Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, July 09, 2016

ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ

شاہی قافلے میں سینکڑوں ہاتھی تھے۔ کتنے ہی ہاتھیوں پر بادشاہ کا ذاتی سامان لدا تھا۔ کشمیر جاتے ہوئے بھمبر وہ مقام تھا، جہاں ہاتھی رُک جاتے تھے۔ اس سے آگے قلی سامان لے جانے پر مامور تھے۔ بادشاہ کا ذاتی سامان پانچ ہزار قلی اُٹھاتے تھے!
فرض کیجیے، شاہ جہان اور اورنگ زیب کے زمانے میں پارلیمنٹ ہوتی! کیا پھر بھی شاہی سامان ڈھونے پر خزانہ بے دریغ خرچ کیا جاتا؟
مغل بادشاہت کے برعکس ہمارے ہاں جمہوریت کا راج ہے۔ ایک پارلیمنٹ ہے۔ اس کے ارکان منتخب ہیں! کیا پارلیمنٹ اس بات کا نوٹس لے گی کہ وزیراعظم کو لندن سے واپس لانے کے لیے خصوصی طیارہ پاکستان سے بھیجا جا رہا ہے؟ غالباً نہیں! اس لیے کہ پارلیمنٹ میں دم خم نہیں! اکثریت ایسے ارکان کی ہے جو بولتے ہیں نہ کسی معاملے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ صرف چند ممبر ہیں جو سرگرم ہیں۔ مگر و زیراعظم پر اُٹھنے والے بے جا اخراجات پر احتجاج کرنے والا کوئی نہیں! یہ ایسی پارلیمنٹ ہے جس کے ارکان خود اپنی مراعات بڑھانے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں اور جب بھی مراعات بڑھانے کا مسئلہ در پیش ہو، مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں!
حکمران کو راہِ راست پر رکھنے کی صرف دو صورتیں ہیں! پہلی یہ کہ حکمران خود محتاط ہو۔ قومی خزانے کے سلسلے میں حساس ہو، اپنا محاسبہ خود کرے اور مسلسل کرتا رہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے مسند آرائے خلافت ہونے کے بعد جو اقدامات کیے، جاگیریں شاہی خاندان سے واپس لیں، اپنی زندگی جس طرح ازحد سادہ کرلی، اس پر انہیں کسی پارلیمنٹ نے یا کسی نگران ادارے نے مجبور نہیں کیا تھا۔ یہ سب کچھ وہ اپنے آپ کر رہے تھے۔ قائداعظم جس طرح سرکاری گاڑی اور سرکاری طیارہ لینے میں حد درجہ چھان بین کر رہے تھے، انہیں کسی ادارے نے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا، یہ ان کی ذات کے اندر رچی ہوئی قانون پسندی تھی۔
اور اگر حکمران بے حس ہو تو عوام یا عوام کے نمائندے ایسے ہوں جو اُسے تیر کی طرح سیدھا رکھیں! ادارے ترقی یافتہ شکلیں اختیار کر چکے ہیں۔ آڈیٹر جنرل کا ادارہ پارلیمنٹ کا حصہ ہے۔ کیا آڈیٹر جنرل کا ادارہ ایوانِ وزیراعظم اور ایوانِ صدر کا محاسبہ اسی طرح کرتا ہے جیسے باقی محکموں کا؟ یاد نہیں پڑتا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں کبھی اِن بلند ایوانوں سے کوئی پرنسپل سیکرٹری، کمیٹی کے سامنے پیش ہوا ہو اور اخراجات کا دفاع کیا ہو!
برطانوی وزیرخزانہ جارج اَوسبورن نے چند دن پہلے اپنی قوم کو بتایا کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر حکومتی اخراجات کو کاٹ کر کم کیا جا رہا ہے۔ اگر وزیرخزانہ اخراجات پر کلہاڑا چلانے کے بجائے ٹیکسوں میں اضافہ کرتے تو پارلیمنٹ میں طوفان کھڑا ہو جاتا! ایک ایک ٹیکس کا دفاع کرنا پڑتا۔ سوال جواب ہوتے۔ اور اگر ارکان پارلیمنٹ مطمئن نہ ہوتے تو ٹیکس کے احکام واپس لینے پڑتے!
خصوصی طیارہ جو بھیجا جا رہا ہے، اس میں وزیراعظم کے خاندان کے افراد بھی ہوںگے۔ کیا وہ سفرکے اخراجات قومی خزانے میں داخل کریں گے؟ یا وہ بھی’’عوامی مہمان‘‘ ہوں گے؟ ان سوالوں کا جواب شاید ٹیکس دہندگان کو کبھی نہ ملے۔ جو پارلیمنٹ اس قدر بے جان ہو کہ یہ بھی نہ پوچھ سکے کہ وزیراعظم کی ملک سے طویل غیر حاضری کے دوران سربراہ حکومت کے فرائض کون سرانجام دے رہا ہے، اُس پارلیمنٹ میں اتنی ہمت کہاں کہ قومی خز انے کی حفاظت کر سکے۔ ادارے کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں۔ پارلیمنٹ نے آج تک یہ نہیں پوچھا کہ فیڈرل پبلک سروسز کمیشن کے ارکان اور چیئرمین کے انتخاب کا معیار کیا ہے؟ کیا صرف وزیراعظم کا اشارۂ ابرو یہ انتخاب کرتا ہے؟ وفاقی محتسب کا ادارہ ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کا قبرستان بن چکا ہے۔ درجنوں نہیں، بیسیوں ضعیف اور ازکار رفتہ نوکرشاہی کے سابق ارکان قومی خزانے کو چوس رہے ہیں۔ یوں بھی سرکاری اداروں کے لیے وفاقی محتسب کے احکام صرف سفارش کا درجہ رکھتے ہیں۔ لازم نہیں کہ ان کی تعمیل کی جائے۔
پارلیمنٹ کے بے حسی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ایک وفاقی وزیر اعلان کرتا ہے کہ افغان مہاجرین نے دس لاکھ ملازمتوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اگر ایسا ہوشربا انکشاف کسی جیتی جاگتی قوم میں کیا جاتا تو پارلیمنٹ میں ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔ اِن ملازمتوں کی تفصیلی فہرست مانگی جاتی! ملازمتیں مہیا کرنے والوں کے نام شائع کرنے پڑتے، پھر ان کوسزائیں دی جاتیں۔ مگر یہاں پارلیمنٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی! دس لاکھ نہیں، دس کروڑ ملازمتیں غیر ملکیوں کو دے دیجیے، زمین لرزے گی نہ آسمان ٹوٹے گا!
جنرل راحیل شریف نے جب آرمی پبلک سکول پشاور کے متاثرہ خاندانوں اور قبائلی علاقوں کے بے گھر خاندانوں کو تحائف بھیجے اور جب عید کی نماز شمالی وزیرستان میں صف آرا عساکر کے ساتھ ادا کی تو یہ ان کی اپنی سوچ تھی! انہیں کسی قانون، کسی ادارے، کسی پارلیمنٹ نے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا! یہ لیڈر شپ کی کوائلٹی تھی جس کا اظہار انہوں نے کیا۔ فارسی میں کہتے ہیں فکرِ ہر کس بقدر ہمتِ اوست!
ہر شخص کا اندازِ فکر، اس کی ہمت پر منحصر ہے یعنی اُس کا ذہن کہاں تک کام کرتا ہے؟ اس کی سوچ کا معیار کتنا بلند یا پست ہے؟ وزیراعظم کے خاندان کے اکثر افراد نے عید ان کے ساتھ لندن میں منائی! وزیراعظم کا اندازِ فکر مختلف ہوتا تو وہ شہباز شریف کو حکم دیتے کہ وہ عید کا دن عساکر کے ساتھ افغان بارڈر پر گزاریں یا جب کراچی میں لاکھوں غم زدگان امجد صابری کا سوگ منا رہے تھے، وزیراعظم اُس موقع پر ایک عالی شان گراں ترین سٹور پر شاپنگ سے گریز کرتے! مگر لگتا ہے کہ قوم کی سمت الگ ہے اور وزیراعظم اپنے خاندان کی معیت میں ایک اور سمت رواں ہیں۔ من چہ می سرایم وطنبورۂ من چہ می سراید! میں کچھ اور گا رہا ہوں مگر میرا طنبورہ کچھ اور! وزیراعظم کی بے نیازی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل قوم کے ساتھ نہیں! ان کی اپنی الگ دنیا ہے، جس میں ان کی ذات اور ان کا خاندان ان کی اوّلین ترجیح ہے۔ 
ان کی واپسی پر ’’فقید المثال‘‘ استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں! صرف ایک کسر رہ گئی ہے کہ دربار منعقد ہو اور استاد ذوق غسلِ صحت کی خوشی میں قصیدہ پڑھیں!
جب رعایا کا محبوب وزیراعظم لندن کے مہنگے سٹوروں میں خریداری کر رہا تھا، لندن کی دُھلی ہوئی عالی شان شاہراہوں پر چہل قدمی کر رہا تھا اور ریستوران میں نرم و لطیف چائے کے دل آویز گھونٹ بھر رہا تھا، اُس وقت رعایا کیا کر رہی تھی؟ رمضان کے دوران گرمی بے پناہ تھی، لوڈ شیڈنگ زوروں پر تھی، عید قریب آئی تو قیمتوں کا گراف مسلسل اوپر جانے لگا، کوئی والی تھانہ وارث! وزیراعظم کی پسندیدہ تاجر کمیونٹی نے خوب ہاتھ رنگے۔ چار سو کی شے ڈیڑھ ہزار میں بیچی اور اگلے عمرہ کے لیے فوراً ارادہ کر لیا! گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ کاریں چوری ہو رہی ہیں۔ شاہراہوں پر لاقانونیت کا مکمل راج ہے۔ ٹریفک کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ریاست کا سرے سے وجود ہی نہیں!
یہ تسلیم کرنے میں کیا مضائقہ ہے کہ سندھ حکومت کا مرکز دبئی میں ہے اور مرکزی حکومت، کم از کم، گزشتہ چند مہینوں سے وہیں ہے جہاں لارڈ کلائیو پیدا ہوا تھا!
رہی متبادل قیادت تو اس کا عالم یہ ہے کہ تیس کروڑ کی خطیر رقم ایک خاص مدرسہ کی نذر کی گئی۔ عمران خان پہلے تو اس غلط بخشی کا دفاع کرتے رہے، اب سنا ہے کہ وزیراعلیٰ سے پوچھ رہے ہیں کہ رقم کیوں دی گئی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ نے کابینہ سے مشورہ کیے بغیر یہ کام کیا۔ بہر طور صوبے کی اسمبلی اس سے بے خبر تھی! یہی کچھ پنجاب میں چلتا ہے، یعنی فردِ واحد کا فرمان!گویا متبادل قیادت میں متبادل کوئی نہیں صرف قیادت ہے۔ عوام کو چاہیے کہ مصطفی زیدی کے مشورہ پر عمل کریں   ؎
ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com