رخصت ہو رہا ہوں۔ اگلے برس پھر آؤںگا۔ تم میں سے جو زندہ رہے ان سے پھر سامنا ہو گا، جو نہ رہے ان کی کارکردگی کی رپورٹ اُن تک پہنچ جائے گی!
بظاہر میں خاموش ہوں۔کچھ تو ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے میری آمد ہی نہیں ہوئی۔ لیکن میرا حال بھی اُن ستاروں جیسا ہے جن کا ترانہ تمہارے شاعر اقبال نے لکھا تھا کہ ’’می نگریم و می رویم‘‘ دیکھتے جاتے ہیں اور گزرتے جاتے ہیں! میں بھی سب کچھ دیکھتا ہوں خاموشی سے اور گزرتا جاتا ہوں۔
مجھے سب معلوم ہے، ان کا بھی جو تحریروں اور تقریروں میں میرے فضائل بیان کرتے ہیں۔ صبح اُٹھ کر پراٹھے کھاتے ہیں، دن کو سردائیاں نوش فرماتے ہیں، سہ پہر کو چائے اور پھر شام کو افطار ڈنر اٹنڈ کرتے ہیں۔
اُن کا بھی پتا ہے جو رات کو قیام کرتے ہیں۔ سحری اٹھتے ہیں۔ نمازِ فجر التزام سے پڑھتے ہیں، دن بھر بھوکے پیاسے رہتے ہیں مگر جھوٹ بولتے ہیں۔ قسمیں اٹھاتے ہیں۔ دعوے کرتے ہیں۔ عہد و پہچان باندھتے ہیں۔ پھر سب کچھ توڑ دیتے ہیں۔ عہد و پیمان بھی قسمیں بھی! مردہ بھائیوں کا گوشت مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ ہر ناجائز منافع خوری کے بعد الحمد للہ کہتے ہیں۔
انہیں بھی جانتا ہوں جو حرمین شریفین میں سینکڑوںکو افطارکرواتے ہیں، وڈیو لنک کے ذریعے اہتمام کرتے ہیں، جن کے اپنے سرونٹ کوارٹر میں اور پڑوس میں خلقِ خدا ٹھنڈے پانی اور گرم سالن کے بغیر روزہ کھولتی ہے!
ایک ایک تاجر کا معلوم ہے جو میرے آتے ہی کمر کس لیتا ہے۔ سال بھر اتنا نفع نہیں نچوڑتا جتنا مجھ ایک مہینے میں! تجوریاں بھر جاتی ہیں! نوکر شاہی کے اُن کارندوں کو بھی جانتا ہوں جو میرے کاندھے پر بندوق رکھ کر اپنے ہدف پورے کرتے ہیں۔ جن سے کام پڑتا ہے، انہیں افطاریوں پر بلاتے ہیں؛ حالانکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنہیں بلا رہے ہیں، اُن کا مجھ سے دور کا تعلق بھی نہیں! انہیں بھی جانتا ہوں جو اہتمام سے میرے آخری عشرے میں حرمین کا قصد کرتے ہیں! افسوس آج تک انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ حج اور عمرہ سے زیرو میٹر دوبارہ نہیں شروع ہوتا۔ ہزار طواف کرنے سے بھی حقوق العباد معاف نہیں ہوںگے۔ جس کا مال باطل طریقے سے کھایا ہے، جس کا حق مار کر دوسرے کو نوازا ہے، جس سے وعدہ خلافی کر کے اس کا دل دکھایا ہے، صرف وہی معاف کر سکتا ہے! ان کا بھی معلوم ہے جو میرا نام لے کر ڈیوٹیوں پر تاخیر سے حاضر ہوتے ہیں اور مقررہ وقت سے پہلے سائلوںکو منتظر چھوڑکر اُٹھ آتے ہیں! وہ بھی میری نگاہوں میں ہیں جن کی سحری بھی رزقِ حرام سے ہوتی ہے اور افطار بھی ناجائز مال سے۔
اُن گویوں، پارچہ فروشوں، مسخروں، صدا کاروں، اداکاروں کو بھی اندر باہر سے پہچانتا ہوں جو میرے آتے ہی مذہبی سکالر بن جاتے ہیں۔ پردۂ سیمیں پر تھرکتے ہیں، ٹھٹھے کرتے ہیں، نخرے عشوے کر کے اُن مولویوں سے میرے فضائل کے بارے میں سوالات پوچھتے ہیں جو علمِ دین کے نہیں، پی آر کے ماہر ہیں۔ جن کے چہروں پر نور نہیں، سیروں خضاب کی کالک ہے اور جو کیمرے کے سامنے اسی طرح مسکرانے کی ایکٹنگ کرتے ہیں جیسے پردہ سیمیں کے دوسرے ’’ماہرین‘‘! آہ! اِن ظالموں نے مجھے بھی ریٹنگ بڑھانے اور معاوضے دو چند کرانے کا ذریعہ بنا لیا! چودہ سو سال میں میری اس قدر بے حرمتی نہیں ہوئی، جتنی اب یہ کیمرہ بریگیڈ کر رہا ہے! مجھے اُن دعاؤں کی تاثیر کا بھی علم ہے جو کیمرے کے سامنے مانگی جاتی ہیں۔ اُن آنسوئوں کی حقیقت بھی جانتا ہوں جو صرف تیز روشنی میں نکلتے ہیں! قرآن فروشی کے اُن خطیر معاوضوں کا بھی علم ہے جو بزرگوں کے مشورے سے ’’قرض‘‘ کے طور پر وصول کیے جاتے ہیں اور بعد میں چینل والے یہ ’’قرض‘‘ معاف کر دیتے ہیں! مکر کیا اِن ظالموں نے! اللہ ان سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے اور میںخود ان چالبازیوں، مکاریوں، حیلوں، فریب کاریوں کا گواہ ہوں!
رہے وہ حُفّاظ جو مجھے دیکھتے ہی مصلوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے پیچھے دست بستہ مقتدی! تو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اُس قرآن کی پانچ آیات کا مفہوم بھی ان ریاضت کیشوں کو نہیں معلوم، جسے وہ اہتمام سے ہر رات سنتے اور سناتے ہیں! جس میں تکبّر سے اور دروغ گوئی سے، اور حرام مال کھانے سے، اور جھوٹ سے اور عہد شکنی سے اور قطع رحمی سے اور بخل سے اور حسد سے اور غیبت سے، اور نفاق سے اور جھگڑنے سے اور دوسروں کا نام رکھنے اور بگاڑنے سے اور کج بحثی سے اور اسراف و تبذیر سے اور یتیموں کا مال کھانے سے اور وارثوں کا حصہ ہڑپ کرنے سے جا بجا منع کیا گیا ہے! قرآن کا مطلب تو دور کی بات ہے، ان کی اکثریت کو تو اُس نماز کا مطلب نہیں معلوم جو دن میں پانچ بار پڑھتے ہیں۔ یہ تو اُن دعاؤں کا معنی نہیں جانتے جو امام صاحب ہر نماز کے بعد دہراتے ہیں اور یہ آمین کہتے جاتے ہیں!
میں عبادت تھا، انہوں نے عادت بنا ڈالا؛ میں امتحان تھا،انہوں نے کھیل میں بدل دیا۔ میں ایثار سکھانے آیا تھا، انہوں نے شکم اور تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ اس پر تو جھگڑتے رہے کہ ٹوتھ پیسٹ سے روزہ ٹوتا ہے یا نہیں، اس کی فکر نہیں کی کہ جھوٹ بولنے سے مجھ پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ اس بحث میں پڑے رہے کہ ٹیکہ لگوانا درست ہے یا نہیں اور خلقِ خدا کو یہ مسلسل ٹیکے لگاتے رہے۔ یہ اس فکر میں غلطاں رہے کہ دس منٹ پہلے روزہ کھولیں یا دس منٹ بعد، مگر یہ نہ سوچا کہ قبولیت کا معیار اور ہے۔ یہ اس شوق میں رہے کہ روزہ ایک ہی دن شروع اور ایک ہی دن ختم ہو مگر اس کی پروا نہیں کہ اتحاد دلوں کے جُڑنے سے ہوتا ہے۔ فرقوں، مسلکوں، نسلوں، زبانوں میں بٹی ہوئی اس نام نہاد قوم نے ایک ہی دن روزہ شروع کر دیا توکیا حاصل کیا؟ یہ تو ایک دوسرے کی مسجد میں، ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھ سکتے۔ ان کے تو مدارس بھی فرقوں کی بنیاد پر چل رہے ہیں! ان کی تو دستاروں کے رنگ مسلکوں کی بنیاد پر ہیں! چاند دیکھے جانے یہ نہ نظر آنے پر ان کے جھگڑے دیکھ کر میں تبسم کرتا ہوں کہ ایک ہی دن ہونے والی اس عید کا کیا فائدہ جس کے دوسرے دن شاہراہوں پر ٹریفک کی بد نظمی دیکھ کر ریوڑوں میں چلنے والے مویشی بھی نفرین بھیجیں۔ جانوروں سے بدتر اُن لفنٹروں نے جن کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے خلقِ خدا بچ نکلنے کا شکر ادا کرے، ایک ہی دن عید منا بھی لی تو کس جنت کی ضمانت مل جائے گی؟
جا رہا ہوں۔ تمہارے اعمال کی پوٹلیاں اور کرتوتوں کی گٹھڑیاں ساتھ لیے جا رہا ہوں۔ تم میں سے جو زندہ رہے انہیں اگلے برس پھر آزماؤںگا۔
No comments:
Post a Comment