جان جوکھوں کی مہم ہے! مجھ معمر شخص کے لیے جان جوکھوں کی مہم!!
آٹھ سالہ لڑکا غچہ دے کر اڑتے ہوئے غالیچے پر سوار ہوگیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے غالیچہ، جس پر چھت تھی اور آگے کل لگی تھی اوپر اٹھا اڑنے لگا، پھر دور ہوتا ہوتا ایک نقطے کی صورت اختیار کر گیا۔ ابھی میں جیب میں رومال ٹٹول رہا تھا، ادھر وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔
کڑک کی آواز تو نہیں آئی مگر کچھ ہوا ضرور ہوگا۔ ابھی تو دن تھا۔ ابھی رات پڑ گئی۔ اور کیسی رات، چراغ نہ جگنو، تارا نہ چاندنی، کوئی آواز نہیں، شاید ہوا ناپید ہو گئی۔ سانس لینے کے لیے ہوانہیں تو آواز کیسی؟
کیا کرسکتا ہوں۔ میں ایک عمر رسیدہ شخص کیا کرسکتا ہوں۔ میرا تو زمانہ لد چکا۔ اڑتے ہوئے غالیچے کا کیسے تعاقب کروں۔ میں نے درد کی زین کسی اور ہجر کے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ کہاں گھوڑا، کہاں غالیچہ۔ غالیچے کا رخ بحرالکاہل کی طرف ہے۔ عناصر کو زیردست کرتا، فضائوں کو چیرتا، بادلوں سے بہت اوپر، آسمانوں سے اک ذرا اس طرف، غالیچہ اڑتا چلا جارہا ہے۔ نیچے زمین پر۔ میری زمین پر۔ سب پیچھے رہے جاتے ہیں۔ سمندر، دریا، پہاڑ، ملک، شہر، قصبے، کھیت، کارخانے، جنگل سب پیچھے رہے جاتے ہیں۔ فرسنگ در فرسنگ منزل بہ منزل، اقلیم در اقلیم، وہ تمام تصوراتی خطوط جو جغرافیہ دانوں نے کرۂ ارض پر کھینچے تھے، لڑکا انہیں عبور کرتا جارہا ہے۔
میں ہجر کی سواری پر کتنا دور جا سکتا ہوں۔ کہیں نہیں، جدائی نے اردگرد حصار کھینچا ہوا ہے۔ اسی کے اندر رہنا ہے
ستارے کاٹتا ہوں راستہ بناتا ہوں
مرا ہی کام ہے جس طرح صبح کرتا ہوں
فراق میرا عصا یاد میری بینائی
تو آکے دیکھ کہ میں اب بھی چلتا پھرتا ہوں
جہاں سے گزرے گا وہ باد پا سواری پر
میں
ہجر اوڑھ کے اس راستے پہ بیٹھا ہوں
جدائی بن کے بچھالی ہے فرش پر اظہار
اسی پہ بیٹھ کے روتا، اسی پہ سوتا ہوں
(2)
چڑیا نے بچوں کے منہ میں دانہ دانہ چوگ ڈالی۔ خود موسموں کی سختیاں برداشت کیں۔ اڑتے اڑتے پر تھکا دیئے، خوراک ڈھونڈتے ڈھونڈتے نظر کمزور پڑنے لگی۔ دانہ دانہ، ذرہ ذرہ، قطرہ قطرہ، کھلاتی رہتی، پلاتی رہی، کووں سے اور چیلوں سے اور عقابوں سے حفاظت کرتی رہی۔ پھر کیا ہوا؟ بچے بڑے ہو گئے۔ ایک دن آیا کہ گونسلا چھوڑ گئے۔ گھونسلا خالی ہو گیا۔
یہ خالی گھونسلے کا قصہ صرف چڑیا اور اس کے بچوں کے حوالے سے نہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو نفسیات میں ایک نیا باب بن چکا ہے۔ اسے
Empty nest Syndrome
کہا جاتا ہے۔ اس کی علامات بیان کی جاتی ہیں، پھر ایسی تدبیریں بتائی جاتی ہیں جو اس ’’ابتلا‘‘ کا مقابلہ کرنے میں ممد ثابت ہوسکتی ہیں۔ ’’سنڈروم‘‘ کئی علامتوں کے بیک وقت ظاہر ہونے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں
Empty Nest
Syndrome
کی شکل اور ہے۔ مغرب میں اور ہے۔ ہمارے ہاں کی چند نعمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ سوشل لائف ہری بھری ہے۔ دوست احباب ملتے جلتے ہیں، رشتہ داروں کے ساتھ آمدورفت اکثر و بیشتر ہے۔ شادی بیاہ کے لمبے چوڑے سلسلے ہیں۔ تقریبات میں جانا رہتا ہے۔ کہیں خوشی، کہیں غم۔ معاشرہ مجموعی طورپر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ ساری اینٹیں بہم پیوست ہیں۔ دیوار میں لاتعلقی کا سوراخ کوئی نہیں۔
مغرب میں میاں بیوی، گھونسلے سے بچوں کے اڑ جانے کے بعد بالکل تنہا ہو جاتے ہیں، دوست احباب ‘اعزہ و اقربا سب اپنی اپنی مصروفیات میں گلے گلے تک دھنسے ہیں۔ کسی را با کسی کاری نہ باشد۔ ہفتوں تک ایک ایک ساعت پہلے سے طے شدہ ہے۔ دوسری طرف بچے، اپنے معاشرے کے رواج کے مطابق، رابطہ ذرا کم ہی رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی طرح نہیں جہاں بچے ماں باپ کے ساتھ تعلق کی ڈور ڈھیلی نہیں ہونے دیتے۔ تعطیلات میں آتے ہیں والدین کو اپنے ہاں بلاتے ہیں، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے ہر سال لاکھوں والدین بچوں کے ساتھ کچھ مہینے رہنے کے لیے امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا کا سفر کرتے ہیں۔
لیکن مشرق میں، خاص طورپر جنوبی ایشیا میں یہ سنڈروم ایک اور مصیبت لے کر آتا ہے۔ یہاں جذباتیت زیادہ ہے۔ بچوں کے ساتھ تعلق اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد دھچکا پوری قوت سے لگتا ہے اور پھر لگتا ہی رہتا ہے۔ زخم ہر پھیرے، ہر وصال کے بعد تازہ ہو جاتے ہیں۔ خون پھر رسنے لگتا ہے۔ پہلے ریلوے اسٹیشنوں پر رومال ہلتے تھے ؎
وہ رنگ رنگ کے آنکھوں میں پھول کھلنے لگے
وہ رینگنے لگی گاڑی وہ ہاتھ ہلنے لگے
اب جہازوں کا زور ہے ؎
جہازاں تے چڑھ گئے او
مار کے باریاں
انھے ہنیرے کر گئے او
ہفتے میں کئی بار بچوں سے اور ان کے بچوں سے سکائپ پر، وٹس ایپ پر، فیس ٹائم پر، لمبی گفتگو ہوتی ہے۔ بولتی تصویر سامنے ہوتی ہے۔ اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ
؎
تصویر تری دل مرا بہلا نہ سکے گی
میں بات کروں گا تو وہ شرما نہ سکے گی
اب لڑکا ماں سے دال یا بریانی پکانے کی ریسی پی بھی سمجھتا ہے۔ کل کی تقریب میں کون کون آیا تھا، کیا کیا پکا تھا، تفصیل سے بتایا جاتا ہے۔ بیٹا کھانستا ہے تو ماں فوراً شہد اور خشخاش تجویز کرتی ہے اور تو اور اب مغربی ملکوں میں ہمدرد کی سعالین سے لے کر اسبغول اور اجوائن تک ہر شے دستیاب ہے۔
ایک پہلو
Empty nest Syndrome
کا ہمارے مخصوص بڑے بڑے مکان بھی ہیں۔ یہ دو کمروں کا اپارٹمنٹ نہیں جو خالی ہوا یہ تو دو، تین منزلوں، دو لائونجوں، کئی بیڈ رومز پر مشتمل ایک بڑا مکان ہے جو دن کو بھائیں بھائیں اور رات کو سائیں سائیں کرتا ہے۔ ایک کمرے میں میاں بیوی پڑے ہیں۔ کمرے کی دیواروں پر اور دل کی دیواروں پر بچوں کی تصویریں آویزاں ہیں ؎
خالی مکاں میں کوئی نہ لوٹا تمام عمر
دو پہریدار روتے رہے جاگتے رہے
کسی کا کھلونا رہ گیا ہے تو اسے حرز جاں بنایا ہوا ہے۔ چھوٹے سائز کی جوتی نظر آئی تو اس پر صدقے قربان ہورہے ہیں
؎ نشاں کہیں بھی نہ تھے اس کی انگلیوں کے مگر
میں گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز رویا تھا
کاغذ پر الٹی سیدھی تصویر بنا گئے تو وہ مدتوں سنبھال کر رکھی جائے گی۔
(3)
غالیچہ اڑ گیا۔ گھوڑا رہ گیا ‘ناصر کاظمی یاد آ گئے ؎
ٹھہرا تھا وہ گلغدار کچھ دیر
بھرپور رہی بہار کچھ دیر
اک دھوم رہی گلی گلی میں
آباد رہے دیار کچھ دیر
پھر جھوم کے بستیوں پہ برسا
ابرِ سرِ کوہسار کچھ دیر
پھر لالہ و گل کے میکدوں میں
چھلکی مئے مشکبار کچھ دیر
جتنے دن رہے آٹھ سالہ حمزہ اور پانچ سالہ زہرا دادا کے ساتھ سوتے رہے۔ کہاں کا مطالعہ اور کہاں کا لکھنا لکھانا۔ شام کو سیر، شام ڈھلے شاپنگ مال میں چہل قدمی۔ رات سونے سے پہلے کہانی۔ ماں باپ نے کارٹونوں کے لیے جو وقت مقرر کیا، دادا دادی کی اشیرباد سے اس کی خلاف ورزی۔ کھلونوں کی خریداریاں۔ پھر جاتے ہوئے ان کے اعلانات کہ ہم نے پاکستان ہی میں رہنا ہے مگر کون رہتا ہے اور کون رہنے دیتا ہے۔ بس اپنا زمانہ یاد کیجئے ؎
یوں تھا کہ میں بھی چاند تھا دادا مرا بھی تھا
اک پیڑ تھا اور اس پہ الوچے لگے ہوئے
No comments:
Post a Comment