دنیا کا بدترین معاشرتی انقلاب 1990ء کے بعد شروع ہوا۔ اب یہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے، تاریخ کا یہ بدترین، یہ مکروہ ترین، یہ غلیظ ترین، انقلاب کہاں سے پھوٹا؟ افریقہ کے جنگلوں سے؟ نیپال سے جہاں ایک بیوی کے کئی شوہر ہوتے ہیں؟ ایمیزن کے کناروں سے؟ مردم خور وحشیوں سے؟ نہیں!
یہ مملکت خداداد پاکستان سے شروع ہوا۔ اس ملک سے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔
جہاں پوری اسلامی دنیا کے مقابلے میں دینی مدارس کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جہاں تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی جیسی تحریکیں رات دن محنت کر رہی ہیں۔ جہاں حج کے بعد اسلامی دنیا کے عظیم ترین اجتماع منعقد ہوتے ہیں۔ جہاں توہین رسالت کا کسی پر ذرا سا شک بھی ہو جائے تو اس کا زن بچہ کولہو میں پسوا دیا جاتا ہے۔
گزشتہ صدی کی آخری دہائی تھی جب دو حریف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے دولت اکٹھی کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ ریس لگائی۔ ایک نے اس قبیح کام کا آغاز کیا۔ دوسرے نے اپنی بیگم کو سمجھایا کہ دولت اکٹھی کئے بغیر حریف جماعت کے مالک خاندان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں خاندان، دو سیاسی پارٹیوں کے سربراہ، اس دوڑ میں لگ گئے۔ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ ایک نے ایف بی آر کے قوانین اپنے مفاد کے لیے ہفتہ وار بدلے تو دوسرے کا نام ہی ٹین پرسنٹ پڑ گیا۔ ایک نے کارخانوں پر کارخانے لگائے تو دوسرے نے کارخانوں کے ساتھ لوگوں سے جبراً جائیدادیں خریدیں۔ غلط ہیں یا صحیح، ٹانگوں کے ساتھ بم باندھنے کے واقعات مشہور ہوئے۔ ڈر کے مارے سرمایہ کار ملک سے بھاگنے لگے۔
پھر وہ وقت آیا کہ دونوں خاندان ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگانے لگ گئے۔ میاں شہبازشریف اور میاں نوازشریف کی نصف درجن تقریریں اور بیانات ریکارڈ پر ہیں جن میں ان دونوں بھائیوں نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر اس حوالے سے سنگین ترین الزامات لگائے۔ سرے محل پر شور مچایا۔ ایک بھائی نے مائک گراتے ہوئے علی الاعلان کہا کہ پیٹ پھاڑ کر دولت نکالیں گے اور سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔
مگر جس بدترین سماجی انقلاب کے ذکر سے اس تحریر کی ابتدا کی گئی وہ انقلاب یہ نہیں کہ ان خاندانوں نے دولت جمع کی۔ دولت تو گزشتہ صدی کے آخر، یا ربع آخر سے جمع ہونی شروع ہوئی۔ پھر نئی صدی آ گئی۔ انقلاب پاکستان نے جو انقلاب دنیا کو دیا یہ ہے کہ حرام مال کے بنائے گئے ان پہاڑوں پر شرم کرنے کے بجائے پوری ڈھٹائی سے ان کا دفاع کیا جانے لگا اور ان پر فخر کیا جانے لگا۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ہورہا ہے اور پاکستان میں ہورہا ہے کہ ناجائز مال اکٹھا کرنے والے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو ایک کان کی لو سے لے کر دوسرے کان کی لو تک بتیسی نکل رہی ہوتی ہے۔ انگلیوں سے فتح کے نشان بنائے جاتے ہیں۔ میاں نوازشریف اندر، جے آئی ٹی کے سامنے اپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کر رہے تھے تو ان کی صاحبزادی باہر لائوڈ سپیکر پر ’’روک سکتے ہو تو روک لو‘‘ کے نعرے لگا رہی تھیں۔ فتح ہماری ہوگی، ہم سرخرو ہوں گے، ہمارا دامن صاف ہے، یہ اور اس قسم کے بیسیوں جملے ہر روز سننے میں آتے ہیں۔ فخر سے کہا جاتا ہے کہ جیل ہمارا دوسرا گھر ہے۔ تاریخ کا طالب علم حیران ہے کہ جیل میں تو امام ابو حنیفہ بھی گئے، مجدد الف ثانی بھی، محمد علی جوہر سے لے کر عطاء اللہ شاہ بخاری تک۔ ابوالکلام آزاد سے لے کر شورش کاشمیری تک۔ مولانا محمودالحسن سے لے کر مولانا مودودی تک۔ حسن البنا سے لے کر سید قطب تک۔ سب جیل میں گئے اور جیل میں رہے۔ آصف زرداری اور شریف برادران جب جیل جانے پر فخر کرتے ہیں تو کیا یہ سب برابر ہیں؟
صرف ایک دن کے بیانات پڑھ لیجئے، ’’کیس ختم ہو جائے گا۔‘‘ ’’جے آئی ٹی کی کارروائی حکومت کے زیر اثر تھی۔‘‘ ’’جے آئی ٹی کی رپورٹ صرف اطلاع ہے آسمانی صحیفہ نہیں۔‘‘ اس سے پہلے یہ کہا جاتا کہ پانامہ کیس میں نوازشریف کا ذکر ہی نہیں۔ فلاں فلاں جائیدادیں ان کے اپنے نام نہیں۔
پہلے دنیا میں یہ ہوتا تھا کہ چور یا ڈاکو جب پکڑا جاتا تھا تو منہ چھپاتا پھرتا تھا۔ اس کے متعلقین اسے عاق کردیتے تھے۔ بہت سے لوگ خودکشی کر لیتے تھے۔ مغربی ملکوں میں کوئی حکمران پکڑا جائے تو استعفیٰ دے دیتا ہے۔ جاپان میں خودکشی کرلیتا ہے۔ اب پاکستان نے دنیا کو پہلی بار دکھایا ہے کہ پکڑے جائو تو ہنسو، مسکرائو، فتح کا نشان بنائو، ڈٹ جائو۔
انسان فرط حیرت سے دنگ رہ جاتا ہے کہ کائرہ صاحب، رضا ربانی، فرحت اللہ بابر جیسے اچھی شہرت رکھنے والے کیا اپنے نہاں خانہ دل میں واقعی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ان کے رہنمائوں نے کرپشن نہیں کی؟ کیا آپا نثار فاطمہ کا فرزند احسن اقبال اور صدیق الفاروق جیسے باعزت افراد، آدھی رات کو اگر جائے نماز پر، باوضو بیٹھیں تو تنہائی میں، جب صرف پروردگار عالم ان کے ساتھ ہو، دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ان کے لیڈر نے کرپشن نہیں کی؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ثابت نہ ہونے اور نہ کرنے میں کتنا فرق ہے؟
اس مکروہ ترین سماجی انقلاب کا دوسرا پہلو میڈیا کا طرز عمل ہے۔ میڈیا کے ماہرین کی ایک پوری کھیپ یہ ثابت کرنے پر تلی ہے کہ کرپشن کی ہے تو کچھ کام بھی کیا ہے۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے اہلکاروں کو جب غلام فاروق خان اور غلام اسحاق خان جیسے صاف ستھرے بے لوث باضمیر بیوروکریٹس کے ساتھ کھڑا کردیا جائے تو قرب قیامت کی اور کون سی نشانی درکار ہوگی؟ اب اس کے بعد ایک ہی کسر رہ گئی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کو میاں نوازشریف اور لیاقت علی خان کو آصف علی زرداری سے تشبیہہ دے دی جائے۔
اس ملک میں اب دیانت داری حماقت بن کر رہ گئی ہے۔ سچ بولنے والا گائو دی ہے۔ وعدہ خلافی کرنے والا آرام سے کہہ سکتا ہے کہ وعدہ ہی ہے، کوئی قرآن یا حدیث تو نہیں۔ اب رشوت لینے والا معزز ہے۔ بڑے بڑے صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن، کرپٹ لوگوں کی پشت پر ہیں۔ رات دن ان کا دفاع کر رہے ہیں جو جتنا بڑا چور ہے اتنا زیادہ قابل احترام ہے۔ نقب زن خلق خدا کی رہنمائی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ علماء کرام کا ایک گروہ ان کے سر پر ہاتھ رکھے ہے۔
اب سیاہ سفید ہے۔ اب سفید رنگ کو کالا رنگ کہا جاتا ہے۔ اب بیٹوں نے بوڑھے باپ کے لیے قربانی دینی ہو تو لندن سے باہر نہیں نکلتے۔ اب مجرموں کو ہار پہنائے جاتے ہیں۔ اب ایان علی چادر اور چار دیواری کی تقدیس کی علامت ہے۔ اب فخر اس بات پر کیا جاتا ہے کہ ہماری منی لانڈرنگ کی وجہ سے پاکستانی بینک کی نیویارک برانچ ٹھپ ہوئی۔ اب قوم کی معاشرتی قیادت انہی سیاسی رہنمائوں، میڈیا کے انہی مشاہیر اور انہی علماء کرام کے ہاتھ میں ہے۔ اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے!
No comments:
Post a Comment