوا، آپ نے اسے پاس بیٹھنے کا کہا۔ یہ سنتے ہی علی بخش بلند آواز میں رونے لگا۔ چوہدری صاحب نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی۔ اس پر اقبال نے کہا: ’’آخر چالیس برس کی رفاقت ہے اسے رو لینے دو‘‘۔ رات گیارہ بجے اقبال کو نیند آ گئی۔ اس کے بعد چوہدری صاحب‘ محمد حسن قرشی‘ نذیر نیازی اور سلامت شاہ خاموشی سے اُٹھ کر چلے گئے۔ محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے بھی اس رات جاوید منزل ہی میں قیام کیا۔
اقبال گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے کہ مثانے میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقیوم اور محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی مگر انکار کر دیا اور فرمایا: ’’دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا‘‘۔ اس کے بعد علی بخش اور محمد شفیع آپ کے شانے اور کمر دبانے لگے۔ لیکن تین بجے رات تک آپ کی حالت غیر ہو گئی۔ محمد شفیع فوراً حکیم قرشی کو بلانے ان کے گھر چلے گئے، لیکن ان تک رسائی نہ ہو سکی۔ اقبال درد سے نڈھال ہو چکے تھے۔ محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا، افسوس! قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ صبح تقریباً پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اندر آئے، اقبال کی حالت بدستور تشویش ناک تھی۔ وہ پھر حکیم صاحب کو لانے روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد آپ کے کہنے پر پلنگ گول کمرے سے خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ پھر فروٹ سالٹ کا گلاس پلایا گیا۔ اس وقت صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ نماز فجر کی اذانیں بلند ہونے لگیں‘ سب کو یقین ہوا کہ مصیبت کی گھڑی کٹ گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع صبح کی نماز پڑھنے قریب کی مسجد چلے گئے اور صرف علی بخش آپ کے پاس رہ گیا۔ اسی اثنا میں اچانک اقبال نے اپنے ہاتھ دل پر رکھے اور آپ کے منُہ سے ’ہائے‘ کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر آپ کے شانے تھام لیے۔ تب اقبال نے کہا: ’’دل میں شدید درد ہے‘‘۔ قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کرتا اقبال نے ’’اللہ‘‘ کہا اور سر ایک طرف ڈھلک گیا۔
No comments:
Post a Comment