مسئلہ بجٹ یا مِنی بجٹ کا نہیں! مسئلہ بنیادی پالیسیوں کا ہے،مسئلہ کامن سینس کا ہے!
حکومتیں ملک کو اس طرح کیوں نہیں چلاتیں جس طرح کوئی بزنس مین اپنا کاروبار چلاتا ہے؟وہ بہترین افرادی قوت بھرتی کرتا ہے۔ پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے والے ٹاپ کلاس لوگوں کو منیجر لگاتا ہے۔ ایچ آر کا کام سونپتا ہے اور اکائونٹس اور فنانس کی ذمہ داری دیتا ہے۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ باربرا ٹک مین کا نظریہ درست تھا۔ باربرا ٹک مین امریکی تاریخ دان تھی۔ اپنی معروف تصنیف ’’حماقتوں کا مارچ‘‘
(March of follies)
میں وہ یہ تھیوری پیش کرتی ہے کہ فرد جب فیصلے کرتا ہے تو اپنی دانست میں بہترین فیصلے کرتا ہے۔ مکان کہاں بنانا ہے؟کیسا بنانا ہے؟بچوں کے رشتے کہاں کرنے ہیں؟فیکٹری کہاں لگانی ہے۔ گاڑی کون سی خریدنی ہے؟ تمام معاملات کو اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھتا ہے۔ مگر حکومت جب فیصلے کرتی ہے تو احمقانہ! ازحد احمقانہ! لکڑی کا گھوڑا شہر کے اندر لے جانے سے سب نے منع کیا۔ مگر سٹی کونسل(حکومت) فصیل کے اندر لے جا کر رہی۔ پھر کیا ہوا؟گھوڑے کے پیٹ میں دشمن کے سپاہی چھپے تھے۔ شہر چھن گیا۔ محمد تغلق کا فیصلہ کہ درالحکومت جنوبی ہند لے جایا جائے، تباہی پر منتج ہوا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کا فیصلہ کہ سب کاروبار، سب تعلیمی ادارے سب فیکٹریاں قومیالی جائیں، غلط تھا۔ نالائق ترین لالچی بیورو کریٹ ان کارخانوں پر مسلط کیے گئے۔ بزنس کا کچومر نکل گیا۔ شریف حکومت کا میٹرو بسوں والا فیصلہ از کار رفتہ تھا۔ شہباز شریف دلّی گئے۔ وہاں کا زیرزمین ریلوے سسٹم دیکھا مگر آ کر میٹرو بسوں کا ڈول ڈال دیا۔ کراچی لاہور اور پنڈی اسلام آباد میں زیرزمین ریلوے سسٹم کے سوا ٹریفک کے مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ جلد یا بدیر، یہی کرنا ہو گا۔
کامن سینس کے حوالے سے سب سے پہلا سوال اس کے سوا کیا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دے رہے۔ تاجر ہے یا صنعت کار، دکاندار ہے یا ڈسٹری بیوٹر، سب ٹیکس چور ہیں، سودا بیچ کر رسید دیتے ہوئے موت پڑتی ہے۔ سروس سیکٹر کا حال بدترین ہے۔ ڈاکٹر، آرکیٹکٹ، وکیل،طبیبوں کے لشکر کے لشکر۔ کوئی بھی ٹیکس نہیں دے رہا۔ پرائیویٹ کلینک مریضوں کے کپڑے ہی نہیں اتار رہے، انتڑیاں اور گردے بھی نکال رہے ہیں۔ بھاری فیسیں لیتے ہیں، وائوچر نہیں دیتے، مکان کا نقشہ بنانے والا آرکیٹکٹ، عدالت میں مقدمہ لڑنے والا وکیل، گلی گلی محلہ محلہ، بیٹھا ہوا ہومیو پیتھ، سب کروڑوں اربوں کما رہے ہیں۔ ٹیکس کوئی نہیں دے رہا۔ چھ ماہ ہونے کو ہیں۔ نئی حکومت نے اس ضمن میں کوئی ایسی پالیسی وضع نہیں کی جو مسئلے کو جڑ سے پکڑے۔ چلیے حل نہ کرے، حل کی طرف قدم تو بڑھائے۔ آغاز تو کرے۔
کامن سینس کیا کہتا ہے؟ گھر کا بجٹ خراب ہو تو سب سے پہلے میاں بیوی کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ یہ کہ وہ اشیاء جو ناگزیر نہیں، نہیں خریدی جائیں گی، کامن سینس کا یہ بنیادی اصول حکومت کو کیوں نہیں سوجھتا؟ امپورٹ بل کم کرنے کے سوا، زرمبادلہ بچانے کا اور کون سا ذریعہ ہے؟ تعیش کی اشیاء کیوں درآمد کی جا رہی ہیں؟ اِس فہرست پر نظرثانی کیوں نہیں کی جا رہی؟ کون سی مصلحت مانع ہے؟ درآمد کنندگان کا مافیا؟ یا کم عقلی؟ پراپرٹی ڈیلر اور کار ڈیلر کھربوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔کوئی نظام،کوئی سسٹم نہیں جو ان سے ٹیکس وصول کرے۔ بھتہ مافیا اور لوڈشیڈنگ سے تنگ آ کر صنعت کاروں نے ملائیشیا، ویت نام اور بنگلہ دیش کا رُخ کیا مگر لینڈ مافیا کا اکِل حرام تو منحصر ہی اسی زمین پر ہے۔ یہی معتبر ترین کاروبار ہے کیونکہ زمین اُٹھ کر بھاگ نہیں سکتی۔ آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے۔ سیوریج کے پانی میں تیزی سے اُگنے والی سبزیوں کی طرح۔ مکانوں،اپارٹمنٹوں، فلیٹوں کی ضرورت ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گی۔ لینڈ مافیا کے لیے چاندی ہی چاندی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ڈیلر بھی پجارو میں گھومتے پھرتے ہیں۔ سر چھپانے کے لیے جس نے پانچ یا دس مرلے کا ٹھکانا بنانا ہے۔ ان کے پیچھے پیچھے پھرتا ہے۔ ایک فیصد کمیشن، مان بھی لیا جائے، تو کہاں تک پہنچتا ہے۔ شہروں سے دور، زرعی زمینوں کی خرید و فروخت کا معاوضہ یہ لوگ ایک فیصد سے کہیں زیادہ لیتے ہیں، یہی حال کار ڈیلروں کا ہے۔
سونا ہے یہ ملک،خالص سونا، زرِ خالص!زراعت کی نہیں، صنعت کی بات ہو رہی ہے۔ سری لنکا جیسے ملکوں میں دنیا کے بڑے بڑے برانڈز نے کارخانے لگا رکھے ہیں۔ مقامی صنعت کار بھی ان کے لیے مصنوعات بنا رہے ہیں۔ نائکے،ادی داس، مارک اینڈ سپنسر، سی کے، ہیوگوباس، بربری، ارمانی اور کئی اور بین الاقوامی کمپنیاں سری لنکا، ویت نام، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور بھارت سے اپنے نام کی اشیاء بنوا کر عالمی منڈی میں بیچ رہی ہیں۔ مہاتیر کا ملائیشیا، جاپانی کمپنیوں کو اپنے ہاں لے آیا تھا۔ ٹیکس کی چھوٹ دی۔ دیگر سہولیات فراہم کیں۔ امن و امان کی فضا مہیا کی۔ لیبر ارزاں تھی۔ ساری دنیا میں ٹیلی ویژن سیٹ اور ایئرکنڈیشنر، ریفریجریٹر اور دیگر گھریلو استعمال کی مشینیں جاپان کے بجائے ملائیشیا کی بکنے لگیں۔ کمپنیاں جاپانی تھیں، نام ملائیشیا کا تھا، اس لیے کہ بن وہاں رہی تھیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کے لیے مشورہ ان سطور کے ذریعے یہ ہے کہ ایک پورا علاقہ صنعتی زون کے لیے مخصوص کریں۔ اسے شہر کی صورت دیں۔ اس کی حفاظت کا بندوبست اس طرح کریں جیسے عسکری تنصیبات کی کی جاتی ہے۔ پھر دنیا بھر کی صنعت کار کمپنیوں کو وہاں کارخانے لگانے کی دعوت دیں۔ ٹیکس میں رعایت دیں۔ دیگر جتنی مراعات ممکن ہوں پیش کی جائیں تا کہ ترغیب ہو اور تحریص بھی۔ یہ مصنوعات پاکستان ہی سے برآمد ہوں۔ ابھی تک حکومت نے غیر ملکی صنعت کاروں کو اور بڑی بڑی جاپانی اور کورین کمپنیوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے نہ ان کے ساتھ کوئی باضابطہ ملاقات کی ہے۔ جب تک مستقبل کے لیے باقاعدہ روڈ میپ نہیں بنایا جائے گا، عملی طور پر کچھ نہیں ہو گا۔ کل کو حکومت نہ رہی تو ناصر کاظمی کے اس شعر کا کیا فائدہ ؎
کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو
نامِ خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے
No comments:
Post a Comment