Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, January 22, 2019

خواب جھوٹے خواب تیرے خواب میرے خواب بھی

برطانیہ کے وزیراعظم نے لندن پولیس کے سربراہ سے درخواست کی۔
 ’’میں ہائوس آف کامنز سے نکلتا ہوں تو ٹریفک کے ہنگامے کی وجہ سے اپنی سرکاری قیام گاہ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ وہاں غیر ملکی مہمانوں کو وقت دیا ہوتا ہے۔ ان میں سربراہان مملکت بھی ہوتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ دس پندرہ منٹ کے لیے ٹریفک کو متبادل راستے پر منتقل کردیا جائے۔‘‘
 ’’نہیں! حضور‘ ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ پولیس کے سربراہ نے جواب دیا۔ مگر میں آپ کو ایک اور حل تجویز کرتا ہوں۔ 
’’وہ کیا؟ وزیراعظم نے پوچھا۔
’’آپ ہائوس آف کامنز سے دس پندرہ منٹ پہلے نکل آیا کیجئے۔‘‘
یہ ہے پولیس کی خودمختاری اور آزادی اور اس خودمختاری اور آزادی ہی سے پولیس میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ صرف یہی وہ طریقہ ہے جو پولیس کو احساس ذمہ داری سے لیس کرتا ہے۔ اس خوداعتمادی‘ آزادی اور احساس ذمہ داری کا نتیجہ یہ ہے کہ پولیس وہاں کسی پر گولی نہیں چلاتی‘ کسی پر تشدد نہیں کرتی۔ جرم کا ثبوت اس کا واحد ہتھیار ہے۔
 ہماری پولیس کیوں ظالم ہے؟ سفاکی اور سنگدلی میں کیوں یکتا ہے؟ احساس ذمہ داری کا مکمل فقدان کیوں ہے؟ خود اعتمادی سے مکمل طور پر محروم کیوں ہے؟ اس قدر محروم کہ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے‘ مسلسل بیان بدلتی ہے۔ کسی ایک موقف پر ٹھہرتی ہی نہیں۔ بدحواسی‘ منزل کی بے نشانی۔ ایک گم کردہ راہ پولیس! ایک بھٹکتا ہوا مسلح افراد کا ریوڑ! جسے اہل سیاست اور اہل حکومت اپنی مرضی سے ہانکتے پھریں!!
 تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے بھی خیبرپختونخوا کی پولیس اور پنجاب پولیس میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ سارا کریڈٹ پولیس کے رویے کا پی ٹی آئی کی حکومت کو نہیں دیا جا سکتا۔ کے پی کی سوسائٹی زیادہ آزاد ہے۔ وہاں نارسائی کا ناسور اس طرح نہیں رس رہا جیسے پنجاب میں رس رہا ہے۔ اعلیٰ حکام کو عام آدمی ہمیشہ مل سکتا ہے۔ کئی برس پہلے پشاور سے ایک عزیز نے جو ایک عام سرکاری ملازم تھے‘ فون پر ایک مسئلہ بتایا جو انہیں پریشان کر رہا تھا۔ ابھی یہاں ’’سفارش‘‘ تلاش ہی کی جا رہی تھی کہ ان کا فون دوبارہ آیا۔ مسئلہ حل ہوگیا تھا۔ ان کی ملاقات صوبے کے چیف سیکرٹری سے ہو گئی تھی۔ کیپٹن عیسانی اس وقت وہاں چیف سیکرٹری تھے۔ کالم نگار نے تعجب سے پوچھا ’’آپ کی ملاقات ہو گئی؟ چیف سیکرٹری سے؟
 ’’ہاں‘‘! انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ اس صوبے میں ایسا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔
 خیبرپختونخوا میں اور بھی کئی خوبیاں ہیں جو ہم اہل پنجاب کو ان سے سیکھنی چاہئیں۔ وہاں ڈرائیور اور چوکیدار ملازم اور نوکر۔ کھانا ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ پنجاب میں عام آدمی ڈپٹی کمشنر تو کیا‘ پٹواری یا ایس ایچ او سے تو مل کر دکھادے۔
 سوویت یونین میں بدامنی کی ابتدا ہوئی۔ روس میں پولیس نے چیرہ دستی کا مظاہرہ کیا۔ جون ایلیا نے تبصرہ کیا کہ پولیس ماسکو میں بھی پنجاب کی ہے۔ پنجاب کی پولیس اگر روئے زمین کی بدترین نہیں تو بدترین فورسز میں ایک ضرور ہے اور کیا عجب ٹاپ ٹین میں ہو۔ یہ ہمیشہ حکمرانوں کی‘ پھر اہل سیاست کی‘ پھر اپنے افسروں کی غلام رہی۔ یونہی تو نہیں آئی جی پنجاب کو ریٹائرمنٹ کے بعد وفاق میں اعلیٰ عہدہ مل گیا۔ صوبے میں وزیراعلیٰ جہاں جاتا ہے‘ آئی جی ذاتی ملازم کی طرح ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں؟ وہ اپنے فرائض منصبی کیوں نہیں ادا کرتا؟ پنجاب پولیس کو اتنی آزادی بھی نصیب نہیں جتنی ایک ظالم شوہر کی مقہور بیوی کو حاصل ہوتی ہے۔ اسکے تھانوں میں تھانیدار آئی جی نہیں‘ کوئی اور تعینات کرتا ہے۔ درمیانی سطح کے افسروں کے اپنے روابط ہیں جن سے وہ اوپر کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں‘ جو سیاست دان لمحہ موجود میں اقتدار سے دور ہوں یہ پولیس ان کی بھی نمک خوار رہتی ہے۔ کیوں نہ رہے‘ کل انہوں نے بھی تخت نشین ہونا ہے۔
 آپ پولیس کی غلامی کی انتہا دیکھیے کہ ریٹائرڈ پولیس افسروں کے محلات کے باہر بھی خیمے نصب ہیں اور پولیس کے نوجوان شفٹیں بدل بدل کر پہرہ دیتے ہیں۔ کیوں؟ کیا وہ اس سہولت کے حقدار ہیں؟ نہیں‘ مگر پولیس کا نوجوان‘ غلام نہیں‘ کنیز ہے۔ غلام تو پھر گھر سے باہر قدم رکھ سکتا ہے۔ ایک ریٹائرڈ افسر اپنے پیٹی بند بھائی کو فون کر کے لاڈ سے کہتا ہے کہ میرے محل کا محل وقوع تبدیل ہو گیا ہے۔ وہاں بھی گیٹ کے سامنے خیمہ نصب کرا دیجئے۔ خیمہ نصب ہو جاتا ہے۔ نفری پہنچ جاتی ہے۔ یہ معاشرہ مہذب معاشرہ نہیں‘ یہ سوسائٹی آج کی نہیں‘ یہ جنگل ہے جس میں قبائلی سردار جسم پر پتے لپیٹے دندناتے پھرتے ہیں۔قانون کو وہ کڑاہی میں ڈال کر ابالتے ہیں اور وحشیوں کی طرح ہڑپ کر جاتے ہیں۔
ساہی وال میں پولیس نے شہری قتل کیے۔ کیا ایسا پہلی بار ہوا؟ دو دن میڈیا پر تبصرے ہوں گے اور پھر میڈیا کا مسلسل رواں قافلہ آگے بڑھ جائے گا۔ ستر برسوں سے پولیس عوام کوقتل کرتی آ رہی ہے۔ کبھی پولیس ’’مقابلوں‘‘ میں‘ کبھی تشدد سے‘ کبھی گولی سے‘ کبھی لاٹھی سے‘ کبھی زہر سے۔ یہ تو عمران خان سے بھی نہ ہوا کہ اقتدار میں آ کر ماڈل ٹائون کے قتل عام میں ملوث پولیس افسروں اور جوانوں کو گرفتار کرتے اور عدالت میں قاتل کے طور پر پیش کرتے۔ پھر یہ پولیس والے بتاتے کہ احکام کہاں سے آئے تھے؟ سیالکوٹ کے نواح میں جن دو وکیلوں کو دن دہاڑے پولیس مین نے قتل کیا تھا‘ اسے کیا سزا ملی؟ عابد باکسر کے اعترافات کا کیا نتیجہ نکلا؟
 پولیس کا کردار آج تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وہی ہے جو قاف لیگ‘ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومت میں تھا۔ پنجاب کا معاشرہ ناصر درانی کو برداشت ہی نہ کر سکا۔ عمران خان ناصر درانی کے مستعفی ہونے پر یوں مہر بلب رہے جیسے بہت زیادہ میٹھی چائے پینے کے بعد ہونٹ آپس میں جڑ جاتے ہیں۔
افسوس! صد افسوس! تحریک انصاف کی حکومت پنجاب میں کچھ نہیں کر پا رہی ع
خواب جھوٹے خواب تیرے خواب میرے خواب بھی
وہی پولیس! وہی قتل عام! وہی چھنال بیوروکریسی ؎
 بہت لمبی روش تھی باغ کی دیوار کے ساتھ
پس دیوار قسمت کب سے بیٹھی رو رہی تھی
پنجاب میں آج بھی دامن خالی ہے۔ ہاتھ خالی ہے۔ دست طلب میں فقط گرد طلب ہے اور کچھ نہیں اور کچھ نہیں۔ اس لیے کہ ع
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی 

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com