ہمارے ایک دوست مفت ڈسپنسری چلاتے ہیں۔ سینکڑوں ایسے مریض جو ڈاکٹروں کی فیس اور دوائوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے‘ اس ڈسپنسری میں جاتے ہیں۔ یہاں لیبارٹری بھی ہے، ضروری ٹیسٹ مفت کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے دوست کے جاننے والے‘ ان کے رشتہ دار‘ احباب‘ متعلقین ڈسپنسری کے لیے فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ دامے درمے‘ جو کسی کی استطاعت ہے‘ ان کے حوالے کر دیتا ہے۔ کبھی کوئی خوشحال مریض آ نکلے تو وہ بھی عطیہ دیتا ہے۔ ایک صاحب نے ایک مشین لیبارٹری کی نذرکی!
آپ کا کیا خیال ہے جو رقوم‘ درد مند حضرات ڈسپنسری کے اخراجات کے لیے دیتے ہیں‘ اگر ہمارے دوست‘ اس میں سے کچھ حصہ اپنے گھر کے اخراجات کے لیے رکھ لیں‘ اس میں سے بچے کو موٹر سائیکل خرید دیں یا ان پیسوں سے مری، نتھیا گلی سیر کے لیے چلے جائیں تو کیا یہ جائز ہو گا؟ آپ کا جواب یقیناً نہیں میں ہوگا۔ اس لیے کہ ڈسپنسری خدمت کے لیے کھولی گئی ہے،کاروبار کے لیے نہیں! خدمت اور کاروبار میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ’’خدمت‘‘ کا منصوبہ ہو تو آپ عطیات وصول کر سکتے ہیں بشرطیکہ دیانت داری کے ساتھ ایک ایک پائی خدمت ہی پر صرف کی جائے۔ کاروبار آپ اپنے سرمایے سے کریں گے، کوئی دوسرا حصہ ڈالے گا تو شراکت دار کہلائے گا۔ پیسے پیسے کا حساب مانگے گا اور یہ حساب مانگنا اس کا حق ہو گا۔ پرائیویٹ کلینک چلانے والے ڈاکٹر خدمت نہیں‘ کاروبار کرتے ہیں۔ اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی‘ جہاں چاہیں خرچ کریں، سیرو تفریح کریں یا بھنگ پئیں‘ کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں!
خدمت اور کاروبار میں واضح فرق ہے۔ ایدھی صاحب کی رحلت نے اس فرق کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ خدمت خلق ایدھی صاحب کا کاروبار نہیں تھا‘ یہ سو فیصد خدمت تھی! وہ عوام سے عطیات لیتے تھے۔ نقد بھی، زیورات بھی‘ کھالیں بھی‘ کپڑے بھی‘ یہ سب کچھ ان کے ذاتی اخراجات سے الگ تھا۔ اس میں سے وہ ایک پیسہ بھی اپنے اوپر، اپنے اہل و عیال پر خرچ نہیں کرتے تھے۔ انہی کی زبانی سنیے۔ (یہ فقرے نذیر ناجی صاحب کے کالم سے منقول ہیں جو روزنامہ دنیا کی دس جولائی کی اشاعت میں چھپا ہے۔)
’’ایدھی ٹرسٹ کے اخراجات گھر سے بالکل الگ ہیں۔ اور ٹرسٹ کا ایک پیسہ بھی ذاتی طور پر استعمال نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ ذاتی جائیداد میں میٹھادر والا مکان جو شروع میں 1300روپے کا خریدا گیا تھا وہ بلقیس ایدھی کے نام پر ہے جبکہ چھاپہ گلی والا چھوٹا سا مکان جس سے والدین اور بہن بھائی کا جنازہ اٹھا تھا میرے نام پر ہے۔ گھر کے خرچے کے لیے پہلے دکانیں تھیں وہاں سے بھی کرایہ آتا تھا۔ اگر اخراجات سے کچھ پیسہ بچتا ہے‘ تو وہ بھی ایدھی ٹرسٹ میں ڈال دیا جاتا ہے‘‘۔
ایدھی صاحب کا طرز زندگی سب کے سامنے تھا۔ ناشتے میں سوکھی روٹی‘ کھانا فرش پر یا چارپائی پر! کپڑوں کے دو جوڑے‘ جوتے کینوس کے! یہی وہ طرز زندگی ہے جو ایدھی صاحب کے اس دعوے کو سچ کرتا ہے کہ ’’ٹرسٹ کا ایک پیسہ بھی ذاتی طور پر استعمال نہیں کرتا‘‘۔
ملک میں لاکھوں تعلیمی ادارے عطیات پر چل رہے ہیں۔ ان اداروں میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کے چلانے والوں میں معروف شخصیات بھی ہیں۔کیا ان تعلیمی اداروں کے چلانے والے ایدھی صاحب کی طرح یہ دعویٰ کر سکتے ہیںکہ عطیات کی رقم جو عوام ادارے کے لیے دیتے ہیں، ان کی ذات پر، ان کے اہل و عیال پر خرچ نہیں کی جاتی؟ اس سوال کا جواب آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی! اگرچہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے جو مذہب کے حوالے سے عطیات وصول کرتے ہیں (اندرون ملک سے بھی اور بیرون ملک سے بھی) ’’خدمت‘‘ ہے تو پھر عوام جس مقصد کے لیے عطیات دیتے ہیں‘ اس مقصد کے علاوہ ایک پیسہ بھی کہیں اور خرچ ہوگا تو بددیانتی ہوگی۔ اگر کاروبار ہے تو پھر وہ عطیات سے نہیں ہو سکتا! اگر عطیات کی رقم سے جہازوں میں سفر ہو رہے ہیں‘ صاحبزادگان قیمتی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں‘ ایک قابل رشک معیار زندگی رکھا جا رہا ہے تو پھر ’’خدمت‘‘ خدمت نہیں‘ کاروبار ہے!!
جو افسوسناک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر گردش میں ہے اور جسے کروڑوں لوگ دیکھ کر اور سن کرکانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں‘ اس کی تہہ میں یہی مسئلہ ہے! ایدھی صاحب ’’ملحد‘‘ اور ’’زندیق‘‘ اس لیے تھے کہ عوام ان پر اعتماد کرتے ہوئے عطیات انہیں دیتے تھے۔ عطیات اس لیے دیتے تھے کہ ان کی رہائش گاہ اور لباس لوگوں کو نظر آ رہا تھا! یہ جو شکوہ ہے کہ ’’لوگ جا کر زندیق کے ادارے کو دیتے ہیں، صدقے کے بکرے وہاں دیتے ہیں، زکوٰۃ خیرات وہاں دیتے ہیں‘‘ تو یہی اعتراض کا لب لباب ہے۔ اسی بنا پر یہ ’’فیصلہ‘‘ کیا گیا ہے کہ وہ جہنم میں جائے گا اور اسے صدقہ خیرات دینے والے بھی اللہ کے عذاب کے لیے تیار رہیں! اس قسم کے اعلانات سے دین کی کیا خدمت ہوئی؟ اچھے بھلے مذہبی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس انداز گفتگو کی وجہ سے مذہب سے متنفر ہو رہے ہیں۔ ان کے تاثرات سوشل میڈیا پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ کہاں یہ فرمان الٰہی کہ ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دانش مندی اور اچھی نصیحت سے بلائو اور بحث کرو پسندیدہ طریقے کے ساتھ۔۔۔۔‘‘ اور کہاں بات بات پر لعنت‘ منہ توڑ دینے کی دھمکی۔ عذاب کی وعید، جہنمی ہونے کا اعلان! اور دوبارہ نکاح پڑھوانے کی ہدایت!!
یقیناً اب بھی ایسے دیانت دار لوگ موجود ہیں جو تعلیمی اداروں کو خدمت سمجھ کر چلا رہے ہیں۔ ان میں علماء بھی ہیں اور دوسرے شعبوں کے لوگ بھی۔ علماء میں ہر مسلک اور ہر مکتب کے کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات عطیات سے نہیں‘ اپنے ذاتی وسائل سے پورے کرتے ہیں! مگر ماضی میں علماء کرام کی اکثریت اس طرح کی تھی! قرآن پاک کے معروف مفسر اور استاد مولانا حسین علی جو میانوالی کے علاقے واں بھچراں سے تھے‘ ان کے بارے میں بزرگوں سے سنا ہے کہ اپنے کھیتوں میں خود ہل چلاتے تھے اور ہل چلاتے ہوئے طلبہ کو پڑھاتے بھی جاتے تھے۔ یہ مولانا حسین علی وہی ہیں جو والد محترم کے دوست اور بزرگ مولانا غلام اللہ خان کے استاد تھے۔ محب گرام میجر عامر کے والد گرامی مولانا محمد طاہر(پنج پیر) بھی انہیں کے شاگرد تھے۔ والد گرامی کے استاد حضرت مولانا قاضی شمس الدین طلبہ کو پڑھاتے تھے مگر اپنے گھر کا خرچ پورا کرنے کے لیے صابن بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری لگا رکھی تھی اور یوں صابن فروخت کر کے گزر اوقات کرتے تھے! جون ایلیا نے اپنے پہلے مجموعہ کلام ’’شاید‘‘ کے طویل دیباچہ میں ایک پیراگراف دلچسپ لکھا ہے:
’’علمائے دیو بند وطن پرستانہ سیاست کے حامی تھے، آج یہ معاملہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ مجھے ان علماء کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ کسی طرح بھی دنیا دار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ وہ درویشانہ زندگی گزارتے تھے اور انہوں نے افلاس اور فاقہ کشی کی زندگی رضا کارانہ طور پر اختیار کی تھی۔ میں عربی ادب اور فلسفے میں ان کا ایک ادنیٰ شاگرد رہا ہوں۔ میں ان کا واحد شہری طالب علم رہ گیا تھا جو اپنے ذاتی شوق میں عربی ادب اور فلسفہ پڑھ رہا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ مہینے میں ان علماء کی فاقہ کشی کا کیا اوسط تھا؟ جب میں ان کے بارے میں یہ سنتا تھا کہ یہ لوگ بکے ہوئے ہیں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ آپ اپنے نظریاتی حریفوں سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کیجیے مگر گالیاں تو نہ دیجیے‘‘۔
جون ایلیا آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’ہمارے ماحول کا اپنے غیر مذہبی نوجوانوں کے بارے میں بہت فراخ دلانہ رویہ تھا۔ علماء ان کے باغیانہ اور منکرانہ خیالات سن کر مسکرا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مطالعہ کرتے رہے تو راہ راست پر آ جائیں گے۔ ان ملحد نوجوانوں کے حق میں جو سب سے زیادہ نامہربان بلکہ شدید فیصلہ صادر کیا جاتا تھا وہ یہ تھا کہ پڑھ بہت لیا ہے اس لیے ہضم نہیں ہوا!‘‘
بات خدمت اور کاروبار سے چلی تھی اور قوتِ برداشت تک پہنچ گئی۔ خدمت اورکاروبار میں فرق ہے۔ اس فرق کو کوئی نہیں مٹا سکتا! جو عطیات دیتے ہیں وہ عطیات وصول کرنے والے کا طرز زندگی پرکھنے کا حق رکھتے ہیں اور حساب کتاب کا معائنہ کرنے کا بھی!!
No comments:
Post a Comment