میاں رضاربانی اگر چاہیں تو پاکستان کی تاریخ کو ایک موڑ دے سکتے ہیں۔ ایک خوبصورت موڑ۔
آئینی اصلاحات کے ضمن میں‘ ان کی بہت خدمات ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئینی اصلاحات کے صدر رہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے معماروں میں سے ہیں۔ پارٹی نے مجبور کیا تو ایک معاملے میں ووٹ پارٹی کے کہنے پر دیا مگر دُکھ اتنا ہوا کہ روپڑے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں کراچی یونیورسٹی سے سزا کے طور پر نکال دیے گئے۔ جیل یاترا بھی کی۔ والد گرامی گروپ کیپٹن عطا ربانی قائد اعظم کے اے ڈی سی رہے ! سب سے بڑھ کر یہ کہ رضا ربانی کی شہرت وہ نہیں جو پارٹی کا غیر تحریری
(UN-WRITTEN)
منشور رہا ہے کہ کھائو پیو اور بولیاں لگائو۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ سرے محل سے لے کر ‘ فرانس کے اڑھائی سو سالہ پرانے قصرِ شاہی تک۔ اور یوسف رضا گیلانی صاحب کے سکینڈلوں سے چھلکتے عہدِ ہمایونی سے لے کر راجہ پرویز اشرف صاحب کے اندھیارے راج تک‘ کسی مقام پر میاں رضا ربانی صاحب نے احتجاج نہیں کیا! نہ ہی کبھی‘ دبے لفظوں ہی میں سہی‘ پارٹی پر خاندانی آمریت کے مضبوط ہوتے پنجوں کے خلاف آواز اٹھائی مگر آہ! پاکستانی سیاست کی مجبوریاں! کریں تو کیا کریں! جائیں تو کہاں جائیں! قمر زمان کائرہ صاحب سے لے کر رضا ربانی صاحب تک‘ خواجہ آصف صاحب سے لے کر چوہدری نثار علی خان صاحب تک۔ سب عمر رسیدہ سیاست دان‘ آئینے میں چاندی جیسے سفید بالوں کو دیکھ کر دل میں ضرور کہتے ہوں گے کہ ہماری عمریں اس دشت کی سیاحی میں گزر گئیں اور بلاول اور حمزہ شہباز اور بی بی مریم صفدر۔ کل کے بچے ہم سے بہت آگے نکل گئے۔ مگر ساتھ ہی ایک پرانے گیت کے بول ہوا میں اڑتے سنائی دیتے ہیں۔ طاہرہ سیّد نے کیا آواز پائی ہے!
چپ کر جا‘
نہ کر شور
نہیں چلنا تیرا زور
دشتِ سیاست میں عمر گزار دینے والے یہ معمر سیاست دان آج اپنی پارٹیاں چھوڑ بھی دیں تو سینگ کہیں نہیں سمائیں گے سوائے اس کے کہ ایک آوازملامت کرے ع
مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی
یا مومن کے بقول ؎
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلمان ہوں گے
مگر ایک موقع ایسا آیا ہے کہ میاں رضا ربانی تاریخ بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کو، اپنے ملک کو‘ وہ شے دے سکتے ہیں جس کے لیے خلق خدا ترس رہی ہے!
یہ بیس جولائی تھی ۔ بدھ کا دن ختم ہونے کے قریب تھا۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے درمیان سرحدی مقام چشمہ پر پولیس والے اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے تھے۔ ملک میں دہشت گردی نے جو صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ اس کے پیش نظر ڈی پی او میانوالی نے اپنے عملے کو سختی سے ہدایت کی کہ کے پی سے کوئی گاڑی بھی چھان بین کے بغیر نہ آنے دی جائے۔ اس مقصد کے لیے کمپیوٹرائزڈ ریموٹ سرچ کے کیمرے نصب کیے گئے۔ پولیس والے ہر گاڑی والے کو ادب و احترام کے ساتھ گزارش کرتے کہ کیمرے سے گزرنا ہے چند ثانیوں سے زیادہ کا کام بھی نہ تھا۔ سب اس قانون کی پابندی کر رہے تھے!
بیس جولائی کا دن آخری دموں پر تھا۔ رات کے گیارہ بجے تھے جب پولیس والوں کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ کے پی کی طرف سے ایک گاڑی آئی۔ جیسا کہ سب گاڑیوں کو کہا جا رہا تھا‘ اس گاڑی سے بھی گزارش کی گئی کہ سرچ کیمرے میں سے گزرے مگر گاڑی میں بیٹھی ہوئی شخصیت نے انکار کر دیا۔ پولیس والوں نے اصرار کیا۔ قانون سب کے لیے تھا مبینہ طور پر گاڑی میں بیٹھی ہوئی شخصیت نے کہا کہ وہ سینیٹر ہے۔ ’’میری گاڑی کی کوئی چیکنگ نہیں کر سکتا‘‘ پولیس والے مجبور تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کی جو صورت احوال ہے اس کے پیش نظر‘ اس قاعدے کی پابندی لازم ہے۔ مگر سینیٹر نے پولیس ملازمین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور یہ گاڑی چیکنگ کرائے بغیر‘ کیمرے کا سامنا کیے بغیر‘ قاعدے کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مارتے ہوئے اور قانون کو گاڑی کے پہیّوں تلے کچلتے ہوئے دارالحکومت کی طرف روانہ ہو گئی۔
یہ ہے اصل سرطان ۔ یہ ہے وہ کینسر جو اس ملک کو لاحق ہے! ملکی سالمیت پر قوم کے مستقبل پر اس سے زیادہ خطرناک وار نہیں ہو سکتا کہ کوئی کہے میں سینیٹر ہوں‘ یا میں ایم این اے ہوں یا میں وزیر ہوں‘ یا میں وزیر اعلیٰ ہوں یا میں بڑا افسر ہوں یا میں فلاں کا بھائی ہوں یا فلاں کا بیٹا ہوں! یہ دعویٰ ہی شدید احساس کمتری کی علامت ہے۔ یہ دعویٰ پس ماندگی کا نشان ہے! جو مہذب ہو گا‘ وہ قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا! قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے سے شان و شوکت گھٹتی نہیں‘ بڑھتی ہے! اس دھرتی پر بوجھ ہے جو یہ کہتا ہے ک میں فلاں ہوں اس لیے میری گاڑی کی چیکنگ کوئی نہیں کر سکتا! ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا کہنے کا‘ قواعد و ضوابط کو پائوں تلے کچلنے کا‘ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا! سنگا پور کے وزیر اعظم کے بیٹے نے ٹریفک کے قاعدے کی خلاف ورزی کی تو جیل میں ڈال دیا گیا، اس کی ماں نے پرائیویٹ شہری کی حیثیت میں اس مقدمے کا سامنا کیا۔ ایک نہیں سینکڑوں ہزاروں مثالیں ہیں۔
یہ ہے اصل بیماری جو اس ملک کو پاتال کی طرف لے جا رہی ہے اور تیزی سے لے جا رہی ہے۔ کوئی بڑا ہوائی اڈہ ‘ کوئی میٹرو بس‘ کوئی اورنج یا بلیو یا گرین یا گرے یا پنک ٹرین اس سرطان کا علاج نہیں! کوئی فی کس شرح آمدنی ہمیں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں نہیں کھڑا کر سکتی جب تک کہ قانون کو چیلنج کرنے والوں کے دہانے کھول کر‘ قانون ان کے اندر نہ انڈیلا جائے۔ مشرق وسطیٰ کا ایک ملک قومی آمدنی اور فی کس آمدنی کے حوالے سے کئی مغربی ملکوں سے آگے ہے شاہراہیں وہاں اتنی چوڑی ہیں کہ رن وے کا کام دے سکتی ہیں! سپر سٹور دنیا بھر کی مصنوعات سے اور پھلوں سے اور اشیائے خوردنی سے اٹے پڑے ہیں۔ گاڑیاں ایسی ایسی سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں کہ کیلی فورنیا کے امرا دیکھیں تو رشک کریں۔ مگر یہ ملک ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں نہیں گنا جاتا، اس لیے کہ شاہی خاندان کا کوئی فرد‘ کسی بھی قطار سے گزر کر‘ سب سے آگے کھڑا ہو جاتا ہے! قانون اس کے آگے بے بس ہے!
میاں رضا ربانی کی ساری زندگی آئین کے لیے جدوجہد کرتے گزری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ وہ سینیٹ کے چیئرمین ہیں۔ سربراہ ہیں! اگر وہ اس قانون شکنی پر خاموش رہتے ہیں تو خاموشی نیم رضا! یعنی پھر وہ گویا اپنے ادارے کے رکن کے‘سینیٹر کے‘ اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں سینیٹ کے چیئرمین کو رولنگ دینا ہو گی کہ کیا صرف ایک سینیٹر قانون سے ماورا ہے یا سب ماورا ہیں؟ اور کیا گاڑیوں کی چیکنگ کے ضابطے ہی کو پائوں تلے ایک سینیٹر پامال کر سکتا ہے یا کسی بھی ضابطے کو؟
ہمت کیجیے! میاں رضا ربانی صاحب! اپنے بڑے والد کے نام کی لاج رکھیے۔ ایوان میں اس سینیٹر کو کھڑا کیجیے اور اسے بتائیے کہ سینیٹ کا رکن ہونا‘ کسی بھی قانون سے‘ کسی بھی ضابطے سے ‘ کسی بھی قاعدے سے‘ کسی بھی رول سے‘ استثنیٰ نہیں دیتا۔ قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہیں۔ کیمرے کی آنکھ سے سب کو گزرنا ہے!اور میاں رضا ربانی صاحب ع
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!
No comments:
Post a Comment